اُونٹ، جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم

اُونٹ،  جدید سائنسی تحقیقات اور قرآن حکیم

اس میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ نہیں پایا جاتا کہ تمام جانور، اپنےاپنے خدوخال کے ساتھ ،اپنے خالق کی لامحدود طاقت اورعلم کی عکاسی کرتے ہیں ۔ اللہ نے اس کا ذکر قرآن کی کئی سورتوں میں کیا ہے ،جہا ں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر وہ شے جو وہ تخلیق کرتا ہے دراصل ایک نشانی ہے ، یعنی ایک علامت ہے اور ایک انتباہ ہے ۔ سورۃ الغاشیہ کی آیت نمبر 17 میں اللہ  نےایک جانور کا حوالہ دیا ہے اور ہمیں "اونٹ" کے متعلق سوچنے اور اسے بغور دیکھنے کی تلقین کی گئی ہے  اور یوں ارشاد فرمایا ہے :

أَفَلَا يَنظُرُ‌ونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ﴿١٧﴾ وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُ‌فِعَتْ ﴿١٨﴾ وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ ﴿١٩﴾ وَإِلَى الْأَرْ‌ضِ كَيْفَ سُطِحَتْ ﴿٢٠﴾ فَذَكِّرْ‌ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ‌ ﴿٢١
(یہ لوگ نہیں مانتے) تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟ اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو

جو شئے اونٹ کو ایک خاص جانور بناتی ہے وہ ا س کے جسم کی بناوٹ ہے جس پر سخت سے سخت حالات اور موسموں میں بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کے جسم کی ساخت اللہ نے اس قسم کی بنائی ہے کہ اونٹ کئی کئی دنوں تک خوراک اور پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے ۔ یہ کئی کئی روز کا سفر اپنی پیٹھ پر سینکڑوں کلو گرام بوجھ لاد کر طے کر سکتا ہے ۔


اونٹ کی وہ خوبیاں جن کا ذکر آپ تفصیل کے ساتھ آگے پڑھیں گے ،یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس جانور کو بطور خاص خشک موسموں والے ملکوں کے لئے پیدا کر کے پھراسے انسانی خدمت پر لگا دیا گیا ہے ۔ عقل و شعور رکھنے والے انسانوں کے لیے ا س کی تخلیق میں اللہ کی ایک روشن نشانی ہے :

پیاس اور بھوک کی حالت میں غیر معمولی مزاحمت

اونٹ 50 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر آٹھ روز تک خوراک اور پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے ۔ اس عرصے میں وہ اپنے جسم کے وزن کا 22٪ ضائع کردیتا ہے ۔ اگر انسان اپنے جسم میں سے کل وزن کا  12 ٪ پانی ضائع کردے تو موت کے قریب پہنچ جائے گا ۔ ایک دبلا پتلا اونٹ اپنے جسم کے وزن کا 40٪پانی ضائع ہوجانےکے بعد بھی زندہ رہ سکتا ہے ۔ اس کے پیاس برداشت کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس کے جسم میں ایک میکانکی عمل قدرت نے ایسا پیدا کر دیا ہے جو اونٹ کو اپنے اندر کے درجہ حرارت کو 41 ٪ تک بڑھالینے کے قابل بنا دیتا ہے ۔ چنانچہ یہ جانور صحرا کے شدید گرم موسم میں بھی اپنے جسم کے پانی کو کم ازکم ضائع ہونے کی سطح تک رکھتا ہے ۔ اونٹ موسم سرما کی راتوں میں اپنے جسم کے اندرونی درجہ حرارت کو 30٪تک کم کر سکتا ہے ۔
ان کا وزن 400 سے 600 کلوگرام تک ہوتا ہے  اور ان کی اوسط عمر 50 سال تک ہوتی ہے ۔ ان کا قد 6 سے 7 فٹ تک ہوتا ہے ۔ یہ دن میں 200 لٹر تک پانی پی جاتے ہیں ۔ یہ 450 کلوگرام تک وزن اٹھا کر لےجاسکتے ہیں تاہم ان پر 200 کلوگرام تک وزن لادا جاتا ہے ۔

پانی کے استعمال کی بہتر بنائی ہوئی اکائی

اونٹ تقریباً دس منٹ میں  130 لیٹر تک پانی استعمال کر سکتے ہیں ۔ جو ان کے جسم کے وزن کا 3/1 بنتا  ہے ۔ اس کے علاوہ اونٹ کی ناک کی ایک ایسی لعابی  بناوٹ ہوتی ہے  جو انسانوں سے 100 گنا بڑی ہوتی ہے ۔ اونٹ اپنی ناک کی اس بڑی اور خمدار لعابی بناوٹ سے ہوا میں نمی کا 66٪ محفوظ رکھ سکتا ہے ۔

خوراک اور پانی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ

بہت سے جانور اس وقت مرتے ہیں جب ان کے گردوں میں جمع شدہ یوریا (Urea) خون میں تحلیل ہو جاتا ہے ۔ تاہم اونٹ اس یوریا کو باربار جگر میں سے گزار کر پانی اور خوراک کا زیادہ سے زیادہ استعمال کر لیتا ہے ۔ اونٹ کا خون اور خلیوں کی ساخت دونوں خاص قسم کے ہوتے ہیں  تاکہ صحرائی حالات میں یہ جانور پانی کے بغیر زیادہ عرصے تک زندہ رہ سکے۔ اس جانور کے خلیوں کی دیواروں  کی ساخت خاص قسم کی ہوتی ہے  جو پانی کے زیادہ ضائع ہونے کو روکتی ہے ۔خون کی ترکیب اس طرح کی ہوتی ہے کہ یہ دوران  خون میں رفتار کی کمی کو اس وقت بھی روکتی ہے جب اونٹ کے جسم میں پانی کی سطح گر کر کم از کم ہو گئی ہو۔ اس کے علاوہ البومین خامرے (Albumin Enzyme)جو پیاس کو برداشت کرنے کی قوت میں اضافہ کرتے ہیں ، دوسرے جانوروں کی نسبت اونٹ کے خون میں کہیں زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔


اونٹ کی کوہان چربیوں سے بنتی ہے ۔ یہ اس جانور کو خوراک کی کمی کے دوران غذا فراہم کرتی اور بھوک سے مر جانے سے بچاتی ہے ۔کوہان سے اونٹ کو ایک اور مدد ملتی ہے  ۔ ایک اونٹ کے کل وزن کا 5/1 حصہ چربی کی شکل میں اس جانور کی کوہان میں ہوتا ہے ۔ جسم کی ساری چربی کا ایک حصے میں جمع ہو جانا اس کے جسم سے پانی کے ختم ہونے کو روکتا ہے، جس کا تعلق چربی سے ہوتا ہے ۔یہ بات اونٹ کو کم از کم پانی استعما ل کرنے کی اجازت دیتی ہے ۔   
گو کوہان والا اونٹ ایک دن میں 30-35 کلوگرام خوراک تک کھا سکتا ہے ۔ سخت اور مشکل حالات میں یہ صرف 2 کلو گرام گھاس یومیہ کھا کر ایک ماہ تک زندہ رہ سکتا ہے ۔ اونٹوں کے ہونٹ بہت مضبوط اور ربڑ کی مانند لچکدار ہوتے ہیں جس سے وہ ایسے نوکدار کانٹے بھی کھا جاتا ہے جو  موتے چمڑے میں بھی سوراخ کر دیں ۔اس کے علاوہ اونٹ کے معدے میں چار خانے ہوتے ہیں اور نظام ہضم بہت مضبوط ہوتا ہے جس سے وہ جو کچھ بھی کھاتا ہے ہضم کر لیتا ہے ۔ یہاں تک کہ اونٹ تو ربڑ بھی کھا جاتا ہے جو کسی طرح بھی خوراک نہیں ہوتی ۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس قسم کے خشک موسموں میں یہ صفت کس قدر اہم اور قیمتی ہو گی ۔

آندھیوں اور طوفانوں سے بچنے کی حفاظتی تدابیر

اونٹوں کی آنکھوں کی پلکوں کی دو تہیں ہوتی ہیں ۔ یہ ایک پھندے کی مانند باہم قفل بندی سے لیس ہوتی ہیں جو اس جانور کی آنکھوں کو ریت کے بگولوں اور طوفانوں سے محفوظ رکھتی ہیں ۔یہ خطرے کی حالت میں خود بخود بند ہو جاتی ہیں ۔  اس کے علاوہ اونٹ اپنے نتھنے بھی بند کرسکتے ہیں تاکہ ان کے اندرریت نہ جاسکے ۔اس کی ناک اور کان لمبے بالوں سے ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں  جو اس جانور کو ریت اور مٹی سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ اس جانور کی لمبی گردن پتوں کو خوراک بنانے کے لئے زمین سے تین میٹر بلندی تک پہنچنے میں مدد دیتی ہے ۔

جھلسا دینے والے گرم اور یخ بستہ کردینے والےسرد موسموں سے تحفظ

اونٹ کےجسم پر گھنے اورگھچے دار بال ہوتے ہیں ۔ یہ بال صحرا کی جھلسا دینے والی دھوپ کو اونٹ کی کھا ل تک نہیں پہنچنے دیتے ۔ سخت سردی کے دوران یہی بال اس جانور کو گرم رکھتے ہیں ۔ صحرا کے اونٹ پر 50 سینٹی گریڈ درجہ حرارت تک کوئی اثر نہیں ہوتا   اور دو کوہانوں والے اونٹ (Bactrian Camels)بہت کم درجہ حرارت ، منفی 50 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر بھی زندہ  رہ سکتے ہیں ۔ اس قسم کے اونٹ  سطح سمندر سے 4000 میٹر بلند وادیوں میں بھی زندہ رہتے ہیں ۔سعودی عرب اور شمالی افریقہ کا اونٹ  اپنے جسم کے درجہ حرارت کو 41 سینٹی گریڈ تک بڑھا کر پسینے کے عمل کو مؤخر کر سکتا ہے ۔ اس طرح وہ جسم سے پانی کی کمی کو دور رکھتا ہے ۔

جلتی ہوئی ریت سے تحفظ

اونٹ کے پاؤں جو اس کی ٹانگوں کی مناسبت سے بڑے ہیں ،بطور خاص بنائے گئے ہیں ۔ بڑے بڑے اس لئے ہیں تاکہ صحرا میں ریت پر چلتے ہوئے کہیں پھنس نہ جائیں ۔ ان میں چوڑائی میں پھیلاؤ بھی ہے اور کسی پھولی ہوئی شے کی صفات بھی رکھتے ہیں ۔ مزید یہ کہ اس کے پاؤں کے تلووں میں ایک خاص قسم کی دبیز کھال ہوتی ہے جو انہیں جلتی ہوئی ریت سے محفوظ رکھتی ہے ۔ علاوہ ازیں اس کے پاؤں میں دو پنجے ایک گدی نما پیڈ سے جڑے ہوتے ہیں ۔ اس  ساخت  کے پاؤں اس جانور کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ زمین پر اپنے پاؤں کی گرفت کو مضبوط بنا سکیں ۔ان میں چار چربیلے گیند نما ٹکڑے ہوتے ہیں  ۔ یہ پاؤں ہر قسم کی زمین پر چلنے کے لئے موزوں ہوتے ہیں ۔
اس کے پنجوں کے ناخن کسی ٹکر کی صورت میں پاؤں کو نقصان سے بچاتے ہیں ۔ اس کے گھٹنوں پر سخت کھال ہوتی ہے جو سینگ سے بھی زیادہ سخت او ر موٹی ہوتی ہے ۔ جب اونٹ تپتی ریت پر بیٹھنے کے لئے پہلے گھٹنے ٹیکتا ہے تو سخت کھال والی یہ ساخت اونٹ کو شدید گرم ریت سے زخمی ہونے سے بچاتی ہے
۔

آئیے ان معلومات کی روشنی میں اس پر غور کرتے ہیں : کیا اونٹ نے صحرائی حالات کے مطابق یہ جسم خود اس طرح کا بنالیا ہے ؟ ناک کے اندر لعابی بناوٹ یا کمر پر کوہان کیا اس نے خود بنائی ہے  تاکہ یہ اسے آندھیوں اور طوفانوں سے محفوظ رکھ سکے ؟ کیا اس کے خون کی موجودہ حالت اور خلیوں کی ساخت  جو پانی کے تحفظ کے اصول پر بنی ہے ، اس کی اپنی کسی کوشش کا نتیجہ ہے ؟ اس کےجسم کو جو گھنے اورگھچے دار بال ڈھانپے ہوئے ہیں ،کیا اس کا انتخاب اس نے خود کیا ہے ؟کیا اونٹ نے اپنے آپ کو خود ہی "صحرائی جہاز" میں تبدیل کر لیا ہے ؟


کسی دوسرے جانور کی مانند اونٹ بھی یہ سب کچھ خود نہیں کرسکتا تھا ۔ نہ ہی وہ بنی نوع انسان کے لئے مفید ثابت ہو سکتا تھا۔قرآن پاک  کی یہ سورۃ جس میں یہ کہا گیا ہےکہ " تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ؟" ہماری توجہ بہترین طریقے سے اس نہایت عمدہ جانور کی طرف مبذول کراتی ہے ۔ دوسرے تمام جانداروں کی مانند اونٹ کو بھی بہت سی خاص صفات سے نوازا گیا اور پھر اس خالق کی تخلیق میں فوقیت و برتری کی ایک نشانی کے طور پر اس زمین پر کھ دیا گیا ۔
اونٹ جسے اس قدر اعلی جسمانی خوبیوں کے ساتھ تخلیق کیا گیا تھا اسے حکم ملا کہ انسانوں کی خدمت کرو۔ جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے انہیں حکم ملا ہے کہ کائنات میں پھیلے ہوئے اس طرح کےمعجزوں کو دیکھیں اور اس کائنات کی ہر شئے کے خالق ، اللہ رب العزت کی تعظیم و تکریم کریں ۔
أَلَمْ تَرَ‌وْا أَنَّ اللَّـهَ سَخَّرَ‌ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ
 وَمَا فِي الْأَرْ‌ضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَ‌ةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّـهِ بِغَيْرِ‌ عِلْمٍ وَلَا هُدًى
 وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ‌ ﴿ القمان ۔20 ﴾
کیا تم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کر رکھی ہیں اور اپنی کھلی اور چھپی نعمتیں تم پر تمام کر دی ہیں؟ اِس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب
ماخذ:۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی