کیا آپ جانتے ہیں؟ ہم جو ستارے، سورج اور کہکشائیں دیکھتے ہیں، وہ سب ماضی کے مناظر ہوتے ہیں!

 

کیا آپ جانتے ہیں؟ ہم جو ستارے، سورج اور کہکشائیں دیکھتے ہیں، وہ سب ماضی کے مناظر ہوتے ہیں!

کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ایک ایسی دنیا دیکھ رہے ہوں جو کب کی ختم ہو چکی ہو...یہ وقت کا جادو ہے — اور یہ جادو اللہ کی بنائی ہوئی لا محدود کائنات میں چھپا ہے۔کیا یہ اسلام کے خلاف ہے؟نہیں! بلکہ قرآن تو چودہ سو سال پہلے ہی وقت کی وسعت بتا چکا ہے۔

یہ جانئے اس دلچسپ مضمون میں جو آپ کا ایمان بھی بڑھائے گا اور علم بھی۔

#وقت_کا_راز #کششِ_ثقل #سورج_کا_سفر #آئن_سٹائن #کائنات_کا_عجوبہ

مؤلف: طارق اقبال سوہدروی

کیا آپ جانتے ہیں؟ ہم جو ستارے، سورج اور کہکشائیں دیکھتے ہیں، وہ سب ماضی کے مناظر ہوتے ہیں!

بچو! ایک دن چھوٹا سا لڑکا "حارث" آسمان کے نیچے لیٹا ستارے گن رہا تھا۔ اس نے اپنے ابو سے پوچھا:

"ابو! یہ ستارے ہر رات کیوں چمکتے ہیں؟ اور کیا ہم جو کچھ آسمان پر دیکھتے ہیں، وہ ابھی کا ہوتا ہے؟"

ابو مسکرائے، اور بولے: "نہیں بیٹا، جو کچھ ہم آسمان پر دیکھتے ہیں، وہ ماضی ہوتا ہے، حال نہیں۔"

حارث کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں: "مطلب، یہ سب جھوٹ ہے؟"

ابو نے نرمی سے کہا: "نہیں، یہ جھوٹ نہیں، بس وقت کا ایک جادو ہے۔ آؤ، میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں جو حقیقت پر مبنی ہے، اور تمہیں یہ سب سمجھ آجائے گا۔"

سورج کا راز

ابو نے کہا: "تمہیں معلوم ہے سورج ہم سے کتنی دور ہے؟"

حارث بولا: "شاید... بہت زیادہ؟"

ابو نے مسکرا کر کہا: "ہاں، پندرہ کروڑ کلومیٹر دور۔ اور اس کی روشنی کو زمین تک آنے میں 8.2 منٹ لگتے ہیں۔ مطلب، اگر سورج ابھی بند ہو جائے تو ہمیں اس کا علم بھی آٹھ منٹ بعد ہو گا۔"

حارث نے حیرانی سے پوچھا: "تو ہم جو سورج دیکھتے ہیں، وہ آٹھ منٹ پہلے کا ہوتا ہے؟"

ابو بولے: "بالکل، ہم سورج کا ماضی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔"

کہکشاں M31 اور وقت کا سفر

پھر ابو نے حارث کو دوربین دکھائی اور کہا:

"یہ دیکھو، اس طرف M31 نامی ایک کہکشاں ہے۔ یہ ہم سے اتنی دور ہے کہ اس کی روشنی کو زمین تک آنے میں پچیس لاکھ نوری سال لگتے ہیں!"

حارث ہکا بکا رہ گیا: "یعنی جو ہم ابھی دیکھ رہے ہیں وہ پچیس لاکھ سال پہلے کا منظر ہے؟"

ابو نے ہاں میں سر ہلایا: "ہوسکتا ہے وہ کہکشاں اب تباہ ہو چکی ہو۔ لیکن ہمیں تب پتہ چلے گا جب اس کی روشنی یہاں تک پہنچے گی۔ مطلب، ہمیں حقیقت جاننے کے لیے پچیس لاکھ سال انتظار کرنا ہوگا!"

ستارہ 84 CETI اور پاکستان کا ماضی

ابو نے کہا: "اب ایک اور راز سنو۔ ایک ستارہ ہے 84 CETI، جو ہم سے 77 نوری سال دور ہے۔"

"فرض کرو کوئی وہاں ٹیلی سکوپ سے زمین کو دیکھ رہا ہے، تو اسے زمین پر کیا نظر آئے گا؟"

حارث نے کہا: "شاید آج کی دنیا؟"

ابو ہنسے: "نہیں، 77 سال پرانی دنیا! شاید وہ قائداعظم کو تقریر کرتے دیکھ رہا ہو، یا لوگ آزادی کے لیے لڑ رہے ہوں۔"

"اس کی نظر میں ہم ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔ ہو سکتا ہے وہ تمہارے دادا کو اسکول جانے سے انکار کرتے دیکھ رہا ہو!"

وقت کا راز اور آئن سٹائن کا کمال

ابو نے کہا: "ایک بہت بڑے سائنس دان تھے، البرٹ آئن سٹائن۔ ان کی تھیوری کے مطابق ماضی، حال اور مستقبل تینوں وقت ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔"

"جیسے DVD میں فلم کے تمام سین ایک ساتھ محفوظ ہوتے ہیں، لیکن ہم ایک وقت میں ایک ہی سین دیکھتے ہیں۔"

حارث نے پوچھا: "تو کیا ہم وقت میں آگے یا پیچھے جا سکتے ہیں؟"

ابو نے کہا: "نظریاتی طور پر ہاں۔ اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کریں یا بہت بڑی کششِ ثقل والے مقام پر ہوں، تو وقت ہمارے لیے سست ہو جاتا ہے۔ یعنی ہم دوسرے لوگوں سے 'آگے یا پیچھے' جا سکتے ہیں!"

وقت کے ساتھ کھیلنا؟

"کیا ہم ماضی میں واپس جا سکتے ہیں؟ کیا ہم مستقبل دیکھ سکتے ہیں؟"

ابو بولے: "یہ سب ممکن ہے — نظریہ کی حد تک۔ لیکن ابھی ہماری ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں ہوئی کہ ہم حقیقت میں ایسا کر سکیں۔"

سبق کیا ملا؟

ابو نے آخر میں کہا:

"بیٹا، وقت صرف گھڑی پر نہیں چلتا، بلکہ کائنات میں ہر جگہ الگ رفتار سے چلتا ہے۔ اور جو کچھ ہم آسمان پر دیکھتے ہیں، وہ ماضی کی کہانی ہوتی ہے۔"

"اس لیے سائنس کا علم ہمیں اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کی حیرت انگیز حکمت سمجھاتا ہے۔"

 

💡کیا یہ نظریہ اسلام کے خلاف ہے؟

یہاں ہمیں دو اہم سوالات کا جواب دینا ہے:

1. کیا وقت کا ایسا گزرنا اور ماضی کا نظر آنا قرآن کے خلاف ہے؟

2. کیا اسلام میں ماضی، حال اور مستقبل کے تصور کی وضاحت موجود ہے؟

📖قرآن اور وقت کا تصور:

قرآن مجید وقت کو ایک سادہ لکیری (linear) انداز میں نہیں دیکھتا۔

بلکہ کئی آیات میں وقت کی وسعت، اس کی نسبت اور مختلف جہانوں میں اس کی رفتار کا تذکرہ ہے:

🔹اللہ کے ہاں دن کی طوالت:

  "اور وہ آپ سے عذاب کے لیے جلدی کرتے ہیں، حالانکہ اللہ کا وعدہ ہرگز خلاف نہیں ہوتا، اور تمہارے رب کے نزدیک ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہے۔"

📖(سورۃ الحج، 22:47)

📌مطلب یہ کہ اللہ کے ہاں وقت ویسا نہیں جیسے ہمارے ہاں ہے۔

🔹فرشتوں کا سفر اور وقت:

"فرشتے اور روح اس کی طرف ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔"

📖(سورۃ المعارج، 70:4)

📌اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف مخلوقات کے لیے وقت کا گزرنا مختلف ہے، بالکل وہی بات جو آئن سٹائن کی "نسبیت (Relativity)" کے اصول میں ہے۔

🔭آئن سٹائن کا نظریہ اور اسلام:

Theory of Relativity کے مطابق وقت ایک جامد (absolute) شے نہیں بلکہ کششِ ثقل (gravity) اور رفتار (speed) کے اثر سے سست یا تیز ہو سکتا ہے۔یہی نظریہ قرآن کی ان آیات سے ہم آہنگ ہے جہاں وقت کے مختلف پیمانے بتائے گئے ہیں۔

🧠ماضی، حال، مستقبل… سب ایک ساتھ؟

آئن سٹائن نے کہا:

> "ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی حقیقی تقسیم نہیں۔ یہ سب ہمیشہ ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں، صرف ہمارا تجربہ انہیں علیحدہ کرتا ہے۔"

یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے لیے سب کچھ واضح، معلوم اور محیط ہے:

"اور اس کے پاس ہر چیز کی کنجیاں ہیں، اسے ان کا علم ہے۔"

 (سورۃ الانعام، 6:59)

 اسلامی علماء کی آراء:


🔹ڈاکٹر ذاکر نائیک، معروف اسلامی اسکالر، وقت اور سائنس پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں:

> "سائنس جس حقیقت کو آج دریافت کر رہی ہے، قرآن نے اس کی طرف اشارے چودہ سو سال پہلے دیے تھے۔ وقت کی نسبت کا تصور سائنس کی دریافت نہیں، قرآن کی پیش گوئی ہے۔"

🔹شیخ الشعراوی رحمہ اللہ (مصر کے مشہور مفسر قرآن) نے بھی وقت کے مختلف انداز کے بارے میں اپنے دروس میں فرمایا:

> "قرآن میں وقت کی نسبت اللہ کی حکمت کا ایک مظہر ہے، جسے انسان کی عقل مکمل طور پر سمجھ نہیں سکتی۔"

امام غزالی نے وقت کو اللہ کی مخلوق قرار دیا اور فرمایا کہ اللہ کے لیے ماضی، حال اور مستقبل ایک ہی وقت میں موجود ہیں۔

📽️ایک مثال: ڈی وی ڈی والی فلم

تصور کریں کہ ہمارے سامنے ایک ڈی وی ڈی ہے جس پر فلم ریکارڈ ہے۔

وہ فلم پوری کی پوری ایک ہی وقت میں ڈی وی ڈی میں موجود ہے۔

ہم چاہیں تو شروع دیکھ لیں، چاہیں تو آخری سین دیکھیں۔ لیکن فلم اپنی جگہ مکمل موجود ہے۔

🌌اسی طرح اللہ کی نظر میں وقت بھی مکمل ہے۔وہ ماضی، حال اور مستقبل سب کو ایک ساتھ جانتا اور دیکھتا ہے۔

"وہ چاہے تو ماضی میں علم دے، یا مستقبل کی خبر۔ جیسے حضرت یوسفؑ کے خواب، یا حضرت موسیٰؑ کے واقعے کی تفصیل۔"

"یوسف نے کہا: اے ابّا! میں نے خواب میں گیارہ ستارے، سورج اور چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔"

🧾(سورۃ یوسف، 12:4)

🤔کیا ہم وقت میں سفر کر سکتے ہیں؟

نظریاتی طور پر وقت میں سفر (Time Travel) ممکن ہے، بشرطیکہ کوئی ایسی ٹیکنالوجی یا ماحول ہو جو روشنی کی رفتار کے قریب یا کششِ ثقل بہت شدید ہو۔

لیکن قرآن ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ انسان محدود ہے، مگر اللہ کی قدرت لامحدود ہے۔

نتیجہ:

  • *    یہ اسلام کے خلاف نہیں، بلکہ اس کی تائید ہے 
  • *    ہم فلکی اجسام کو ماضی میں دیکھتے ہیں: ✅سائنسی حقیقت
  • *    وقت کا گزرنا مختلف جگہوں پر مختلف ہوتا ہے: ✅قرآن کی تائید
  • *    اللہ کا علم وقت سے بالاتر ہے: ✅اسلامی عقیدہ
  • *    آئن سٹائن کا نظریہ قرآن کی آیات سے متصادم نہیں، ہم آہنگ ہے۔

📢سادہ الفاظ میں پیغام:

جو کچھ ہم خلا میں دیکھتے ہیں وہ ماضی کی جھلکیاں ہیں۔ یہ حقیقت نہ صرف سائنس مانتی ہے، بلکہ قرآن بھی اس کی تائید کرتا ہے۔ اسلام ایک مکمل دین ہے جو وقت، علم اور کائنات کے ہر راز کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔

 

📚حوالہ جات:

1. سورج اور زمین کا فاصلہ: vcalc.com

2. کہکشاں M31 کا فاصلہ: vcalc.com

3. 84 Ceti ستارہ: en.wikipedia.org

4. قرآن میں وقت کی نسبیت: aboutislam.net

5. آئن سٹائن کی نظریہ نسبیت: aljumuah.com

6. امام غزالی کی رائے: ejournal.uinbukittinggi.ac.id

 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی