اختتامی کلمات
قرآن مجید جیسی کتاب کا لکھنا کسی بھی مخلوق کے بس کی بات نہ تھی ،نہ ہے اور نہ ہو گی،یہ اس خدا کا کلام ہے جو زبردست قدرت رکھتاہے،جو تمام کائنات کاپیدا کرنے والا اور اس پر دسترس رکھنے والا ہے۔وہ ہر چیز کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے۔یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی انسان اس زمانے میں ان سائنسی دریافتوں ،حقیقتوں اور عجوبوں کو اس طرح جامع اور احسن طریقے سے بیان کرتا کہ جیسے آج جدید سائنس کی معلومات کے بعد ہو ا ہے کیونکہ اس زمانے میں یعنی 1400 سال پہلے جدید سائنس کا وجودبھی نہیں پایا جاتاتھا۔ کوئی خلائی دوربین تک بھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ انسان کے نازک اعضا کے آپریشن وپیوندکاری اورمنتقلی وغیرہ کا تصوربھی نہیں پایا جاتا تھا۔ آسمان کی بلندیوں اور سمندروں کی گہرائیوں کے متعلق جاننا صرف ایک خواب تھا ۔
قدرت
کے رازوں کے متعلق مکمل اور جامع علم صرف اللہ ہی کی ذات کو ہے یہ انسان
کے بس کی بات نہیں کہ وہ قدرت کے تمام رازوں کا احاطہ کر سکے یا ان کی
تشریح کر سکے۔بہرحال انسان نے ان رازوں کو پانے کے لیے جتنی بھی تحقیق
وجستجو کی ہے اس کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کی لا محدود طاقت وعلم کا
معترف ہی ہو اہے کیونکہ کائنات میں ہر چیز کسی اصول وضابطہ کے تحت ہی کام
کر رہی ہے۔اوریہ اصول اورضابطے اتفاقی نہیں بلکہ یہ کسی بنانے والے کے
بنائے ہوئے ہیں او ر اس ہستی کو مسلمان اللہ تعالیٰ کہتے ہیں۔اس لیے اس
تمام مطالعہ اور تحقیق کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جدید سائنس نے جن
دریافتوں اور حقیقتوں کو آج بے نقاب کیا ہے اور ان کے بارے میں معلومات
حاصل کی ہیں 'ان میں سے اکثر کے بارے میں قرآن مجید میں پہلے سے ہی معلومات
موجود ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بعض جگہ مختصراً اور بعض جگہ جامع انداز
میں بیان کیا ہے اور انسان کو ان نشانیوں کو دیکھنے اور سمجھنے کی دعوت دی
ہے۔ تاہم ان نشانیوں کو سمجھنا جدید سائنس کے بغیر ناممکن تھا، چنانچہ یہی
وجہ ہے کہ قدیم مفسرین کی تفاسیر میں ان باتوں کا ذکر موجود نہیں ہے اور آج
ہم جدید سائنسی معلومات کی بدولت اُن آیات کی کسی حد تک صحیح تشریح کرنے
کے قابل ہو سکے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس کتاب کے الہامی ہونے پر شک کرنے والوں کو چیلنج کیا تھا کہ اگر تمہیں اس کتاب کے منزل من اللہ
ہونے
پر شک ہے تو اس کتاب جیسی کوئی کتاب لا کر دکھا دو،چاہے تما م کائنات کے
جن وانس مل جاؤ مگر اس جیسی کتا ب لا کر نہیں دکھا سکتے۔یہ چیلنج درج ذیل
آیت میں موجود ہے:
(قُلْ
لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰی اَنْ یَّاْتُوْا
بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْ تُوْنَ بِمِثْلِہ وَلَوْ کَانَ
بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَھِیْرًا)
کہہ
دوکہ اگرانسان اورجن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش
کریں تو نہ لا سکیں گے چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگارہی کیوں نہ ہوں'' [1]
اور
یہ چیلنج آج بھی بلکہ قیامت تک کے لیے برقرار ہے۔آج دنیا میں تقریباًایک
کروڑ 40لاکھ ایسے عیسائی یا غیر مسلم موجود ہیں کہ جن کی مادری زبان عربی
ہے ،مگر آج تک کسی کو یہ چیلنج قبول کرنے کی جرأت نہیں ہوئی اور نہ ان شاء
اللہ ہو سکے گی۔ میرے خیال میں اگر کوئی نیک نیتی سے اس پرسوچے تو وہ اسی
نتیجے پر پہنچے گا کہ یہ خدائے ذوالجلال کے سوا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ درج ذیل آیت میں فرماتاہے:
(سَنُرِیْھِمْ
اٰیٰتِنَافِی الْاٰفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ
اَنَّہُ الْحَقُّ ط اَوَلَمْ یَکْفِ بِرَبِّک اَنَّہ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ
شَھِیْد)
''عنقریب
ہم انہیں کائنات میں بھی اپنی نشانیا ں دکھائیں گے اور ان کے اپنے(نفس کے)
اندر بھی ،یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ یہ قرآن حق ہے، کیا یہ بات
کافی نہیں کہ آپ کا پروردگار ہر چیز پر حاضر وناظرہے '' [2]
میں
اپنی بات کو ڈاکٹر حافظ حقانی میاں کی اس تقریر پر ختم کرتاہوں ''سائنس اس
چیز کو بالائے طاق رکھ کر کہ مذہب کے حواری کیا کہتے ہیں اورمذہب کے دشمن
کیا پیش کرتے ہیں حقائق کی طرف بڑھ رہی ہے، اگر کوئی مذہب حقائق کی بنیا د
پر کھڑا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سائنس کی آخری منزل وہی
حقیقت کُل ہوگی جسے دنیا خداکہتی ہے۔ چرچ چیختا ہے تو چیختا رہے 'مندر کی
پیشانی پر بل پڑتے ہیں توپڑتے رہیں'لیکن مسجدوں میں کاہے کا واویلا 'جب کہ
وہاں زمین نہ تو ساکن ہے اورنہ ہی بیل کے سینگوںپرکھڑی ہے 'وہ اگر گلیلیوکو
پھانسی دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ اس نے زمین کو متحرک ثابت کیا اورچاند
پر پہاڑ بتائے۔
آپ
خواہ مخواہ کیوں شیر آیا شیرآیا کہہ کر قوم کو اور اپنے آپ کو دھوکہ دے
رہے ہیں'گھبرائیے نہیں ،قرآن کا خدا صرف شاعر نہیں ہے بلکہ وہ اس کے ساتھ
ساتھ ایک بہت بڑا حساب دان اور سائنس دان بھی ہے .....وہ خدا مر گئے جوصرف
چند سالوں اورچند صدیوں کی باتیں کرتے تھے ...وہ خدا زندہ جاوید ہے جس کے
لیے ہمارامستقبل بھی ماضی ہے:
یہ نغمہ فصل گل ولالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا اللہ
ایک تبصرہ شائع کریں