برما کے مظلوم مسلمان . سلیم منصور خالد کی ایک فکر انگیز تحریر

 برما کے مظلوم مسلمان . سلیم منصور خالد کی ایک فکر انگیز تحریر


برما (میانمار) کے شمال مغربی صوبے کا نام ’اراکان‘ ہے۔ یہاں رہنے والے مسلمانوں کو ’روحنگیا‘کہا جاتا ہے۔’روحنگ‘ اصطلاح، لفظ ’رحم‘ (ہمدردی) سے پھوٹی ہے۔ روحنگی مسلمانوں کی یہاں آبادی کا آغاز آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا، جب عرب تاجر اور ملاح، چین جاتے ہوئے یہاں رُکے۔ اُن کے حُسنِ سلوک اور قابلِ رحم جذبے سے متاثر ہوکر مقامی لوگوں نے انھیں مسلمان کے نام سے یاد کرنے سے زیادہ ’رحم کرنے والے‘ لوگوں سے پہچانا اور پکارا۔ اس طرح نہ صرف
یہاں کے لوگوں میں اسلام پھیلنا شروع ہوا، بلکہ مسلمانوں کے نام کے ساتھ ’روحنگ‘ اور ’روحنگیا‘ کا لاحقہ بھی منسلک ہوگیا۔ اتنی صدیاں گزرنے کے بعد اُن عربوں کے یہاں کوئی آثار نہیں، لیکن ’روحنگی‘ زبان عربی رسم الخط میں بھی لکھے جانے کی گنجایش اس تعلق کی ایک یادگار ضرور ہے۔ عجب بات ہے کہ جب یہاں کے لوگ ایمان کی دولت سے فیض یاب ہوئے، تو یہی دولت ان کے حقِ زندگی کے خلاف قتل کا جواز بھی بنا ئی گئی۔ اراکانی مسلمانوں میں، چین کے صوبے ’یونان‘ کے علاوہ ہندستان اور کچھ بنگالی النسل مسلمان بھی موجود ہیں۔ ان کی آبادی ۱۰لاکھ سے زیادہ ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق: ’’روہنگی مسلمان دنیا کی مظلوم ترین اقلیتوں میں شمار ہوتے ہیں‘‘


میانمار کی فوجی حکومت بظاہر اس منظرنامے میں تماشائی دکھائی دیتی ہے، لیکن حکومت اور انتظامیہ کی ہرحرکت یہ بتاتی ہے کہ وہ براہِ راست اس قتل عام اور درندگی کے کھیل میں برابر کی شریکِ کار ہے۔ برمی بدھ لیڈروں اور عبادت گزاری کے نام پر فارغ بدھ بھکشوؤں کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی دبی چنگاری نے آناً فاناً، غیظ و غضب کی آگ میں تبدیل ہوکر پورے اراکان کواپنی لپیٹ میں ہی نہیں لیا، بلکہ اس کو بڑھانے کے لیے وہاں مسلسل فضا بنائی گئی ہے۔ ۱۴جولائی کو برمی صدر تھین سین نے برملا اعلان کیا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو لازماً، میانمار سے نکالا اور اقوامِ متحدہ کے کیمپوں میں دھکیلا جائے گا۔ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے‘‘۔ (تہران ٹائمز، ۱۵جولائی ۲۰۱۲ء اس قتل عام پر منافقانہ سنگ دلی کا رویہ اُس خاتون نے بھی اختیار کیا ہے، جسے لوگ آنگ سان سو کوئی کے نام سے جانتے ہیں، جو اپنے ملک میں فوجی حکمرانوں پر انسانی حقوق کی پامالی کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے ایک بے نیام تلوار قرار دی جاتی ہے، مگر مظلوم مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے اس کے پاس دو بول تک نہیں۔ اسے اس بات س ے کوئی غرض ہے اور نہ کوئی پریشانی کہ فوجی حکمران، فسادی بدھوں کے سرپرست ہیں۔ بلکہ نوبیل انعام یافتہ آنگ سان بھی برمی مسلمانوں کو برما کا شہری ت سلیم نہیں کرتی۔ اس نے لندن اسکول آف اکنامکس (LSE) میں، جون ۲۰۱۲ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری نہیں تسلیم کیا جانا چاہیے‘‘۔ پھر ڈاؤننگ سٹریٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے پر ایک حرف نہ کہا، لیکن جب صحافیوں نے سوال اُٹھایا تو صرف اتنا کہا: ’’اس نسلی فساد کا دانش مندی سے جائزہ لینا چاہیے‘‘۔
برمی مسلمانوں کا بے رحمانہ قتل عام اور بے بسی کی زندگی، ایک پتھر دل انسان کو بھی گہرے دکھ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ بدھ مت کے پیروؤں کے اکثریتی ملک برما (میانمار) میں درندگی کے اس کھیل نے بدھ مت کی اُس بناوٹی اور افسانوی اصلیت کی قلعی کھول کے رکھ دی ہے کہ: ’’بدھ مت تو امن کا گیت اور صلح کا مذہب ہے‘‘۔
۳جون ۲۰۱۲ء کو برپا ہونے والے اس خونیں طوفان میں بدھ بھکشووں کی درندگی نے ہزاروں مسلمانوں کو ذبح کر دیا، بچ جانے والوں کو زخمی، بے گھر کیا اور ان کے گھروں کوآگ لگا دی۔ بے بس عورتوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا، بہت سوں کو زندہ جلا دیا اور بچ رہنے والوں کو دھکیل کر سمندر کی لہروں کے سپرد ہونے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سب کچھ آج کے اس ترقی یافتہ دور اور فعال ومتحرک میڈیا کی آنکھوں کے سامنے کیا گیا ہے۔
برمی مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرست بدھوں کی یلغار کے آثار، گذشتہ صدی کے دوسرے عشرے سے نمایاں ہونے شروع ہوئے، جو تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد فسادات کی صورت میں پھوٹتے رہے ہیں۔ گذشتہ ۳۵برس کے دوران میں جو بڑے واقعات ہوئے، ان میں: ۱۹۷۸ء میں ۲لاکھ برمی مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا۔ پھر ۱۹۹۲ء میں ڈھائی لاکھ کو ملک بدر کیا گیا۔ افسوس ناک یہ صورت ہے کہ ان تباہ حال مسلمانوں کو بنگلہ دیش جیسا مسلمان ملک بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اور جو لوگ جان بچاکر تھائی لینڈ کی طرف گئے، انھیں تھائی ساحلی پولیس نے فائرنگ کرکے چھوٹی کشتیوں میں، کھلے سمندر میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ۱۶مارچ ۱۹۹۷ء کو ڈیڑھ ہزار بدھ بھکشوؤں کا ایک جلوس مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے بلند کرتا سڑکوں پر نکل آیا، جس نے سب سے پہلے مسجدوں پر حملہ کرکے آگ لگائی، پھر مسلمانوں کی دکانوں کو لُوٹ مار کے بعد نذرِ آتش کیا، اور گھروں کو آگ لگا دی۔ لائبریریوں میں قرآن کریم کے نسخے چُن چُن کر جلائے گئے اور بعدازاں تمام کتابوں پر تیل چھڑک کر جلا دیا گیا۔ کینگ ڈن اور منڈالے کے شہر اس سے بُری طرح متاثر ہوئے۔ ۱۵مئی ۲۰۰۱ء کو ٹااونگو شہر میں بھکشوؤں نے مسلمانوں کے خلاف ہزاروں پمفلٹ تقسیم کیے، اور سورج غروب ہونے سے پہلے مسلمانوں کو گھیر گھیر کر جلایا، مارا اور لُوٹا گیا، جب کہ عورتوں کی بے حُرمتی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
۳جون ۲۰۱۲ء سے اُٹھنے والی حالیہ خونیں یلغار کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، جس میں وہاں کی حکومت، حزبِ اختلاف، میڈیا اور فوج پوری طرح شریکِ کار ہیں۔ الم ناک پہلو یہ ہے کہ : ۲۸ہزار سے زیادہ مسلمان موت کے گھاٹ اُتارے گئے ہیں۔  جن مظلوموں نے جان بچا کر بنگلہ دیش کے ساحلوں پر جانے کی کوشش کی، انھیں بنگلہ دیشی ساحلی پولیس نے پہلے تو خشکی پر قدم ہی نہیں رکھنے دیا، لیکن پھر مجبور ہوکر چند گھنٹے کے لیے ساحل پر اُترنے دیا اور بعدازاں انھی کشتیوں میں دوبارہ کھلے سمندر میں دھکیل دیا۔ اس وقت ہزاروں برمی مسلمان ان کشتیوں پر پانی، خوراک اور سایے سے محروم اور بیماریوں کا شکار ہیں۔ 66ہزار سے زیادہ پناہ گزینوں کو کیمپوں اور کشتیوں میں خوراک، پانی اور ادویات کی فوری ضرورت ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا اس المیے سے عملاً نظر چرائے ہوئے ہے، اور مسلم دنیا کا میڈیا بھی اس سفاکی میں برابر لاتعلقی برت رہا ہے۔اسلامی کانفرنس تنظیم اور مسلم دنیا خصوصاً عرب ممالک کی لاتعلقی سے یہاں کے مسلمانوں کے دل چھلنی ہیں۔

سلیم منصور خالد کا یہ مضمون ترجمان القرآن ، اگست 2012 ء میں شائع ہوا ہے۔

5 تبصرے

  1. اللہ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے ۔آمین.

    جواب دیںحذف کریں
  2. کیا کہوں ۔ ۔۔ ۔ ۔ کسی بلاگ پر یہ دیکھا تھا ۔۔ وہی لکھ دیتا ہوں ۔۔۔


    “ آہستہ کہو!!! یہ قوم سو رہی ہے !!!!

    یا رب محمد صل اللہ علیہ و سلم انصر امت محمد

    جواب دیںحذف کریں
  3. ہم روہنگی مسلمانوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی