ڈارون کا نظریہٴ ارتقاء ایک دھوکہ ایک فریب
انسان کی پیدائش کسی ارتقاء کانتیجہ نہیں ہے ۔یہ نظریہ
چونکہ آج کل ہمارے کالجوں میں پڑھایا جاتاہے اورمیڈیا پر بھی اکثر اس کے
حق میں خبریں شائع کی جاتی ہیں جس سے بعض مسلمان بھی اس نظریہ سے مرعوب
ہوچکے ہیں۔نیز اس نظریہ نے مذہبی دنیا میں ایک اضطراب سا پیدا کردیا
ہے۔واضح رہے کہ انسان اور دوسرے حیوانات کی تخلیق کے متعلق دوطرح کے نظریات
پائے جاتے ہیں۔ایک یہ کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا
کیا ہے۔قرآن واحادیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا
آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ،پھر ان کی پسلی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا ،پھرا س جوڑے سے بنی نوع انسان تمام دنیا میں پھیلے۔آدم علیہ السلام
کا پتلا جب اللہ تعالیٰ نے بنایا تو اس میں اپنی روح سے پھونکااور ایسی
روح کسی دوسری چیز میں نہیں پھونکی گئی ۔یہ اسی روح کا اثر ہے کہ انسان میں
دوسرے تما م حیوانات سے بہت زیادہ عقل وشعور ،قوت ارادہ و اختیار اور تکلم
کی صفات پائی جاتی ہیں۔اس طبقہ کے قائلین اگرچہ زیادہ تر الہامی مذاہب کے
لوگ ہیں تاہم بعض مغربی مفکرین نے بھی اس نظریہ کی حمایت کی ہے۔
دوسرا گروہ مادہ پرستوں کا ہے
جو اسے خالص ارتقائی شکل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔اس نظریہ کے مطابق زندگی
اربوں سال پہلے ساحل سمندر سے نمودار ہوئی ۔پھر اس سے نباتات اور اس کی
مختلف انواع وجود میں آئیں پھر نباتات ہی سے ترقی کرتے کرتے حیوانات
پیداہوئے۔ انہی حیوانات سے انسان غیر انسانی اور نیم انسانی حالت کے مختلف
مدارج سے ترقی کرتا ہوا مرتبہ انسانیت تک پہنچا ہے۔اس تدریجی اور ارتقائی
سفر کے دوران کوئی ایسا نقطہ متعین نہیں کیا جاسکتاجہاں سے غیر انسانی حالت
کا وجود ختم کرکے نوع انسانی کا آغاز تسلیم کیا جائے ۔تاریخ کے مطالعہ سے
معلو م ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سب سے پہلے ارسطو( 322-384ق م) نے پیش کیا تھا
۔قدیم زمانہ میں تھیلیس ،عناکسی میندر،عناکسی مینس،ایمپی ووکل اور جوہر
پسند فلاسفہ بھی مسئلہ ارتقاء کے قائل تھے۔مسلمان مفکرین میں سے ابن
خلدون،ابن مسکویہ اور حافظ مسعودی نے ابھی اشیائے کائنات میں مشابہت دیکھ
کر کسی حدتک اس نظریہ ارتقاء کی حمایت کی ہے۔
کیا انسان بندرکی اولاد ہے؟
انیسویں صدی عیسوی سےپہلے یہ نظریہ ایک گمنام سانظریہ تھا۔1859 ء میں سر چارلس ڈارون (1818-1882) نے ایک کتاب The Origin of Species by
Means of Natural Selection(یعنی ’’فطری انتخاب کے ذریعے انواع کا ظہور‘‘)
لکھ کر اس نظریہ کو باضابطہ طورپر پیش کیا۔اس نظریہ کوماننے والوں میں بھی
کافی اختلاف ہوئے۔ڈارون نے بندر اور انسان کو ایک ہی نوع قرار دیا کیونکہ
حس وادراک کے پہلو سے ان دونوں میں کافی مشابہت پائی جاتی ہے۔گویا ڈارون کے
نظریہ کے مطابق انسا ن بندر کا چچیرا بھائی ہے ۔لیکن کچھ انتہاپسندو ں نے
انسان کو بندرہی کی اولاد قرار دیا ۔کچھ ان سے بھی آگے بڑھے توکہا کہ تمام
سفید فام انسان تو چیمپینز ی (Chimpanzy) سے پیدا ہوئے ہیں۔سیاہ فام
انسانوں کا باپ گوریلا ہے او رلمبے سرخ ہاتھوں والے انسان تگنان بندر کی
اولاد ہیں۔مورخین نے تو ان مختلف اللون انسانوں کو سیدنا نوح علیہ السلام
کے بیٹوں حام،سام اور یافث کی اولاد قرار دیاتھا۔مگر یہ حضرات انہیں
چیمپینزی ،گوریلا اور تگنان کی اولاد قرار دیتے ہیں۔
پھر کچھ مفکرین کایہ خیال بھی
ہے کہ انسان بندر کی اولاد نہیں بلکہ بندر انسان کی اولاد ہے۔ اس رجعت
قہقری کی مثالیں بھی اس کائنات میں موجود ہیں۔ بادی النظرمیں قرآن سے بھی
اس نظریہ کی کسی حد تک تائید ہو جاتی ہے ،جیساکہ اللہ تعالیٰ نے بنی
اسرائیل کے کچھ بدکردار اور نافرمان لوگوں کو فرمایا۔
( کُونُوا قردہ خاسین) ”تم ذلیل بندر بن جاوٴ”۔ (65:2)
تخلیق کائنات بشمولیت انسان
سے متعلق تیسرا نظریہ آفت گیر ی (Cata Strophism)ہے جس کا بانی کوپیر
(Cupier) (1796-1832) ہے۔ جو فرانس کا باشندہ اور تشریح الا عضاء کا ماہر
تھا۔ اس کے نظریہ کے مطابق تمام اقسام کے تابئے علیحدہ علیحدہ طور پر تخلیق
ہوئے ۔یہ ارضی وسماوی آفات میں مبتلا ہو کر نیست ونابو د ہوگئے ۔پھر کچھ
اور حیوانات پیدا ہوئے ۔یہ بھی کچھ عرصہ بعد نیست ونابود ہوگئے ۔اسی طرح
مختلف ادوار میں نئے حیوانات پیدا ہوتے اور فناہوتے رہے ہیں۔ (اسلام اور نظریہ ارتقاء ، ص 85از احمد باشمیل ۔ادارہ معارف اسلامی کراچی ،مطبوعہ البدر پبلی کیشنز لاہور )
ڈارون کے نظریہ کے مطابق
زندگی کی ابتداء ساحل سمندر پر پایاب پانی سے ہوئی ۔پانی کی سطح پر کائی
نمودار ہوئی پھر اس کا ئی کے نیچے حرکت پیدا ہوئی۔ یہ زندگی کی ابتداء تھی
پھر اس سے نباتات کی مختلف قسمیں بنتی گئیں ۔پھر جرثومہ حیات ترقی کرکے
حیوانچہ بن گیا ۔پھر یہ حیوان بنا۔یہ حیوان ترقی کرتے کرتے پردار اور
بازووٴں والے حیوانات میں تبدیل ہوا۔پھر اس نے فقری جانور(ریڑھ کی ہڈی
رکھنے والے)کی شکل اختیار کی پھر انسان کے مشابہ حیوان بنا ۔ا ور ا س کے
بعد انسان اول بنا جس میں عقل ،فہم اور تکلم کی صلاحتیں نہیں تھیں ۔بالآخر
وہ صاحب فہم وذکا ء انسان بن گیا ۔ان تمام تبدلات ،تغیرات اور ارتقائے سفر
کی مدت کا اندازہ کچھ اس طرح بتلایا جاتا ہے
ارتقائی انسان کتنی مدت میں وجود میں آیا ؟۔
آج سے دوارب سال پیشتر سمندر
کےکنارے پایاب پانی میں کائی نمودار ہوئی ۔یہ زندگی کا آغاز تھا ۔60کروڑ
سال قبل یک خلوی جانور پیدا ہوئے ۔پھر 3کروڑ سال بعد اسفنج اور سہ خلوی
جانور پیدا ہوئے ۔45کروڑ سال قبل پتوں کے بغیر پودے ظاہر ہوئے اور اسی دور
میں ریڑھ کی ہڈ ی والے جانور پیداہوئے ۔40کروڑ سال قبل مچھلیوں اور
کنکھجوروں کی نمو د ہوئی ۔30کروڑ سال قبل بڑے بڑے دلدلی جانور پیدا ہوئے
۔یہ عظیم الجثہ جانور 4فٹ لمبے اور 35ٹن تک وزنی تھے۔ 13کروڑ سال بعد یا آج
سے 17کروڑ سال پہلے بے دم بوزنہ(Ape) سیدھا ہو کرچلنے لگا(یعنی وہ بندر ،
جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کا جد اعلیٰ ہے)اس سے 30سال بعد یا آج
سے 70لاکھ سال پہلے اس بے دم بوزنے کی ایک قسم” تپھکن تھروپس” سے پہلی
انسانی نسل پیدا ہوئی ۔مزید 50لاکھ سال بعد یا آج سے 20لاکھ سال پہلے پہلی
باشعور انسانی نسل پیدا ہوئی ۔جس نے پتھر کا ہتھیار اٹھایا ۔مزید 2لاکھ سال
بعد اس میں ذہنی ارتقاء ہوا اور انسانی نسل نے غاروں میں رہنا شروع کیا ۔(زریں معلومات مطبوعہ فیروز سنز ص 7تا )9
ڈارون نے اپنی پہلی کتاب اصل
الانواع 1859ء میں لکھی پھر اصل الانسان (Origin of man)اور پھر تسلسل
انسانی (Decent of man)لکھ کر اپنے نظریہ کی تائید مزید کی ۔اور اپنے اس
نظریہ کو مندرجہ ذیل چار اصولوں پر استوار کیا ہے۔
1۔ تنازع للبقاء (Struggle for Existence)
اس سے مراد زندگی کی بقاء
کےلیے کشمکش ہے جس میں صرف وہ جاندارباقی رہ جاتے ہیں جو زیادہ مکمل اور
طاقتور ہوں اور کمزور جاندار ختم ہوجاتے ہیں مثلا ً کسی جنگل میں وحشی بیل
ایک ساتھ چرتےہیں ۔ ان میں سے جو طاقتور ہوتا ہےوہ گھاس پر قبضہ جمالیتا ہے
اور اس طرح مزید طاقتور ہو جاتا ہے مگرکمزور خوراک کی نایابی کے باعث مزید کمزور ہو کر بالآخر ختم ہوجاتا ہے اسی کشمکش کا نام تنازع للبقاء ہے۔
2 ۔ دوسرا اصول طبعی انتخاب(Natural Selection)
مثلا ً اوپر کی مثال میں وہی
وحشی بیل دور کی مسافت طے کرنے اور دشوار گزار راستوں سے گزرنے میں کامیاب
ہوتے ہیں جو طاقتور اور مضبوط ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو خطرات سے محفوظ رکھ
سکتے ہیں اور کمزور خود بخور ختم ہوتے جاتے ہیں گویا فطرت(اس کامطلب اللہ
تعالیٰ کی ذات نہیں ہے )خود طاقتور اور مضبوط کو باقی رکھتی اور کمزور اور
ناقص کو ختم کرتی رہتی ہے۔
3۔ماحول سے ہم آہنگی (Adaption)
۔اس کی مثال یوں سمجھیے کہ
شیر ایک گوشت خور درندہ جانور ہے ۔فطرت نے اسے شکار کےلیے پنجے اور گوشت
کھانے کے لیے نوکیلے دانت عطا کیے ہیں ۔اب اگر اسے مدت دراز تک گوشت نہ
ملےتواس کی دو ہی صورتیں ہیں ۔یا تو وہ بھوک سے مر جائے گا یا نباتات کھانا
شروع کردے گا۔اس دوسری صورت میں اس کے دانت اور پنجے رفتہ رفتہ خود بخود
ختم ہوجائیں گے اور ایسے نئے اعضاء وجود میں آنے لگیں گے جو موجودہ ہیت کے
مطابق ہوں ۔ اس کی آنتیں بھی طویل ہو کر سبزی خور جانوروں کے مشابہ ہوجائیں
گی ۔اسی طرح اگر شیر کو خوراک ملنے کی واحد صورت یہ ہو کہ کسی درخت پر چڑھ
کر حاصل کرنی پڑے تو ایسے اعضاء پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے جو اسے درختوں
پر چڑھنے میں مدد دے سکیں۔
4۔ قانون وراثت (Law of Heritance)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اصول
نمبر 2یعنی ہیت اور ماحول کے اختلاف سے جو تبدیلیاں پیدا ہو تی ہیں وہ
نسلاً بعد نسل آگے منتقل ہوتی جاتی ہیں تاآنکہ یہ اختلاف فروعی نہیں بلکہ
نوعی بن جاتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ الگ نسلیں ہیں جیسے
گدھا او ر گھوڑا ایک ہی نوع ہے مگر گدھا گھوڑے سے اس لیے مختلف ہو گیا کہ
اس کی معاشی صورت حال بھی بدل گئی اور حصو ل معاش کے لیے اس کی جدوجہد میں
بھی اضافہ ہوگیا ۔
ڈاروِن کے یہ خیالات بعض
مخصوص نظریاتی اور سیاسی حلقوں کو بہت زیادہ پسند آئے، انہوں نے اس کی
حوصلہ افزائی کی اور نتیجتاً یہ خیالات (نظریہ ارتقاء) بہت زیادہ مقبول
ہوگئے۔ اس مقبولیت کی اہم وجہ یہ رہی کہ اس زمانے میں علم کی سطح اتنی بلند
نہیں تھی کہ ڈاروِن کے تصوراتی منظرنامے میں پوشیدہ جھوٹ کو سب کے سامنے
عیاں کر سکتی۔ جب ڈارون نے ارتقاء کے حوالے سے اپنے مفروضات پیش کئے تو اس
وقت جینیات (Genetics)، خرد حیاتیات (Microbiology) اور حیاتی کیمیا
(Biochemistry) جیسے مضامین موجود ہی نہیں تھے۔ اگر یہ موضوعات، ڈاروِن کے
زمانے میں موجود ہوتے تو با آسانی پتہ چل جاتا کہ ڈاروِن کا نظریہ غیر
سائنسی ہے اور اس کے دعوے بے مقصد ہیں۔ کسی نوع کا تعین کرنے والی ساری
معلومات پہلے ہی سے اس کے جین (Genes) میں موجود ہوتی ہیں۔ فطری انتخاب کے
ذریعے، جین میں تبدیلی کرکے کسی ایک نوع سے دوسری نوع پیدا کرنا قطعاً
ناممکن ہے۔ جس وقت ڈاروِن کی مذکورہ بالا کتاب
(جسے اب ہم مختصراً ’’اصلِ انواع‘‘ کہیں گے) اپنی شہرت کے عروج پر تھی، اسی
زمانے میں آسٹریا کے ایک ماہر نباتیات، گریگر مینڈل نے 1865ء میں توارث
(Inheritance) کے قوانین دریافت کئے۔ اگرچہ ان مطالعات کو انیسویں صدی کے
اختتام تک کوئی خاص شہرت حاصل نہیں ہوسکی۔ مگر 1900ء کے عشرے میں حیاتیات
کی نئی شاخ ’’جینیات‘‘ (Genetics) متعارف ہوئی اور مینڈل کی دریافت بہت
زیادہ اہمیت اختیار کرگئی۔
کچھ عرصے بعد جین کی ساخت اور کروموسوم (Chromosomes) بھی دریافت ہوگئے۔ 1950ء کے عشرے میں ڈی این اے (DNA) کا سالمہ دریافت ہوا، جس میں ساری جینیاتی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہیں سے نظریہ ارتقاء میں ایک شدید بحران کا آغاز ہوا کیونکہ اتنے مختصر سے ڈی این اے میں بے اندازہ معلومات کا ذخیرہ کسی بھی طرح سے ’’اتفاقی واقعات‘‘ کی مدد سے واضح نہیں کیا جاسکتا تھا۔ان تمام سائنسی کاوشوں سے ہٹ کر، تلاشِ بسیار کے باوجود، جانداروں کی ایسی کسی درمیانی شکل کا سراغ نہیں مل سکا جسے ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کی روشنی میں لازماً موجود ہونا چاہیے تھا۔ اصولاً تو ان دریافتوں کی بنیاد پر ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ کیونکہ بعض مخصوص حلقوں نے اس پر نظرِ ثانی، اس کے احیأ، اور اسے سائنسی پلیٹ فارم پر بلند مقام دیئے رکھنے کا اصرار (اور دباؤ) جاری رکھا۔ ان کوششوں کا مقصد صرف اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب ہم نظریہ ارتقاء کے پیدا کردہ نظریاتی رجحانات (Ideological Intensions) کو محسوس کریں، نہ کہ اس کے سائنسی پہلوؤں کا جائزہ لیں۔ نظریہ ارتقاء پر یقین کو قائم و دائم رکھنے کی پوری کوششوں کے باوجود یہ حلقے جلد ہی ایک بند گلی میں پہنچ گئے۔ اب انہوں نے ایک نیا ماڈل پیش کردیا جس کا نام ’’جدید ڈارونزم‘‘ (Neo-Darwinism) رکھا گیا۔
کچھ عرصے بعد جین کی ساخت اور کروموسوم (Chromosomes) بھی دریافت ہوگئے۔ 1950ء کے عشرے میں ڈی این اے (DNA) کا سالمہ دریافت ہوا، جس میں ساری جینیاتی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ یہیں سے نظریہ ارتقاء میں ایک شدید بحران کا آغاز ہوا کیونکہ اتنے مختصر سے ڈی این اے میں بے اندازہ معلومات کا ذخیرہ کسی بھی طرح سے ’’اتفاقی واقعات‘‘ کی مدد سے واضح نہیں کیا جاسکتا تھا۔ان تمام سائنسی کاوشوں سے ہٹ کر، تلاشِ بسیار کے باوجود، جانداروں کی ایسی کسی درمیانی شکل کا سراغ نہیں مل سکا جسے ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کی روشنی میں لازماً موجود ہونا چاہیے تھا۔ اصولاً تو ان دریافتوں کی بنیاد پر ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ کیونکہ بعض مخصوص حلقوں نے اس پر نظرِ ثانی، اس کے احیأ، اور اسے سائنسی پلیٹ فارم پر بلند مقام دیئے رکھنے کا اصرار (اور دباؤ) جاری رکھا۔ ان کوششوں کا مقصد صرف اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب ہم نظریہ ارتقاء کے پیدا کردہ نظریاتی رجحانات (Ideological Intensions) کو محسوس کریں، نہ کہ اس کے سائنسی پہلوؤں کا جائزہ لیں۔ نظریہ ارتقاء پر یقین کو قائم و دائم رکھنے کی پوری کوششوں کے باوجود یہ حلقے جلد ہی ایک بند گلی میں پہنچ گئے۔ اب انہوں نے ایک نیا ماڈل پیش کردیا جس کا نام ’’جدید ڈارونزم‘‘ (Neo-Darwinism) رکھا گیا۔
جدید ڈارونزم‘‘ (Neo-Darwinism)
اس نظریئے کے مطابق انواع کا
ارتقاء، تغیرات (Mutations) اور ان کے جین (Genes) میں معمولی تبدیلیوں سے
ہوا۔ مزید یہ کہ (ارتقاء پذیر ہونے والی ان نئی انواع میں سے) صرف وہی
انواع باقی بچیں جو فطری انتخاب کے نظام کے تحت موزوں ترین (Fittest) تھیں۔
مگر جب یہ ثابت کیا گیا کہ جدید ڈارونزم کے مجوزہ نظامات درست نہیں، اور
یہ کہ نئی انواع کی تشکیل کے لئے معمولی جینیاتی تبدیلیاں کافی نہیں ہیں،
تو ارتقاء کے حمایتی ایک بار پھر نئے ماڈلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ اب
کی بار وہ ایک نیا دعویٰ لے کر آئے جسے ’’نشان زد توازن‘‘(Punctuated
Equilibrium) کہا جاتا ہے، اور اس کی بھی کوئی معقول سائنسی بنیاد نہیں ہے۔
اس ماڈل کی رُو سے جاندار کوئی ’’درمیانی شکل‘‘ اختیار کئے بغیر، اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہوگئے۔ باالفاظِ دیگر یہ کہ کوئی نوع اپنے ’’ارتقائی آباؤ اجداد‘‘ کے بغیر ہی وجود میں آگئی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ انواع کو ’’تخلیق‘‘ کیا گیا ہے (یعنی ان کا کوئی خالق ضرور ہے) تو ہم بھی وہی کہہ رہے ہوں گے جو نشان زد توازن میں کہا گیا ہے۔ لیکن ارتقاء پرست، نشان زد توازن کے اس پہلو کو قبول نہیں کرتے (جو خالق کی طرف اشارہ کررہا ہے)۔ اس کے بجائے وہ حقیقت کو ناقابلِ فہم منظر ناموں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے۔ مثلاً یہ کہ دنیا کا پہلا پرندہ اچانک ہی، ناقابلِ تشریح انداز میں، رینگنے والے کسی جانور یعنی ہوّام (Reptile) کے انڈے سے پیدا ہوگیا۔ یہی نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زمین پر بسنے والے گوشت خور جاندار کسی (ناقابلِ فہم) وجہ سے، زبردست قسم کے جینیاتی تغیرات کا شکار ہوکر، دیو قامت وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہوگئے ہوں گے۔ یہ دعوے جینیات، حیاتی طبیعیات اور حیاتی کیمیا کے طے شدہ قواعد و ضوابط سے بری طرح متصادم ہیں اور ان میں اتنی ہی سائنسی صداقت ممکن ہے جتنی مینڈک کے شہزادے میں تبدیل ہوجانے والی جادوئی کہانیوں میں ہوسکتی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود، جدید ڈارونزم کے پیش کردہ نتائج اور پیدا شدہ بحران سے عاجز آئے ہوئے کچھ ارتقاء پرست ماہرینِ معدومیات (Paleontologists) نے اس نظریئے (نشان زد توازن) کو گلے سے لگا لیا جو اپنی ذات میں جدید ڈارونزم سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے۔ اس نئے ماڈل کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ رکازی ریکارڈ میں خالی جگہوں کی موجودگی (یعنی زندگی کی درمیانی شکلوں کی عدم موجودگی) کی وضاحت فراہم کی جائے، جنہیں واضح کرنے سے جدید ڈارونزم بھی قاصر تھا۔
مگر ریکارڈ کی عدم موجودگی کے ثبوت میں یہ کہنا ’’رینگنے والے جانور کا انڈا ٹوٹا اور اس میں سے پرندہ برآمد ہوا‘‘ بمشکل ہی معقول دلیل سمجھا جائے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ڈراوِن کا نظریہ ارتقاء خود کہتا ہے کہ انواع کو ایک سے دوسری شکل میں ڈھلنے کے لئے زبردست اور مفید قسم کا جینیاتی تغیر درکار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی جینیاتی تغیر بھی، خواہ وہ کسی بھی پیمانے کا ہو، جینیاتی معلومات کو بہتر بناتا ہویا ان میں اضافہ کرتا ہوا نہیں پایا گیا۔ تغیرات (تبدیلیوں) سے توجینیاتی معلومات تلپٹ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’مجموعی تغیرات‘‘ (Gross Mutations) جن کا تصور نشان زد توازن کے ذریعے پیش کیا گیا ہے، صرف جینیاتی معلومات میں کمی اور خامی کا باعث ہی بن سکتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’نشان زد توازن‘‘ کا نظریہ بھی محض تخیلات کا حاصل ہے۔ اس کھلی ہوئی سچائی کے باوجود ارتقاء کے حامی اس نظریئے کو ماننے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ وہ جانتے تھے کہ رکازات کے ریکارڈ کی عدم موجودگی، ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء سے ثابت نہیں کی جاسکتی لہٰذا وہ نشان زد توازن کو ماننے پر مجبور ہوگئے۔ مگر خود ڈاروِن کا کہنا تھا کہ انواع کا ارتقاء بتدریج ہوا تھا (یعنی وہ تھوڑی تھوڑی کرکے تبدیل ہوئی تھیں)، جس کے باعث یہ اشد ضروری تھا کہ آدھا پرندہ/ آدھا ہوّام، یا آدھی مچھلی/ آدھا چوپایہ جیسے عجیب الخلقت جانداروں کے رکازات دریافت کئے جائیں۔
تاہم اب تک، ساری تحقیق و تلاش کے بعد بھی ان ’’درمیانی (انتقالی) شکلوں‘‘ کی ایک مثال بھی سامنے نہیں آسکی۔ حالانکہ اس دوران لاکھوں رکازات، زمین سے برآمد ہوچکے ہیں۔ ارتقاء پرست صرف اس لئے نشان زد توازن والے ماڈل سے چمٹ گئے ہیں تاکہ رکازات کی صورت میں ہونے والی اپنی شکست فاش کو چھپا سکیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نشان زد توازن کو کسی باضابطہ ماڈل کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ اسے تو صرف ان مواقع پر راہِ فرار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں تدریجی ارتقاء سے بات واضح نہیں ہو پاتی۔ آج کے ماہرینِ ارتقاء یہ محسوس کرتے ہیں کہ آنکھ، پر، پھیپھڑے، دماغ اور دوسرے پیچیدہ اعضاء علی الاعلان تدریجی ارتقائی ماڈل کو غلط ثابت کررہے ہیں۔ بطورِ خاص انہی نکات پر آکر وہ مجبوراً نشان زد توازن والے ماڈل میں پناہ لینے دوڑے آتے ہیں۔
اس ماڈل کی رُو سے جاندار کوئی ’’درمیانی شکل‘‘ اختیار کئے بغیر، اچانک ہی ایک سے دوسری انواع میں ارتقاء پذیر ہوگئے۔ باالفاظِ دیگر یہ کہ کوئی نوع اپنے ’’ارتقائی آباؤ اجداد‘‘ کے بغیر ہی وجود میں آگئی۔ اگر ہم یہ کہیں کہ انواع کو ’’تخلیق‘‘ کیا گیا ہے (یعنی ان کا کوئی خالق ضرور ہے) تو ہم بھی وہی کہہ رہے ہوں گے جو نشان زد توازن میں کہا گیا ہے۔ لیکن ارتقاء پرست، نشان زد توازن کے اس پہلو کو قبول نہیں کرتے (جو خالق کی طرف اشارہ کررہا ہے)۔ اس کے بجائے وہ حقیقت کو ناقابلِ فہم منظر ناموں سے ڈھانپنے کی کوشش کرنے لگے۔ مثلاً یہ کہ دنیا کا پہلا پرندہ اچانک ہی، ناقابلِ تشریح انداز میں، رینگنے والے کسی جانور یعنی ہوّام (Reptile) کے انڈے سے پیدا ہوگیا۔ یہی نظریہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ زمین پر بسنے والے گوشت خور جاندار کسی (ناقابلِ فہم) وجہ سے، زبردست قسم کے جینیاتی تغیرات کا شکار ہوکر، دیو قامت وہیل مچھلیوں میں تبدیل ہوگئے ہوں گے۔ یہ دعوے جینیات، حیاتی طبیعیات اور حیاتی کیمیا کے طے شدہ قواعد و ضوابط سے بری طرح متصادم ہیں اور ان میں اتنی ہی سائنسی صداقت ممکن ہے جتنی مینڈک کے شہزادے میں تبدیل ہوجانے والی جادوئی کہانیوں میں ہوسکتی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور نقائص کے باوجود، جدید ڈارونزم کے پیش کردہ نتائج اور پیدا شدہ بحران سے عاجز آئے ہوئے کچھ ارتقاء پرست ماہرینِ معدومیات (Paleontologists) نے اس نظریئے (نشان زد توازن) کو گلے سے لگا لیا جو اپنی ذات میں جدید ڈارونزم سے بھی زیادہ عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم ہے۔ اس نئے ماڈل کا واحد مقصد صرف یہ تھا کہ رکازی ریکارڈ میں خالی جگہوں کی موجودگی (یعنی زندگی کی درمیانی شکلوں کی عدم موجودگی) کی وضاحت فراہم کی جائے، جنہیں واضح کرنے سے جدید ڈارونزم بھی قاصر تھا۔
مگر ریکارڈ کی عدم موجودگی کے ثبوت میں یہ کہنا ’’رینگنے والے جانور کا انڈا ٹوٹا اور اس میں سے پرندہ برآمد ہوا‘‘ بمشکل ہی معقول دلیل سمجھا جائے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ڈراوِن کا نظریہ ارتقاء خود کہتا ہے کہ انواع کو ایک سے دوسری شکل میں ڈھلنے کے لئے زبردست اور مفید قسم کا جینیاتی تغیر درکار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کوئی جینیاتی تغیر بھی، خواہ وہ کسی بھی پیمانے کا ہو، جینیاتی معلومات کو بہتر بناتا ہویا ان میں اضافہ کرتا ہوا نہیں پایا گیا۔ تغیرات (تبدیلیوں) سے توجینیاتی معلومات تلپٹ ہوکر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’مجموعی تغیرات‘‘ (Gross Mutations) جن کا تصور نشان زد توازن کے ذریعے پیش کیا گیا ہے، صرف جینیاتی معلومات میں کمی اور خامی کا باعث ہی بن سکتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ’’نشان زد توازن‘‘ کا نظریہ بھی محض تخیلات کا حاصل ہے۔ اس کھلی ہوئی سچائی کے باوجود ارتقاء کے حامی اس نظریئے کو ماننے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ وہ جانتے تھے کہ رکازات کے ریکارڈ کی عدم موجودگی، ڈاروِن کے نظریہ ارتقاء سے ثابت نہیں کی جاسکتی لہٰذا وہ نشان زد توازن کو ماننے پر مجبور ہوگئے۔ مگر خود ڈاروِن کا کہنا تھا کہ انواع کا ارتقاء بتدریج ہوا تھا (یعنی وہ تھوڑی تھوڑی کرکے تبدیل ہوئی تھیں)، جس کے باعث یہ اشد ضروری تھا کہ آدھا پرندہ/ آدھا ہوّام، یا آدھی مچھلی/ آدھا چوپایہ جیسے عجیب الخلقت جانداروں کے رکازات دریافت کئے جائیں۔
تاہم اب تک، ساری تحقیق و تلاش کے بعد بھی ان ’’درمیانی (انتقالی) شکلوں‘‘ کی ایک مثال بھی سامنے نہیں آسکی۔ حالانکہ اس دوران لاکھوں رکازات، زمین سے برآمد ہوچکے ہیں۔ ارتقاء پرست صرف اس لئے نشان زد توازن والے ماڈل سے چمٹ گئے ہیں تاکہ رکازات کی صورت میں ہونے والی اپنی شکست فاش کو چھپا سکیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نشان زد توازن کو کسی باضابطہ ماڈل کی حیثیت سے اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ اسے تو صرف ان مواقع پر راہِ فرار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں تدریجی ارتقاء سے بات واضح نہیں ہو پاتی۔ آج کے ماہرینِ ارتقاء یہ محسوس کرتے ہیں کہ آنکھ، پر، پھیپھڑے، دماغ اور دوسرے پیچیدہ اعضاء علی الاعلان تدریجی ارتقائی ماڈل کو غلط ثابت کررہے ہیں۔ بطورِ خاص انہی نکات پر آکر وہ مجبوراً نشان زد توازن والے ماڈل میں پناہ لینے دوڑے آتے ہیں۔
سو یہ ہے ڈارون کے نظریہ ٴ ارتقاء کا خلاصہ ،جو اس وقت بھی
صرف ایک نظریہ ہی تھا اور آج بھی نظریہ سے آگے نہیں بڑھ سکا ۔اس نظریہ کو
کوئی ایسی ٹھوس بنیاد مہیا نہیں ہوسکی جس کی بناء پر یہ نظریہ سائنس کا
قانون (Scientific Law)بن سکے اس نظریہ پر بعد کے مفکرین نے شدید اعتراض
کیے ہیں ۔مثلاً
نظریہ ارتقاء پر اعتراضات
1۔ زندگی کی ابتدا ء کیسے ہوگئی ؟
پہلااعتراض یہ ہےکہ زندگی کی ابتدا ء کیسے ہوگئی ؟ معلول
تو موجود ہے (یعنی نتیجہ ،وہ شےجس کا کوئی سبب ہو)لیکن عِلت (سبب ،وجہ) کی
کڑی نہیں ملتی گویا اس نظریہ کی بنیاد ہی غیر سائنسی یا اَن سائینٹفک ہے۔اس
سلسلہ میں پرویز صاحب اپنی کتاب” انسان نے کیا سوچا “کے صفحہ 55پر لکھتے
ہیں کہ :
’’یہ تو ڈارون نے کہا تھا
لیکن خود ہمارے زمانے کا ماہر ارتقاء (Simpson)زندگی کی ابتداء اور سلسلہ ٴ
علت و معلول کی اولیں کڑی کے متعلق لکھتا ہےکہ زندگی کی ابتداء کیسے ہو
گئی ؟ نہایت دیانتداری سے اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس کا کچھ علم نہیں
۔۔۔۔ یہ معمہ سائنس کے انکشافات کی دسترس سے باہر ہے اور شاید انسان کے
حیطہ ٴ ادراک سے بھی باہر ۔۔۔ اور میرا خیا ل ہے کہ ذہن انسانی اس راز کو
کبھی پا نہیں سکے گا۔ہم اگر چاہیں تو اپنے طریق پر اس علت اولیٰ( اللہ
تعالیٰ )کے حضور اپنے سرجھکا سکتے ہیں لیکن اسے اپنے ادراک کے دائرے میں
کبھی نہیں لا سکتے “
2۔ کوئی مخلوق اِرتقاء یافتہ نہیں
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ
ارتقاء کا کوئی ایک چھوٹے سے چھوٹا واقعہ بھی آج تک انسان کے مشاہدہ میں
نہیں آیا۔ یعنی کوئی چڑیا ارتقاء کر کے مرغا بن گئی ہویا گدھا ارتقاء کرکے
گھوڑا بن گیا ہو یا لوگوں نے کسی چمپینزی یا گوریلا یا بندریا بن مانس کو
انسان بنتے دیکھا ہو ۔نہ ہی یہ معلو م ہو سکا ہےکہ فلا ں دور میں ارتقاء
ہوا تھا بلکہ جس طرح حیوانات ابتدائے آفرینش سے تخلیق کیے گئے ہیں آج تک
اسی طرح چلے آتے ہیں اور جو اوپر ارتقائی مدت اربوں اور کروڑوں سال کے حساب
سے بیان کی گئی ہے وہ محض ظن وتخمین پر مبنی ہے جسے سائینٹفک نہیں کہا
جاسکتا۔البتہ بعض ایسی مثالیں ضرور مل جاتی ہیں جو اس نظریہ ٴ ارتقاء کی
تردید کر دیتی ہیں مثلاً حشرات الار ض جیسی کمزور مخلوق کو آج تک فنا ہو
جانا چاہیے تھا مگر وہ بدستور موجود اور اپنے موسم پر پیدا ہوجاتی ہے۔ریشم
کے کیڑے کے داستانِ حیات اس کی پر زور تردید کرتی ہے ۔ اسی طرح بعض کمتر
درجے کے بحری جانور جو ابتدائے زمانہ میں پائے جاتے تھے آج بھی اسی شکل میں
موجود اور اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں اسی لیے بہت سے منکرین اس نظریہ
ارتقاء کے منکر ہیں اور وہ اس نظریہ کے بجائے تخلیق ِ خصوصی (Special
Creation)یعنی ہر نوع زندگی کی تخلیق بالکل الگ طور پر ہونا کےقائل ہیں۔
مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کے خیال میں سلسلۂ اِرتقاء کے
موجودہ دَور میں نظر نہ آنے کا سبب یہ ہے کہ یہ عمل بہت آہستگی سے لاکھوں
کروڑوں سالوں میں وُقوع پذیر ہوتا ہے۔ (یہ دلیل بھی سراسر بے ہودہ ہے
کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ) 1965ء میں آئس لینڈ کے قریب زلزلے اور لاوا پھٹنے
کے عمل سے ایک نیا جزیرہ سرٹسے (Surtsey) نمودار ہوا اور محض سال بھر کے
اندر اندر اُس میں ہزاروں اَقسام کے کیڑے مکوڑے، حشراتُ الارض اور پودے
پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بات اَبھی تک (کسی اِرت
قاء پسند کی) سمجھ میں نہیں آسکی کہ وہ سب وہاں کیسے اور کہاں سے آئے۔ ۔ ۔ !
قاء پسند کی) سمجھ میں نہیں آسکی کہ وہ سب وہاں کیسے اور کہاں سے آئے۔ ۔ ۔ !
ارتقاء پسند اپنی دانست میں قدیم اور ترقی یافتہ (دونوں)
مخلوقات کے درمیان قائم کردہ کڑیوں میں موجود روز اَفزوں پیچیدگیوں کو حل
کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ لیکن اِس اِرتقاء کے سلسلے میں اُن کے مفروضے مَن
مانے اور محض اُن کے اپنے ہی ذِہنوں کی اِختراع ہیں۔ (اپنے نظریئے کے تحت
وہ کبھی بھی کماحقہ‘ یہ بات ثابت نہیں کر سکتے کہ) کمال سے (اُن کی) مُراد
کیا ہے؟ مِثال کے طور پر خوشنما رنگوں میں تتلی سب سے بلند مقام رکھتی ہے۔
بجلی کے آلات کے حوالے سے چمگادڑ کا کوئی جواب نہیں جو ایک بہترین ریڈار کی
نظر کی حامل ہوتی ہے۔ یاداشت کو محفوظ رکھنے اور دِماغ کے زیادہ وزن کے
معاملے میں ڈولفن سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے۔ اور جنگی معاملات کے حوالے سے
دِیمک جو ایک چیونٹی سے بھی چھوٹی ہوتی ہے،
تمام مخلوقات سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اُس کا ہتھیار اَیسا زہر ہے جس کا
نقطۂ کھولاؤ 100ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو اُس کے ماحول کے ہر جسیمے کو مارنے
کی صلاحیت رکھتا ہے۔
چیتا ایک مکمل ہڈیوں اور
بافتوں کے نظام کا مالک ہے تاکہ سبک روی سے دوڑ سکے، چیل کے پاس دنیا کا
بہترینAerodynamic systemہے، ڈولفن کے پاس خاص طور پر تخلیق کیا گیا جسم
اور جلد ہے تاکہ آرام سے پانی میں تیر سکے۔جانوروں میں موجود یہ بے عیب
منصوبہ بندی اس بات کی عکاس ہے کہ جانداروں کی ہر قسم اللہ تعالیٰ کی تخلیق
کردہ ہے۔لیکن ایک قابلِ غور بات ہے کہ صرف مکمل جسم کا مالک ہونا ہی کافی
نہیں، جانور کے لئے یہ علم بھی ضروری ہے کہ اس کامل جسم کو استعمال میں
کیسے لایا جائے۔ایک پرندے کے پر صرف اسی وقت کار آمد ہوتے ہیں جب وہ اڑان
کے آغاز، بلند پرواز اورزمین پر اترنے کے تمام کام کامیابی سے سرانجام دینے
میں معاون ثابت ہوں۔
جب ہم اس دنیا کا مشاھدہ کرتے ہیں تو ہم ایک دلچسپ حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں۔ایک جاندار ہمیشہ اپنے ماحول کی مناسبت سے زندگی بسر کرتا ہے، اور اسکے اس رویہ کا آغاز اسکی پیدائش کے لمحے کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔بارہ سنگھے کے بچے کو اپنی پیدائش کے محض آدھے گھنٹے کے اندرکھڑا ہونا اور بھاگنا آجاتا ہے۔ کچھوے کے بچے جن کو انکی ماں ریت کے اندر دبا دیتی ہے ، جانتے ہیں کہ ا ن کو انڈے کا خول توڑ کر سطح تک آنا ہے۔وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ انڈے کے خول کو توڑتے ہی انہیں فوراً سمندر تک بھی پہنچنا ہے۔یہ سب باتیں تو یہ تاثر دیتی ہیں کے جاندار اس دنیا میں مکمل تربیت لے کر آتے ہیں۔ ایک اور مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ مکڑی اپنا جال اپنے جسم سے نکلے ہوئے تار سے خود تیار کرتی ہے۔ مکڑی کا جال حیرت انگیز طور پر یکساں موٹائی کے اسٹیل کے تار سے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے،حتیٰ کہ تیز رفتار بڑی مکھیاں بھی جال میں پھنس کر خود کو آزاد نہیں کرواسکتیں۔بلیک وڈو (Black Widow) مکڑی کے جالے میں چپکنے والے گچھے ہوتے ہیں۔شکار کے لئے اس پھندے میں آکر خود کو آزاد کروانا ناممکن ہے ۔مکڑی کا جالا،غیر معمولی حد تک مضبوط، لچکداراور چپکنے والا ہوتا ہے۔محض ایک پھندہ ہونے سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کے یہ جال مکڑی کا اپنے ہی جسم کاایک حصہ ہے۔
مکڑی جال میں پھنسنے والے شکار کی وجہ سے پیدا ہونے والا ہلکا سا ارتعاش بھی محسوس کر لیتی ہے اور اسے کسی تاخیر کے بغیر قابو کر لیتی ہے۔مکڑی یہ جال اپنے جسم کے پچھلے چوتھائی حصے سے تیار کرتی ہے۔ ایک خاص قسم کے عضو سے تیار کئے گئے اس جال کومکڑی اپنی ٹانگوں سے کھینچتی ہے۔جال کی سطح پر موجود گچھے بوقت ضرورت کھل جاتے ہیں اور جال کھل کر کشادہ ہو جاتا ہے۔بلاشبہ خدا کے عطا کئے ہوے وجدان کی بدولت ہی مکڑی اس قابل ہوتی ہے کہ ایک تعمیری عجوبہ تخلیق کر سکے۔ قدرت نے ایسے اورجانور بھی تخلیق کئے ہیں جو مکڑی کی طرح حیرت انگیز گھر تعمیر کر سکتے ہیں، شہد کی مکھیاں جو شش جہت چھتے تیار کر سکتی ہیں، اود بلاؤ کے تعمیر شدہ بند جو انجینیرنگ کے عمدہ حساب کتاب کے عین مطابق ہوتے ہیں۔دیمک کے اندھے کیڑے جو کئی منزلہ عمارت تیار کر لیتے ہیں،یہ اور اس طرح کی دوسرے کئی جاندارانہی مہارتوں کے ذریعے خدا کے ودیعت کردہ جوہروں سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک خدا کے ہی احکام بجا لاتا ہے۔
جب ہم اس دنیا کا مشاھدہ کرتے ہیں تو ہم ایک دلچسپ حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں۔ایک جاندار ہمیشہ اپنے ماحول کی مناسبت سے زندگی بسر کرتا ہے، اور اسکے اس رویہ کا آغاز اسکی پیدائش کے لمحے کے ساتھ ہی ہو جاتا ہے۔بارہ سنگھے کے بچے کو اپنی پیدائش کے محض آدھے گھنٹے کے اندرکھڑا ہونا اور بھاگنا آجاتا ہے۔ کچھوے کے بچے جن کو انکی ماں ریت کے اندر دبا دیتی ہے ، جانتے ہیں کہ ا ن کو انڈے کا خول توڑ کر سطح تک آنا ہے۔وہ اس بات سے بھی واقف ہیں کہ انڈے کے خول کو توڑتے ہی انہیں فوراً سمندر تک بھی پہنچنا ہے۔یہ سب باتیں تو یہ تاثر دیتی ہیں کے جاندار اس دنیا میں مکمل تربیت لے کر آتے ہیں۔ ایک اور مثال میں ہم دیکھتے ہیں کہ مکڑی اپنا جال اپنے جسم سے نکلے ہوئے تار سے خود تیار کرتی ہے۔ مکڑی کا جال حیرت انگیز طور پر یکساں موٹائی کے اسٹیل کے تار سے پانچ گنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے،حتیٰ کہ تیز رفتار بڑی مکھیاں بھی جال میں پھنس کر خود کو آزاد نہیں کرواسکتیں۔بلیک وڈو (Black Widow) مکڑی کے جالے میں چپکنے والے گچھے ہوتے ہیں۔شکار کے لئے اس پھندے میں آکر خود کو آزاد کروانا ناممکن ہے ۔مکڑی کا جالا،غیر معمولی حد تک مضبوط، لچکداراور چپکنے والا ہوتا ہے۔محض ایک پھندہ ہونے سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کے یہ جال مکڑی کا اپنے ہی جسم کاایک حصہ ہے۔
مکڑی جال میں پھنسنے والے شکار کی وجہ سے پیدا ہونے والا ہلکا سا ارتعاش بھی محسوس کر لیتی ہے اور اسے کسی تاخیر کے بغیر قابو کر لیتی ہے۔مکڑی یہ جال اپنے جسم کے پچھلے چوتھائی حصے سے تیار کرتی ہے۔ ایک خاص قسم کے عضو سے تیار کئے گئے اس جال کومکڑی اپنی ٹانگوں سے کھینچتی ہے۔جال کی سطح پر موجود گچھے بوقت ضرورت کھل جاتے ہیں اور جال کھل کر کشادہ ہو جاتا ہے۔بلاشبہ خدا کے عطا کئے ہوے وجدان کی بدولت ہی مکڑی اس قابل ہوتی ہے کہ ایک تعمیری عجوبہ تخلیق کر سکے۔ قدرت نے ایسے اورجانور بھی تخلیق کئے ہیں جو مکڑی کی طرح حیرت انگیز گھر تعمیر کر سکتے ہیں، شہد کی مکھیاں جو شش جہت چھتے تیار کر سکتی ہیں، اود بلاؤ کے تعمیر شدہ بند جو انجینیرنگ کے عمدہ حساب کتاب کے عین مطابق ہوتے ہیں۔دیمک کے اندھے کیڑے جو کئی منزلہ عمارت تیار کر لیتے ہیں،یہ اور اس طرح کی دوسرے کئی جاندارانہی مہارتوں کے ذریعے خدا کے ودیعت کردہ جوہروں سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک خدا کے ہی احکام بجا لاتا ہے۔
’’کوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں جسکی پیشانی اسکے قبضے میں
نہ ہو‘‘۔( سورۃ ھود۔ 56)
نہ ہو‘‘۔( سورۃ ھود۔ 56)
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے
کہ اِن سب کو کس نے اِرتقائی عمل سے گزارا؟ اور اِن کا اِرتقاء کس مخلوق
سے عمل میں آیا؟ کیمیائی جنگ کے سلسلے میں تو بوزنہ(Ape) اِس حقیر دِیمک سے
بہت پیچھے رَہ جانے والی قدیم مخلوق ہے۔ (پھر یہ زِندہ مخلوقات میں سے
اِنسان کے قریب ترین مخلوق کیونکر کہلا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟)
3۔ ارتقائی سلسلہ کی درمیانی کڑیاں
اس نظریہ پر تیسرا اعتراض
یہ ہے کہ ارتقائی سلسلہ کی درمیانی کڑیاں غائب ہیں۔ مثلاً جوڑوں والے اور
بغیر جوڑوں والے جانوروں کی درمیانی کڑی موجود نہیں ۔فقری اور غیر فقری
جانوروں کی درمیانی کڑی بھی مفقود ہے۔ مچھلیوں اور ان حیوانات کے درمیان کی
کڑی بھی مفقود ہے جو خشکی اور پانی کے جانور کہلاتے ہیں اسی طرح رینگنے
والے جانوروں اور پرندوں اور رینگنے والے ممالیہ جانوروں کی درمیانی کڑیاں
بھی مفقود ہیں ۔اس نظریہ کی یہ دشواری ہے جو سو سال سے زیر بحث چلی آرہی
ہے۔بعض نظریہ ٴ قائلین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ درمیانی کڑی کاکام جب
پورا ہو چکتا ہے تو وہ از خود غائب ہوجاتی ہے اس جواب میں جتنا وزن یا
معقولیت ہے اس کا آپ خو د اندازہ کرسکتے ہیں۔
جب زمینی پرتوں اور رکازی
ریکارڈ کا مطالعہ کیاجاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ جاندار ایک ساتھ نمودار
ہوئے تھے۔ زمین کی وہ قدیم ترین پرت، جس سے جاندار مخلوقات کے رکاز دریافت
ہوئے ہیں، وہ ’’کیمبری‘‘ (Cambrian) ہے جس کی عمر 52 سے 53 کروڑ سال
ہے۔کیمبری عصر (Cambrain Period) کی پرتوں سے ملنے والے جانداروں کے رکازات
پہلے سے کسی بھی جدِ امجد کی غیر موجودگی میں، اچانک ہی متعدد انواع کے
ظاہر ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ پیچیدہ مخلوقات سے تشکیل پایا ہوا یہ وسیع و
عریض اور خوبصورت منظر نامہ اتنی تیزی سے، اور اتنے معجزانہ انداز میں
ابھرتا ہے کہ سائنسی اصطلاح میں ا سے ’’کیمبری دھماکہ‘‘ (Cambrian
Explosion) کا نام دے دیا گیا ہے۔
اس پرت سے دریافت ہونے والے بیشتر جانداروں میں بہت ترقی یافتہ اور پیچیدہ اعضاء مثلاً آنکھیں، گلپھڑے اور نظام دورانِ خون وغیرہ موجود تھے۔ رکازی ریکارڈ میں ایسی کوئی علامت نہیں جو یہ بتا سکے کہ ان جانداروں کے بھی آباؤ اجداد تھے۔ Earth Sciences نامی جریدے کے مدیر رچرڈ مونسٹارسکی، جاندار انواع کے اس طرح اچانک ظاہر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’نصف ارب سال پہلے نمایاں طور پر پیچیدہ ساخت والے جانور، جیسے کہ ہم آج دیکھتے ہیں، اچانک ظاہر ہوگئے۔ یہ موقع یعنی زمین پر کیمبری عصر کا آغاز (تقریباً 55 کروڑ سال پہلے)، ایک ایسے ارتقائی دھماکے کی مانند ہے جس نے زمین کے سمندروں کو اوّلین پیچیدہ جانداروں سے بھر دیا تھا۔ جانداروں کے وسیع فائلم (Phyla) ، جن کا آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں، ابتدائی کیمبری عصر میں بھی موجود تھے اور ایک دوسرے سے اتنے ہی جداگانہ اور ممتاز تھے جتنے کہ آج ہیں ‘‘۔ زمین اچانک ہی ہزاروں مختلف جانوروں کی انواع سے کس طرح لبریز ہوگئی تھی؟ جب اس سوال کا جواب نہیں مل سکا تو ارتقائی ماہرین، کیمبری عصر سے قبل 2 کروڑ سال پر محیط ایک تخیلاتی عصر پیش کرنے لگے جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ کس طرح سے زندگی ارتقاء پذیر ہوئی اور یہ کہ ’’کچھ نامعلوم واقعہ ہوگیا‘‘۔ یہ عصر (Period) ’’ارتقائی خلاء‘‘ (Evolutionary Gap) کہلاتا ہے۔
اس دوران میں حقیقتاً کیا ہوا تھا؟ اس بارے میں بھی اب تک کوئی شہادت نہیں مل سکی ہے اور یہ تصور بھی نمایاں طور سے مبہم اور غیر واضح ہے۔ 1984 ء میں جنوب مغربی چین میں چنگ ژیانگ کے مقام پر وسطی ینان کی سطح مرتفع سے متعدد پیچیدہ غیر فقاری جانداروں (Invertebrates) کے رکازات برآمد ہوئے۔ ان میں ٹرائلوبائٹس (Trilobites) بھی تھے، جو اگرچہ آج معدوم ہوچکے ہیں لیکن وہ اپنی ساخت کی پیچیدگی کے معاملے میں کسی بھی طرح سے جدید غیر فقاریوں سے کم نہیں تھے۔ سویڈن کے ارتقائی ماہر معدومیات (Evolutionary Paleontologist) اسٹیفن بنگسٹن نے اس کیفیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے: ’’اگر زندگی کی تاریخ میں کوئی واقعہ، انسانی تخلیق کی دیو مالا سے مماثلت رکھتا ہے، تو وہ سمندری حیات کی یہی اچانک تنوع پذیری (diversification) ہے جب کثیر خلوی جاندار؛ ماحولیات (ecology) اور ارتقاء میں مرکزی اداکار کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ ڈاروِن سے اختلاف کرتے ہوئے اس واقعے نے اب تک ہمیں پریشان (اور شرمندہ) کیا ہوا ہے‘‘۔ ان پیچیدہ جانداروں کا اچانک اور آباؤاجداد کے بغیر وجود میں آجانا واقعتاً آج کے ارتقاء پرستوں کے لئے اتنی ہی پریشانی (اور شرمندگی) کا باعث ہے، جتنا ڈیڑھ سو سال پہلے ڈاروِن کے لئے تھا۔ رکازی ریکارڈ کی شہادتوں میں یہ امر بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جاندار اجسام کسی ابتدائی شکل سے ترقی یافتہ حالت میں ارتقاء پذیر نہیں ہوئے بلکہ اچانک ہی ایک مکمل حالت کے ساتھ زمین پر نمودار ہوگئے۔
درمیانی (انتقالی) شکلوں کی عدم موجودگی صرف کیمبری عصر تک ہی محدود نہیں۔ فقاریوں (ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں) کے مبینہ تدریجی ارتقاء کے ثبوت میں بھی آج تک اس طرح کی کوئی درمیانی شکل دریافت نہیں کی جاسکی۔ چاہے وہ مچھلی ہو، جل تھلئے (amphibians) ہوں، ہوّام ہوں، پرندے ہوں یا ممالیہ ہوں۔ رکازی ریکارڈ کے اعتبار سے بھی ہر جاندار نوع کا اچانک اپنی موجودہ، پیچیدہ اور مکمل حالت میں آنا ہی ثابت ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جاندار انواع، ارتقاء کے ذریعے وجود میں نہیں آئیں۔۔۔ انہیں تخلیق کیا گیا ہے۔
اس پرت سے دریافت ہونے والے بیشتر جانداروں میں بہت ترقی یافتہ اور پیچیدہ اعضاء مثلاً آنکھیں، گلپھڑے اور نظام دورانِ خون وغیرہ موجود تھے۔ رکازی ریکارڈ میں ایسی کوئی علامت نہیں جو یہ بتا سکے کہ ان جانداروں کے بھی آباؤ اجداد تھے۔ Earth Sciences نامی جریدے کے مدیر رچرڈ مونسٹارسکی، جاندار انواع کے اس طرح اچانک ظاہر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’نصف ارب سال پہلے نمایاں طور پر پیچیدہ ساخت والے جانور، جیسے کہ ہم آج دیکھتے ہیں، اچانک ظاہر ہوگئے۔ یہ موقع یعنی زمین پر کیمبری عصر کا آغاز (تقریباً 55 کروڑ سال پہلے)، ایک ایسے ارتقائی دھماکے کی مانند ہے جس نے زمین کے سمندروں کو اوّلین پیچیدہ جانداروں سے بھر دیا تھا۔ جانداروں کے وسیع فائلم (Phyla) ، جن کا آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں، ابتدائی کیمبری عصر میں بھی موجود تھے اور ایک دوسرے سے اتنے ہی جداگانہ اور ممتاز تھے جتنے کہ آج ہیں ‘‘۔ زمین اچانک ہی ہزاروں مختلف جانوروں کی انواع سے کس طرح لبریز ہوگئی تھی؟ جب اس سوال کا جواب نہیں مل سکا تو ارتقائی ماہرین، کیمبری عصر سے قبل 2 کروڑ سال پر محیط ایک تخیلاتی عصر پیش کرنے لگے جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ کس طرح سے زندگی ارتقاء پذیر ہوئی اور یہ کہ ’’کچھ نامعلوم واقعہ ہوگیا‘‘۔ یہ عصر (Period) ’’ارتقائی خلاء‘‘ (Evolutionary Gap) کہلاتا ہے۔
اس دوران میں حقیقتاً کیا ہوا تھا؟ اس بارے میں بھی اب تک کوئی شہادت نہیں مل سکی ہے اور یہ تصور بھی نمایاں طور سے مبہم اور غیر واضح ہے۔ 1984 ء میں جنوب مغربی چین میں چنگ ژیانگ کے مقام پر وسطی ینان کی سطح مرتفع سے متعدد پیچیدہ غیر فقاری جانداروں (Invertebrates) کے رکازات برآمد ہوئے۔ ان میں ٹرائلوبائٹس (Trilobites) بھی تھے، جو اگرچہ آج معدوم ہوچکے ہیں لیکن وہ اپنی ساخت کی پیچیدگی کے معاملے میں کسی بھی طرح سے جدید غیر فقاریوں سے کم نہیں تھے۔ سویڈن کے ارتقائی ماہر معدومیات (Evolutionary Paleontologist) اسٹیفن بنگسٹن نے اس کیفیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے: ’’اگر زندگی کی تاریخ میں کوئی واقعہ، انسانی تخلیق کی دیو مالا سے مماثلت رکھتا ہے، تو وہ سمندری حیات کی یہی اچانک تنوع پذیری (diversification) ہے جب کثیر خلوی جاندار؛ ماحولیات (ecology) اور ارتقاء میں مرکزی اداکار کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ ڈاروِن سے اختلاف کرتے ہوئے اس واقعے نے اب تک ہمیں پریشان (اور شرمندہ) کیا ہوا ہے‘‘۔ ان پیچیدہ جانداروں کا اچانک اور آباؤاجداد کے بغیر وجود میں آجانا واقعتاً آج کے ارتقاء پرستوں کے لئے اتنی ہی پریشانی (اور شرمندگی) کا باعث ہے، جتنا ڈیڑھ سو سال پہلے ڈاروِن کے لئے تھا۔ رکازی ریکارڈ کی شہادتوں میں یہ امر بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جاندار اجسام کسی ابتدائی شکل سے ترقی یافتہ حالت میں ارتقاء پذیر نہیں ہوئے بلکہ اچانک ہی ایک مکمل حالت کے ساتھ زمین پر نمودار ہوگئے۔
درمیانی (انتقالی) شکلوں کی عدم موجودگی صرف کیمبری عصر تک ہی محدود نہیں۔ فقاریوں (ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں) کے مبینہ تدریجی ارتقاء کے ثبوت میں بھی آج تک اس طرح کی کوئی درمیانی شکل دریافت نہیں کی جاسکی۔ چاہے وہ مچھلی ہو، جل تھلئے (amphibians) ہوں، ہوّام ہوں، پرندے ہوں یا ممالیہ ہوں۔ رکازی ریکارڈ کے اعتبار سے بھی ہر جاندار نوع کا اچانک اپنی موجودہ، پیچیدہ اور مکمل حالت میں آنا ہی ثابت ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جاندار انواع، ارتقاء کے ذریعے وجود میں نہیں آئیں۔۔۔ انہیں تخلیق کیا گیا ہے۔
4۔ بقائے اَصلح کی حقیقت
مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کا
ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ تمام مخلوقات ’فطری چناؤ‘ یا ’بقائے اَصلح‘
(Survival of the Fittest) کے قانون کے تابع ہیں۔ اِس سلسلے میں وہ
ڈائنوسار (Dinosaur) کی مِثال دیتے ہیں جس کی نسل (ہزاروں سال پہلے کرۂ
ارضی سے کلیتاً) معدوم ہو گئی تھی۔ لیکن (اِس تصویر کا دُوسرا رُخ کچھ یوں
ہے کہ رُوئے زمین پرموجود) 15لاکھ اَقسام کی زِندہ مخلوقات کے مقابلے میں
معدُوم مخلوقات کی تعداد 100سے زیادہ نہیں ہے۔ اِس موقع پر سب سے اہم بات
یہ ہے کہ بہت سی مخلوقات (اپنے ماحول میں موجود) مشکل ترین حالات کے
باوُجود لاکھوں سالوں سے زِندہ ہیں۔ یہاں ہم اِس سلسلے میں تین اہم مِثالیں
دینا ضروری سمجھتے ہیں :
· اَندھی مچھلی
مچھلی کی ایک ایسی قسم جو
بصارت کی صلاحیّت سے محروم ہے اور سمندر کی تہہ میں رہتی ہے۔ اُس مختصر سے
ماحول میں اُس کے ساتھ ریڈار کے نظام کی حامل اور برقی صلاحیّت کی مدد سے
دیکھنے والی مچھلیوں کی (چند) اَقسام بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر اِرتقاء
پسندوں کی تحقیق درُست ہوتی تو اَندھی مچھلی باقی دونوں اَقسام کی(مچھلیوں
کی) غارت گری سے مفقود ہو چکی ہوتی، لیکن (ہم اِس بات سے بخوبی آگاہ ہیں
کہ) مچھلی کی یہ تینوں اَقسام لاکھوں سالوں سے ایک ساتھ پُرامن طور پر
زِندگی بسر کر رہی ہیں۔
· اَندھا سانپ
یہ دَرحقیقت چھپکلی کی ایک قسم ہے جس کے ہاتھ پاؤں نہیں
ہوتے اِس لئے اِس مخلوق کے لئے زِندگی اِنتہائی دُشوار ہوتی ہے، لیکن اِس
کے باوُجود وہ لاکھوں سال سے (کرۂ ارض پر) موجود ہے۔ وہ (اِس مرورِ اَیام
سے) معدُوم ہوا اور نہ اِرتقائی عمل سے گزر کر (حقیقی) چھپکلی ہی بن سکا۔
اِرتقاء کے بنیادی اُصولوں سے متعلق قصے کہانیاں کہاں گئیں۔ ۔ ۔ ؟
· آسٹریلوی خارپُشت
آسٹریلیا میں ایک خاص قسم کا
خار پُشت پایا جاتا ہے جو اپنے بچے کو کنگرو کی طرح اپنے پیٹ سے مُعلّق
تھیلی میں اُٹھائے پھرتا ہے۔ وہ (ہزارہا سال کے اِرتقائی عمل کے تحت) اپنے
جسم میں ایسا تبدّل کیوں نہیں لاتا جس کی بدولت اِس (تکلیف دِہ) جھلی سے
اُس کی جان چھوٹ جائے اور وہ بھی دُوسرے (عام) خارپُشتوں کی طرح آرام و
سکون سے رہ سکے؟ اِس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ اﷲ ربّ العزّت نے (اُس کے لئے)
ایسا ہی چاہا ہے۔ وہ خارپُشت اپنی زِندگی سے مطمئن ہے اور اُسی طرح تابع
فرمان رہے گا۔ مفروضۂ اِرتقاء کا (کوئی) حامی اِس راز سے کبھی آگاہ نہیں ہو
سکتا کیونکہ وہ اَندھی منطق کے گرداب میں اُلجھا ہوا ہے۔
· انسانی بچے کا دماغ
انسان کے بچے کی پیدائش کے
وقت اس کا دماغ ایک بالغ دماغ کا چوتھائی ہوتا ہے۔ لیکن بڑے دماغ کی جگہ کے
لئے بچے کی کھو پڑی تنا سب کے لحاظ سے اُس کے حجم سے کہیں زیادہ بڑی ہوتی
ہے۔ اور یہ تناسب انسان میں سب پرائیمیٹس سے زیادہ ہے۔ تو جب قدرت نے (اللہ
نےنہیں) ماحول کے مطابق یہ کھوُپڑی اتنی بڑی بنائی تو بقایا انسانی اعضاء
اسی تناسب سے کیوں نہیں بنائے؟ اور بقایا جسمانی حصوں کا تناسب اگر کم رکھا
تو دماغ کے حجم کو اتنا بڑا کیوں بنایا۔ آخر اس کی ضرورت کیا تھی؟ اس
کھوپڑی کے حجم ہی کی وجہ سے کتنی مائیں لاکھوں سالوں سے اپنی جانوں پر
کھیلتی چلی آ رہی ہیں۔ تو کیا واقعی قدرتی انتخاب نے نظریہ ضرورت کے تحت دس
لاکھ سال پہلے انسان کو کروڑوں سال آگے کی چیز دے دی؟ قدرتی انتخاب سے
اتنی بڑی اور خوبصورت غلطی کیسے ہو سکتی ہے؟ جواب بڑاسادہ سا ہے: اللہ
تعالیٰ نے انسان کا دماغ بہت ہی اعلیٰ معیار کا بنایا ہے اور اُس نے جس طرح
چاہا ویساہی بنایا ہے۔ اور اسکی ہر تخلیق کے پیچھے حکمت ہے۔ اُس کی دانائی
ہماری ادنیٰ عقل سے ما ورا ہے۔ فطری چھانٹی (یعنی بقائے اَصلح) کے عجوبہ
کی کوئی حیثیت نہیں، لاتعداد مخلوقات کی نمائش کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ہی
مختلف اَنواعِ حیات کو تخلیق کیا ہے۔
5۔ ڈارون کے ارتقاء کے اصول
چھٹا اعتراض یہ کہ ڈارون نے ارتقاء کے جو اصول بتلائے ہیں وہ مشاہدات کی رو سے صحیح ثابت نہیں ہوتے مثلا ً
الف۔ قانون ِ وراثت کے
متعلق ڈارون کہتا ہے کہ لوگ کچھ عرصہ تک کتوں کی دم کاٹتے رہے جس کانتیجہ
یہ ہوا کہ کتے بے دم پیدا ہونے لگے ۔جس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ عرب اور
عبرانی لوگ عرصہ دراز سے ختنہ کرواتے چلے آرہے ہیں لیکن آج تک کوئی مختون
بچہ پیدا نہیں ہوا ۔
ب۔ ماحول
سے ہم آہنگی پر اعتراض یہ ہےکہ انسان کے پستانوں کا بدنما داغ آج تک کیوں
باقی ہے جس کی کسی دور میں بھی کبھی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی ۔نیز انسان
سےکمتر درجہ کے جانوروں) نروں (میں یہ داغ موجود نہیں تو انسان میں کیسے
آگیا ؟علاوہ ازیں یہ کہ ایک ہی جغرافیائی ماحول میں رہنے والے جانوروں کے
درمیان فرق کیوں ہوتا ہے ؟
6۔ رکاز(Palaentology)کی دریافت
رکاز(Palaentology)کی دریافت
بھی نظریہ ٴ ارتقاء کو باطل قراردیتی ہے ۔رکاز سے مراد انسانی کھوپڑیاں
یاجانوروں کے وہ پنجر اورہڈیاں ہیں جوزمین میں مدفون پائی جاتی ہیں۔نظریہ
ارتقاء کی رو سے کمتر درجہ کے جانوروں کی ہڈیاں زمین کے زیریں حصہ میں اور
اعلیٰ انسان کے رکاز زمین کےبالائی حصہ میں پائےجانے چاہییں جبکہ معاملہ اس
کے برعکس ہے اور رکاز کی دریافت اس نظریہ کی پر زور تردید کرتی ہے۔
7۔ پروٹین کی تشکیل کے مراحل
نظریہ ارتقاء کا یہ دعویٰ
بھی ہے کہ زندگی، ایک خلئے سے شروع ہوئی جو زمین کے ابتدائی ماحول میں
اتفاقاً بن گیا تھا۔ آئیے اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ خلئے کی ساخت کیسی ہوتی
ہے، اس میں کیسے کیسے اسرار پوشیدہ ہیں، اور یہ کہ اسے ’’اتفاقیہ وجود‘‘
قرار دینا بجائے خود کتنی بڑی نامعقولیت ہے۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ آج
بھی، جبکہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں، خلیہ کئی حوالوں سے ہمارے
لئے پراسراریت کا باعث ہے۔ اپنے عملی نظاموں مثلاً مواصلاتی نظام، حرکی
نظام اور خلئے کے انتظام و انصرام وغیرہ کے حوالے سے خلیہ کسی شہر سے کم
پیچیدہ نہیں۔ اس میں توانائی پیدا کرنے والے اسٹیشن بھی ہیں (جن سے حاصل
ہونے والی توانائی، خلئے کے استعمال میں آتی ہے)، زندگی کے لئے مرکزی اہمیت
کے حامل خامرے اور ہارمون تیار کرنے والی فیکٹریاں بھی ہیں، معلومات کا
ذخیرہ (ڈیٹا بینک) بھی ہے جہاں خلئے میں بننے والی کسی بھی پیداوار (شے) کے
بارے میں تفصیلات (معلومات) جمع ہوتی ہیں، جدید تجربہ گاہیں اور
ریفائنریاں بھی ہیں جہاں خام مال کو قابلِ استعمال اور کارآمد شکل میں
تبدیل کیا جاتا ہے، پیچیدہ مواصلاتی نظام اور پائپ لائنیں ہیں جہاں سے خام
مال اور تیار شدہ اشیاء گزرتی ہیں، اور خاص طرح کے پروٹینز سے بنی ہوئی
خلوی جھلی بھی ہے جو خلئے میں اندر آنے اور باہر جانے والے مادوں کو قابو
میں رکھتی ہے۔
یہ تو خلئے کے پیچیدہ نظام کی بہت معمولی سی جھلک ہے۔ زمین کا ابتدائی ماحول تو بہت دور کی بات ہے۔ خلئے کی ترکیب اور کام کرنے کا طریقہ اس قدر پیچیدہ ہیں کہ اسے آج کی جدید ترین آلات سے لیس تجربہ گاہوں میں بھی ’’مصنوعی طور پر‘‘ تیار نہیں کیا جاسکا۔ خلئے کی ساخت میں اینٹوں کا درجہ رکھنے والے امائنو ایسڈز استعمال کرتے ہوئے آج تک خلئے کا ایک جزو (Organelle) بھی تیار نہیں کیا جاسکا (مثلاً مائٹو کونڈریا یا رائبوسوم وغیرہ)، پورا خلیہ تو بہت آگے کی بات ہے۔ ارتقائی اتفاقات کے تحت کسی اولین خلئے کا ازخود وجود میں آجانا اتنا ہی تصوراتی ہے جتنا ایک سینگ والا اُڑن گھوڑا (یونی کورن)۔ پروٹین کا اتفاقات کو چیلنج : بات صرف خلئے تک ہی محدود نہیں، بلکہ قدرتی حالات کے تحت ہزاروں سالمات سے مل کر تشکیل پانے والا پروٹین بنانا بھی ناممکن ہے۔ پروٹین (Protien) وہ قوی البحثہ سالمات ہوتے ہیں جو امائنو ایسڈز کی خاص تعداد کے مخصوص ترتیب میں ملنے پر بنتے ہیں۔ یہی سالمات خلئے کے وجود کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اب تک دریافت ہونے والا چھوٹے سے چھوٹا پروٹین بھی پچاس (50) امائنو ایسڈز پر مشتمل ہے۔ مگر بعض پروٹین سینکڑوں اور ہزاروں امائنو ایسڈز کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ خلئے کی کارکردگی میں پروٹین کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے جبکہ پروٹین کی اپنی بنیاد، امائنو ایسڈز ہیں۔
لیکن اگر پروٹینی زنجیر میں غیر ضروری طور پر کسی امائنو ایسڈ کا اضافہ، کمی یا تبدیلی واقع ہوجائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ پورا پروٹین ہی ناکارہ ہوکر رہ جائے۔ نظریہ ارتقاء، جو امائنو ایسڈز کی ’’حادثانی/ اتفاقیہ تشکیل‘‘ کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے، اپنی بنیادیں پروٹین کی تشکیل پر استوار کرتا ہے۔ امکان (Probability) کے سادہ ترین حساب کے ذریعے ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ پروٹین کی کارآمد ساخت کسی بھی طرح سے اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔ نظامِ قدرت میں کل 20 قسم کےامائنو ایسڈز پائے جاتے ہیں۔ انہی کی مختلف نسبتوں اور تناسبوں کے رد و بدل سے مختلف پروٹین بنتے ہیں۔ اب اگر ہم اوسط جسامت والا کوئی پروٹینی سالمہ فرض کرلیں جو 288 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہو، تو یہ امائنو ایسڈز 10300 مختلف طریقوں کے ذریعے مل کر 288 یونٹوں (امائنو ایسڈز) والی پروٹینی زنجیر بناسکتے ہیں۔ (10300 کا مطلب ہے 1 کے بعد 300 صفر!) ان تمام ممکنہ سلسلوں (زنجیروں) میں سے صرف ایک زنجیر ایسی ہوگی جو ہمارے مطلوبہ خواص کا حامل پروٹین بنائے گی۔ اسے ریاضی کی زبان میں اس طرح سے کہا جائے گا کہ مذکورہ بالا پروٹین حاصل ہونے کا امکان 10300 میں سے صرف ایک (1) ہے۔ امائنو ایسڈز کی باقی زنجیریں یا تو زندگی کے لئے بے کار ہوں گی یا پھر نقصان دہ۔ مطلوبہ خواص کا حامل مفید پروٹین ’’اتفاق سے‘‘ حاصل ہونے کا یہ امکان اس قدر کم ہے کہ اسے تقریباً ناممکن سمجھا جاسکتا ہے۔
مزید یہ کہ 288 امائنو ایسڈز والے پروٹین کی مثال خاصی کم تر درجے کی ہے۔ ورنہ بہت سے بڑے پروٹین ہزاروں امائنو ایسڈز تک کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جب ہم ان پر امکان کے اسی حساب کتاب کا اطلاق کرتے ہیں تو ’’ناممکن‘‘ جیسا لفظ بھی حقیر دکھائی دینے لگتا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایک پروٹین کی اتفاقیہ تشکیل ناممکن ہے تو اس کے مقابلے میں لاکھوں پیچیدہ پروٹینز کا بیک وقت، اور اس قدر منظم انداز سے وجود میں آنا اور خلئے کی تکمیل کرنا، اس سے بھی لاکھوں گنا زیادہ ناممکن ہے۔ پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ خلیہ محض پروٹینز کا مجموعہ نہیں ہے۔ خلئے میں پروٹینز کے علاوہ نیو کلیئک ایسڈز، کاربوہائیڈریٹس، روغنیات اور متعدد انواع و اقسام کے دوسرے کیمیائی مرکبات بھی پائے جاتے ہیں۔۔۔ اور یہ تمام کے تمام اپنی ساخت اور ذمہ داریوں، دونوں کے اعتبار سے مکمل نظم و ضبط کے ساتھ، آپس میں پوری طرح سے ہم آہنگ اور متناسب رہتے ہیں۔ یہاں تک آنے کے بعد ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ خلئے کے لاکھوں پروٹینز میں سے کسی ایک کی تشکیل بھی نظریہ ارتقاء کی مدد سے بیان نہیں کی جاسکتی، چہ جائیکہ خلئے کے ارتقاء پر بحث کی جائے۔
ترکی میں ارتقاء کے مشہور اور مستند ترین ماہر، پروفیسر ڈاکٹر علی دیمر سوئے، اپنی کتاب’’موروثیت اور ارتقاء‘‘ (Kalitim ve Evrim) میں سائٹو کروم سی (Cytochrome-C) نامی اہم خامرے کی اتفاقیہ تشکیل پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’سائٹو کروم سی سلسلے کی (اتفاقیہ) تشکیل کا امکان صفر جتنا ہی ہے۔ یعنی اگر زندگی کے لئے کسی مخصوص (سالماتی) سلسلے کی ضرورت ہے، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بننے کا واقعہ پوری کائنات (کی مجموعی تاریخ) میں صرف ایک مرتبہ ہی ہوا ہوگا۔ بصورتِ دیگر کسی ایسی مابعد الطبیعاتی قوت نے اسے تخلیق کیا ہوگا، جو ہماری سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے۔ آخر الذکر کو تسلیم کرنا سائنسی مقاصد کے اعتبار سے موزوں نہیں۔ لہٰذا ہمیں پہلا مفروضہ ہی ماننا پڑے گا‘‘۔ ان سطور کے بعد ڈاکٹر دیمر سوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مذکورہ امکان، جو صرف اس وجہ سے قبول کیا جاتا ہے کہ یہ ’’سائنس کے مقاصد کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہے‘‘ غیر حقیقت پسندانہ ہے : ’’سائٹو کروم سی بنانے والا، امائنو ایسڈز کا خاص الخاص سلسلہ (اتفاقاً ) وجود میں آجانے کا امکان اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ کسی بندر کا ٹائپ رائٹر استعمال کرتے ہوئے مکمل انسانی تاریخ لکھنا۔۔۔ اس پر یہ بھی مان لینا کہ بندر، ٹائپ رائٹر کی کلیدوں (Keys) کو کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر دبا رہا ہے‘‘۔ پروٹینی زنجیر میں امائنو ایسڈز کا درست تسلسل ہی زندگی کے لئے کافی نہیں۔
اس کے علاوہ ان تمام کے تمام امائنو ایسڈز کا ’’بائیں ہاتھ والا‘‘ (Left Handed) ہونا بھی لازمی ہے۔ کیمیائی اعتبار سے امائنو ایسڈز کی دو اقسام ہیں، جن میں سے ایک کو ’’بائیں ہاتھ والے‘‘ اور دوسری کو ’’دائیں ہاتھ والے‘‘ (Right Handed) امائنو ایسڈز کہا جاتا ہے۔ ان کی سہ جہتی ( 3 Dimensional) ساخت کے پیشِ نظر، ان امائنو ایسڈز کا باہمی فرق اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ہمارا اور آئینے میں ہمارے عکس کا۔ اسی چیز کو ’’عکسی تشاکل‘‘ (Mirror Symmetry) بھی کہا جاتا ہے۔ گویا اگر ہم سیدھا (دایاں) ہاتھ ہلائیں گے تو آئینے میں ہمارا عکس اُلٹا (بایاں) ہاتھ ہلائے گا۔ امائنو ایسڈز کا فرق اس طرح سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ بعض لوگ سیدھے (دائیں) ہاتھ سے لکھتے ہیں اور بعض لوگ اُلٹے (بائیں) ہاتھ سے۔ بس یہی فرق دائیں اور بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز میں بھی ہوتا ہے۔
ان دونوں اقسام کے امائنو ایسڈز، قدرتی طور پر یکساں تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہ ایک دوسرے سے جڑنے کی پوری صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، تحقیق سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے کہ جاندار اشیاء میں پائے جانے والے تمام پروٹینز، صرف بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز ہی سے مل کر بنے ہیں۔ اور یہ کہ اگر پروٹین کی سالماتی زنجیر میں دائیں ہاتھ والا کوئی امائنو ایسڈ شامل ہوجائے تو وہ اسے ناکارہ بنا دے گا۔ اب اس مسئلے کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ زندگی واقعی کسی اتفاق کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی تھی، جیسے کہ ارتقاء پرستوں کا دعویٰ ہے۔ ایسی صورت میں ’’اتفاق سے‘‘ بننے والے، دائیں اور بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز کو بھی یکساں تعداد میں ہونا چاہئے تھا۔ یہ سوال کہ آخر پروٹینز صرف بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز ہی سے کیوں بنتے ہیں، اور یہ کہ زندگی کی تخلیق میں دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز نے کوئی کردار کیوں ادا نہیں کیا، آج تک ارتقائی ماہرین کے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے۔
برٹانیکا سائنس انسائیکلو پیڈیا میں، جو ارتقاء کا زبردست حامی بھی ہے، مصنفین یہ بتاتے ہیں کہ زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں اور پروٹین جیسے پیچیدہ پولیمرز (Polymers) کی ساخت میں اینٹوں کا درجہ رکھنے والے امائنو ایسڈز صرف اور صرف بائیں ہاتھ والے ہیں۔ یہیں پر وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ ایسی صورتحال کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے دس لاکھ مرتبہ سکّہ اچھالا جائے اور ہر مرتبہ اس کا صرف ایک ہی رُخ بار بار اوپر آئے۔ اسی انسائیکلوپیڈیا میں وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سالمات کے دائیں یا بائیں ہاتھ والے ہونے کو سمجھنا ناممکن ہے اور یہ کہ اس چیز کا حیرت انگیز طور پر براہ راست تعلق، زمین پر زندگی کی ابتداء سے ہے۔ پروٹین میں امائنو ایسڈز کا صحیح تعداد، صحیح تسلسل اورمطلوبہ سہ جہتی ساخت کے ساتھ ترتیب میں ہونا بھی کافی نہیں۔ (کارآمد) پروٹین بنانے کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ بازوؤں (arms) والے امائنو ایسڈز کے سالمات، مخصوص نوعیت کے بازوؤں والے دوسرے سالمات ہی سے جڑیں۔ اس طرح بننے والے بند ’’پیپٹائڈ بند‘‘ (Peptide Bonds) کہلاتے ہیں۔
امائنو ایسڈز ایک دوسرے کے ساتھ مختلف بند بنا سکتے ہیں لیکن پروٹین صرف اور صرف انہی امائنو ایسڈز سے مل کر بنتا ہے جو آپس میں پیپٹائڈ بند بناتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ اگر امائنو ایسڈز آزادانہ طور پر آپس میں ملاپ کرنے لگیں، یعنی انہیں پابند نہ کیا جائے تو ان میں سے 50 فیصد پیپٹائڈ بند بنائیں گے جبکہ باقی کے 50 فیصد مختلف اقسام کے بند تشکیل دیں گے جو پروٹینز میں موجود نہیں ہوتے۔ مطلب یہ ہوا کہ درست طریقے پر کام کرنے کے لئے، پروٹین بنانے والے ہر امائنو ایسڈ کو دوسرے امائنو ایسڈز کے ساتھ (جو یقیناًبائیں ہاتھ والے ہوں گے) پیپٹائڈ بند ہی بنانا پڑے گا۔ ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے جو دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز کو منتخب یا مسترد کرے اور انفرادی طور پر اس امر کی ضمانت فراہم کرے کہ ہر امائنو ایسڈ، دوسروں کے ساتھ صرف پیپٹائڈ بند ہی بنائے گا۔ ان حالات کے تحت ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ 500 امائنو ایسڈز والا بالکل درست پروٹین ’’اتفاقاً ‘‘ بننے کے کیا امکانات ہیں: درست ترتیب (تسلسل) سے ہونے کا امکان 1/10650 = 1/20500 بائیں ہاتھ والا ہونے کا امکان 1/10150 = 1/2500 پیپٹائڈ بند کے ذریعے متصل ہونے کا امکان 1/10150 = 1/2499 مجموعی امکان 1/10950 ، یعنی 10950 میں سے صرف 1 کا امکان! آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ امکان کس قدر کم ہے۔ یہ تو صرف کاغذی امکان ہے جو پہلی نظر ہی میں ناممکن سے بڑھ کر نظر آرہا ہے ورنہ عملاً اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے کسی اتفاق کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ریاضی میں بھی اگر کسی واقعے کے ہونے کا امکان 1050 میں سے 1 ہو تو اس کی وقوع پذیری کا عملی امکان بھی ’’صفر‘‘ (0) ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ جب 500 یونٹوں والے پروٹین کے اتفاقیہ تشکیل پانے کا امکان اس قدر ناممکن ہے تو بڑے پروٹینز، ناممکنات کی کن حدوں کو پہنچے ہوئے ہوں گے؟ شاید یہ ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ناممکن ہوں۔ ہیموگلوبین کا پروٹین، جو ہمارے خون کا جزوِ لازم ہے، 574 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ نمایاں طور پر مذکورہ بالا مثال والے پروٹین سے بڑا ہے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ ہمارے جسم میں موجود کھربوں سرخ خلیات میں سے ہر ایک خلئے میں لگ بھگ 28 کروڑ ہیموگلوبین پروٹینز موجود ہوتے ہیں۔ زمین کی متصورہ عمر بھی ایسے کسی سالمے کی اتفاقیہ تخلیق کے لئے کم ہے، خون کے سرخ خلیات کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے۔ اس تمام بحث کا خلاصہ اتنا ہے کہ ارتقاء کا نظریہ صرف ایک پروٹین کی تشکیل کے مرحلے پر ہی عدم امکان کی ٹھوکر کھا کر، منہ کے بل گرتا ہے۔۔۔ اور ناکام ہوجاتا ہے۔
یہ تو خلئے کے پیچیدہ نظام کی بہت معمولی سی جھلک ہے۔ زمین کا ابتدائی ماحول تو بہت دور کی بات ہے۔ خلئے کی ترکیب اور کام کرنے کا طریقہ اس قدر پیچیدہ ہیں کہ اسے آج کی جدید ترین آلات سے لیس تجربہ گاہوں میں بھی ’’مصنوعی طور پر‘‘ تیار نہیں کیا جاسکا۔ خلئے کی ساخت میں اینٹوں کا درجہ رکھنے والے امائنو ایسڈز استعمال کرتے ہوئے آج تک خلئے کا ایک جزو (Organelle) بھی تیار نہیں کیا جاسکا (مثلاً مائٹو کونڈریا یا رائبوسوم وغیرہ)، پورا خلیہ تو بہت آگے کی بات ہے۔ ارتقائی اتفاقات کے تحت کسی اولین خلئے کا ازخود وجود میں آجانا اتنا ہی تصوراتی ہے جتنا ایک سینگ والا اُڑن گھوڑا (یونی کورن)۔ پروٹین کا اتفاقات کو چیلنج : بات صرف خلئے تک ہی محدود نہیں، بلکہ قدرتی حالات کے تحت ہزاروں سالمات سے مل کر تشکیل پانے والا پروٹین بنانا بھی ناممکن ہے۔ پروٹین (Protien) وہ قوی البحثہ سالمات ہوتے ہیں جو امائنو ایسڈز کی خاص تعداد کے مخصوص ترتیب میں ملنے پر بنتے ہیں۔ یہی سالمات خلئے کے وجود کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اب تک دریافت ہونے والا چھوٹے سے چھوٹا پروٹین بھی پچاس (50) امائنو ایسڈز پر مشتمل ہے۔ مگر بعض پروٹین سینکڑوں اور ہزاروں امائنو ایسڈز کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ خلئے کی کارکردگی میں پروٹین کا کردار کلیدی اہمیت رکھتا ہے جبکہ پروٹین کی اپنی بنیاد، امائنو ایسڈز ہیں۔
لیکن اگر پروٹینی زنجیر میں غیر ضروری طور پر کسی امائنو ایسڈ کا اضافہ، کمی یا تبدیلی واقع ہوجائے تو بہت ممکن ہے کہ وہ پورا پروٹین ہی ناکارہ ہوکر رہ جائے۔ نظریہ ارتقاء، جو امائنو ایسڈز کی ’’حادثانی/ اتفاقیہ تشکیل‘‘ کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے، اپنی بنیادیں پروٹین کی تشکیل پر استوار کرتا ہے۔ امکان (Probability) کے سادہ ترین حساب کے ذریعے ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ پروٹین کی کارآمد ساخت کسی بھی طرح سے اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔ نظامِ قدرت میں کل 20 قسم کےامائنو ایسڈز پائے جاتے ہیں۔ انہی کی مختلف نسبتوں اور تناسبوں کے رد و بدل سے مختلف پروٹین بنتے ہیں۔ اب اگر ہم اوسط جسامت والا کوئی پروٹینی سالمہ فرض کرلیں جو 288 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہو، تو یہ امائنو ایسڈز 10300 مختلف طریقوں کے ذریعے مل کر 288 یونٹوں (امائنو ایسڈز) والی پروٹینی زنجیر بناسکتے ہیں۔ (10300 کا مطلب ہے 1 کے بعد 300 صفر!) ان تمام ممکنہ سلسلوں (زنجیروں) میں سے صرف ایک زنجیر ایسی ہوگی جو ہمارے مطلوبہ خواص کا حامل پروٹین بنائے گی۔ اسے ریاضی کی زبان میں اس طرح سے کہا جائے گا کہ مذکورہ بالا پروٹین حاصل ہونے کا امکان 10300 میں سے صرف ایک (1) ہے۔ امائنو ایسڈز کی باقی زنجیریں یا تو زندگی کے لئے بے کار ہوں گی یا پھر نقصان دہ۔ مطلوبہ خواص کا حامل مفید پروٹین ’’اتفاق سے‘‘ حاصل ہونے کا یہ امکان اس قدر کم ہے کہ اسے تقریباً ناممکن سمجھا جاسکتا ہے۔
مزید یہ کہ 288 امائنو ایسڈز والے پروٹین کی مثال خاصی کم تر درجے کی ہے۔ ورنہ بہت سے بڑے پروٹین ہزاروں امائنو ایسڈز تک کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جب ہم ان پر امکان کے اسی حساب کتاب کا اطلاق کرتے ہیں تو ’’ناممکن‘‘ جیسا لفظ بھی حقیر دکھائی دینے لگتا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایک پروٹین کی اتفاقیہ تشکیل ناممکن ہے تو اس کے مقابلے میں لاکھوں پیچیدہ پروٹینز کا بیک وقت، اور اس قدر منظم انداز سے وجود میں آنا اور خلئے کی تکمیل کرنا، اس سے بھی لاکھوں گنا زیادہ ناممکن ہے۔ پھر یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ خلیہ محض پروٹینز کا مجموعہ نہیں ہے۔ خلئے میں پروٹینز کے علاوہ نیو کلیئک ایسڈز، کاربوہائیڈریٹس، روغنیات اور متعدد انواع و اقسام کے دوسرے کیمیائی مرکبات بھی پائے جاتے ہیں۔۔۔ اور یہ تمام کے تمام اپنی ساخت اور ذمہ داریوں، دونوں کے اعتبار سے مکمل نظم و ضبط کے ساتھ، آپس میں پوری طرح سے ہم آہنگ اور متناسب رہتے ہیں۔ یہاں تک آنے کے بعد ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ خلئے کے لاکھوں پروٹینز میں سے کسی ایک کی تشکیل بھی نظریہ ارتقاء کی مدد سے بیان نہیں کی جاسکتی، چہ جائیکہ خلئے کے ارتقاء پر بحث کی جائے۔
ترکی میں ارتقاء کے مشہور اور مستند ترین ماہر، پروفیسر ڈاکٹر علی دیمر سوئے، اپنی کتاب’’موروثیت اور ارتقاء‘‘ (Kalitim ve Evrim) میں سائٹو کروم سی (Cytochrome-C) نامی اہم خامرے کی اتفاقیہ تشکیل پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’سائٹو کروم سی سلسلے کی (اتفاقیہ) تشکیل کا امکان صفر جتنا ہی ہے۔ یعنی اگر زندگی کے لئے کسی مخصوص (سالماتی) سلسلے کی ضرورت ہے، تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بننے کا واقعہ پوری کائنات (کی مجموعی تاریخ) میں صرف ایک مرتبہ ہی ہوا ہوگا۔ بصورتِ دیگر کسی ایسی مابعد الطبیعاتی قوت نے اسے تخلیق کیا ہوگا، جو ہماری سمجھ بوجھ سے بالاتر ہے۔ آخر الذکر کو تسلیم کرنا سائنسی مقاصد کے اعتبار سے موزوں نہیں۔ لہٰذا ہمیں پہلا مفروضہ ہی ماننا پڑے گا‘‘۔ ان سطور کے بعد ڈاکٹر دیمر سوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مذکورہ امکان، جو صرف اس وجہ سے قبول کیا جاتا ہے کہ یہ ’’سائنس کے مقاصد کے اعتبار سے زیادہ موزوں ہے‘‘ غیر حقیقت پسندانہ ہے : ’’سائٹو کروم سی بنانے والا، امائنو ایسڈز کا خاص الخاص سلسلہ (اتفاقاً ) وجود میں آجانے کا امکان اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ کسی بندر کا ٹائپ رائٹر استعمال کرتے ہوئے مکمل انسانی تاریخ لکھنا۔۔۔ اس پر یہ بھی مان لینا کہ بندر، ٹائپ رائٹر کی کلیدوں (Keys) کو کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر دبا رہا ہے‘‘۔ پروٹینی زنجیر میں امائنو ایسڈز کا درست تسلسل ہی زندگی کے لئے کافی نہیں۔
اس کے علاوہ ان تمام کے تمام امائنو ایسڈز کا ’’بائیں ہاتھ والا‘‘ (Left Handed) ہونا بھی لازمی ہے۔ کیمیائی اعتبار سے امائنو ایسڈز کی دو اقسام ہیں، جن میں سے ایک کو ’’بائیں ہاتھ والے‘‘ اور دوسری کو ’’دائیں ہاتھ والے‘‘ (Right Handed) امائنو ایسڈز کہا جاتا ہے۔ ان کی سہ جہتی ( 3 Dimensional) ساخت کے پیشِ نظر، ان امائنو ایسڈز کا باہمی فرق اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ہمارا اور آئینے میں ہمارے عکس کا۔ اسی چیز کو ’’عکسی تشاکل‘‘ (Mirror Symmetry) بھی کہا جاتا ہے۔ گویا اگر ہم سیدھا (دایاں) ہاتھ ہلائیں گے تو آئینے میں ہمارا عکس اُلٹا (بایاں) ہاتھ ہلائے گا۔ امائنو ایسڈز کا فرق اس طرح سے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ بعض لوگ سیدھے (دائیں) ہاتھ سے لکھتے ہیں اور بعض لوگ اُلٹے (بائیں) ہاتھ سے۔ بس یہی فرق دائیں اور بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز میں بھی ہوتا ہے۔
ان دونوں اقسام کے امائنو ایسڈز، قدرتی طور پر یکساں تعداد میں پائے جاتے ہیں اور یہ ایک دوسرے سے جڑنے کی پوری صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، تحقیق سے یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے کہ جاندار اشیاء میں پائے جانے والے تمام پروٹینز، صرف بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز ہی سے مل کر بنے ہیں۔ اور یہ کہ اگر پروٹین کی سالماتی زنجیر میں دائیں ہاتھ والا کوئی امائنو ایسڈ شامل ہوجائے تو وہ اسے ناکارہ بنا دے گا۔ اب اس مسئلے کو ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ زندگی واقعی کسی اتفاق کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی تھی، جیسے کہ ارتقاء پرستوں کا دعویٰ ہے۔ ایسی صورت میں ’’اتفاق سے‘‘ بننے والے، دائیں اور بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز کو بھی یکساں تعداد میں ہونا چاہئے تھا۔ یہ سوال کہ آخر پروٹینز صرف بائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز ہی سے کیوں بنتے ہیں، اور یہ کہ زندگی کی تخلیق میں دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز نے کوئی کردار کیوں ادا نہیں کیا، آج تک ارتقائی ماہرین کے لئے دردِ سر بنا ہوا ہے۔
برٹانیکا سائنس انسائیکلو پیڈیا میں، جو ارتقاء کا زبردست حامی بھی ہے، مصنفین یہ بتاتے ہیں کہ زمین پر پائے جانے والے تمام جانداروں اور پروٹین جیسے پیچیدہ پولیمرز (Polymers) کی ساخت میں اینٹوں کا درجہ رکھنے والے امائنو ایسڈز صرف اور صرف بائیں ہاتھ والے ہیں۔ یہیں پر وہ یہ اضافہ بھی کرتے ہیں کہ ایسی صورتحال کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے دس لاکھ مرتبہ سکّہ اچھالا جائے اور ہر مرتبہ اس کا صرف ایک ہی رُخ بار بار اوپر آئے۔ اسی انسائیکلوپیڈیا میں وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سالمات کے دائیں یا بائیں ہاتھ والے ہونے کو سمجھنا ناممکن ہے اور یہ کہ اس چیز کا حیرت انگیز طور پر براہ راست تعلق، زمین پر زندگی کی ابتداء سے ہے۔ پروٹین میں امائنو ایسڈز کا صحیح تعداد، صحیح تسلسل اورمطلوبہ سہ جہتی ساخت کے ساتھ ترتیب میں ہونا بھی کافی نہیں۔ (کارآمد) پروٹین بنانے کے لئے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ بازوؤں (arms) والے امائنو ایسڈز کے سالمات، مخصوص نوعیت کے بازوؤں والے دوسرے سالمات ہی سے جڑیں۔ اس طرح بننے والے بند ’’پیپٹائڈ بند‘‘ (Peptide Bonds) کہلاتے ہیں۔
امائنو ایسڈز ایک دوسرے کے ساتھ مختلف بند بنا سکتے ہیں لیکن پروٹین صرف اور صرف انہی امائنو ایسڈز سے مل کر بنتا ہے جو آپس میں پیپٹائڈ بند بناتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ اگر امائنو ایسڈز آزادانہ طور پر آپس میں ملاپ کرنے لگیں، یعنی انہیں پابند نہ کیا جائے تو ان میں سے 50 فیصد پیپٹائڈ بند بنائیں گے جبکہ باقی کے 50 فیصد مختلف اقسام کے بند تشکیل دیں گے جو پروٹینز میں موجود نہیں ہوتے۔ مطلب یہ ہوا کہ درست طریقے پر کام کرنے کے لئے، پروٹین بنانے والے ہر امائنو ایسڈ کو دوسرے امائنو ایسڈز کے ساتھ (جو یقیناًبائیں ہاتھ والے ہوں گے) پیپٹائڈ بند ہی بنانا پڑے گا۔ ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے جو دائیں ہاتھ والے امائنو ایسڈز کو منتخب یا مسترد کرے اور انفرادی طور پر اس امر کی ضمانت فراہم کرے کہ ہر امائنو ایسڈ، دوسروں کے ساتھ صرف پیپٹائڈ بند ہی بنائے گا۔ ان حالات کے تحت ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ 500 امائنو ایسڈز والا بالکل درست پروٹین ’’اتفاقاً ‘‘ بننے کے کیا امکانات ہیں: درست ترتیب (تسلسل) سے ہونے کا امکان 1/10650 = 1/20500 بائیں ہاتھ والا ہونے کا امکان 1/10150 = 1/2500 پیپٹائڈ بند کے ذریعے متصل ہونے کا امکان 1/10150 = 1/2499 مجموعی امکان 1/10950 ، یعنی 10950 میں سے صرف 1 کا امکان! آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ امکان کس قدر کم ہے۔ یہ تو صرف کاغذی امکان ہے جو پہلی نظر ہی میں ناممکن سے بڑھ کر نظر آرہا ہے ورنہ عملاً اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے کسی اتفاق کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ریاضی میں بھی اگر کسی واقعے کے ہونے کا امکان 1050 میں سے 1 ہو تو اس کی وقوع پذیری کا عملی امکان بھی ’’صفر‘‘ (0) ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ جب 500 یونٹوں والے پروٹین کے اتفاقیہ تشکیل پانے کا امکان اس قدر ناممکن ہے تو بڑے پروٹینز، ناممکنات کی کن حدوں کو پہنچے ہوئے ہوں گے؟ شاید یہ ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر ناممکن ہوں۔ ہیموگلوبین کا پروٹین، جو ہمارے خون کا جزوِ لازم ہے، 574 امائنو ایسڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ نمایاں طور پر مذکورہ بالا مثال والے پروٹین سے بڑا ہے۔ اب ذرا غور کیجئے کہ ہمارے جسم میں موجود کھربوں سرخ خلیات میں سے ہر ایک خلئے میں لگ بھگ 28 کروڑ ہیموگلوبین پروٹینز موجود ہوتے ہیں۔ زمین کی متصورہ عمر بھی ایسے کسی سالمے کی اتفاقیہ تخلیق کے لئے کم ہے، خون کے سرخ خلیات کا تو ذکر ہی چھوڑ دیجئے۔ اس تمام بحث کا خلاصہ اتنا ہے کہ ارتقاء کا نظریہ صرف ایک پروٹین کی تشکیل کے مرحلے پر ہی عدم امکان کی ٹھوکر کھا کر، منہ کے بل گرتا ہے۔۔۔ اور ناکام ہوجاتا ہے۔
8۔: معجزاتی سالمہ
ڈی این اے اب ہم پر یہ انکشاف
ہوچکا ہے کہ نظریہ ارتقاء کسی خلئے کی اساس بننے والے متعددو متنوع سالمات
تک کی معقول وضاحت فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ مزید برآں، جینیات (genetics)
کی آمد اور نیوکلیائی ترشوں (Nucleic Acids)، یعنی ڈی این اے اور آر این اے
کی دریافت نے نظریہ ارتقاء کے لئے مزید نئی مشکلات پیدا کردی ہیں۔ 1953ء
میں ڈی این اے (DNA) پر جیمز واٹسن اور فرانسس کرک کی تحقیق نے حیاتیات کے
میدان میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ کئی سائنسدانوں نے اپنی توجہ جینیات
پر مبذول کرلی۔ آج، برسہا برس کی تحقیق کے بعد، سائنس داں ڈی این اے کی
ساخت کی خاصی بڑی حد تک نقشہ کشی کرچکے ہیں۔ (اس کی مزید تفصیلات جاننے کے لئے گلوبل سائنس، شمارہ جولائی 2000ء بعنوان ’’جینوم اسپیشل‘‘ ملاحظہ فرمائیے۔)
آئیے، اس موقع پر ڈی این اے کی ساخت اور کام کے بارے میں بنیادی معلومات
کا خلاصہ کرتے ہیں: ڈی این اے کہلانے والا عظیم و جسیم سالمہ انسانی جسم کے
کھربوں خلیات میں سے تقریباً ہر خلئے کے مرکزے (Nucleus) میں موجود ہوتا
ہے۔
اسی میں انسانی جسم کی ساخت سے لے کر چھوٹی بڑی تمام خصوصیات کے بارے میں تفصیلی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ان پوشیدہ معلومات کو محفوظ کرنے کے لئے خصوصی ’’رموزی نظام‘‘(Encoding System) استعمال ہوتا ہے۔ ڈی این اے میں تمام تر جینیاتی معلومات، چار خصوصی سالمات کی ترتیب کی شکل میں ہوتی ہیں۔ ان سالمات کو مختصراً G,T,Aاور Cکے انگریزی حروفِ تہجی سے ظاہر کیا جاتا ہے، جو ان کے ناموں کے ابتدائی حروف بھی ہیں۔ مختلف انسانوں میں خدوخال یا دوسری خصوصیات کا فرق انہی چاروں ’’جینیاتی اساس‘‘ (Genetic Bases) کی ترتیب میں معمولی سے رد و بدل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر ہم انسانی جسم کو جینیاتی اساسوں کی زبان میں لکھی ہوئی کتاب سمجھیں تو اس کتاب میں کم و بیش سوا تین ارب (3,250,000,000) حروف تہجی ہوں گے۔ کسی خاص عضو یا پروٹین کی تشکیل کرنے والی جینیاتی معلومات ڈی این اے کے جس خصوصی حصے میں ہوتی ہیں اسے ’’جین‘‘ (Gene) کہا جاتا ہے۔
مثلاً آنکھ کی تشکیل کے بارے میں معلومات، کئی جینز پر مشتمل ایک سلسلے میں موجود ہوتی ہیں، جبکہ دل کی ساخت اور کام وغیرہ کی ساری تفصیلات کے لئے جینز کا ایک اور سلسلہ مخصوص ہوتا ہے۔ خلیہ، پروٹین کی تیاری کے لئے انہی جینز سے حاصل ہونے والی معلومات استعمال کرتا ہے۔ تین جینیاتی اساس مل کر ایک امائنو ایسڈ بنانے کا ’’حکم‘‘ تشکیل دیتے ہیں۔ (تفصیلات کے لئے: ’’یہ جو زندگی کی کتاب ہے‘‘۔ شمارہ جولائی 2000ء (جینوم اسپیشل)، صفحہ نمبر 38 تا 40)۔ اس موقع پر بعض تفصیلات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جین بنانے والے جینیاتی اساسوں کے (جنہیں نیو کلیوٹائیڈ کے متبادل نام سے بھی پکارا جاتا ہے) سلسلے میں ہونے والی صرف ایک غلطی بھی اس جین کو خراب یا ناکارہ کرسکتی ہے۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ انسانی جسم میں لگ بھگ دو لاکھ جین ہوتے ہیں تو مزید واضح ہوجاتا ہے کہ لاکھوں نیوکلیوٹائیڈز کا ’’حادثاتی طور پر‘‘ باہم مل، صحیح تسلسل کے ساتھ آپس میں مربوط ہوکر، کارآمد جین در جین بنانا کس قدر ناممکن ہے۔ ارتقائی حیاتیات داں، فرینک سالسبری اسی نکتے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ایک درمیانے پروٹین میں تقریباً 300 امائنو ایسڈز ہوسکتے ہیں۔ اسے کنٹرول کرنے والے ڈی این اے میں تقریباً 1000 نیوکلیوٹائیڈ (جینیاتی اساس) موجود ہوں گے۔ کیونکہ ڈی این اے کی زنجیر میں چار طرح کے نیوکلیوٹائیڈز ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے 1000 یونٹوں والی زنجیر میں یہ 41000 ممکنہ ترتیبوں میں پائے جاسکتے ہیں۔ تھوڑا سا حساب ہمیں بتاتا ہے کہ 10600 = 41000 یعنی 10 کو 600 مرتبہ اپنے آپ سے ضرب دینے پر ہمیں جو حاصل ضرب ملے گا، وہی یہ رقم ہوگی جس میں 1 کے بعد 600 صفر لگے ہوں گے‘‘۔ اب ذرا غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ 1 کے بعد 11 صفر لگانے پر ہمیں ’’ایک کھرب‘‘ او ر1 کے بعد 13 صفر لگا کر ’’ایک پدم‘‘ جیسے عظیم اعداد حاصل ہوتے ہیں جہاں ہماری گنتی کے پیمانے بھی جواب دے جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ 1 کے بعد 600صفر والے کسی عدد کے سامنے ہماری اپنی قوت بیان بھی کتنی ناکافی محسوس ہوتی ہے؟ اس معاملے میں ارتقائی ماہر، پروفیسر علی دیمر سوئے یہ تک کہنے پر مجبور ہوگئے : ’’کسی پروٹین اور نیوکلیئک ایسڈ (ڈی این اے یا آر این اے) کے اتفاقاً تشکیل پانے کے امکانات درحقیقت ناقابلِ فہم حد تک کم ہیں۔ پھر کسی مخصوص پروٹینی زنجیر کی ارتقاء پذیری کے امکانات تو اس سے بھی کہیں کم تر ہیں‘‘۔ ان تمام ناممکنات کے علاوہ، ڈی این اے اپنی دوہری چکردار زنجیر جیسی ساخت کے باعث حیاتیاتی تعاملات میں براہِ راست حصہ نہیں لے سکتا۔
لہٰذا اسے زندگی کی ارتقائی بنیاد سمجھنا بھی ناممکن ہے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ڈی این اے، بعض خامروں (Enzymes) کی مدد سے اپنی نقلیں تیار کرنے کے قابل ہوتا ہے جبکہ خامرے بذاتِ خود انہی احکامات کے نتیجے میں بنتے ہیں جو ’’جینیاتی رموز‘‘ (Genetic Codes) کی شکل میں، ڈی این اے کے اپنے اندر محفوظ ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ڈی این اے اور خامرے، دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اب یا تو یہ دونوں ایک ساتھ ہی وجود میں آئے تھے یا پھر ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے پہلے ’’تخلیق‘‘ کیا گیا تھا۔ خرد حیاتیات (Microbiology) کے امریکی ماہر جیکب سن اس کیفیت پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں : ’’نسل خیزی، دستیاب ماحول سے توانائی اور (درکار) اجزاء کا حصول، سلسلوں کی افزائش، اور احکامات کو افزائش میں بدلنے والے اثر پذیر نظام کے لئے ساری اور مکمل ہدایات کو اُس وقت (جب زندگی کی ابتداء ہوئی) ایک ساتھ موجود ہونا چاہئے تھا۔ ان واقعات کا بیک وقت وقوع پذیر ہونا اس قدر ناممکن ہے کہ ہماری سمجھ سے ماوراء ہے، اور اکثر کسی خدائی مداخلت کا مرہونِ منت ہی سمجھا جاسکتا ہے‘‘۔ مذکورہ بالا عبارت، ڈی این اے کی ساخت دریافت ہونے کے صرف دو سال بعد تحریر کی گئی تھی۔ بعدازاں سائنس میں ہونے والی بے تحاشا ترقی کے باوجود یہ عقدہ آج بھی ارتقاء پرستوں کے لئے لاینحل بنا ہوا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ نسل خیزی (تولید) میں ڈی این اے کی ضرورت، اس عمل میں بعض پروٹینز (خامروں) کی لازمی موجودگی، اور ڈی این اے میں موجود ہدایات کی مطابقت میں ان پروٹینز کے استعمال ہونے جیسی ضروریات، ارتقائی نظریات کا ہوائی محل ڈھانے کے لئے کافی ہیں۔ جنکر (Junker) اور شیرر (Scherer) نامی دو جرمن سائنس دانوں نے کیمیائی پیمانے پر ارتقاء کے لئے درکار تمام سالمات کی تشکیل کا عمل اور مختلف و متنوع کیفیات کی ضرورت بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ان مادوں کا نہایت مختلف حالات کے تحت وجود پذیر ہوکر، کارآمد انداز میں یکجا ہونا ’’صفر‘‘ امکان کا حامل ہے: ’’اب تک ایسا کوئی تجربہ معلوم نہیں ہوسکا ہے جس کے ذریعے ہم کیمیائی ارتقاء کے لئے درکار تمام ضروری سالمات حاصل کرسکیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مختلف الاقسام سالمات انتہائی موزوں حالات کے تحت مختلف مقامات پر بنائے جائیں اور پھر انہیں ضرر رساں عوامل مثلاً آب پاشیدگی (hydrolysis) اور ضیاء پاشیدگی (Photolysis) وغیرہ سے بچاتے ہوئے، باہمی تعامل کے لئے ایک جگہ پر جمع کیا جائے‘‘۔یعنی نظریہ ارتقاء ان ارتقائی مراحل کی وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہے جو مبینہ طور پر سالماتی سطح پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
اب تک جو کچھ بھی ہم نے کہا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امائنو ایسڈز اور ان کی حاصلات (Products) سے لے کر جانداروں کے خلیات بنانے والے پروٹینز تک، کچھ بھی زمین کے نام نہاد ’’ابتدائی ماحول‘‘ میں ہرگز (ازخود) نہیں بن سکتا تھا۔ علاوہ ازیں دوسرے عوامل جیسے کہ پروٹینز کی نہایت پیچیدہ ساخت، ان کی دائیں یا بائیں ہاتھ والی ساخت، پیپٹائڈ بند بننے کی مشکلات وغیرہ، یہ سب اس ایک سبب کے مختلف اجزاء ہیں جو یہ تعین کرتا ہے کہ نہ تو زمین کے ابتدائی ماحول میں ان کا ’’اتفاق‘‘ سے بننا ممکن تھا اور نہ ہی انہیں مستقبل کے کسی تجربے میں حاصل ہی کیا جاسکے گا۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ پروٹین حادثاتی طور پر کسی طرح سے بن گئے تھے تب بھی ان کی تشکیل بے معنی ہوگی۔ پروٹینز میں اپنی افزائش (Reproduction) کی قطعاً کوئی صلاحیت نہیں۔ پروٹین تو صرف ڈی این اے اور آر این اے جیسے سالمات میں پوشیدہ معلومات کی مطابقت میں بنتے ہیں۔ یعنی پروٹینز کی افزائش، ڈی این اے اور آر این اے کے بغیر ناممکن ہے۔ ڈی این اے کے رموز ہی یہ تعین کرتے ہیں کہ ہر پروٹینی زنجیر میں امائنو ایسڈز کی ترتیب کیا ہوگی۔ مگر وہ تمام لوگ جو اب تک ان سالمات کا مطالعہ کر چکے ہیں، انہوں نے ہی بڑے پیمانے پر یہ واضح کردیا ہے کہ ڈی این اے اور آر این اے کا اتفاقاً بن جانا قطعاً ناممکن ہے۔
اسی میں انسانی جسم کی ساخت سے لے کر چھوٹی بڑی تمام خصوصیات کے بارے میں تفصیلی معلومات پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ان پوشیدہ معلومات کو محفوظ کرنے کے لئے خصوصی ’’رموزی نظام‘‘(Encoding System) استعمال ہوتا ہے۔ ڈی این اے میں تمام تر جینیاتی معلومات، چار خصوصی سالمات کی ترتیب کی شکل میں ہوتی ہیں۔ ان سالمات کو مختصراً G,T,Aاور Cکے انگریزی حروفِ تہجی سے ظاہر کیا جاتا ہے، جو ان کے ناموں کے ابتدائی حروف بھی ہیں۔ مختلف انسانوں میں خدوخال یا دوسری خصوصیات کا فرق انہی چاروں ’’جینیاتی اساس‘‘ (Genetic Bases) کی ترتیب میں معمولی سے رد و بدل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر ہم انسانی جسم کو جینیاتی اساسوں کی زبان میں لکھی ہوئی کتاب سمجھیں تو اس کتاب میں کم و بیش سوا تین ارب (3,250,000,000) حروف تہجی ہوں گے۔ کسی خاص عضو یا پروٹین کی تشکیل کرنے والی جینیاتی معلومات ڈی این اے کے جس خصوصی حصے میں ہوتی ہیں اسے ’’جین‘‘ (Gene) کہا جاتا ہے۔
مثلاً آنکھ کی تشکیل کے بارے میں معلومات، کئی جینز پر مشتمل ایک سلسلے میں موجود ہوتی ہیں، جبکہ دل کی ساخت اور کام وغیرہ کی ساری تفصیلات کے لئے جینز کا ایک اور سلسلہ مخصوص ہوتا ہے۔ خلیہ، پروٹین کی تیاری کے لئے انہی جینز سے حاصل ہونے والی معلومات استعمال کرتا ہے۔ تین جینیاتی اساس مل کر ایک امائنو ایسڈ بنانے کا ’’حکم‘‘ تشکیل دیتے ہیں۔ (تفصیلات کے لئے: ’’یہ جو زندگی کی کتاب ہے‘‘۔ شمارہ جولائی 2000ء (جینوم اسپیشل)، صفحہ نمبر 38 تا 40)۔ اس موقع پر بعض تفصیلات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
جین بنانے والے جینیاتی اساسوں کے (جنہیں نیو کلیوٹائیڈ کے متبادل نام سے بھی پکارا جاتا ہے) سلسلے میں ہونے والی صرف ایک غلطی بھی اس جین کو خراب یا ناکارہ کرسکتی ہے۔ اگر ہم فرض کرلیں کہ انسانی جسم میں لگ بھگ دو لاکھ جین ہوتے ہیں تو مزید واضح ہوجاتا ہے کہ لاکھوں نیوکلیوٹائیڈز کا ’’حادثاتی طور پر‘‘ باہم مل، صحیح تسلسل کے ساتھ آپس میں مربوط ہوکر، کارآمد جین در جین بنانا کس قدر ناممکن ہے۔ ارتقائی حیاتیات داں، فرینک سالسبری اسی نکتے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ایک درمیانے پروٹین میں تقریباً 300 امائنو ایسڈز ہوسکتے ہیں۔ اسے کنٹرول کرنے والے ڈی این اے میں تقریباً 1000 نیوکلیوٹائیڈ (جینیاتی اساس) موجود ہوں گے۔ کیونکہ ڈی این اے کی زنجیر میں چار طرح کے نیوکلیوٹائیڈز ہوتے ہیں، لہٰذا ایسے 1000 یونٹوں والی زنجیر میں یہ 41000 ممکنہ ترتیبوں میں پائے جاسکتے ہیں۔ تھوڑا سا حساب ہمیں بتاتا ہے کہ 10600 = 41000 یعنی 10 کو 600 مرتبہ اپنے آپ سے ضرب دینے پر ہمیں جو حاصل ضرب ملے گا، وہی یہ رقم ہوگی جس میں 1 کے بعد 600 صفر لگے ہوں گے‘‘۔ اب ذرا غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ 1 کے بعد 11 صفر لگانے پر ہمیں ’’ایک کھرب‘‘ او ر1 کے بعد 13 صفر لگا کر ’’ایک پدم‘‘ جیسے عظیم اعداد حاصل ہوتے ہیں جہاں ہماری گنتی کے پیمانے بھی جواب دے جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ 1 کے بعد 600صفر والے کسی عدد کے سامنے ہماری اپنی قوت بیان بھی کتنی ناکافی محسوس ہوتی ہے؟ اس معاملے میں ارتقائی ماہر، پروفیسر علی دیمر سوئے یہ تک کہنے پر مجبور ہوگئے : ’’کسی پروٹین اور نیوکلیئک ایسڈ (ڈی این اے یا آر این اے) کے اتفاقاً تشکیل پانے کے امکانات درحقیقت ناقابلِ فہم حد تک کم ہیں۔ پھر کسی مخصوص پروٹینی زنجیر کی ارتقاء پذیری کے امکانات تو اس سے بھی کہیں کم تر ہیں‘‘۔ ان تمام ناممکنات کے علاوہ، ڈی این اے اپنی دوہری چکردار زنجیر جیسی ساخت کے باعث حیاتیاتی تعاملات میں براہِ راست حصہ نہیں لے سکتا۔
لہٰذا اسے زندگی کی ارتقائی بنیاد سمجھنا بھی ناممکن ہے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ڈی این اے، بعض خامروں (Enzymes) کی مدد سے اپنی نقلیں تیار کرنے کے قابل ہوتا ہے جبکہ خامرے بذاتِ خود انہی احکامات کے نتیجے میں بنتے ہیں جو ’’جینیاتی رموز‘‘ (Genetic Codes) کی شکل میں، ڈی این اے کے اپنے اندر محفوظ ہوتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ڈی این اے اور خامرے، دونوں ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اب یا تو یہ دونوں ایک ساتھ ہی وجود میں آئے تھے یا پھر ان میں سے کسی ایک کو دوسرے سے پہلے ’’تخلیق‘‘ کیا گیا تھا۔ خرد حیاتیات (Microbiology) کے امریکی ماہر جیکب سن اس کیفیت پر کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں : ’’نسل خیزی، دستیاب ماحول سے توانائی اور (درکار) اجزاء کا حصول، سلسلوں کی افزائش، اور احکامات کو افزائش میں بدلنے والے اثر پذیر نظام کے لئے ساری اور مکمل ہدایات کو اُس وقت (جب زندگی کی ابتداء ہوئی) ایک ساتھ موجود ہونا چاہئے تھا۔ ان واقعات کا بیک وقت وقوع پذیر ہونا اس قدر ناممکن ہے کہ ہماری سمجھ سے ماوراء ہے، اور اکثر کسی خدائی مداخلت کا مرہونِ منت ہی سمجھا جاسکتا ہے‘‘۔ مذکورہ بالا عبارت، ڈی این اے کی ساخت دریافت ہونے کے صرف دو سال بعد تحریر کی گئی تھی۔ بعدازاں سائنس میں ہونے والی بے تحاشا ترقی کے باوجود یہ عقدہ آج بھی ارتقاء پرستوں کے لئے لاینحل بنا ہوا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ نسل خیزی (تولید) میں ڈی این اے کی ضرورت، اس عمل میں بعض پروٹینز (خامروں) کی لازمی موجودگی، اور ڈی این اے میں موجود ہدایات کی مطابقت میں ان پروٹینز کے استعمال ہونے جیسی ضروریات، ارتقائی نظریات کا ہوائی محل ڈھانے کے لئے کافی ہیں۔ جنکر (Junker) اور شیرر (Scherer) نامی دو جرمن سائنس دانوں نے کیمیائی پیمانے پر ارتقاء کے لئے درکار تمام سالمات کی تشکیل کا عمل اور مختلف و متنوع کیفیات کی ضرورت بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ان مادوں کا نہایت مختلف حالات کے تحت وجود پذیر ہوکر، کارآمد انداز میں یکجا ہونا ’’صفر‘‘ امکان کا حامل ہے: ’’اب تک ایسا کوئی تجربہ معلوم نہیں ہوسکا ہے جس کے ذریعے ہم کیمیائی ارتقاء کے لئے درکار تمام ضروری سالمات حاصل کرسکیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ مختلف الاقسام سالمات انتہائی موزوں حالات کے تحت مختلف مقامات پر بنائے جائیں اور پھر انہیں ضرر رساں عوامل مثلاً آب پاشیدگی (hydrolysis) اور ضیاء پاشیدگی (Photolysis) وغیرہ سے بچاتے ہوئے، باہمی تعامل کے لئے ایک جگہ پر جمع کیا جائے‘‘۔یعنی نظریہ ارتقاء ان ارتقائی مراحل کی وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہے جو مبینہ طور پر سالماتی سطح پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
اب تک جو کچھ بھی ہم نے کہا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ امائنو ایسڈز اور ان کی حاصلات (Products) سے لے کر جانداروں کے خلیات بنانے والے پروٹینز تک، کچھ بھی زمین کے نام نہاد ’’ابتدائی ماحول‘‘ میں ہرگز (ازخود) نہیں بن سکتا تھا۔ علاوہ ازیں دوسرے عوامل جیسے کہ پروٹینز کی نہایت پیچیدہ ساخت، ان کی دائیں یا بائیں ہاتھ والی ساخت، پیپٹائڈ بند بننے کی مشکلات وغیرہ، یہ سب اس ایک سبب کے مختلف اجزاء ہیں جو یہ تعین کرتا ہے کہ نہ تو زمین کے ابتدائی ماحول میں ان کا ’’اتفاق‘‘ سے بننا ممکن تھا اور نہ ہی انہیں مستقبل کے کسی تجربے میں حاصل ہی کیا جاسکے گا۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ پروٹین حادثاتی طور پر کسی طرح سے بن گئے تھے تب بھی ان کی تشکیل بے معنی ہوگی۔ پروٹینز میں اپنی افزائش (Reproduction) کی قطعاً کوئی صلاحیت نہیں۔ پروٹین تو صرف ڈی این اے اور آر این اے جیسے سالمات میں پوشیدہ معلومات کی مطابقت میں بنتے ہیں۔ یعنی پروٹینز کی افزائش، ڈی این اے اور آر این اے کے بغیر ناممکن ہے۔ ڈی این اے کے رموز ہی یہ تعین کرتے ہیں کہ ہر پروٹینی زنجیر میں امائنو ایسڈز کی ترتیب کیا ہوگی۔ مگر وہ تمام لوگ جو اب تک ان سالمات کا مطالعہ کر چکے ہیں، انہوں نے ہی بڑے پیمانے پر یہ واضح کردیا ہے کہ ڈی این اے اور آر این اے کا اتفاقاً بن جانا قطعاً ناممکن ہے۔
9:۔ہیومن جینوم پرو جیکٹ
آج انسانی جین کی نقشہ کشی
مکمل ہونے پر ثابت ہوگیا ہے کہ انسان اور بندر میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔
ہمیشہ کی طرح اب بھی نظریہ ارتقا کے ماننے والے (ارتقا پرست) اس سائنسی
ترقی کو بھی اپنے مقصد کے تحت استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جیسا کہ سب
جانتے ہیں، حال ہی میں ہیومن جینوم پروجیکٹ کے تحت انسانی جین کی نقشہ کشی
کی تکمیل انسانی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم سائنسی دریافت ہے۔ تاہم ارتقا
پرستوں (Evolutionists) کی بعض تحریروں میں اس پروجیکٹ کے نتائج کو غلط رنگ
دیا جارہا ہے۔ دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ چیمپینزی او ر انسان کے جین میں
۹۸ فی صد یکسانیت پائی جاتی ہے اور اس بات کو انسان اور چیمپینزی کے درمیان
مماثلت اور نظریہ ارتقا کی تصدیق کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ درحقیقت یہ
ایک بے بنیاد دلیل ہے اور ارتقا پرست اس موضوع پر عام افراد کی معلومات کی
کمی کی وجہ سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
اٹھانوے فی صد مماثلت ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے
سب سے پہلے تو ۹۸ فی صد
یکسانیت کے نظرئیے کو واضح کردینا چاہیے کہ جو انسان اور چیمپینزی کے ڈی
این اے کے حوالے سے ارتقا پرستوں نے پھیلایا ہے۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ انسان
اور چیمپینزی کی جینیاتی بناوٹ کے درمیان ۹۸ فی صد مماثلت کے حوالے سے
کوئی دعویٰ کرتے ہوئے انسانی جینوم کی طرح چیمپینزی کے جینوم کی بھی نقشہ
کشی کی جاتی او رپھر دونوں کے جینوم کا موازنہ کیا جاتا۔ اس موازنے کے
نتائج کا مطالعہ کیا جاتا۔ جبکہ ایساکوئی مطالعہ دستیاب نہیں ہے، کیونکہ اب
تک صرف انسانی جین کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ چیمپینزی کے لیے اب تک ایسی
کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور بندر کے جین کے درمیان
۹۸ فی صد مماثلت جو ایک اہم موضوع بن چکا ہے، ایک غلط پروپیگنڈا ہے جو آج
سے برسوں پہلے تیار کرلیا گیا تھا۔ دراصل انسان اور چیمپینزی میں پائی جانے
والی تیس چالیس بنیادی پروٹینز کے امائنو ایسڈز کے سلسلوں (Sequences) کے
درمیان پائی جانے والی مماثلت کی بنیاد پر یہ پروپیگنڈا تیار کیا گیا اور
غیر معمولی مبالغہ آمیزی کے ساتھ اس مماثلت کو بیان کیا گیا۔ اس سلسلے کا
تجزیہ ’’ڈی این اے ہائبریڈائزیشن‘‘ (DNA hybridization) نامی طریقے سے کیا
گیا ہے۔ اگرچہ اس طریقے میں پروٹین کا تجزیہ شامل ہے، لیکن اس میں محدود
پیمانے پر پروٹینز کا موازنہ کیا گیا ہے۔
جبکہ ابھی ایک لاکھ جین باقی ہیں، گویا انسان میں ان جینز میں ایک لاکھ پروٹینز کوڈ ہیں۔چونکہ ایک لاکھ پروٹینز میں سے صرف چالیس میں مماثلت پائی جاتی ہے، اس لیے اس دعوے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے کہ انسان اور بندر کے ۹۸ فی صد جینز یکساں ہیں۔ دوسری جانب ان چالیس پروٹینز پر مشتمل ’’ڈی این اے کا موازنہ‘‘ (DNA comparison) بھی متنازعہ ہے۔ یہ موازنہ ۱۹۸۷ء میں دو ماہرین حیاتیات سبلے (Sibley) اور آلکیسٹ (Ahlquist) نے تیار کیا تھا اور ’مالیکیولر ایوولوشن‘ (Molecular Evolution) نامی جریدے میں شائع ہواتھا۔ تاہم بعد میں سارخ (Sarich) نامی ایک اور سائنس داں نے مذکورہ بالا سائنس دانوں کی معلومات کو جانچا اور کہا کہ ان دونوں نے اس دوران جو طریقہ اختیارکیا اس کا معیار متنازعہ ہے اور نتائج میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے۔ (Sarich et al,1989, Cladisticts, 5:3-32) ۔ ایک اور ماہر حیاتیات ڈاکٹر ڈون بیٹن نے بھی ۱۹۹۶ء میں اس معاملے کا تجزیہ کیا اور کہا کہ اصل مماثلت ۹۸ فی صد نہیں، ۲ء۹۶ فی صد ہے۔ انسان کا ڈی این اے کیڑے، مچھر اور مرغی سے بھی مماثل ہے اوپر ذکر کردہ بنیادی پروٹین کئی دیگر جان داروں میں بھی موجود ہے۔
انسان میں پائے جانے والی والی پروٹین صرف چیمپینزی ہی میں نہیں، بہت سی بالکل مختلف انواع میں بھی پائی جاتی ہے۔مثال کے طور پر ہفتہ روزہ ’نیو سائنٹسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک جینیاتی تجزئیے سے انکشاف ہوا کہ نیماٹوڈی حشرات (Nematode Worms) اور انسان کے ڈی این اے کے مابین ۷۵ فی صد مماثلت پائی جاتی ہے۔ (نیوسائنٹسٹ، ۱۵ مئی ۱۹۹۹ء، صفحہ ۲۷) اس کا یقیناًیہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اور ان حشرات میں صرف ۲۵ فی صد فرق پایا جاتا ہے۔ ارتقا پرستوں کے تیار کردہ ’’ شجرۂ نسب‘‘ (فیملی ٹری) کے مطابق کور ڈاٹا فائیلم( Chordata Phylum236جس میں انسان شامل ہے) اور نیما ٹوڈا فائیلم گروپ کے جان دار آج سے 530 ملین سال پہلے بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ دوسری جانب ایک اور سائنسی مطالعے کے مطابق، پھل مکھی (فروٹ فلائی236 جو ڈروسوفیلا قسم کے جان داروں میں شمار ہوتی ہے) اور انسانی جینز میں ۶۰ فی صد مماثلت پائی جاتی ہے۔ مختلف جان داروں کی پروٹینز پر کیے گئے تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر انسان سے مختلف ہونے کے باوجود ان کے پروٹینز انسانی پروٹین سے بہت مشابہ ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے سطح زمین پر بسنے والے جانوروں کی پروٹین کا موازنہ کیا۔ حیران کن طور پر ان تمام نمونوں میں سے مرغی او رانسان کے نمونوں کو انتہائی قریب پایا گیا۔ اس کے بعد دوسرا قریبی نمونہ ’مگر مچھ‘ کا تھا۔ (نیو سائنٹسٹ، ۱۶ ؍ اگست۱۹۸۴ء، صفحہ ۱۹) انسان اور بندر کے درمیان مماثلت ثابت کرنے کے لیے ارتقا پرست چیمپینزی اور گوریلا کے ۴۸ کروموسوم اور انسان کے ۴۶ کروموسوم کی دلیل پیش کرتے ہیں۔
ارتقا پرست دونوں جنسوں کے درمیان کروموسوم کی تقریباً یکساں تعداد کو ان دونوں کے درمیان ارتقائی رشتے کی علامت کے طورپر بیان کرتے ہیں۔ لیکن اگر ارتقا پرستوں کی اس منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر انسان کا چیمپینزی سے بھی زیادہ قریبی رشتہ ’’ٹماٹر‘‘ سے ہونا چاہیے، کیونکہ ٹماٹر میں کروموسوم کی تعداد انسان میں کروموسوم کی تعداد کے بالکل برابر ہوتی ہے یعنی چھیالیس! جینیاتی مماثلت یا یکسانیت کا خیال، نظریہ ارتقا کی شہادت نہیں دیتا۔ او ر اس کی وجہ یہ ہے کہ جینیاتی مماثلتیں ارتقائی ضابطے (ایوولوشن اسکیم) سے تعلق نہیں رکھتیں (جیسا کہ ظاہر کیا جارہا ہے) اور بالکل الٹ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ جینیاتی مماثلتیں ’’ارتقائی ضابطہ‘‘ کو غلط ثابت کرتی ہیں جب اس حوالے سے مجموعی طورپر غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’حیاتی کیمیائی مماثلتوں‘‘ کا موضوع ارتقا کے شواہد میں سے نہیں ہے بلکہ یہ موضوع تو نظریہ ارتقا کو ایک لغزش قراردیتا ہے۔ ڈاکٹر کرسچین شوابے (ساؤتھ کیرولینا یونیورسٹی کے میڈیکل فیکلٹی میں حیاتی کیمیا کے محقق) ایک ارتقا پرست سائنس داں ہیں جنہوں نے سالموں میں ارتقا کے شواہد تلاش کرنے کے لیے کئی برس صرف کیے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر انسولین اور ریلیکسن ٹائپ پروٹینز (Relaxin-type Proteins) پر تحقیق کی ہے اور مختلف جان داروں کے درمیان ارتقائی رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم انہیں کئی بار اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنی تحقیق کے دوران کبھی بھی ارتقا کے شواہد حاصل نہیں کرسکے۔ جریدہ ’’سائنس میگزین‘‘ میں شائع شدہ ایک مضمون میں انہوں نے کہا:
جبکہ ابھی ایک لاکھ جین باقی ہیں، گویا انسان میں ان جینز میں ایک لاکھ پروٹینز کوڈ ہیں۔چونکہ ایک لاکھ پروٹینز میں سے صرف چالیس میں مماثلت پائی جاتی ہے، اس لیے اس دعوے کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے کہ انسان اور بندر کے ۹۸ فی صد جینز یکساں ہیں۔ دوسری جانب ان چالیس پروٹینز پر مشتمل ’’ڈی این اے کا موازنہ‘‘ (DNA comparison) بھی متنازعہ ہے۔ یہ موازنہ ۱۹۸۷ء میں دو ماہرین حیاتیات سبلے (Sibley) اور آلکیسٹ (Ahlquist) نے تیار کیا تھا اور ’مالیکیولر ایوولوشن‘ (Molecular Evolution) نامی جریدے میں شائع ہواتھا۔ تاہم بعد میں سارخ (Sarich) نامی ایک اور سائنس داں نے مذکورہ بالا سائنس دانوں کی معلومات کو جانچا اور کہا کہ ان دونوں نے اس دوران جو طریقہ اختیارکیا اس کا معیار متنازعہ ہے اور نتائج میں مبالغہ آرائی کی گئی ہے۔ (Sarich et al,1989, Cladisticts, 5:3-32) ۔ ایک اور ماہر حیاتیات ڈاکٹر ڈون بیٹن نے بھی ۱۹۹۶ء میں اس معاملے کا تجزیہ کیا اور کہا کہ اصل مماثلت ۹۸ فی صد نہیں، ۲ء۹۶ فی صد ہے۔ انسان کا ڈی این اے کیڑے، مچھر اور مرغی سے بھی مماثل ہے اوپر ذکر کردہ بنیادی پروٹین کئی دیگر جان داروں میں بھی موجود ہے۔
انسان میں پائے جانے والی والی پروٹین صرف چیمپینزی ہی میں نہیں، بہت سی بالکل مختلف انواع میں بھی پائی جاتی ہے۔مثال کے طور پر ہفتہ روزہ ’نیو سائنٹسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک جینیاتی تجزئیے سے انکشاف ہوا کہ نیماٹوڈی حشرات (Nematode Worms) اور انسان کے ڈی این اے کے مابین ۷۵ فی صد مماثلت پائی جاتی ہے۔ (نیوسائنٹسٹ، ۱۵ مئی ۱۹۹۹ء، صفحہ ۲۷) اس کا یقیناًیہ مطلب نہیں ہے کہ انسان اور ان حشرات میں صرف ۲۵ فی صد فرق پایا جاتا ہے۔ ارتقا پرستوں کے تیار کردہ ’’ شجرۂ نسب‘‘ (فیملی ٹری) کے مطابق کور ڈاٹا فائیلم( Chordata Phylum236جس میں انسان شامل ہے) اور نیما ٹوڈا فائیلم گروپ کے جان دار آج سے 530 ملین سال پہلے بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ دوسری جانب ایک اور سائنسی مطالعے کے مطابق، پھل مکھی (فروٹ فلائی236 جو ڈروسوفیلا قسم کے جان داروں میں شمار ہوتی ہے) اور انسانی جینز میں ۶۰ فی صد مماثلت پائی جاتی ہے۔ مختلف جان داروں کی پروٹینز پر کیے گئے تجزیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر انسان سے مختلف ہونے کے باوجود ان کے پروٹینز انسانی پروٹین سے بہت مشابہ ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے محققین نے سطح زمین پر بسنے والے جانوروں کی پروٹین کا موازنہ کیا۔ حیران کن طور پر ان تمام نمونوں میں سے مرغی او رانسان کے نمونوں کو انتہائی قریب پایا گیا۔ اس کے بعد دوسرا قریبی نمونہ ’مگر مچھ‘ کا تھا۔ (نیو سائنٹسٹ، ۱۶ ؍ اگست۱۹۸۴ء، صفحہ ۱۹) انسان اور بندر کے درمیان مماثلت ثابت کرنے کے لیے ارتقا پرست چیمپینزی اور گوریلا کے ۴۸ کروموسوم اور انسان کے ۴۶ کروموسوم کی دلیل پیش کرتے ہیں۔
ارتقا پرست دونوں جنسوں کے درمیان کروموسوم کی تقریباً یکساں تعداد کو ان دونوں کے درمیان ارتقائی رشتے کی علامت کے طورپر بیان کرتے ہیں۔ لیکن اگر ارتقا پرستوں کی اس منطق کو درست مان لیا جائے تو پھر انسان کا چیمپینزی سے بھی زیادہ قریبی رشتہ ’’ٹماٹر‘‘ سے ہونا چاہیے، کیونکہ ٹماٹر میں کروموسوم کی تعداد انسان میں کروموسوم کی تعداد کے بالکل برابر ہوتی ہے یعنی چھیالیس! جینیاتی مماثلت یا یکسانیت کا خیال، نظریہ ارتقا کی شہادت نہیں دیتا۔ او ر اس کی وجہ یہ ہے کہ جینیاتی مماثلتیں ارتقائی ضابطے (ایوولوشن اسکیم) سے تعلق نہیں رکھتیں (جیسا کہ ظاہر کیا جارہا ہے) اور بالکل الٹ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ جینیاتی مماثلتیں ’’ارتقائی ضابطہ‘‘ کو غلط ثابت کرتی ہیں جب اس حوالے سے مجموعی طورپر غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’حیاتی کیمیائی مماثلتوں‘‘ کا موضوع ارتقا کے شواہد میں سے نہیں ہے بلکہ یہ موضوع تو نظریہ ارتقا کو ایک لغزش قراردیتا ہے۔ ڈاکٹر کرسچین شوابے (ساؤتھ کیرولینا یونیورسٹی کے میڈیکل فیکلٹی میں حیاتی کیمیا کے محقق) ایک ارتقا پرست سائنس داں ہیں جنہوں نے سالموں میں ارتقا کے شواہد تلاش کرنے کے لیے کئی برس صرف کیے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر انسولین اور ریلیکسن ٹائپ پروٹینز (Relaxin-type Proteins) پر تحقیق کی ہے اور مختلف جان داروں کے درمیان ارتقائی رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم انہیں کئی بار اس کا اعتراف کرنا پڑا کہ وہ اپنی تحقیق کے دوران کبھی بھی ارتقا کے شواہد حاصل نہیں کرسکے۔ جریدہ ’’سائنس میگزین‘‘ میں شائع شدہ ایک مضمون میں انہوں نے کہا:
“Molecular evolution is about
to be accepted as a method superior to palaeontology for the discovery
of evolutionary relationships. As a molecular evolutionist I should be
elated. Instead it seems disconcerting that many exceptions exist to the
orderly progression of species as determined by molecular homologies;
so many in fact that I think the exception, the quirks, may carry the
more important message” (Christian Schwabe ‘On the Validity of Molecular
Evolution’, Trends in Biochemical Sciences. V.11, July 1986)
سالماتی حیاتیات میں ہونے
والی نئی دریافتوں کی بنیاد پر ایک ممتاز حیاتی کیمیا داں پروفیسر مائیکل
ڈینٹن کا اس ضمن میں خیا ل ہے کہ :
”Each class at molecular
level is unique, isolated and unlinked by intermediates. Thus,molecules
like fossils, have failed to provide the elusive intermediates so long
sought by evolutionary biology… At a molecular level, no organism is
‘ancestral’ or ‘primitive’ or ‘advanced’ compared with its relatives…
There is little doubt that if this molecular evidence had been available
a century avo… the idea of organic evolution might never been
accepted.” (Michael Denton, Evolution; A Theory in Crisis, London;
Burnett Books 1985 pp.290-291)
مماثلتیں ارتقا کا نہیں،
تخلیق کا ثبوت ہیں انسانی جسم کا کسی دوسری جان دار نوع سے سالماتی مماثلت
رکھنا ایک بالکل قدرتی عمل ہے، کیونکہ یہ سب ایک جیسے سالموں سے بنائے گئے
ہیں، یہ سب ایک ہی پانی اور فضا استعمال کرتے ہیں اور ایک جیسے سالموں پر
مشتمل غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے نظام ہائے استحالہ
(میٹابولزم) اور جینیاتی بناوٹیں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ تاہم اس سے یہ
ثابت نہیں ہوتا کہ ان تمام انواع (انسان اور حیوان) کا جدِ امجد ایک ہی
تھا۔یہ ’’یکساں مادہ‘‘ ارتقا کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ان کا ’’یکساں
ڈیزائن‘‘ ہے، گویا ان سب کو ایک ہی منصوبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہے۔ اس
موضوع کو ایک مثال سے واضح کرنا ممکن ہے: دنیا میں تمام عمارات ایک جیسے
مادے (اینٹ، پتھر، لوہا، سیمنٹ وغیرہ) سے تعمیر کی جاتی ہیں، لیکن اس کا یہ
مطلب یہ نہیں کہ تمام عمارتیں ایک دوسرے سے ارتقا پذیر ہوئی ہیں۔ وہ تمام
علیحدہ علیحدہ، مگر یکساں مادے سے تیار کی گئی ہیں۔ یہی بات جان داروں
(انسانوں اور حیوانوں) کے لیے بھی درست ہے۔ یہ زندگی ایک غیر شعوری، غیر
منصوبہ بند سلسلہ عوامل کا نتیجہ نہیں، جیسا کہ ارتقا پرست دعویٰ کرتے ہیں۔
بلکہ خالق عظیم اللہ عز و جل کی تخلیق کا نتیجہ ہے جو لامحدود علم اور
حکمت کا مالک ہے۔
10۔ جینیاتی تبدّل ہمیشہ تخریبی ہوتا ہے
اِرتقاء کے حامیوں کے نزدیک
اِرتقاء کا عمل تبدّل یعنی جینیاتی خصوصیات میں تبدیلی کے ذریعے وُقوع پذیر
ہوا۔ یہ دعویٰ بھی صحیح معنوں میں حقیقت کو مسخ کرنے کے مُترادف ہے۔ (اصل
حقیقت یہ ہے کہ) تبدّل کبھی بھی تعمیری نہیں ہوتا بلکہ (ہمیشہ) تخریبی ہی
ہوتا ہے۔ تبدّل کو دریافت کرنے والے سائنسدان ملّر (Muller) کے تجربات سے
یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعمیری جینیاتی تبدیلی کا (حقیقت میں) کوئی وُجود
نہیں، جینیاتی تبدیلی ہمیشہ تخریبی ہی ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں کئے جانے
والے تجربات میں بھی یہ حقیقت اِسی طرح عیاں ہوئی کہ (جینیاتی) خصوصیات
تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ تباہ ہوا کرتی ہیں۔ جس کا نتیجہ کینسر یا موت کی
صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے۔ یا پھر بگڑنے والی خصوصیات پہلے سے کمزور
جسیمے کی تخلیق کا باعث بنتی ہیں (جیسا کہ ملّر کی سبز آنکھوں والی مکھی)
آج تک کئے گئے ہزارہا تجربات کے باوُجود کوئی بھی کسی جسیمے میں ہونے والے
(مثبت) تبدّل سے نیا جسیمہ حاصل نہیں کر سکا۔ جبکہ دُوسری طرف ہڈی کے گودے
میں واقع ایک پِدری خلئے کے ذریعے ہر سیکنڈ میں لاکھوں کی تِعداد میں مختلف
نئے خلئے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اگر تبدّل (کے اَفسانے) میں ذرا بھی حقیقت
ہوتی تو اب تک یہ عجوبہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہوتا۔
11۔ ارتقاء پسندوں کی جعلسازیاں)
تصویروں کے ذریعے دھوکےبازی(:
نظریہ ارتقاء کی صداقت جانچنے کا اہم ترین ماخذ، رکازی ریکارڈ ہے۔ جب اس
کا محتاط اور غیر متعصبانہ تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ ریکارڈ ارتقاء کی حمایت
کرنے کے بجائے اسے ماننے سے انکار کردیتا ہے۔ اس کے باوجود، ارتقاء پرستوں
نے رکازوں کی گمراہ کن توجیحات دے کر، اور اپنی طرف سے من پسند وضاحتیں
پیش کرکے عوام کی بھاری اکثریت کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیا ہے کہ یہ
ریکارڈ، ارتقاء کی تائید کرتا ہے۔ چند مشکوک رکازات کی بنیاد پر ایسی
توجیحات گھڑلی جاتی ہیں جن سے ارتقاء پرستوں کا مقصد حل ہوجائے۔ بیشتر
اوقات میں دریافت ہونے والے رکازات موزوں طور پر شناخت کے قابل نہیں ہوتے۔
یہ عموماً ہڈیوں کے بکھرے ہوئے اور نامکمل ٹکڑوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ یہی
وجہ ہے کہ ان سے دستیاب ہونے والی معلومات کو مسخ کرنا اور اپنی مرضی کے
مطابق ڈھال لینا بہت آسان ہوتا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ارتقاء
پرست انہی ادھوری رکازی باقیات کی بنیاد پر تصویروں اور ماڈلوں کی شکل میں
’’تنظیم نو‘ ‘(Reconstructions) کے نام پر جو کچھ پیش کرتے ہیں، وہ ارتقاء
کی تصدیق کرنے والا محض ایک تخیل ہوتا ہے۔ اب کیونکہ بصری معلومات لوگوں
کو زیادہ متاثر کرتی ہیں، لہٰذا تخیل پر قائم کئے گئے یہ ماڈلز انہیں بہ
آسانی قائل کر لیتے ہیں کہ ارتقاء پرستوں کے بتائے ہوئے عجیب و غریب
جاندار، ماضی میں واقعی موجود تھے۔
ارتقائی محققین تو یہ تک کرتے ہیں کہ صرف ایک دانت، جبڑے یا بازو کی ہڈی دیکھ کر انسان جیسے کسی تصوراتی جانور کی پوری تصویر بنا ڈالتے ہیں۔ اور پھر، اسے اس سنسنی خیز انداز سے عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں جیسے وہ انسانی ارتقاء کو ثابت کرنے والی کڑیاں ہوں۔ انہی تصویروں نے کئی لوگوں کے ذہنوں میں ’’(بندر نما) قدیم انسان‘‘ کا عکس قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بچی کچھی ہڈیوں کی بنیاد پر کئے گئے یہ مطالعات کسی متعلقہ جاندار کی صرف عمومی خصوصیات کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ حالانکہ اہم ترین معلومات اور تفصیلات تو نرم بافتوں (یعنی چربی اور گوشت وغیرہ) میں ہوتی ہیں جو بہت جلد مٹی میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ نرم بافتوں کی فرضی وضاحت کے ساتھ ہی ’’تنظیم نو‘‘ کرنے والا ارتقاء پرست ہر اس چیز کو ممکن بنا دیتا ہے جو اس کے تخیل میں سما سکتی ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے ارنسٹ اے ہوٹن اسی طرح کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’نرم حصوں کو بحال کرنے کی کوشش کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ہونٹ، آنکھیں، کان اور ناک کی نوک جیسے حصے اپنے نیچے موجود ہڈی پر کوئی سراغ نہیں چھوڑتے۔
لہٰذا آپ نینڈرتھل نما (Neanderthaloid) جانور کی کھوپڑی پر یکساں سہولت کے ساتھ کسی چمپانزی کے خدوخال یا ایک فلسفی کے نقش و نگار تشکیل دے سکتے ہیں۔ قدیم اقسام کے آدمی کی ایسی مبینہ تنظیم نو کی اگر کوئی سائنسی قدر و قیمت ہے، تو وہ بے حد معمولی ہے اور ممکنہ طور پر صرف عوام کو گمراہ کرنے کا باعث ہے۔۔۔ لہٰذا تنظیم نو پر بھروسہ نہ کیجئے‘‘۔ جھوٹے رکازات بنانے کے لئے کئے گئے ’’مطالعات‘‘ : حقیقت میں ارتقاء کا ثبوت فراہم کرنے والے رکازوں کی عدم دستیابی کے بعد، بعض ارتقاء پرست ماہرین نے اپنے ’’ذاتی رکازات‘‘ بنانے کی کوششیں بھی کر ڈالیں۔ یہ کوششیں جنہیں انسائیکلوپیڈیا بھی ’’ارتقاء کی جعلسازیوں‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کرتے ہیں، اس امر کی واضح شہادت دیتی ہیں کہ نظریہ ارتقاء ایک ایسا نظریاتی ڈھانچہ اور فلسفہ ہے جس کا دفاع، ارتقاء پرست ہر حال میں کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی دو اہم اور بدنام ترین جعلسازیاں ذیل میں بیان کی جارہی ہیں : پلٹ ڈاؤن آدمی (Piltdown Man) : 1912 ء میں ایک مشہور ڈاکٹر اور شوقیہ معدومی بشریات دان (Amateur Paleoanthropologist) چارلس ڈاسن نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے پلٹ ڈاؤن، برطانیہ کے مقام سے جبڑے کی ہڈی اور کھوپڑی کے حصے ملے ہیں۔
اگرچہ یہ کھوپڑی انسانی نما تھی لیکن جبڑا نمایاں طور پر بندروں جیسا تھا۔ ان نمونہ جات کو ’’پلٹ ڈاؤن آدمی‘‘ (Piltdown Man) کا نام دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ رکازات پانچ لاکھ سال قدیم ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ یہ رکازات انسانی ارتقاء کے ضمن میں حتمی ثبوت کا درجہ رکھتے ہیں۔ چالیس سال تک اس ’’پلٹ ڈاؤن آدمی‘‘ پر متعدد مقالہ جات لکھے گئے، کئی تصاویر بنائی گئیں، وضاحتیں پیش کی گئیں اور اس رکاز کو انسانی ارتقاء کی فیصلہ کن شہادت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ مگر 1949ء میں جب سائنس دانوں نے ایک بار پھر اس کا تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ’’رکاز‘‘ بڑی سوچی سمجھی جعلسازی تھا، اور جسے انسانی کھوپڑی کو گوریلے کی ایک قسم (Orangutan) کے جبڑے کی ہڈی سے ملا کر تیار کیا گیا تھا۔فلورین تاریخ نگاری (Fluorine Dating) کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ابتداء میں محققین نے دریافت کیا کہ انسانی کھوپڑی صرف چند ہزار سال پرانی تھی۔ اورنگوٹان کے جبڑے ہڈی میں دانت مصنوعی طور پر پھنسائے گئے تھے۔ علاوہ ازیں ان رکازات کے ساتھ ملنے والے ’’قدیم‘‘ اوزار بھی جعلی تھے جنہیں دھاتی آلات کے ذریعے یہ شکل دی گئی تھی۔
اوکلے، وائنر اور کلارک نامی ماہرین کا یہ مطالعہ 1953ء میں مکمل ہوا اور اسی سال عوام کے سامنے پیش کردیا گیا۔ حتمی نتائج کے مطابق یہ کھوپڑی صرف 500 سال پہلے کے کسی آدمی کی تھی اور نچلے جبڑے کی ہڈی، شکار کئے ہوئے اورنگوٹان سے لی گئی تھی! بعدازاں اس کے دانتوں کو قطار کی شکل دے کر جبڑے میں لگایا گیا اور جوڑوں کو باریک ریتی سے گھس کر ایسے بنایا گیا کہ وہ کسی انسان سے مماثل دکھائی دینے لگیں۔ آخر میں ان سارے ٹکڑوں کو ’’قدیم‘‘ ظاہر کرنے کے لئے پوٹاشیم ڈائی کرومیٹ سے داغدار کردیا گیا۔ (یہ دھبے، تیزاب میں ڈبوتے ہی غائب ہوگئے۔) اس تحقیقی ٹیم کا ایک رکن، لی گروس کلارک اپنی حیرت نہیں چھپا سکا۔چناچہ اس کے الفاظ تھے : ’’مصنوعی خراشوں کی شہادتیں فوراً ہی آنکھوں کے سامنے ابھرتی ہیں۔ عملاً یہ اتنی واضح تھیں کہ یہ پوچھا جاسکتا ہے : یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی نے اتنے لمبے عرصے تک انہیں محسوس ہی نہ کیا ہو؟‘‘ نبراسکا آدمی (Nebraska Man) : 1922ء میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ڈائریکٹر، ہنری فیئر فیلڈ اوسبورن نے اعلان کیا کہ اس نے مغربی نبراسکا میں اسنیک بروک کے قریب سے ڈاڑھ (molar tooth) کا رکاز دریافت کیا ہے جو پلیوسینی عصر (Pliocene Period) سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دانت مبینہ طور پر بیک وقت انسان اور گوریلوں کی مشترکہ خصوصیات کا حامل دکھائی دیتا تھا۔
اس کے بارے میں سائنسی دلائل کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ بعض حلقوں نے کہا کہ یہ دانت ’’پتھے کن تھروپس ایریکٹس‘ ‘(Pithecanthropus Erectus) سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ یہ دانت، جدید انسانی نسل کے زیادہ قریب ہے۔ مختصراً یہ کہ اس ایک دانت کے رکاز کی بنیاد پر زبردست بحث شروع ہوگئی اور اسی سے ’’نبراسکا آدمی‘‘ کے تصور نے بھی مقبولیت حاصل کی۔ اسے فوراً ہی ایک عدد ’’سائنسی نام‘‘ بھی دے دیا گیا: ’’ہیسپیروپتھے کس ہیرلڈ کوکی‘‘!متعدد ماہرین نے اوسبورن کی بھرپور حمایت کی۔ صرف ایک دانت کے سہارے ’’نبراسکا آدمی‘‘ کا سر اور جسم بنایا گیا۔ یہاں تک کہ نبراسکا آدمی کی پورے گھرانے سمیت تصویر کشی کردی گئی۔ 1927ء میں اس کے دوسرے حصے بھی دریافت ہوگئے۔ ان نودر یافتہ حصوں کے مطابق یہ دانت نہ تو انسان کا تھا اور نہ کسی گوریلے کا۔ بلکہ یہ انکشاف ہوا کہ اس دانت کا تعلق معدوم جنگلی سؤروں کی ایک نسل سے تھا جو امریکہ میں پائی جاتی تھی، اور اس کا نام ’’پروستھی نوپس‘‘ (Prosthennops) تھا۔
ارتقائی محققین تو یہ تک کرتے ہیں کہ صرف ایک دانت، جبڑے یا بازو کی ہڈی دیکھ کر انسان جیسے کسی تصوراتی جانور کی پوری تصویر بنا ڈالتے ہیں۔ اور پھر، اسے اس سنسنی خیز انداز سے عوام کے سامنے پیش کردیتے ہیں جیسے وہ انسانی ارتقاء کو ثابت کرنے والی کڑیاں ہوں۔ انہی تصویروں نے کئی لوگوں کے ذہنوں میں ’’(بندر نما) قدیم انسان‘‘ کا عکس قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بچی کچھی ہڈیوں کی بنیاد پر کئے گئے یہ مطالعات کسی متعلقہ جاندار کی صرف عمومی خصوصیات کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ حالانکہ اہم ترین معلومات اور تفصیلات تو نرم بافتوں (یعنی چربی اور گوشت وغیرہ) میں ہوتی ہیں جو بہت جلد مٹی میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ نرم بافتوں کی فرضی وضاحت کے ساتھ ہی ’’تنظیم نو‘‘ کرنے والا ارتقاء پرست ہر اس چیز کو ممکن بنا دیتا ہے جو اس کے تخیل میں سما سکتی ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے ارنسٹ اے ہوٹن اسی طرح کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’نرم حصوں کو بحال کرنے کی کوشش کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ہونٹ، آنکھیں، کان اور ناک کی نوک جیسے حصے اپنے نیچے موجود ہڈی پر کوئی سراغ نہیں چھوڑتے۔
لہٰذا آپ نینڈرتھل نما (Neanderthaloid) جانور کی کھوپڑی پر یکساں سہولت کے ساتھ کسی چمپانزی کے خدوخال یا ایک فلسفی کے نقش و نگار تشکیل دے سکتے ہیں۔ قدیم اقسام کے آدمی کی ایسی مبینہ تنظیم نو کی اگر کوئی سائنسی قدر و قیمت ہے، تو وہ بے حد معمولی ہے اور ممکنہ طور پر صرف عوام کو گمراہ کرنے کا باعث ہے۔۔۔ لہٰذا تنظیم نو پر بھروسہ نہ کیجئے‘‘۔ جھوٹے رکازات بنانے کے لئے کئے گئے ’’مطالعات‘‘ : حقیقت میں ارتقاء کا ثبوت فراہم کرنے والے رکازوں کی عدم دستیابی کے بعد، بعض ارتقاء پرست ماہرین نے اپنے ’’ذاتی رکازات‘‘ بنانے کی کوششیں بھی کر ڈالیں۔ یہ کوششیں جنہیں انسائیکلوپیڈیا بھی ’’ارتقاء کی جعلسازیوں‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کرتے ہیں، اس امر کی واضح شہادت دیتی ہیں کہ نظریہ ارتقاء ایک ایسا نظریاتی ڈھانچہ اور فلسفہ ہے جس کا دفاع، ارتقاء پرست ہر حال میں کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کی دو اہم اور بدنام ترین جعلسازیاں ذیل میں بیان کی جارہی ہیں : پلٹ ڈاؤن آدمی (Piltdown Man) : 1912 ء میں ایک مشہور ڈاکٹر اور شوقیہ معدومی بشریات دان (Amateur Paleoanthropologist) چارلس ڈاسن نے یہ دعویٰ کیا کہ اسے پلٹ ڈاؤن، برطانیہ کے مقام سے جبڑے کی ہڈی اور کھوپڑی کے حصے ملے ہیں۔
اگرچہ یہ کھوپڑی انسانی نما تھی لیکن جبڑا نمایاں طور پر بندروں جیسا تھا۔ ان نمونہ جات کو ’’پلٹ ڈاؤن آدمی‘‘ (Piltdown Man) کا نام دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ یہ رکازات پانچ لاکھ سال قدیم ہیں۔ علاوہ ازیں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ یہ رکازات انسانی ارتقاء کے ضمن میں حتمی ثبوت کا درجہ رکھتے ہیں۔ چالیس سال تک اس ’’پلٹ ڈاؤن آدمی‘‘ پر متعدد مقالہ جات لکھے گئے، کئی تصاویر بنائی گئیں، وضاحتیں پیش کی گئیں اور اس رکاز کو انسانی ارتقاء کی فیصلہ کن شہادت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا۔ مگر 1949ء میں جب سائنس دانوں نے ایک بار پھر اس کا تجزیہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ’’رکاز‘‘ بڑی سوچی سمجھی جعلسازی تھا، اور جسے انسانی کھوپڑی کو گوریلے کی ایک قسم (Orangutan) کے جبڑے کی ہڈی سے ملا کر تیار کیا گیا تھا۔فلورین تاریخ نگاری (Fluorine Dating) کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ابتداء میں محققین نے دریافت کیا کہ انسانی کھوپڑی صرف چند ہزار سال پرانی تھی۔ اورنگوٹان کے جبڑے ہڈی میں دانت مصنوعی طور پر پھنسائے گئے تھے۔ علاوہ ازیں ان رکازات کے ساتھ ملنے والے ’’قدیم‘‘ اوزار بھی جعلی تھے جنہیں دھاتی آلات کے ذریعے یہ شکل دی گئی تھی۔
اوکلے، وائنر اور کلارک نامی ماہرین کا یہ مطالعہ 1953ء میں مکمل ہوا اور اسی سال عوام کے سامنے پیش کردیا گیا۔ حتمی نتائج کے مطابق یہ کھوپڑی صرف 500 سال پہلے کے کسی آدمی کی تھی اور نچلے جبڑے کی ہڈی، شکار کئے ہوئے اورنگوٹان سے لی گئی تھی! بعدازاں اس کے دانتوں کو قطار کی شکل دے کر جبڑے میں لگایا گیا اور جوڑوں کو باریک ریتی سے گھس کر ایسے بنایا گیا کہ وہ کسی انسان سے مماثل دکھائی دینے لگیں۔ آخر میں ان سارے ٹکڑوں کو ’’قدیم‘‘ ظاہر کرنے کے لئے پوٹاشیم ڈائی کرومیٹ سے داغدار کردیا گیا۔ (یہ دھبے، تیزاب میں ڈبوتے ہی غائب ہوگئے۔) اس تحقیقی ٹیم کا ایک رکن، لی گروس کلارک اپنی حیرت نہیں چھپا سکا۔چناچہ اس کے الفاظ تھے : ’’مصنوعی خراشوں کی شہادتیں فوراً ہی آنکھوں کے سامنے ابھرتی ہیں۔ عملاً یہ اتنی واضح تھیں کہ یہ پوچھا جاسکتا ہے : یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی نے اتنے لمبے عرصے تک انہیں محسوس ہی نہ کیا ہو؟‘‘ نبراسکا آدمی (Nebraska Man) : 1922ء میں امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے ڈائریکٹر، ہنری فیئر فیلڈ اوسبورن نے اعلان کیا کہ اس نے مغربی نبراسکا میں اسنیک بروک کے قریب سے ڈاڑھ (molar tooth) کا رکاز دریافت کیا ہے جو پلیوسینی عصر (Pliocene Period) سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دانت مبینہ طور پر بیک وقت انسان اور گوریلوں کی مشترکہ خصوصیات کا حامل دکھائی دیتا تھا۔
اس کے بارے میں سائنسی دلائل کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ بعض حلقوں نے کہا کہ یہ دانت ’’پتھے کن تھروپس ایریکٹس‘ ‘(Pithecanthropus Erectus) سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ یہ دانت، جدید انسانی نسل کے زیادہ قریب ہے۔ مختصراً یہ کہ اس ایک دانت کے رکاز کی بنیاد پر زبردست بحث شروع ہوگئی اور اسی سے ’’نبراسکا آدمی‘‘ کے تصور نے بھی مقبولیت حاصل کی۔ اسے فوراً ہی ایک عدد ’’سائنسی نام‘‘ بھی دے دیا گیا: ’’ہیسپیروپتھے کس ہیرلڈ کوکی‘‘!متعدد ماہرین نے اوسبورن کی بھرپور حمایت کی۔ صرف ایک دانت کے سہارے ’’نبراسکا آدمی‘‘ کا سر اور جسم بنایا گیا۔ یہاں تک کہ نبراسکا آدمی کی پورے گھرانے سمیت تصویر کشی کردی گئی۔ 1927ء میں اس کے دوسرے حصے بھی دریافت ہوگئے۔ ان نودر یافتہ حصوں کے مطابق یہ دانت نہ تو انسان کا تھا اور نہ کسی گوریلے کا۔ بلکہ یہ انکشاف ہوا کہ اس دانت کا تعلق معدوم جنگلی سؤروں کی ایک نسل سے تھا جو امریکہ میں پائی جاتی تھی، اور اس کا نام ’’پروستھی نوپس‘‘ (Prosthennops) تھا۔
12۔ اَپنڈکس ہرگز غیرضروری نہیں
اِرتقاء پسند تو اِس حد تک
گئے ہیں کہ اُن کے نزدیک اِنسان کی آنتوں میں سے اَپنڈکس (Appendix) سلسلۂ
اِرتقاء ہی کی بے مقصد باقیات میں سے ہے۔ حالانکہ اَپنڈکس جسم کے چند
مُستعد ترین اَعضاء میں سے ایک ہے جو نچلے بدن کے لئے لَوزَتین (Tonsils)
کا کام کرتی ہے۔ وہ آنتوں کا لُعاب چھوڑتی اور آنتوں کے بیکٹیریا کی اَقسام
اور اُن کی تِعداد کو باقاعدہ بناتی ہے۔ اِنسانی جسم میں کوئی عضو بھی
ہرگز فضول نہیں ہے بلکہ بہت سے اَعضاء بیک وقت متنوّع اَقسام کے بہت سے
اَفعال سراِنجام دیتے ہیں۔
13۔۔ اَصناف کا تنوّع
اگر مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں
کا دعویٰ درُست ہوتا تو ہر مخلوق میں اَیسا اِرتقاء عمل میں آتا کہ وہ
اَمیبا (Amoeba) سے شروع ہو کر زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ہی قسم کی اَصناف
بناتی چلی جاتی۔ اور یوں اُس امیبا سے ایک ہی قسم کے کیڑے، ایک ہی قسم کی
مچھلی، ایک ہی قسم کے پتنگے اور ایک ہی قسم کے پرندے نکلتے یا زیادہ سے
زیادہ ہر ایک کی چند ایک اَقسام ہو جاتیں۔ (حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ) صرف
پتنگوں کی 3لاکھ سے زیادہ اقسام ہیں۔ پھر یہ کس قسم کا اِرتقاء ہے۔ ۔ ۔ ؟
مزید برآں جانوروں کی تمام
اَنواع میں ہر قسم کی قابلِ تصوّر اَقسام پائی جاتی ہیں۔ جیومیٹری اور
حیاتیات کی تقریباً تمام ممکنہ صورتوں میں مخلوقات کی اَنواع و اَقسام
موجود ہیں۔ رنگوں کے 10,000سے زائد نمونے تو صرف تتلیوں کے پروں میں پائے
جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہر نوع اپنی چھوٹی اور بڑی جسامتیں رکھتی ہے۔ جیسا
کہ :
چھپکلی…………اور…………مگرمچھ
بلی………….اور………….شیر
امریکی چوہا……..اور………….خنزیر
اگر اِرتقاء کا کوئی وُجود
ہوتا تو ہر نوع ایک ہی سمت میں پروان چڑھتی جبکہ اﷲ ربُّ العزّت نے (اپنی)
مخلوقات کی بے شمار اَنواع و اَقسام سے گویا ایک عظیم الشان نمائش کا
اِہتمام کر رکھا ہے۔
14۔ سائنسی علوم کی عدم قبولیت
مختلف سائنسی علوم کے نکتۂ نظر سے اِرتقاء کا عمل حالیہ سالوں میں (مکمل طور پر) ناممکن قرار پا گیا ہے۔
· طبیعیات
علمِ طبیعیات میں کسی قسم کا
کوئی اِرتقاء نہیں ہو سکتا۔ پُراَمن اِرتقاء کے طور پر بھاری عناصر
ہائیڈروجن سے پیدا نہیں ہوئے۔ اِسی لئے اگر آپ ہائیڈروجن کے 2 یا 4 اَیٹموں
کو ملا کر ہیلئم (Helium) بنانا چاہیں گے تو اُس کے نتیجے میں آپ کو
’تھرمونیوکلیئربم‘ (Thermonuclear Bomb) ہی حاصل ہو گا (جس کے سبب) تمام
ماحول ’کھمبی‘ (Mushroom) کی شکل کے دُھویں کے بادلوں سے اَٹ جائے گا۔
· ریاضی
ریاضیاتی اِعتبار سے بھی اِرتقاء بالکل ناممکن ہے۔ اَمیبا سے کیڑا بننے تک اِرتقاء کے لئے جینی کوڈ میں 39×1020
تبدیلیاں مطلوب ہیں، جو فی سیکنڈ ایک تبدیلی کی شرح سے 100کھرب سال گویا
موجودہ کائنات کی عمر سے 500گنا زیادہ وقت میں مکمل ہوسکتی ہیں۔ ایک بوزنہ
(Ape) سے اِنسان بننے کے اِرتقائی عمل کے لئے 3×10520 تبدیلیوں
کی ضرورت ہے، یہ تبدیلیاں اِتنی کثیر تعداد پر مشتمل ہیں کہ اگر ہم اِس
کائنات کی ایک چوتھائی مرکّبات کی قوّت کو زیرِ اِستعمال لائیں تو بھی اُسے
پانے میں قاصر رہیں گے۔ مزید موازنے کے لئے اِتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ
کائنات کا قطر ایک اِلیکٹران کے قطر سے 10124گناسے زیادہ بڑا نہیں ہے۔ اِن سب (حقائق) سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِرتقاء (کا یہ تصوّر) ریاضیاتی ناممکنات میں سے ہے۔
· حیاتیات
حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء
کسی صورت ممکن نہیں۔ آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی سائنسی ذرائع کی
معاونت سے کوئی شخص اِس قابل نہیں ہو سکا کہ ایک ’سسٹرن‘ (Cistron)۔ ۔ ۔ جو
ایک مخصوص پروٹین کے کوڈ کے لئے) DNA (Deoxyribonucleic Acid)کی لمبائی
ہوتی ہے۔ ۔ ۔ میں تبدیلی لا سکے۔ کسی مخلوق میں کامیاب جینیاتی تبدیلی کی
مِثال نہیں ملتی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جینز (Genes)۔ ۔ ۔ جو نامیاتی تعمیر
کے فارمولا کی حامل ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ایک اِنتہائی مخصوص نظام کی حفاظت میں
ہوتی ہیں۔ اگر اَیسا نہ ہوتا تو دُنیا راتوں رات اُوٹ پٹانگ قسم کی مخلوقات
سے بھر جاتی۔ چنانچہ حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کا عمل ناممکن ٹھہرا۔
جیسا کہ ’نِلسن ہیریبرٹ‘ (Nilson Heribert) نے کہا ہے کہ اَنواعِ حیات کچھ
اَیسی ہیں کہ وہ خود بخود بدل سکتی ہیں اور نہ ہی اُنہیں تبدیل کیا جا سکتا
ہے۔
’پروفیسر میکس ویسٹن ہوفر‘
(Prof. Max Westenhofer) نے اپنے مطالعہ (کی روشنی) میں یہ ثابت کیا ہے کہ
مچھلی، پرندے، رینگنے والے جانور اور ممالیہ جانور سب ہمیشہ سے ایک ساتھ
موجود رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ’پروفیسر ویزمین‘ (Prof. Weismann) کے
ہاں ’جاوا کے آدمی‘ (Java Man) کا تصوّر سائنس کا تمسخر اُڑانے کے مُترادف
ہے۔ اِسی طرح ’پروفیسر گِش‘ (Prof. Gish) نے سائنسی معاشرے کو اِس حقیقت
سے آگاہ کیا کہ قدیم اِنسان کا ڈھانچہ جسے ’نبراسکا کا آدمی‘ (Nebraska
Man) کہتے ہیں، مکمل طور پر ایک مصنوعی چیز ہے، اور پورے ڈھانچے کی بنیاد
محض ایک دانت پر ہے۔
یہ ہیں وہ اعتراضات جنہوں نے اس نظریہ کے انجر پنجر تک ہلا
دیئے ہیں ۔گزشتہ ڈیڑھ صدی نے اس نظریہ میں استحکام کے بجائے اس کی جڑیں تک
ہلادی ہیں ۔اب اس نظریہ کے متعلق چند مغربی مفکرین کے اقوال بھی ملاحظہ
فرمالیجئے ۔
نظریہ ارتقاء پر مغربی مفکرین کے تبصرے
ہر میدان میں ارتقاء کو شکست
فاش ہوجانے کے بعد خردحیاتیات (مائیکرو بائیالوجی) کے معتبر ماہرین آج
’’تخلیق‘‘ (Creation)کو حقیقت کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں۔ (ایسے ہی چند
لوگوں نے) اب اس نقطۂ نظر کا بھرپور دفاع کرنا شروع کردیا ہے کہ ہر شے ایک
عظیم ترین خالق نے ’’تخلیق‘‘ کی ہے اور یہ کہ ہر شے اپنی جگہ پر خالقِ عظیم
کی عظیم تر تخلیق کا ایک جزو ہے۔ اس حقیقت کو پہلے ہی سے بہت سے لوگ تسلیم
کرتے ہیں۔ کھلے ذہن سے اپنی تحقیقی کاوشوں کا تجزیہ کرنے والے سائنس دان
اس نقطۂ نظر کو ’’ذہین ڈیزائن‘‘ (Intelligent Design) کا نام دیتے ہیں۔
1۔ ایک اطالوی سائنسدان روزا کہتا ہے کہ گذشتہ ساٹھ سال کے تجربات نظریہ ڈارون کو باطل قرار دے چکے ہیں۔(اسلام اور نظریہ ارتقاء)
2۔ ڈی وریز (De Viries)ارتقاء
کو باطل قرار دیتاہے وہ اس کے بجائے انتقال نوع (Mutation)کاقائل ہے جسے
آج کل فجائی اارتقاء (Emergence Evelution)کانام دیاجاتا ہےاور یہ نظریہ
علت ومعلول کی کڑیاں ملانے سے آزاد ہے۔(ایضاً، ص )59
3۔ ولاس (Wallace)عام ارتقاء کا تو قائل ہے لیکن وہ انسان سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے ۔(ایضاً، ص )61
4۔فرحو کہتا ہے کہ انسان اور بندر میں بہت فرق ہے اوریہ کہنا لغو ہے کہ انسان بندر کی اولاد ہے ۔(ایضاً، ص )61
5۔ میفرٹ کہتا ہے کہ ڈارون کے مذہب کی تائید ناممکن ہے اور اس کی رائے بچوں کی باتوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ۔(ایضاً، ص )61
6۔ آغا سیز کہتا ہے کہ ڈارون کامذہب سائنسی لحاظ سے بالکل غلط اور بے اصل ہے اور اس قسم کی باتوں کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ہوسکتا۔(ایضاً، ص )62
7۔ ہکسلے (Huxley)کہتا ہے کہ
جو دلائل ارتقاء کے لیے دیئے جاتے ہیں ان سے یہ بات قطعاً ثابت نہیں ہوتی
کہ نباتات یا حیوانات کی کوئی نوع کبھی طبعی انتخاب سے پیدا ہوئی ہو۔(ایضاً، ص )63
8۔ ٹنڈل کہتا ہے کہ نظریہ ڈارون قطعاً ناقابل التفات ہے کیونکہ جن مقدمات پر اس نظریہ کی بنیاد ہے وہ قابل تسلیم ہی نہیں ہیں۔(ایضاً، ص )63
9۔دورِ جدید کے ایک سائنسدان
دُواں گِش (Duane Gish) کے بقول اِرتقاء (اِنسان کا جانور کی ترقی یافتہ
قسم ہونا) محض ایک فلسفیانہ خیال ہے، جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ (تخلیق کائنات اور جدید سائنس از ڈاکٹر طاہر القادری)
10۔
جیریمی رِفکن (Jeremy Rifkin) نے اپنے مقالات میں اِس حقیقت کا اِنکشاف
کیا ہے کہ علمِ حیاتیات اور علمِ حیوانات کے بہت سے تسلیم شدہ محققین مثلاً
سی ایچ واڈنگٹن (C. H. Waddington)، پائرے پال گریس (Pierre-Paul Grasse)
اور سٹیفن جے گولڈ (Stephen Jay Gold) نے مفروضۂ اِرتقاء کے حامی نیم
خواندہ سائنسدانوں کے جھوٹ کو طشت اَز بام کر دیا ہے۔ (تخلیق کائنات اور جدید سائنس از ڈاکٹر طاہر القادری)
11۔ پروفیسر گولڈ سمتھ (Prof.
Goldschmidt) اور پروفیسر میکبتھ (Prof. Macbeth) نے دو ٹوک انداز میں
واضح کر دیا ہے کہ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ اِس نظریئے
کے پس منظر میں یہ حقیقت کارفرما ہے کہ نیم سائنسدانوں نے خود ساختہ سائنس
کو اِختیار کیا ہے۔ مفروضۂ اِرتقاء کے حق میں چھپوائی گئی بہت سی تصاویر
بھی جعلی اور مَن گھڑت ہیں۔(تخلیق کائنات اور جدید سائنس از ڈاکٹر طاہر القادری)
نظریہ ارتقاء کی مقبولیت کے اسباب
اب سوال یہ ہے کہ اگریہ نظریہ
ارتقاء اتناہی غیر سائینٹیفک ہے تو یہ مقبول کیسے ہو گیا ۔تو اس کا جواب
یہ ہے کہ اس کا پرچار کرنے والوں میں مادہ پرست ،دہریت پسند اوراشتراکیت
نواز سب شامل ہوجاتےہیں۔دہریت مادہ پرستی ،لاادریت اور اشتراکیت بذات خود
الگ الگ مذہب ہیں۔یہ نظریہ چونکہ الحاد اور اللہ کی ہستی سے انکار کی طرف
لے جاتا ہےلہذاان سب کو ایک دلیل کاکام دیتا ہے ۔ڈارون اصل الانواع لکھنے
سے پہلے خداپرست تھا۔یہ کتاب لکھنے کے بعد لاادریت کے مقام پر آگیا ۔پھر جب
اور بھی دو کتابیں لکھ کر اپنے نظریہ میں پختہ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی
ہستی کامنکر بن گیا اوراہل کلیسا نے اس پر کفر والحاد کا فتویٰ لگادیا۔
نظریہ ارتقاء کی برصغیر میں درآمد اور منکرین قرآن
ہمارے ہاں مغربی افکار سے
مرعوب قرآنی مفکرین نے اسے فوراً اپنا لیا ۔سرسید احمد خان نے جنہوں نے
یورپ میں ایک عرصہ گزارا اور ڈارون کے ہم عصر اور سوامی دیانند سے شدید
متاثر تھے۔اس نظریہ کو فطرت کے مطابق پایا توا سے قبول کرلیا اور آج ادارہ
طلوع اسلام سرسید کی تقلید میں اس نظریہ کے پرچار میں سرگرم ہے ۔ سوچنے کی
بات ہے کہ جس نظریہ کو بہت سے مغربی مفکرین مادی اور سائنسی لحاظ سے بھی
مردود قرار دے چکے ہیں اسے ہمارے قرآنی مفکرین کو حدیث سے ظنی علم کورد کر
کے اس ( یقینی علم) کو سینے سے لگانے کی کیاضرورت تھی ۔سائنسی نظریات کا
تویہ حال ہے کہ جب وہ اپنے تجرباتی اور تحقیقی مراحل سے گزرنے کے بعد
سائنسی قانون (Law) بن جاتے ہیں ،تب بھی انہیں آخری حقیقت قرار نہیں دیا
جاسکتا ۔بعد میں آنے والے مفکر ایسے قوانین کو رد کرسکتے ہیں ۔نیوٹن کے
دریافت کردہ قانون کشش ثقل کو آئن سٹائن نے مشکوک قراردیا،یہی صورتحال اس
کے قوانین حرکت کی ہے توکیا ایسی صورت میں ان نظریات کو تحریف وتاویل کے
ذریعہ ثابت کرنا کوئی دینی خدمت یا قرآنی فکر قراردیا جاسکتا ہے ؟
پرویز صاحب نے اس نظریہ
ارتقاء کو دوشرائط کے ساتھ اپنایا ہے ایک یہ کہ پہلے جرثومہ حیات میں
زندگی کسی طرح خود بخود ہی پیدا نہیں ہوگئی تھی بلکہ یہ زندگی خدانے عطاکی
تھی اور دوسری یہ کہ انسان کا فکروشعور ارتقاء کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ نفخ
خداوندی کانتیجہ ہے اور یہ نفخ روح خداوندی فجائی ارتقاء کے طور پر واقع
ہوا۔ فجائی ارتقاء کے نظریہ کا موجد امام لائڈ مارگن ہے جس نے یہ ثابت
کردیا ہے کہ فجائی ارتقاء ممکن العمل ہے۔
اب سوال یہ کہ اگر اللہ ہی کو خالق زندگی اور نفح روح خداوندی کو بطور فجائی ارتقاء عامل تسلیم کرناہے تو پھر کیوں نہ آدم علیہ السلام
کی خصوصی تخلیق ہی کو تسلیم کرلیا جائے؟تاکہ نظریہ ارتقاء پر پیدا ہونے
والے کئی اعتراضات کا ازالہ بھی ہوجائے ۔مثلاً یہ کہ جب نوع انسانی پہلے سے
چلی آرہی تھی تو کیا نفخ روح اس نوع کےسارے افراد میں ہوا تھا یا کسی فرد
واحد میں ؟اور اگر کسی فرد واحد میں ہوا تھا تو وہ کون تھااور یہ واقعہ کس
دور میں ہوا تھا ؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کا ان حضرات کے پاس کوئی جواب نہیں
۔
نظریہ ارتقاء کے حق میں قرآنی دلائل
اب ہم ان قرآنی دلائل کا جائزہ لیں گے جن سے یہ حضرات اپنے اس نظریہ ارتقاء کو کشید کرتے ہیں ۔
:1۔پہلی دلیل سورہ نساء کی پہلی آیت ہے کہ
﴿ٰٓاَيُّھَا
النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ
وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا
كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ
وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا﴾
”اے لوگو!اپنے اس پروردگار سے ڈرجاو جس نے
تمہیں نفس واحدہ سے پیداکیا ۔پھر اس سے اس کا زوج بنایا پھران دونوں سے
کثیر مرد اور عورتیں روئے زمین پر پھیلا دیئے”۔(1:4)
یہ آیت اپنےمطلب میں صاف ہے کہ نفس واحدہ سے مراد آدم علیہ السلام
اور زوج سے مراد ان کی بیوی حوا ہیں۔اور یہی کچھ کتاب وسنت اور آثار سے
معلوم ہوتا ہے مگر ہمارے یہ دوست نفس واحد سے مراد پہلا جرثومہ حیات لیتے
ہیں اس جرثومہ کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ وہ کٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا ۔پھر ان میں
سے ہر ایک ٹکڑا کٹ کر دو دو ٹکڑے ہوتا گیا ۔اس طرح زندگی میں وسعت پیدا
ہوتی گئی جو بالآخر جمادات سے نباتات،نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے
انسان تک پہنچی ہے۔
یہ تصور اس لحاظ سے غلط ہے کہ
آج بھی جراثیم کی افزائش اسی طرح ہوتی ہے یعنی ایک جرثومہ کٹ کر دو ٹکڑے
ہوتا چلا جاتا ہے پھر کسی جرثومہ کو آج تک کسی نے نباتات میں تبدیل ہوتے
دیکھا ہے؟لہذا لامحالہ ہمیں یہی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نفس واحدہ سے مراد
آدم علیہ السلام ،زوج سے مراد ان کی بیوی ہے اور توالد وتناسل کے ذریعہ ان کی اولاد مرد اورعورتیں روئے زمین پر پھیل گئے۔
:2۔دوسری دلیل سورہ علق کی ابتدائی دوآیات ہیں ۔
﴿اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ ۔خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴾
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے پرودگار کے نام سے پڑھیے جس نے( کائنات کو) پیداکیا اور انسان کو علق( جماہوا خون)سے پیدا کیا ۔(1,2:96)
علق کا لغوی مفہوم نرومادہ
کےملاپ کے بعد نطفہ کاجمے ہوئے خون کی شکل اختیار کرلینا ہے ۔کہتے ہیں
عَلَّقَتِ الانثٰی بِالوَلَدِ مادہ حاملہ ہوگئی) المنجد (اور چونکہ یہ جما
ہوا خون جونک جیسی لمبوتری شکل اختیار کرلیتا ہےلہذا جونک کو بھی علق کہہ
دیتے ہیں۔ہمارے یہ کرم فرما اس سے دوسرامعنی یعنی جونک مراد لیتے ہیں اور
رحم ِمادرکی کیفیت قرار نہیں دیتے بلکہ ارتقائی زندگی کے سفر کا و ہ دور
مراد لیتے ہیں جب جونک کی قسم کے جانور وجود میں آئے اور کہتے ہیں کہ انسان
انہی جانداروں کی ارتقائی شکل ہے۔
رہی یہ بات کہ آیا یہ رحم مادر کا قصہ ہےیا ارتقائے زندگی
کے سفر کی داستان ہے تو اس اشکال کو قرآن ہی کی سورہ مومنون کی یہ آیت دور
کردیتی ہے۔
﴿
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً
فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ۤ
ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ
الْخٰلِقِيْنَ ﴾
پھر ہم نے نطفہ کو علق بنایا پھر علق کو
لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کی ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ،پھر
انسان کو نئی صورت میں بنادیا ۔اللہ بڑی بابرکت ہستی ہے جو سب سے بہتر خالق
ہے ۔(14:23)
اب سوال یہ ہے کہ اگر علق سے
مراد رحم مادر کا قصہ نہیں بلکہ وہ دور مراد ہے جب جونک کی قسم کےجانور
وجود میں آئے تھے تو یہ بھی بتلانا پڑے گا کہ نطفہ سے ارتقائی سفر کا کون
سا دور مراد ہے کیونکہ اللہ نے علق کو نطفہ سے بنایا ہے اور دوسرا سوال یہ
ہے کہ آیا قرآن کے اولین مخاطب یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم علق سے وہ مفہمو م سمجھ سکتے تھے جو یہ حضرات آج کل ذہن نشین کرانا چاہتےہیں ؟
3۔:تیسری دلیل سورہ نوح کی آیت
﴿وَقَد خَلَقَکُم اَطوَاراً﴾
حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیداکیا ہے ۔ (14:71)
تمام مفسرین نے اطوار سے مراد
وہ تخلیقی مراحل لیے ہیں جو رحم مادر میں واقع ہوتے ہیں جبکہ پرویز صاحب
اس آیت سے ارتقائے زندگی کے مراحل مراد لیتےہیں ۔اس پر بھی وہی سوال
پیداہوتے ہیں جو دوسری دلیل میں بیان کئے جاچکےہیں۔
4۔ چوتھی دلیل سورہ نوح کی یہ آیت ہے ۔
﴿وَاللّٰہ ُ اَنبَتَکُم مِنَ الاَرضِ نَبَاتاً ﴾
اس کا پرویزصاحب یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ” ہم
نے تمہیں زمین سے اگایا ،ایک طرح کا اگانا” اور مراد یہ لیتے ہیں کہ انسان
نباتات اور حیوانات کےراستہ سے ہوتا ہوا وجود میں آیا ہے۔
جہاں تک انسان کا مٹی یا زمین
سے پیداہونے کا تعلق ہے اس میں تو کسی کو کچھ اختلاف نہیں ۔ اختلاف صرف اس
بات میں ہے کہ انبت کا معنی صرف اگانا ہے یاکچھ اوربھی ؟لغوی لحاظ سے یہ
لفظ خلق یعنی پیدا کرنےکے معنو ں میں بھی آتا ہے،کہتے ہیں نبت ثدی الجاریہ
بمعنی لڑکی کےپستان پیدا ہوگے یا ابھر آئے ۔چناچہ اکثرمفسرین نے انبت
کامعنی پیداکرنا ہی لکھا ہے پھر اس لفظ کا معنی اچھی طرح پرورش کرنا بھی ہے
۔جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
﴿فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَّاَنبَتَھَا نَبَاتاً حَسَناً﴾
یعنی “اللہ تعالیٰ نے مریم کو پسندیدگی سے قبول فرمایا اوراسے اچھی طرح پرورش کیا “۔ (37:3)
لہذا یہ آیت بھی ذو معنی ہونےکی بناء پر نظریہ ارتقا ء کے لیے دلیل نہیں بن سکتی ۔
5۔پانچویں دلیل: پرویز صاحب کی پانچویں دلیل سورہ اعراف کی درج ذیل آیت ہے۔
﴿وَلَقَد خَلَقنٰکُم ثُمَّ صَوَّرنٰکُم ثُمَّ قُلنَا لِلمَلٰئِکَةِ اسجُدُا لِاَدَمَ﴾
یعنی”ہم نے تمہیں پیدا کیا ،پھر تمہاری شکل و صورت بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو”۔ (11:7)
اس سے آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں جمع کا صیغہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدم علیہ السلام
سےپہلےنوع انسانی موجود تھی کیونکہ فرشتوں کو سجدہ کاحکم بعد میں ہوا
ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ سورہ اعراف کی ابتدا ء میں دور نبوی کے تمام موجود
انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ
﴿اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۔۔۔﴾
” اپنے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ وحی کی تابعداری کرو “۔(3:7)
پھر آگے چل کر آدم علیہ السلام ،آپ کی بیوی اور ابلیس کا قصہ مذکور ہے تو قرآ ن میں حسب موقع صیغوں کا استعما ل ہوا ہے ۔ان آیات کےمخاطب آد م علیہ السلام اور ان کی اولاد ہے نہ کہ آد م علیہ السلام اور ان کے اباء و اجداد اور بھائی بند ،جو پرویز صاحب کے خیال کے مطابق اس جنت میں رہتے تھے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ۔۔۔۔﴾
” اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو “۔(35:2)
ا گر آدم علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کے اباء واجداد پہلے ہی اس جنت میں رہتے تھے تو صرف آدم علیہ السلام اور اس کی بیوی کوجنت میں رہنے کی ہدایت بالکل بےمعنی ہو جاتی ہے۔
نظریہ ارتقاء کےابطال پرقرآنی دلائل
اب ہم قرآن سے ایسےدلائل پیش کریں گے جن سے نظریہ ارتقاء باطل قرار پاتا ہے۔
پہلی دلیل۔ تخلیق انسانی کے مراحل:۔
1۔اللہ نے انسان کو تراب یعنی خشک مٹی سے پیداکیا ۔(67:40)
2۔ارض یعنی زمین یا عام مٹی سے پیدا کیا ۔(17:71)
3۔اسے طین یعنی گیلی مٹی یا گارے سے پیدا کیا ۔(2:6)
4۔اسے طین لازب یعنی لیسدار اور چپکدار مٹی سے پیداکیا ۔(11:37)
5۔اسے حَماٍ مسنون بمعنی بدبودار مٹی اور گلے سڑے کیچڑ سے پیدا کیا ۔(26:15)
6۔اسے صلصال یعنی حرارت سے پکائی ہوئی مٹی سے پیداکیا ۔(26:15)
7۔اسے صلصال کالفخار یعنی ٹن سے بجنے والی ٹھیکری سے پیدا کیا۔(14:55)
یہ ہیں وہ مٹی پر وارد ہونے والے اطوار یا مراحل جن کا قرآن نے ذکر کیا کہ ان اطوار کے بعد آدم علیہ السلام
کا پتلا تیار ہوا تھا۔اور یہ ساتوں مراحل بس جمادات میں ہی پورے ہوجاتے
ہیں ۔مٹی میں پانی کی آمیزش ضرور ہوئی لیکن بعد میں وہ پوری طرح خشک کردیا
گیا ۔اب دیکھئے ان مراحل میں کہیں نباتات اور حیوانات کا ذکر آیا ہے کہ اس
راستہ سے انسان وجود میں آیا ہے ؟
دوسری دلیل درج ذیل آیت ہے۔
﴿هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا﴾
یعنی” بلاشبہ انسان پر زمانے سے ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا”۔(1:76)
اب دیکھئے دھر سےمراد وہ
زمانہ ہے جس کا آغاز زمین و آسمان کی پیدائش سے ہوا ۔اور عصر سےمراد وہ
زمانہ ہے جس کا آغاز تخلیق آدم سے ہوا ۔کیونکہ اللہ نے انسانی افعال واعمال
پر عصر کو بطور شہادت پیش کیا ہے ،دھر کو نہیں ۔ارشاد باری ہےکہ اس دھر
میں انسان پر ایک ایسا وقت آیا ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا۔اگر وہ
نباتات ،حیوانات یا بندر کی اولاد ہوتا تو یہ سب چیز یں قابل ذکر ہیں اور
ان مراحل میں اربوں سال بھی صرف ہوئے تو ان کا نام لینے میں کیا حرج تھا
؟ہمارے خیال میں یہی آیت ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو کلی طور پر مردود قرار
دینے کے لیے کافی ہے۔
تیسری دلیل یہ آیت کریمہ ہے۔
﴿قالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ ۭ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ ﴾
یعنی اللہ نے فرمایا” اے ابلیس! جس کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ،اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے منع کیا ؟”۔(75:38)
متعزلین اور پرویزی حضرات
اللہ تعالیٰ کےہاتھ تسلیم کرنےکے قائل نہیں لہذا وہ لفظ ید کا ترجمہ قوت یا
قدرت یا دست قدرت کر لیتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ یہاں بیدی کا لفظ استعمال
ہوا ہے ۔یعنی اپنے دونوں ہاتھوں سے اب اگر ید کامعنی قوت یا قدرت کیا جائے
تو اس لفظ کا کیامفہوم ہوگا کہ جسے میں نے دو قوتوں یا دوقدرتوں سے بنایا
ہے ؟اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو پانی قدرت اور
قوت ہی سے بنایا ہے پھر سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق خصوصی ذکر کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں سےبنایا ہے ۔
چوتھی دلیل : نظریہ ارتقاء کے ابطال پر چوتھی دلیل درج ذیل آیت کریمہ ہے۔
﴿اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ ۭخَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ﴾
یعنی” اللہ کےہاں عیسی علیہ السلام کی مثال آدم کی سی ہے جسے اللہ نےمٹی سے پیدا کیا پھر کہا انسان بن جا تو وہ انسان بن گئے”۔(59:3)
9ہجری میں نجران کے عیسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس مدینہ آئے اور مسیح علیہ السلام کےابن اللہ ہونے کے موضوع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کی ٹھانی ۔عیسائی بھی سیدنا عیسی علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے قائل تھے اور مسلمان بھی۔ عیسائیوں کی دلیل یہ تھی کہ جب تم مسلمان یہ تسلیم کرتے ہو کہ عیسی ٰ علیہ السلام
کا باپ نہ تھا اور یہ بھی تسلیم کرتے ہوکہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے تو
بتاوٴ اگروہ اللہ کے بیتے نہ تھے تو ان کا باپ کون تھا؟اسی دوران یہ آیت
نازل ہوئی ۔یعنی اللہ تعالیٰ نےیہ جواب دیا کہ اگر باپ کانہ ہونا ہی اللہ
کے بیٹے یا اُلوہیت مسیح کی دلیل بن سکتا ہے تو آدم علیہ السلام الوہیت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ ان کی باپ کے علاوہ ماں بھی نہ تھی ۔لیکن تم آدم علیہ السلام کو الہٰ نہیں کہتے تو مسیح علیہ السلام کیسے الہٰ ہو سکتے ہیں۔
مگر آج کے مسلمانوں میں ایک فرقہ ایسا ہے جو آدم علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہیں مگر سیدنا عیسی ٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو تسلیم نہیں کرتا اور دوسرا مفکرین قران کا ہے جو نہ عیسی ٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے قائل ہیں اور نہ سیدنا آدم علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے ۔ اس آیت میں ان دونوں فرقوں کا رد موجود ہے ،وہ اس طرح کے اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو آدم کی پیدائش کے مثل قراردیا ہےاور اس مثلیت کی ممکنہ صورتیں یہ ہوسکتی ہیں۔
1۔ دونوں کی پیدائش مٹی سےہے ۔یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ تمام انسانوں کی پیدائش مٹی سے ہوئی اس میں آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی خصوصیت نہیں ۔
2۔ دونوں کی پیدائش ماں باپ کے ذریعے ہوئی ہو ۔یہ توجیہہ اس لیے غلط ہے کہ انسان کی پیدائش کےلیے عام دستور یہی ہے ۔اوراس میں بھی آدم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی خصوصیت نہیں۔
3۔ اب تیسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ دونوں کا باپ نہ ہونا تسلیم کیا جائے اور یہی ان دونوں کی پیدائش میں مثلیت کا پہلو نکل سکتا ہے جس میں دوسرے انسان شامل نہیں ۔اس طرح یہ آیت بھی نظری ارتقاء کو مکمل طور پر مردود قرار دیتی ہے۔
حرف آخر
آج بہت سے لوگ اللہ پر ایمان
رکھنے کے بجائے بلاسوچے سمجھے ، سائنس کے نام پر جھوٹ کے ایک پلندے کو سچ
سمجھ کر قبول کررہے ہیں۔ وہ جو ’’اللہ نے تمہیں عدم سے تخلیق کیا‘‘ سے
نابلد ہیں، اتنے سائنسی ہیں کہ وہ اربوں سال پہلے کے ’’ابتدائی شوربے‘‘
(Primordial Soup) پر بجلی گر کر پہلے جاندار کے وجود میں آنے کا مفروضہ من
و عن درست تسلیم کرلیتے ہیں۔ نظامِ قدرت میں اتنے نازک اور اتنے زیادہ
توازن ہیں کہ انہیں کسی ’’اتفاق‘‘ کا حاصل قرار دینا کھلی نا معقولیت ہوگا۔
وہ لوگ جو اپنے اذہان کو معقولیت دشمنی سے آزاد نہیں کراسکتے، وہ کتنا ہی
اصرار کیوں نہ کرلیں، مگر زمین اور آسمان میں اللہ کی نشانیاں اتنی زیادہ
نمایاں ہیں کہ ان سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اللہ تعالیٰ زمین کا، آسمان کا
اور ان کے درمیان ہر شے کا خالق ہے۔ اس کے وجود پر دلالت کرنے والی نشانیاں
ساری کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں۔
ماٴخذ:۔
2. تیسیرا لقرآن ۔جلددوم۔ از مولاناعبدالرحمٰن کیلانی رحمتہ اللہ علیہ ۔ ص 481-491
3. تخلیق کائنات ا و جدید سائنس۔از ڈاکٹر طاہر القادری
5. http://sulemansubhani.wordpress.com/category/%D8%A8%D8%A7%D9%BE-%D8%8C-%D9%88%D8%A7%D9%84%D8%AF /
———————————————————————————————-
ایک تبصرہ شائع کریں