قرآنی وعدہ : ایک دانے سے 700 یا اس سے بھی زائد دانے

  قرآنی وعدہ : ایک دانے سے 700 یا اس سے بھی زائد دانے

 اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں فرمایا ہے :

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦١
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سودانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی وا اور علم وا ہے(بقرہ: 261)

امام ابو عبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی ؒ  اپنی تفسیر " الجامع لا حکام القرآن " میں لکھتے ہیں :

" اس آیت کے الفاظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا کتنے شرف اور نیکی کی بات ہے اور اس ضمن میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ یہاں صدقہ کرنے والے کو کاشتکار اور صدقے کو بیج سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ سو اللہ تعالیٰ ایک صدقے (نیکی) کے عوض سات سو ( یا اس سے بھی زیادہ) نیکیوں کا ثواب عطا کرتا ہے ۔ اگر کا شتکار خوب محنت کرے اور بیج اچھا ہو اور زمین زرخیز ہو تو پیداوار میں بڑھوتری ہوتی ہے اور یہی کیفیت خرچ کرنے والے  کی ہے ۔ اگر وہ نیک ہو اور اس کامال پاکیزہ اور مال ٹھیک جگہ خرچ کرئے تو ثواب بہت بڑھ جاتا ہے "۔



امام قرطبی ؒ مزید لکھتے ہیں :
یہاں حَبَّۃ اسم جنس ہے ۔ اس سے مراد ہر وہ شے (اناج)ہے جسے آدمی کاشت کرے اوروہ اس کا رزق بنے  اور اناج میں سب سے مشہور گندم ہے اور "حَبّ" سے زیادہ تر یہی مراد لی جاتی ہے ، جیسے کہ جاہلی دور کا شاعر متلمس ہے :

آلَیت حَبَّ العراق الدہر اطمعہُ
والحب ُ یاکلُہ فی القریۃ السُوس
"میں نے ہمیشہ عراق کی گند م کھانے کی قسم کھائی ہے ۔ اور گندم تو بستی کے سردار ہی کھاتے ہیں "۔

اور سنبلہ (بالی یا خوشہ ) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد باجرے کا خوشہ ہے کیونکہ اس میں اس عدد 700 سے زیادہ دانے ہوتے ہیں لیکن باجرے  کے حوالے سے یہ بات بے اصل ہے کیونکہ ہمارے مشاہدے کے مطابق باجرے کے خوشے میں 700 جبکہ دیگر اناجوں کے خوشے میں اس سے بھی زیادہ دانے پائے جاتے ہیں  لیکن یہ (قرآنی ) مثال اسی قسم (گندم) کی ہے ۔
امام ابی محمد حسین بن مسعود بغوی ؒ "فی سبیل اللہ " کی تفسیر میں لکھتے ہیں  کہ 
"اس سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد اور نیکی کے تمام کام ہیں۔ اوریُضٰعِفُ کے مفہوم کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ " اللہ جس کے لیے چاہے اجر بڑھا دیتا ہے "۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ اس اجر کو سات سو گنا سے بھی بڑھا دیتا ہے "۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں تقریباً 1400 سال پہلے گندم کے دانوں کی پیداوار میں غیر معمولی اضافے کی جو نوید سنائی وہ آج کے سائنسی حقائق سے بھی ثابت ہورہی ہے ۔لیکن آج کا انسان تمام تر سائنسی تحقیق کے باوجود اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی زرعی پیداوار کی خوشخبری کے مطابق پیداوار حاصل کرنے سے ابھی قاصر ہے اور اناج کی پیداوارکا وہ ہدف ابھی حاصل نہیں ہو سکا جس کا اشارہ سورۃ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت میں کیا گیا ہے ۔
اس سلسلے میں ماہر زراعت جناب محمد اعجاز تبسم اپنی ایک رپورٹ بعنوان " کلام الہٰی کے مطابق گندم کی اوسط پیداوار 189 من فی ایکڑ" میں لکھتے ہیں :
" اس آیت مبارکہ (بقرہ: 261) میں محققین کے لیے ایک ہدف ، ایک نشان اور ایک منزل کا تعین بھی کیا گیا ہے  کہ غلہ دار اجناس کے ایک دانے سے سات سو دانے یا اس سے بھی زیادہ اُگائے جا سکتے ہیں ۔ قبل از سبز انقلاب( عشرہ 1960 ء ) گندم کی تحقیق اس وقت کی مروجہ دیسی  اقسام پر مبنی تھی جن پر فی  پودا اوسطَ اڑھائی خوشے (سٹے ) لگتے تھے ۔کچھ دانے  گر کر ضائع ہونے کے باووجودہر خوشے سے اوسطاً 20 تا 25 دانے ملتے تھے، یعنی  اس وقت ہماری تحقیق گندم کے ایک دانے کی کاشت سے کم وبیش 40تا 45دانوں کے ملنے تک محدود تھی ۔
'' 1960ء کی دہائی میں آنے والے سبز انقلاب کے بعد اللہ عزوجل کے فضل وکرم اور اس کے بعد ماہرین گندم کی تحقیقی کاوشوں کی بدولت تادم تحریر ہماری تحقیق اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ ایک دانے سے ہم اوسطاً  پونے دو خوشون کے ذریعے 48 تا 54 دانے فی خوشہ کے حساب سے کل تقریباً100 دانے حاصل کرنے میں الحمدللہ کامیاب ہو چکے ہیں ۔ گویا ارشاد بانی کے مطابق ہر دانے سے مزید 600 دانے پیدا کرنے کی گنجائش ابھی باقی ہے ۔
"ایک دانے  سے 100 دانوں تک پہنچنے کی تحقیق سے ہم یوں بھی ادراک حاصل کر سکتے ہیں کہ اس وقت ہمارے ملک کی مجموعی اوسط پیداوار 27 من فی ایکڑ ہے ۔یعنی ایک دانے کےذریعے 100 دانوں تک پہنچتے ہوئے ہم اوسط ً 27 من فی ایکڑ پیداوار حاصل کر رہے ہیں  اور اگر اپنی تحقیق ، جستجو اور لگن سے ہم ایک دانے سے 700(یعنی 7 گنا) دانوں تک پہنچ جاتے ہیں  ،تو ہماری اوسط پیداوار 7*27یعنی 189 من فی ایکڑ ہو سکتی ہے ۔
'' گویا ارشاد ربانی کے مطابق ابھی ہمیں تحقیق وجستجو سے زرعی اسرار کو منکشف  کرتے ہوئے گندم کی پیداوار 27 من فی ایکڑ   سے  بڑھا کر 189 من فی ایکڑ تک لے جانی ہے ، یعنی کلام الہیٰ کے مطابق گندم کی پیداوار میں ابھی 162 من فی ایکڑ اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔یہ اضافہ خواہ  کاشتی امور کی بہتری سے ہو یا اقسام کی جینیاتی ہیت کی تبدیلی سے ممکن ہو ۔ ابھی ہماری اوسط پیداوارمیں  162من فی ایکڑ تک مزید اضافے کی گنجائش بہر حال موجود ہے ۔ گنجائش کا یہ ہدف صرف اور صرف ہمت ،جذبے ،لگن  اور شبانہ روز محنت سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔بقول اقبال
ذرا نم ہو یہ مٹی  بہت زرخیز ہے ساقی
زرعی پیداوار میں اضافے کی قرآنی نوید کی تائید حدیث  سےبھی ہوتی ہے ۔ حضرت نواس بن سمعان کلابی سے روایت ہےنبی  ْﷺنے قرب قیامت کی نشانیا بیان کرتے ہوئے فر مایا :
پھر اللہ بارش نازل کرے گا جس سے کوئی مکان اور کوئی جھونپڑ اخالی نہیں رہے گا  ۔ چناچہ زمین دھل جائے گی جیسے جھاڑو دی ہوئی زمین ہو ۔ پھر زمین سے کہاجائے گا : اپنے پھل اُگا اور اپنی برکتیں لٹا دے ، پھر اس دن بہت سارے لوگ ایک انار کھائیں گے او راس کے چھلکے میں بیٹھیں گے ۔
 اس حدیث میں بہت بڑے حجم کے پھلوں کا ذکر ہے ۔بڑے بڑےحجم کے پھلوں او رسبزیوں کے کچھ نمونے تو اس زمانے میں بھی دیکھنے میں ٓا رہے ہیں ،مثلا ً تربوز ، اور حلوہ کدو وغیرہ عام حجم سے کہیں بڑے اگائے جانے کی خبریں اور تصویریں موصول ہوتی رہتی ہیں  جن سے قرآن سنت میں بیان کردفزوں تر زرعی پیداوار کے امکانات کی تائید ہوتی ہے ۔ اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اسکے  رسول ْﷺکی فرمائی ہوئی ہر بات حق ہے ۔

ماخذ:۔
الجامع الاحکامالقرآن ۔۔ الجزٗ ثالث ۔ ص 87 تا 89
مختصر تفسیر البغوی ۔ مطبوعہ دارلسلام  ۔ ص، 102
نوائے وقت لاہور ۔ 4 اکتوبر  2005
صحیح مسلم ۔ حدیث نمبر 2937
اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات ۔ ص 87 تا 89

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی