حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ دُمچی کی ہڈی کبھی ختم نہیں ہوگی اور جدید سائنس کی دریافتیں

 حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ   دُمچی کی ہڈی کبھی ختم نہیں ہوگی

اور جدید سائنس کی دریافتیں 


دُمچی کی ہڈی انسان کی ریڑھ کی ہڈی کے ستون(
Column)کی آخری ہڈی ہے۔ کئی احادیث ِمبارکہ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ انسانی ڈھانچے کی ابتدا دُمچی کی ہڈی سے شروع ہوتی ہے۔ مزید برآں مرنے کے بعد قبر میں انسان کے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے مگر دُمچی کی ہڈی سلامت رہے گی اورقیامت کے دن اسی سے آدمی کا ڈھانچہ دوبار کھڑا کیا جائے گا۔امام بخاری حضرت ابو ھریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''دونوں صوروں کے درمیان چالیس کا فاصلہ ہے لوگوں نے کہا یاا بوھریرہ !چالیس دن کا ؟ حضرت ابوھریرہ نے کہا میں [1] نہیں کہہ سکتا پھر انہوں نے دریافت کیا چالیس مہینوں کا ؟ حضرت ابوھریرہ نے جواب دیا میں کچھ نہیں کہہ سکتا، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہو جائے گی مگر دُمچی کی ہڈی باقی رہے گی پھر قیامت کے دن اسی سے آدمی کا ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا ''

 


 دوسری حدیث کے راوی بھی حضرت ابوھریرہ ہی ہیں :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ''اولاد آدم کے جسم میں ایک ہڈی ایسی ہے جسے مٹی نہیں کھائے گی اور وہ دُمچی کی ہڈی ہے ''     [2]

چنانچہ مندرجہ بالا احادیث سے درج ذیل باتوں کا پتہ چلتاہے:

1.     انسانی ڈھانچے کی ابتدا  دُمچی کی ہڈی سے ہوتی ہے۔

2.     دُمچی کی ہڈی کو مٹی نہیں کھائے گی۔ اور

3.     قیامت والے دن اسی ہڈی سے انسانی ڈھانچے کو ازسرنو زندہ کھڑ ا کر دیا جائے گا۔

جنین کی خلقت کے مراحل میں دُمچی کی ہڈی کا کردار

جب انسانی نطفہ بیضے کو بارآور کرتاہے تو زائیگوٹ کے بننے سے جنین کی پیدائش کا مرحلہ شروع ہوجاتاہے۔ زائیگوٹ 'دو خلیوں میں تقسیم ہوجاتاہے اور پھر دو خلیوں سے چار خلیے بن جاتے ہیں اور ان کی تقسیم اسی طرح جاری رہتی ہے تاآنکہ جنین ایک ڈسک کی شکل اختیا رکرلیتا ہے جس کی دو تہیں ہوتی ہیں ایک بیرونی اور دوسری اندرونی۔

بیرونی تہہ کو "Epiblast"کہتے ہیں۔یہ جنین کو رحم کی دیوار کے ساتھ جمادیتی ہے اور رحم کی دیوار کے غدودوں سے خارج ہونے والے مواد اورخون سے اس کی خوراک کا بندوبست کرتی ہے۔

اندرونی تہہ کو (Hypoblast)کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جنین کے جسم کی ابتدا اسی تہہ سے کرتے ہیں اور تقریباً 15دنوں کے بعد جنین کی پشت یعنی پیٹھ پر ابتدائی لکیریں (Primitive Streaks)بننا شروع ہوجاتی ہیں جن کے سرے نوک دار ہوتے ہیں 'ان کو ابتدائی  ابھار یا گلٹی (Primitive Node)کہا جاتاہے۔ ان ابتدائی لکیروں اورابھاروں سے جنین میں جو مختلف ریشے ،بافتیں اورا عضا بنتے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔

جلد کی بیرونی تہہ (Ectoderm)

اس سے جلد اورمرکزی اعصابی نظام تشکیل پاتاہے۔

جنین کی درمیانی بافتی تہہ(Mesoderm)

 اس سے نظام ہضم کے پٹھے ،انسانی پنجر یا ڈھانچے کے پٹھے ،نظام دورانِ خون، دل، جنسی اورپیشاب کے نظام (مثانوں کے علاوہ)،زیر جلد پائی جانے والی بافتیں اور بافتوں میں پائے جانے والے بے رنگ مائع کا نظام (Lymphatic System)،تلی (Spleen)،اوردماغ کا بیرونی حصہ (Cortex)تشکیل پاتاہے۔

جنین کی اندرونی تہہ(Endoderm) 

 اس حصے میں نظام ہضم کے متعلقہ اعضا(مثلاً جگر ، لبلبہ وغیرہ)،نظام تنفس،مثانہ ،غدۂ ورقیہ (Thyroid Gland)،اورکان کی نالی (Hearing Canal)پر استرکاری (Linings)ہوتی ہے۔

اس کے بعد ابتدائی لکیریں اور ابھار سوکھ جاتے ہیں اورریڑھ کی ہڈی کے آخری حصے یعنی مقعد کی ہڈی کی جگہ ٹھہر جاتے ہیں'چنانچہ اسی سے دُمچی کی ہڈی تشکیل پاتی ہے۔ یعنی جنین میں پید ا ہونے والی ابتدائی لکیریں اور ابھار ہی دُمچی کی ہڈی کی شکل اختیا ر کرلیتے ہیں۔

جنین کی بناوٹ وتشکیل میں نقص (Malformation)

جنین کی بناوٹ میں نقص اس بات کا ثبوت ہے کہ دُمچی کی ہڈی میں ماں کے وہ تمام خلیے پائے جاتے ہیں جو ایک انسان کی بافتوں کے لیے ضروری ہیں۔جنین کی پیدائش اوربناوٹ کے بعد ابتدائی لکیریں اور ابھار پیڑو کے پیچھے کی تکونی ہڈی یعنی مقعد کی ہڈی (دُمچی کی ہڈی)میں ٹھہر جاتے ہیں اور اپنی خصوصیات کو برقرار رکھتے ہیں'اگر کسی وجہ سے یہ پھر متحرک ہوجائیں تویہ ایک نئے جنین کی طرح  بڑھنا شروع ہوجائیں گے اور اس جگہ ایک گومڑ یا بڑاساابھار یا گلٹی بننا شروع ہوجائے گی جو ایک بے شکل جنین کی طرح ظاہر ہوگی کہ جس کے کچھ اعضا مثلاً ہاتھوں اور پاؤں کا ناخنوں سمیت بننا ،واضح ہوگا جیسا کہ تصویر سے ظاہر ہے۔


چنانچہ یہ بات بالقین کہی جاسکتی ہے کہ دُمچی کی ہڈی میں ماں کے وہ تمام خلیے موجود ہوتے ہیں کہ جن سے ایک نئے انسان کی پیدائش ممکن ہے۔ حاصل کلام یہ کہ دُمچی کی ہڈی اُن بتدائی لکیروں اور ابھاروں پر مشتمل ہوتی ہے کہ جن سے تین اہم حصے یعنی  Ectoderm،  Mesoderm اور  Endodermتشکیل پاتے ہیں جو جنین کی بناوٹ اور شکل کو مکمل کرتے ہیں۔

دُمچی کی ہڈی کو نقصان نہیں پہنچتا

ماہر ین نے معلو م کیا ہے کہ جنین کے خلیوں کی بناوٹ اورترتیب ابتدائی لکیروں اور ابھاروں کی بدولت ہی شروع ہوتی ہے اور ان کی بناوٹ سے پہلے خلیوں کی مزید تقسیم نہیں ہوتی۔ ان ماہرین میں سے ایک مشہور شخصیت جرمن سائنس دان "Hans Spemann" کی ہے جس نے مختلف تجربات کے ذریعے اس بات کو ثابت کیا ہے۔

اس نے تجربات کے ذریعے معلوم کیا کہ کسی جنین کی پیدائش اوربناوٹ وترتیب کا سبب ابتدائی لکیریں اور ابھار ہیں۔ چنانچہ اسی وجہ سے اس نے ان کو ''ابتدائی ترتیب دینے والا''(The Primary Organizer)کا نام دیا۔ اس نے اس کے ایک حصے کو ایک جنین سے کاٹا اور ایک دوسرے مہمان جسم کے اندر ابتدائی مرحلے کے جنین (تیسرے اور چوتھے ہفتے کی عمر والا)کے ساتھ مِلا (Implant) دیا۔ چنانچہ اس کٹے ہوئے جنین کے حصے نے مہمان جسم کے خلیوں کی بدولت پیدا ہونے والے اثر اور بناوٹ سے متاثر ہو کر ایک دوسرے جنین کی تشکیل شروع کردی۔ اس کے بعد جرمن سائنس دان نے اپنے تجربات کو بیک وقت پانی اور خشکی والے جانوروں پر کیا۔ اس نے ان کے Primary Organizerکو ایک دوسرے جنین کے ساتھ ملا دیا 'جہاں وہ مکمل طورپر ایک دوسرے جنین کی بناوٹ اختیار کرگئے۔

1931ء میں اس نے ایک اور تجربہ کیا۔ اس مرتبہ اس نے اس Primary Organizer  کو پانی میں اچھی طرح اُبال کر اسے ایک دوسرے ہم عمر جنین کے ساتھ کاشت کردیا مگر اُبالنے کے باوجود Primary Organizer   متاثر نہ ہوئے تھے اور انہوں نے ایک جنین کی بناوٹ کو تشکیل دے دیا۔ Primary Organizerکی اسی دریافت پر Hans Spemannکو 1935ء میں نوبل پرائز دیا گیا۔

2001ء (ماہ رمضان 1423ھ)میں اسی طرح کا ایک تجربہ ڈاکٹر عثمان الجیلانی اورشیخ عبدالماجد الزندانی نے یمن کے شہر صنعاء میں کیا۔ شیخ عبدالماجد الزندانی نے اپنے گھر میں دمچی کی پانچ ہڈیوں کو گیس گن (Gas Gun)کے ذریعے پتھروں کے اوپر 10منٹ تک اس قدرجلایا کہ وہ آگ کا انگارہ بن گئیں اور جب ٹھنڈی ہوئیں تو بالکل سیاہ ہو چکی تھیں۔ انہوں نے ان جل کر کوئلہ بن جانے والی ہڈیوں کو ایک جراثیم سے پاک صندوق کے اندر محفوظ کیا اور صنعاء شہر کی سب سے بہترین لیبارٹری (Al Olaki Laboratory) میں تجزئیے کے لیے لے گئے۔

ڈاکٹر Al Olaki صنعاء یونیورسٹی میں نسیجوں اوربافتوں کے خوردبینی مطالعہ (Histology) اورعلم تشخیص ِامراض (Pathology)کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ان ٹکڑوں کا تجزیہ کرنے کے بعد کہا کہ اس قدر جلنے کے باوجود دُمچی ہڈیوں کی بافتوں کے خلیے بالکل متاثر نہیں ہوئے ہیں اور وہ سلامت ہیں 'صرف چربیلی بافتوں والے پٹھے اور ہڈیوں کا گودا  (Bone Marrow) متاثرہوا ہے۔  [3]

خلاصۂ کلام یہ کہ جدید سائنس نے آقائے دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ اقدس پر تصدیق کی مہر ثبت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی برحق ہونے کا ثبوت فراہم کردیا ہے اوراس میں اہل عقل وخرد کے لیے غوروفکر کا ایک واضح پیغام بھی موجود ہے۔



[1]بخاری شریف، باب تفسیر سورة الزمر

[2]بخاری شریف، باب تفسیر سورة الزمر

[3] http://www.way-to-allah.com/en/miracles/TheTailboneMiracle.html

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی