مصر: اسلامی انقلاب کی جانب پیش رفت

 مصر: اسلامی انقلاب کی جانب پیش رفت


یقینا آج سے ڈیڑھ سال قبل حسنی مبارک نے یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ اسے کبھی قاہرہ میں واقع محفوظ ترین صدارتی محل سے نکل کر عدالتوں میں پیش ہونا پڑے گا اور زندگی کے بقیہ دن جیل میں گزارنے پڑیں گے، اور شاید مبارک کے منحوس دورِ حکومت میں بارہا جیل جانے والے رہنما محمد مرسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ آئی ہو کہ وہ ایک دن جیل سے نکل کر ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوجائیں گے۔ جو شخص کل تک مصر اور مصریوں کی قسمت کا مالک بنا بیٹھا تھا وہ آج عمر قید کاٹ رہا ہے، اور وہ شخص جو کل تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی اور ساتھیوں کی آزادی کے خواب دیکھا کرتا تھا آج مصر کا صدر ہے۔

مصرکے صدارتی انتخابات میں اخوان المسلمون کے امیدوار محمد مرسی کی کامیابی کا تو سب ہی کو یقین تھا، لیکن اس بات کا یقین آخر وقت تک کسی کو نہ تھا کہ مصری الیکشن کمیشن ان کی کامیابی کا اعلان بھی کرے گا۔16،17جون کو جب مصری عوام نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کررہے تھے تو ایک دن قبل مصری افواج ایک غیر منصفانہ عدالتی فیصلے پر عمل کرتے ہوئے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کو تالے لگاچکی تھیں۔ پولنگ کے اختتام کے تھوڑے عرصے بعد جب نتائج آنے شروع ہوئے تو محمد مرسی کو مبارک کے قریبی ساتھی احمد شفیق پر واضح برتری حاصل تھی، اور ووٹوں کی گنتی مکمل ہوئی تو غیر سرکاری نتائج کے مطابق محمد مرسی نے احمد شفیق کے مقابلے میں 10لاکھ ووٹ زائد حاصل کیے تھے، تمام غیر جانب دار ذرائع نے بھی ان نتائج کی تصدیق کی۔ لیکن مرسی کی کامیابی دراصل مصری عوام کی کامیابی تھی اور احمد شفیق کی ناکامی دراصل مصری فوج کی شکست تھی، اور اس شکست کا اعلان بہرحال آسان نہ تھا۔ سرکاری نتائج کا اعلان21 جون بروز جمعرات کو ہونا تھا لیکن اس میں تاخیر کردی گئی اور کہا گیاکہ اب نتائج کا اعلان 23 جون بروز اتوار کو ہوگا۔ اس عرصے میں فوج نے صدر کے اختیارات میں کمی کرتے ہوئے قانون سازی کے اختیارات اور بجٹ پر کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کا اعلان کردیا تاکہ محمد مرسی کی کامیابی کا اعلان کر بھی دیا جائے تو وہ برائے نام اور بے اختیار صدر ہوں۔
فوجی کونسل کے عزائم بھانپتے ہوئے اخوان المسلمون نے ملین مارچ کی اپیل کی، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تحریر اسکوائر پر لاکھوں افراد اکٹھے ہوگئے اور روزانہ مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ مصر میں18جون سے 23جون تک کا عرصہ سخت تناؤ میںگزرا۔ ایک جانب تو فوج پارلیمنٹ کو تحلیل کردینے کے بعد اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرلینے کے لیے اقدامات کررہی تھی، دوسری جانب احمد شفیق اپنی کامیابی کے جھوٹے دعوے کررہا تھا، اور تیسری طرف فوجی کونسل سے بیزار لاکھوں مصری تحریر اسکوائر پر جمع تھے۔ پاکستانی وقت کے مطابق نتائج کا اعلان اتوار کو چھ بجے ہونا تھا، اعلان سے قبل الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر سیکورٹی سخت کردی گئی تھی اور بازار وقت سے پہلے بند ہوچکے تھے۔ جب نتائج کے اعلان میں ذرا تاخیر ہوئی تو ایک بار پھر تحریر اسکوائر نعروں سے گونجنے لگا۔ یقینا ان فلک شگاف نعروں کی گونج مصری جرنیلوں تک ضرور پہنچ رہی ہوگی۔ تھوڑی دیر میں مصری الیکشن کمیشن کے اہلکار نمودار ہوئے، تمہید باندھی، اپنی کارکردگی کا ذکر کیا، اور بالآخر محمد مرسی کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی تحریر اسکوائر اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا، اور وہ مقام جہاں عوام گزشتہ ڈیڑھ سال سے احتجاج کررہے تھے، جشن کا سماں پیش کررہا تھا۔
مصری الیکشن کمیشن کے مطابق صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح آؤٹ تقریباً 52 فیصد رہی، محمد مرسی کے حصے میں 51.7 جب کہ احمد شفیق کو 48.3 فیصد ووٹ ملے۔ نومنتخب صدر نے ٹیلی ویژن پر قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ مقاصد کے حصول تک انقلاب کا سفر جاری رہے گا اور ہم اس سفر کو مل کر مکمل کریں گے۔ مصری صدارتی انتخابات مغربی ذرائع ابلاغ کا بھی موضوع بنے رہے، انتخابات سے قبل ایک مغربی خبررساں ادارے نے اپنی خبرمیں یہ جملہ مسلسل شامل کیے رکھا کہ انتخابات میں شکست کی صورت میں اخوان المسلمون دھاندلی کا واویلا کرے گی، اسی طرح یہ تاثر بھی دیا گیا کہ محمد مرسی کا انتظامی امور کے حوالے سے کوئی خاص تجربہ نہیں ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں احمد شفیق خاصاتجربے کار ہے۔یہ پروپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ محمد مرسی اخوان المسلمون کی پہلی پسند نہیں تھے بلکہ خیرت الشاطر کی نااہلی کے بعد وہ حادثاتی طور پر اس عہدے کے امیدوار بن بیٹھے ہیں اور مرسی کی شخصیت میں وہ کرشمہ بھی نہیں جو خیرت الشاطرکی شخصیت میں ہے۔مغربی ذرائع ابلاغ نے اپنے الفاظ مصری عوام کے منہ میں ڈالتے ہوئے یہ ڈھول بھی پیٹا کہ عوام کواحمد شفیق اور محمد مرسی دونوں سے ہی دلچسپی نہیں، گویا لاتعلق ہیں،ایک مبارک کا آدمی ہے اور دوسرا اسلام پسند ہے اور ہماری آزاد ی پر قدغن لگائے گا۔حالانکہ پارلیمانی انتخابات میں اخوان نے تقریباً50فیصد ووٹ حاصل کیے تھے ،اور سلفی جماعت النور پارٹی اور عبدالمنعم ابوالفتوح کی حمایت کے بعد تو محمد مرسی کی کامیابی یقینی نظر آتی تھی۔ محمدمرسی کی کامیابی کے اعلان پر عبرانی زبا ن کے اسرائیلی اخبار نے شہ سرخی لگائی کہ مصر یوں نے اسلام کا انتخاب کرلیا۔ محمد مرسی کی کامیابی کا اعلان جہاں اسرائیل کے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھا وہیں فلسطینی عوام نے ان کی کامیابی کے اعلان پر زبردست جشن منایا۔ حماس کے رہنماؤں اسماعیل ہنیہ اور موسیٰ ابومرزوق نے اخوان کی کامیابی کو خوش آئند قرار دیا۔ امریکی حکومت نے جہاں نتائج کا خیرمقدم کیا ہے وہیں اُسے یہ تشویش ضرور لاحق ہے کہ ایک اسلام پسند صدر جو نائن الیون کو سازش قرار دیتا رہا ہے، کے ساتھ کام کرنا یقینا آسان نہ ہوگا۔
امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق نئے مصری صدر کو درپیش فوری چیلنج ملکی معیشت کو بحران سے نکالنا ہے اور امریکہ یقینا اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے، اور یہی چیز دونوں ممالک کے درمیان مستقبل میں بہتر تعلقات کی بنیاد بن سکتی ہے۔ محمد مرسی نے ایک ایسے وقت ملک کی صدارت اپنے ہاتھوں میں لی ہے جب فوج پارلیمنٹ تحلیل کرچکی ہے، ابھی ان کے اختیارات کی حدود بھی متعین نہیں ہے۔ فوجی کونسل یہ اعلان کرچکی ہے کہ وہ 30 جون کو اختیارات صدر کے سپرد کردے گی، مگر اصل صورت حال 30 جون کے بعد ہی واضح ہوگی۔ درحقیقت پارلیمنٹ تحلیل کرکے نئے صدر کے لیے بہت سے مسائل کھڑے کردیے گئے ہیں۔ بہرحال محمد مرسی کو درپیش فوری چیلنجز میں نئی حکومت کی تشکیل، ملک کو معاشی بحران سے نکالنا اور فوج کے ساتھ تعلقات اور اختیارات کا تعین سرفہرست ہیں۔ نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے ابھی بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے، وزارتِ عظمیٰ کے لیے جوہری توانائی کے ادارے کے سابق سربراہ محمد البرادعی کا نام بھی لیا جارہا ہے، تاہم ابھی تک ان کے نام پر حتمی طور پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ یقینا مصر میں آنے والے چند ہفتے خاصے اہم ہیں۔ ابھی تک پارلیمنٹ کے مستقبل کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے، اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایک تہائی نشستوں پر دوبارہ انتخابات کرالیے جائیں، نئے آئین کی تشکیل بھی اہم مرحلہ ہے۔ یہ آئین کون تشکیل دے گا؟ اور اگر پارلیمانی انتخابات دوبارہ کرانے پڑے تو کب ہوں گے؟ اور جب تک صدر کے اختیارات کیا ہوں گے؟ ان تمام مسائل کے باوجود جو بات حوصلہ افزاء ہے وہ مصری عوام کا اخوان المسلمون پر مکمل اعتماد ہے۔ بھرپور عوامی حمایت اور مضبوط تنظیمی ڈھانچے کے بغیر اخوان المسلمون کے لیے ان چیلنجز سے نمٹنا یقینا آسان نہ ہوتا۔ خود محمد مرسی کی کامیابی کسی انقلاب سے کم نہیں ہے۔ محمد مرسی مصر کی تاریخ کے بلاشبہ پہلے صدر ہیں جنہیں عوام نے خود چنا ہے۔ ایک ایسی تنظیم جو گزشتہ 6عشروں سے مسلسل زیر عتاب تھی، جسے ختم کرنے کے لیے ہر انتہائی اقدام کیا گیا، گزرتے وقت کے ساتھ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتی گئی۔ امید ہے کہ اسلام کو تمام مسائل کا حل قرار دینے والی احیائے اسلام کی یہ تحریک مومنانہ فراست سے مسائل کو حل کرتے ہوئے داخلی اور خارجی مسائل پر جلد قابو پالے گی۔

اداریہ ۔ فرائیڈے اسپیشل۔ 29 جون تا5 جولائی۔2012

2 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی