اصحاب کہف ، طبی و ماحولیاتی معجزہ از ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان

 

اصحاب کہف ، طبی و ماحولیاتی معجزہ از ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان

 
سورۃ کہف میں قرآن پاک کے کئی معجزے مذکور ہیں، اسکی 2آیات میں2طبی اور ماحولیاتی معجزات بیان کئے گئے ہیں۔ انکاذکر کیا جارہا ہے۔ قرآن کریم میں اہل کہف کا قصہ قادر مطلق ذات کی عظمت و کبریائی کا روشن ثبوت ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ قصہ ظلم و ستم اور جبر وتشدد سے دوچار مسلمانوں کے حوصلے اور ہمت بلند کرنے کے لئے بیان کیا ۔ اصحاب کہف توحید کے قائل نوجوان تھے۔ وہ اپنے عہد کے حکمراں دقیا نوس کے ظالم سے عاجز آچکے تھے۔
ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کے رواد ار نہیں رہے تھے۔ کفار کا غلبہ بے پناہ تھا۔ یہ نوجوان ظلم و ستم، تحقیر و تذلیل اور باطل کے آگے سر جھکانے سے بچنے کیلئے گھر بار اور اہل و عیال سب کو چھوڑ کر غار میں پناہ گیر ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص رحمت نازل کی تھی۔رب العالمین نے سورۃ کہف کی آیت نمبر 17اور18میں غار کے اندر انکے قیام کی منظر کشی یہ کہہ کر کی ہے۔ 

 ’’وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَھْفِھِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہُ ذٰلِکَ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ مَنْ یَّھْدِ اللّٰہُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ وَلِیًّا مُّرْشِدًا ( 17) وَتَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّھُمْ رُقُوْد’‘ وَّنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ وَکَلْبُھُمْ بَاسِط’‘ ذِرَاعَیْہِ بِالْوَصِیْدِ لَوِا طَّلَعْتَ عَلَیْھِمْ لَوَلَّیْتَ مِنْھُمْ فِرَارًا وَّلَمُلِئْتَ مِنْھُمْ رُعْبًا ( 18)‘‘ 
’’تم انہیں غار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غارکے اندرایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔

 یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لئے تم کوئی ولی مرشد نہیں پاسکتے۔ تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سو رہے تھے۔ ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے اورانکا کتا غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا تھا۔ اگر تم کہیں جھانک کر دیکھتے تو الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے اور تم پر انکے نظارے سے دہشت بیٹھ جاتی‘‘۔ 
حافظ ابن کثیر ؒ اللہ تعالیٰ کے کلام ’’وَتَحْسَبُھُمْ اَیْقَاظًا وَّھُمْ رُقُوْد’‘ ‘ ’’ تم انہیں دیکھ کر یہ سمجھتے کہ وہ جاگ رہے ہیں حالانکہ وہ سو رہے تھے‘‘ ۔ اسکی تفسیر میں بتاتے ہیں کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف پر نیند طاری کردی تو پھر کئی سال تک ان کے کانوں پر پردہ ڈالے رکھا۔ انکی آنکھیں بند نہیں کی تھیں تاکہ کوئی موذی ان کی طرف جلدی سے نہ لپکے۔ ان کی آنکھ کا کھلا رہنا انکے لئے زیادہ بہتر تھا۔ بھیڑیئے کے بارے میں آتا ہے کہ وہ سوتا ہے تو ایک آنکھ کھلی رکھتا ہے ۔ دوسری بند کرلیتا ہے پھر ایک کھولتا ہے اور دوسری بند کرلیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے قصے میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ: ’’وَّنُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ‘‘ ’’ اللہ انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتا رہتا تھا‘‘۔ اللہ تعالیٰ سال میں دو مرتبہ انہیں کروٹ دلاتا تھا۔ ابن کثیر نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ: ’’اگر اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ نہ دلاتا تو زمین انہیں چٹ کرجاتی‘‘۔ (ابن کثیر، تفسیرالقرآن العظیم جلد 3، صفحہ2)۔ یہاں صحابی رسول حضرت ابن عباس ؓ کا یہ قول تدبر کا متقاضی ہے کہ اگر اصحاب کہف کو دائیں بائیں کروٹ نہ دلوائی جاتی ہوتی تو زمین انہیں چٹ کرجاتی۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے یہ کہہ کر جدید سائنسی حقیقت بیان کی ہے۔ اطباء کہتے ہیں کہ جو مریض چلنے پھرنے کے قابل نہ ہوں یا اپنے بستر سے اٹھنے کی سکت نہ رکھتے ہو ں ایسے مریضوں کو وقتاً فوقتاً کروٹ دلواتے رہنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو دوسری صورت میں ان کے جسم میں زخم پیدا ہوجائیں گے ۔ انہیں بیڈ سور (bad-sore) کہا جاتا ہے۔ جسم اور ٹانگوں کے نچلے حصوں پر خون کا لوتھڑا بن جاتا ہے۔ لہذا اس تکلیف سے انہیں بچانے کیلئے وقتاً فوقتاً کروٹ دینا ضروری ہوتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب کہف کو سال میں 2مرتبہ دائیں بائیں کروٹ دینے کا انتظام کرکے زمین کا حصہ بن جانے سے تحفظ فراہم کیا۔ اطباء بتاتے ہیںاور مشاہدات بھی یہی ہیں کہ جن مریضوں کو طویل مدت تک بستر پر لیٹتے ہوئے کروٹ نہیں دی جاتی ان کے جسم میں مختلف زخم پیدا ہوجاتے ہیں۔ آخر میں چل کر یہ زخم مہلک بیماری کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اصحاب کہف کے اس واقعہ میں ماحولیاتی معجزہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا تذکرہ یہ کہہ کر کیا ہے۔ ’’وَتَرَی الشَّمْسَ اِذَا طَلَعَتْ تَّزٰوَرُ عَنْ کَھْفِھِمْ ذَاتَ الْیَمِیْنِ وَاِذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُھُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَھُمْ فِیْ فَجْوَۃٍ مِّنْہُ‘‘۔ ’’تم انہیں غار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غارکے اندرایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں‘‘۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غار کا دروازہ بائیں جانب تھا کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جب سورج نکلتا تو انکے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتا۔ حضرت ابن عباسؓ، سعید بن جبیرؒ اور قتادہؒ بتاتے ہیں کہ قرآن پاک کی اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب سورج افق پر چڑھتا تو اس کی کرنیں اوپر جانے کی وجہ سے ہلکی ہوجاتیں اور اسکی تیزی زوال کے وقت باقی نہ رہتی۔ آگے چل کر پھر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اور جب سورج غروب ہوتا تو غار کے شمالی جانب سے نکل کر چلا جاتا۔ اس طرح سورج کی شعاعوں سے اصحاب کہف محفوظ رہتے۔ وہ ہمیشہ سائے میں رہتے اور ٹھنڈی مناسب ہوا انکے غار میں آتی جاتی رہتی تھی۔ اگر غار کا محل وقوع اس انداز کا نہ ہوتا تو سورج کی شعاعیں اصحاب کہف کو جلا دیتیں۔
 قرآن پاک کے اس مضمون سے2 باتیں معلوم ہوتی ہیں: 1۔ طویل مدت تک بستر پر لیٹنے والے مریضوں کو زخموں اور اذیت ناک پھوڑوں سے بچانے کیلئے الٹتے پلٹتے اور دائیں بائیں کروٹ دینے کا انتظام ناگزیر ہے۔ ایسا نہ کرنے پر مریضوں کی کمر اور جسم کے مختلف حصوں میں زخم پیدا ہوسکتے ہیں۔ 2۔ انسانوں خصوصاًمریضوں کو طویل مدت تک کسی جگہ قیام کرنے کے لئے سورج کی شعاعوں سے بچنا اور ہوادار جگہ کا انتخاب لازمی ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کا اختتام یہ کہہ کر کیا ہے۔ ’’ذلک من آیت اللہ ‘‘ ’’یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے‘‘۔ اصحاب کہف کا واقعہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اس طرح ہے کہ رب العالمین نے ہی انہیں ایسے غار میں پناہ لینے کا الہام کیا تھاجہاں وہ برسہا برس زندہ رہ سکتے تھے۔ 


جہاں سورج سے بچاؤ کا طبعی نظام موجود تھا اور جہاں انکے جسم کو تروتازہ رکھنے والی ہوا کی آمد و رفت کا پورا اہتمام تھا۔ آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ: ’’من یھد اللہ فھو المھتد‘‘ ’’جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے۔‘‘ اسکا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہی تھا جس نے ا صحاب کہف والے نوجوانوں کو توحید کی ہدایت دی تھی اور وہی تھا جس نے انہیں اپنا دین، اپنی آبرو اور اپنی جان بچانے کیلئے غار میں پناہ لینے اور مناسب ترین غار کے انتخاب کی رہنمائی کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ ہدایت کا کلمہ قرآن پاک میں بہت سارے مقامات پر آیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ محمد کی آیت نمبر 17میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’والذین اھتدوا زادھم ھدی واتاھم تقواھم‘‘ ’’ وہ لوگ جنہیں ہدایت ملی اللہ نے ا نہیں مزید ہدایت سے نوازا اور انہیں خدا ترسی کی نعمت سے نوازا‘‘۔ اللہ تعالیٰ سورہ مریم کی آیت نمبر 76 میں ارشاد فرماتا ہے کہ: 

’’ویزید اللہ الذین اھتدوا ھدی والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثواباً و خیر مرداً‘‘
  ’’اور ہدایت یافتہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت میں برکت دیتا ہے اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے اور انجام کے اعتبار سے بہت ہی بہتر ہیں‘‘۔ 

 قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جسے جبریل امین رب العالمین کی طرف سے آسمان سے لیکر اترے تھے ۔ اسکی عبارتیں اس کے الفاظ اور اسکی ترتیب سب کچھ جبریل امین سید الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کے پاس لیکر پہنچے تھے۔ قرآن آخری آسمانی کتاب ہے یہ عظیم معجزہ ہے یہ قیامت تک بندگان خدا کے لئے رب العالمین کی انمول نعمت ہے دینی و دنیاوی امور اور ہر زمان و مکان میں انکی ہدایت کیلئے سب سے عظیم رہنما دستاویز یہی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’مافرطنا فی الکتاب من شیء‘‘ ’’ہم نے قرآن کریم میں کسی بھی طرح افراط سے کام نہیں لیا۔ ‘‘ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی اور روشنی دینے والی کتاب ہے۔ یہ ذکر حکیم ہے۔ یہ صراط مستقیم بتانے والی کتاب ہے۔ اس پر عمل کرنے والے فکری، نظریاتی اور عملی اعتبار سے منحرف نہیں ہوتے۔ قرآن پاک ہر طرح کی ٹیڑھ، ہر قسم کی خامی اور ہر انداز کی غلطی سے پاک و صاف ہے۔
یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جنات کہہ اٹھے تھے کہ ہم نے عجیب و غریب کلام سنا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم قرآن پاک کی تلاوت کرکے سکون محسوس کرتے اور روشنی حاصل کرتے تھے صحابہ قرآن پاک کو روحانی غذا بنائے ہوئے تھے۔ وہ اس کے احکام اپنے اوپر نافذ کرتے اس کی مقرر کردہ حدوں کی پابندی کیا کرتے۔ ایسا کرنے کی وجہ سے اللہ رب العزت کے فضل و کرم کی بدولت وہ پوری دنیا کے حکمراں بن گئے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہ صرف یہ کہ قرآن کریم من و عن اپنے بعد آنے والے لوگوں کے حوالے کیا انہوں نے قرآن پاک کی ا یک ، ایک آیت کو قابل عمل ہونے کے نظائر بھی آنے والی نسل کے سپرد کئے۔ اگر عصر حاضر کے مسلمان ایک بار پھر عظمت رفتہ بازیاب کرنے کے آرزو مند ہیں ،اگر ہمارے دور کے مسلمان ایک بارپھر آفات و مصائب کے دلدل سے نکل کر عروج کی بلندیاں سر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں قرآن پاک پر عمل کرنا ہوگا۔ 
جو لوگ بھی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرح قرآن پاک کی صداقت اور حقانیت کو اپنے عقیدے کا اٹوٹ حصہ بنائیں گے اور قرآنی آیات پر عمل کو اپنی زندگی کی پہچان و شناخت بنائیں گے وہ کامیاب ہونگے ، سرخرو ہونگے ، عروج کی اس منزل پر سرفراز ہونگے جس کا انہوں نے تصور تک نہ کیا ہوگا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں قرآن پاک سیکھنے او رسکھانے اور اس میں غور و تدبر کرنے کی ہدایت کی ہے۔رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ’’ تم میں بہتر لوگ وہ ہیں جو قرآن پاک سیکھیں اور سکھائیں۔‘‘ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ جس نے قرآن پاک کی ایک آیت سنی اس کے لئے دگنا اجر لکھ دیا جائیگا اور جو اس کی تلاوت کرے ۔ قرآن اسکے لئے قیامت کے روز روشنی کا باعث بنے گا۔ 



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی