قرآن کے سات آسمان اور سات زمینیں — سائنس،
روحانیت اور حقیقت کی روشنی میں مکمل وضاحت
#قرآن_اور_سائنس #سات_آسمان #معراج #کائنات #اسلام_اور_سائنس #قرآنی_حقائق
#spiritualscience #IslamicScience #علم_و_ایمان
❓ تمہید: اعتراض کیا ہے؟
اکثر لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر آج
کی سائنس اربوں نوری سالوں کی کائنات دریافت کر چکی ہے، تو قرآن میں جو "سات
آسمان" اور "سات زمینوں" کا ذکر ہے وہ کہاں ہیں؟ کیا وہ کہکشائیں
ہی سات آسمان ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا وہ محض فرضی تصورات ہیں؟ اور جب جنات اور نبی
کریم ﷺ نے ان آسمانوں پر رسائی حاصل کی، تو وہ کائناتی لحاظ سے کون سے علاقے تھے؟
کیا ہم وہاں تک پہنچ سکتے ہیں؟ ان سب سوالات کا جواب قرآن، سنت اور جدید سائنس کی
روشنی میں تفصیل سے بیان کیا جائے گا۔
📜 قرآن کا بیان: سات آسمان اور سات زمینیں
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
"اللہ ہی ہے جس نے سات آسمان تہہ در
تہہ پیدا کیے..."
(الملک: 3)
"اللہ وہی ہے جس نے سات زمینیں پیدا
کیں، اور اُن پر اللہ کا حکم اُترتا ہے..."
(الطلاق: 12)
یہ دونوں آیات واضح طور پر بتاتی ہیں
کہ:
- آسمانوں
کی تعداد سات ہے۔
- زمینیں
بھی سات ہیں۔
- یہ تہہ
در تہہ (layered) نظام ہے۔
🌌 سائنس کی دریافت: کائنات کہاں تک پہنچی؟
آج سائنس نے جس کائنات کو دریافت کیا
ہے، اسے "Observable
Universe" کہا جاتا
ہے۔ اس کی وسعت تقریباً 93
بلین نوری سال تک ہے، اور اس میں شامل ہیں:
- 200 ارب سے زائد کہکشائیں (Galaxies)
- کھربوں
ستارے اور سیارے
- بلیک
ہولز، نیبولا، اور خلاء میں توانائی و مادہ کی عجیب اقسام
لیکن سائنس خود کہتی ہے کہ:
- ہم صرف
کائنات کے 5%
حصے کو جانتے ہیں۔
- 95% کائنات "Dark Matter" اور "Dark Energy" پر
مشتمل ہے، جسے نہ دیکھا جا سکتا ہے، نہ سمجھا جا چکا ہے۔
🪐 قرآنی آسمان اور سائنسی کائنات: کیا فرق ہے؟
یہاں ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ
قرآن جس "آسمان" کا ذکر کرتا ہے، وہ صرف فلکیاتی خلا نہیں بلکہ:
- ایک روحانی
و مافوق الفطرت (supernatural)
نظام ہے۔
- جس کا پہلا
آسمان (سماء الدنیا) وہ ہے جسے ہم ٹیلی سکوپ سے دیکھ سکتے ہیں۔
- باقی
چھ آسمان ہماری آنکھ، مشین اور عقل سے ماورا ہیں۔
- یہ
نظام الٰہی فیصلہ سازی، فرشتوں، اور نورانی مخلوقات کا مسکن ہے۔
✨ سات آسمان: ایک درجہ بندی کا نظام
نبی کریم ﷺ کی معراج کی رات کا واقعہ
اس کی وضاحت کرتا ہے:
- آپ ﷺ
پہلے آسمان پر حضرت آدمؑ سے ملے۔
- دوسرے
پر حضرت عیسیٰؑ و یحییٰؑ،
- تیسرے
پر حضرت یوسفؑ،
- یہاں
تک کہ ساتویں پر حضرت ابراہیمؑ۔
یعنی ہر آسمان ایک مختلف روحانی جہان
ہے — جو ایک دوسرے سے بالکل الگ، مگر تہہ در تہہ جُڑے ہوئے ہیں۔
👽 جنات کی رسائی: آسمان تک رسائی کا ذکر
قرآن مجید فرماتا ہے:
"ہم آسمان کی طرف چڑھنے کی کوشش کرتے
تھے مگر اب ہمیں آگ کے شعلے مارے جاتے ہیں..."
(الجن: 8-9)
یہ بتاتا ہے کہ:
- جنات
ماضی میں آسمانی خبروں کو سننے کے لیے جاتے تھے۔
- نبی ﷺ
کی بعثت کے بعد ان کی رسائی بند کر دی گئی۔
- یہ
آسمان مادی کائنات سے بلند ایک روحانی و الٰہی مقام ہے۔
🌍 سات زمینیں: یہ کیا ہیں؟
قرآن کہتا ہے:
"اللہ نے سات زمینیں پیدا کیں..."
(الطلاق: 12)
علماء نے اس کی کئی تفسیریں کی ہیں:
1.
بعض مفسرین کے مطابق "سات زمینیں" سے مراد زمین
کے اندرونی سات پرتیں
(layers) ہیں، جو جدید جیولوجی کے مطابق بھی دریافت ہو چکی ہیں (جیسے crust, mantle, core وغیرہ)۔
2.
دیگر مفسرین کے مطابق یہ زمین کی مانند دیگر سیارے یا کائناتی
دنیائیں ہو سکتی ہیں، جو اللہ کی تخلیق کا حصہ ہیں۔
3. اللہ کے علم میں سات متوازی جہان (parallel worlds) جو انسان کی
رسائی سے باہر ہیں۔
جدید سائنسی نظریات، جیسے Parallel Universes، Multiverse
Theory، اور String Theory اس تصور سے ہم آہنگ ہوتی جا رہی ہیں۔
🧬 سائنس کی حد اور قرآن کی وسعت
سائنس ایک بہترین ذریعہ علم ہے، مگر
محدود:
قرآن مجید میں سات آسمانوں کا ذکر آیا
ہے، لیکن جدید سائنس کی دریافتیں اس حد تک محدود ہیں جہاں ہماری دوربینیں اور آلات
ہمیں لے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے درج ذیل سائنسی دائرے
(Levels of Access) ہیں جن کو
سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
1. نزدیک ترین آسمان (Observable Universe):
سائنسدانوں نے جدید ترین دوربینوں جیسے
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی مدد سے تقریباً 13.8 بلین نوری سال دور تک کے فلکی
اجسام دیکھ لیے ہیں، لیکن یہ صرف پہلا آسمان ہے جسے قرآن "سماء الدنیا"
کہتا ہے۔
2. مادہ سے باہر کا علاقہ (Beyond Matter):
سائنس کے مطابق 95٪ کائنات ڈارک میٹر
اور ڈارک انرجی پر مشتمل ہے جسے ہم براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ یہ وہ حصہ ہے جس کی
صرف موجودگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، مگر مشاہدہ ممکن نہیں۔
3. زمان و مکان سے ماورا (Beyond Time & Space):
سائنس کا علم اس مقام پر آ کر رک جاتا
ہے جہاں وقت، مادہ، اور مکان کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسانی
علم و تجربہ کام نہیں آتا۔
4. ملاء اعلیٰ و لوح محفوظ:
یہ وہ مقامات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے
فیصلے محفوظ ہوتے ہیں اور فرشتے احکامات لے کر زمین کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہاں
تک رسائی انسانی سائنس کی کوئی بھی شکل حاصل نہیں کر سکتی۔
5. سدرة المنتہیٰ:
یہاں تک صرف نبی کریم ﷺ کو معراج میں
لے جایا گیا۔ اس سے آگے کوئی بشر یا فرشتہ نہیں جا سکتا۔
6. عرشِ الٰہی:
عرشِ الٰہی کائنات کا سب سے بلند مقام
ہے، جہاں اللہ کی عظمت کا مظہر ہے۔ سائنس کے لیے یہ ناقابلِ تصور ہے۔
یہ تمام مقامات سات آسمانوں کے مختلف
درجات ہو سکتے ہیں، جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اس لیے قرآن کے
"سات آسمان" اور "سات زمینیں" وہ سچائیاں ہیں جو مافوق
الفطرت حقیقت کو بیان کرتی ہیں — جنہیں ہم دیکھ تو نہیں سکتے، مگر ایمان اور
عقل کی روشنی میں سمجھ سکتے ہیں۔
🕊️ نتیجہ: ایمان، عقل اور سائنس کا امتزاج
- سائنس
آج جس کائنات کو دریافت کر رہی ہے، وہ دراصل قرآن کے بیان کردہ پہلے آسمان
کی جھلک ہے۔
- باقی
چھ آسمان، اور سات زمینیں — ایک عظیم الٰہی نظام کا حصہ ہیں، جو ہماری نگاہ
سے پوشیدہ ہیں۔
- نبی
کریم ﷺ کی معراج، جنات کی رسائی، اور فرشتوں کی آمد و رفت — سب اس ہی عالم
غیب سے متعلق ہیں۔
- آج کی
جدید ترین سائنسی تحقیق بھی قرآن کی آیات کی تصدیق کرتی دکھائی دے رہی ہے —
اگر ہم کھلے دل و دماغ سے دیکھیں۔
📣 قرآن ہمیں صرف ماضی کی بات نہیں، مستقبل کی سائنس بھی سکھاتا
ہے۔
"کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟
اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔"
(النساء: 82)
نتیجہ:
سائنس
صرف مشاہدہ و تجربہ پر یقین رکھتی ہے، جبکہ قرآن وحی و غیب پر۔ سائنس سات آسمان جیسی روحانی
اور غیر مادی حقیقتوں کو نہ ماپ سکتی ہے، نہ سمجھ سکتی ہے۔ اسی
لیے قرآن کا پیغام ہے کہ تم زمین و آسمان کی سرحدیں عبور نہیں کر سکتے جب تک اللہ
نہ چاہے (الرحمن: 33)۔قرآن کا بیان کردہ کائناتی نظام نہ صرف
روحانی حقیقت رکھتا ہے بلکہ سائنسی دریافتیں رفتہ رفتہ اس کی تصدیق کر رہی ہیں۔"سات
آسمان" اور "سات زمینیں" صرف تصورات نہیں، بلکہ ایک حقیقی
نظامِ تخلیق کا حصہ ہیں، جس کا پورا علم صرف خالقِ کائنات ہی کے
پاس ہے۔ سائنس ابھی صرف پہلے آسمان میں بھٹک رہی ہے، باقی چھ آسمان اس کی حدود سے
باہر ہیں۔
نوٹ: اس مضمون کو طارق
اقبال سوہدروی نے چیٹ جی پی ٹی کی مددسے تیار کیاہے ۔
ایک تبصرہ شائع کریں