مردوخواتین میں بانجھ پن کی وجوہات


 مردوخواتین میں بانجھ پن کی وجوہات


شادی کے بعد ماں بننا عورت کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کیونکہ اس سے نہ صرف اس کی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے بلکہ سسرال اور سماج میں بھی بلند رتبہ عطا ہوتا ہے۔ اولاد کی صورت نسل پروان چڑھتی ہے‘ خاندان کو وارث اور والدین کو بڑھاپے کا سہارا نصیب ہوتا ہے‘ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ افراد جنہیں خدا شادی کے کچھ عرصے بعد ہی اولاد کی نعمت سے سرفراز کرتا ہے لیکن جو شادی کے طویل عرصے بعد بھی ماں یا باپ بننے سے محروم رہیں ان کے دکھ‘ درد‘ غم اور خلش کا اندازہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ لیکن ایسے شادی شدہ جوڑے جنہیں طبی نقطہ نظر سے تندرست قرار دیا جائے لیکن وہ پھر بھی اولاد کی نعمت سے محروم رہیں تو عجیب تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ آج اس اشاعت میں بانجھ پن جیسے اہم ترین مرض کی وجوہ علامات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نفسیاتی عوارض اور طریقہ علاج ہی کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ صرف خواتین ہی بانجھ پن کا شکار ہوں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایک تہائی کیسز میں بانجھ پن خواتین کی وجہ سے ہوتا ہے جب کہ دیگر ایک تہائی کیسز میں مرد بھی برابر کے ذمے دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ جوڑوں میں دونوں میں خرابی ہوتی ہے۔ گزشتہ 20 برس کے دوران بانجھ پن کے کیسزمیں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے اور اس کی بڑی وجہ ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ کو قرار دیا گیا ہے۔ بے شمار جوڑے ایسے ہیں جن میں عورت کے حاملہ نہ ہونے کی ذمہ داری مردوں پر عائد ہوتی ہے۔ ریسرچ رپورٹ میں مردوں کے بانجھ پن کی مختلف وجوہ بیان کی گئی ہیں جن میں سے چند اہم ترین درج ذیل ہیں۔



بعض ذہنی دباؤ ہارمونز کو غیرمتوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اگر مرد ذہنی یا ڈیپریشن کا شکار ہو تو یہ اس کے اسپرم کی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ وٹامن سی کی زیادتی اور سیلینیم‘ زنک بھی بانجھ پن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مردوں میں باڈی ماس کی زیادتی بھی بانجھ پن کا سبب بنتی ہے۔ بعض امراض کی نوعیت ایسی ہوتی ہے جو جنسی کارکردگی بری طرح متاثر کرتے ہیں جیسے کینسر وغیرہ میں شعاعیں اور کیموتھراپی طریقہ علاج دونوں اسپرم کو متاثر کرتے ہیں اور اس کے خدوخال غیرمتوازن کردیتے ہیں۔ اسی طرح الکوحل اور منشیات کا استعمال بھی مردوں کی زرخیزی کم کرتا ہے۔ خاص طور پر منشیات کا مسلسل استعمال مردوں کو بانجھ بنادیتا ہے۔ عمر کا زیادہ ہونا بھی بانجھ بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ بعض بڑے آپریشن اور امراض بھی ایسے ہیں ان میں شوگر‘ تھائی رائیڈ‘ ایچ آئی وی‘ اینیما‘ جگر اور گردوں کا فیل ہونا شامل ہے۔
ماہرین کے مطابق 35 برس سے زائد عمر کے مردوں کے جنسی کارکردگی بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح کوکین اور تمباکونوشی کرنے والے مردوں میں بھی کم تعداد میں اسپرم پیدا ہوتے ہیں۔ ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کمپیوٹر کے سامنے زیادہ دیر بیٹھنے سے بھی اسپرمز کی تعداد کم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ایسے افراد کے ہاں اکثر لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں۔
مردوں کے ساتھ خواتین میں بھی بانجھ پن کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ فیلوپین ٹیوب کا بند ہونا ہے۔ بیضہ ریزی ہوتی ہی نہیں یا کبھی کبھار ہوتی ہے۔ وہ خواتین جن کو ذیابیطس ہو ان میں بھی یہ مسئلہ ہوجاتا ہے ۔
معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر غزالہ افتخار نے بانجھ پن کی وجوہ اور طریقہ علاج کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’پاکستان میں 65 فیصد خواتین اور 45فیصد سے زائد مرد بانجھ پن کا شکار ہیں۔ خواتین میں بانجھ پن کا تعلق بڑھتی عمر اور مختلف امراض سے ہوتا ہے۔40برس کے بعد خواتین میں ماں بننے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ٹی بی اور ذہنی دباؤ کی شکار خواتین بھی مشکل سے حاملہ ہوتی ہیں۔ اگر شادی کے ابتدائی چھ‘ سات ماہ تک حمل نہ ہو تو اس میں پریشانی کی بات نہیں لیکن ایک برس سے زائد عرصہ ہوجائے تو یہ قابل تشویش ہے اور ہمارے ہاں عام رویہ یہ ہے کہ حمل نہ ٹھہرنے کی صورت میں ہمیشہ خواتین ہی کا ڈاکٹروں سے چیک اپ کرایا جاتا ہے حالانکہ یہ سراسر غلط طرزعمل ہے۔ عورت میں حمل نہ ٹھہرے تو پہلے شوہر کا طبی معائنہ ہونا چاہیے ایسے مرد جن میں اسپرمز بنتے ہی نہ ہوں ان کا تو علاج ہی ممکن نہیں لیکن ایسے مرد جن کے اسپرمز تو بنتے ہیں مگر ان کی تعداد کم یا کمزور ہوتی ہے تو ان کا مرض قابل علاج ہے جبکہ خواتین کی اووری میں رسولیاں ہوں‘ انڈے نہ بن رہے ہوں‘ فیلوپین ٹیوب نہ ہو یا وہ موٹاپے کا شکار ہوں تو حمل نہیں ٹھہرتا۔ ہاں! اگر خواتین میں فیلوپین ٹیوب ہے لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر بند ہے تو اس کے ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں علاج ممکن ہے۔ ٹیوب بند ہونے کی سب سے بڑی وجہ ڈیپریشن ہے اگر عورت مسلسل ذہنی تناؤ کا شکار ہے تو ٹیوب بند ہوجاتی ہے۔ حمل کے لیے عورت کا ذہنی طور پر پُرسکون ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ شادی کے ابتدائی سالوں میں فیملی پلاننگ کرنے سے بھی عورت بانجھ ہوسکتی ہے کیونکہ ایک مرتبہ سسٹم آف ہوجائے تو پھر آن نہیں ہوتا‘ اسی لیے شادی کے پہلے دو برسوں میں فیملی پلاننگ ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔(فیملی پلاننگ  کا مغربی تصوربالکل غلط ہے  یہ صرف اس صوررت میں کی جاسکتی ہے کہ جب حمل یا ڈلیوری سے عورت کی جان کو خطرہ ہو۔ واللہ اعلم)
اولاد سے محرومی کامیاب سے کامیاب ترین زندگی گزارنے والوں کے ازدواجی تعلقات میں بھی دراڑیں ڈال دیتی ہے اور اس سے زیادہ متاثر عورت ہی ہوتی ہے۔ بانجھ خواتین کے ساتھ سماج یا سسرال کا رویہ کیسا ہوتا ہے یہ بھی بڑی درد بھری داستان ہے۔
بانجھ پن کی شکار خواتین سماجی رویوں کے باعث مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس حوالے سے مختلف ماہرین نفسیات سے بھی گفتگو کی گئی۔ پاکستانی آبادی کی اچھی خاص تعداد اس مرض کا شکار ہورہی ہے اور ماہرین کے خیال میں تو خواتین اور مردوں میں اس کی شرح تقریباً برابر ہی ہے لیکن سسرال بیٹے کی بجائے عموماً بہو کو قصوروار ٹھہراتا ہے جس کے باعث عورت خود کو مجرم سمجھنے لگتی ہے اورشدید عدم تحفظ کا شکار ہوجاتی ہے۔
بانجھ پن کوئی ناقابل علاج مرض نہیں اگر ابتدائی سطح پر اس کا باقاعدہ علاج کرالیا جائے تو 80فیصد جوڑے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ہمارے یہاں سماجی رویوں کے باعث مرد کی نسبت‘ عورت زیادہ اثر قبول کرتی ہے اور شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے اور اسی ذہنی دباؤ کے باعث اسے حاملہ ہونے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے نیز بانجھ پن سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ بچیوں کی جلد شادیاں کردی جائیں۔


بشکریہ ماہنامہ  عبقری

3 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی