تیس جولائی جمعرات کے روز محققین کی جانب سے مغربی آسٹریلیا سے
حاصل کردہ نہایت باریک ذروں اور قلموں کے شواہد کی روشنی میں بتایا گیا کہ زمینی
مقناطیسیت نے کم از کم 4.2 ارب سال پہلے اپنا کام شروع کیا تھا۔ یہ دعویٰ اس قوت
کی ابتدا کو اب تک کے اندازوں سے کہیں زیادہ قدیم بتا رہا ہے۔
اس سے قبل سائنس دان بتاتے رہے ہیں کہ زمین پر اس مقناطیسی قوت کی
ابتدا ساڑھے تین ارب سال قبل یعنی سیارہ زمین کے وجود میں آنے کے ایک ارب بعد ہوئی
تھی۔ تاہم یہ تازہ تحقیق بتا رہی ہے کہ سیارہ زمین کے وجود میں آنے کے کچھ ہی برس
بعد یہ قوت پیدا ہوئی، جو آج تک اس سیارے پر زندگی کی ضمانت اور محافظ بنی ہوئی
ہے۔
یہ
نتائج جریدے ’سائنس‘ کے تازہ شمارے میں شائع کیے گئے ہیں۔ اس موضوع پر تحقیق کرنے
والی ٹیم کے قائد ٹارڈُنو کے مطابق، ’’چار ارب برس قبل سولر ونڈز (سورج سے آنے
والی تابکار ہوائیں) زیادہ شدید تھیں۔ اس طرح سورج کی ان تابکار ہواؤں کو اپنے
قریب آنے سے روکنے والی یہ صلاحیت بھی اب سے دس گنا زیادہ تھی۔ اس کی عدم موجودگی
میں زمین پر کرہء ہوائی پیدا ہونا ممکن نہیں تھا اور اگر یہ قوت نہ ہوتی تو زمین
سے سارا پانی ختم ہو جاتا۔‘‘
یہ تحقیق مغربی آسٹریلیا میں واقع جیک ہِلز میں موجود قدیم زِرکون
قلموں کے تفصیلی مطالعے پر مبنی ہے، جس سے زمینی مقناطیسیت اور اس کی تاریخ اور
شدت کا پتہ ملتا ہے۔ محققین نے ان ایک ملی میٹر کے ایک دہائی یا دو دہائی کے برابر
حجم کی حامل قلموں کا مشاہدہ کیا۔ یہ قلمیں 3.2 تا 4.2 ارب برس قدیم ہیں۔ یہ قلمیں
یہ بتاتی ہیں کہ اس تمام عرصے میں زمین پر برقی مقناطیسی قوت موجود تھی۔ سائنس
دانوں کے مطابق مقناطیسی قوت کی عدم موجودگی میں زمین پر زندگی کا ارتقاء اور نمو
کسی بھی طور ممکن نہیں تھے۔
یہ
بات اہم ہے کہ نظامِ شمسی میں واقع صرف دو زمین اور عطارد ’روکی پلینٹس‘ یا چٹانی
سیارے مقناطیسی قوت کے حامل ہیں۔ یہ قوت مریخ پر بھی موجود تھی، تاہم چار ارب برس
قبل مریخ اپنی یہ قوت کھو بیٹھا تھا۔ محققین کے مطابق ایک وقت تھا، جب مریخ بھی
کثیف کرہ ہوائی اور سمندروں کا حامل تھا، مگر مقناطیسی قوت کھوتے ہی، سورج سے آنے
والی طاقتور تابکار ہواؤں نے اس کا کرہء ہوائی چھیل کر رکھ دیا اور پانی کے
مالیکیول ٹوٹ گئے تھے۔
ایک تبصرہ شائع کریں