مذہب اورسائنس کے متعلق سائنس دانوں کے تاثرات

مذہب اورسائنس کے متعلق سائنس دانوں کے تاثرات


مادہ پر ست اور ملحدین خواہ کتنی ہی ضد اورہٹ دھرمی اختیار کریں اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ کائنات میں پائی جانے والی تمام مخلوقات اور ان کے نظام ہائے زندگی 'سب کے سب خدا کے پیدا کردہ ہیں۔ اس لیے یہ امر یقینی ہے کہ سائنس او رمذہب کے درمیان ہم آہنگی اور توافق ہے۔ ان کے مابین ہم آہنگی ماضی اورحال کے ان سائنس دانوں کی وجہ سے پیداہوئی ہے جنہوں نے انسانیت کی بھلائی کے لیے کئی اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بے شمار سائنس دان جنہوں نے سائنسی کمالات کا مظاہرہ کیا وہ لوگ تھے جن کو قلب ونظر کی وسعت مذہب کے مطالعہ سے حاصل ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے نہ صرف مذہب اور سائنس کے مابین گہری مطابقت کو ثابت کیا بلکہ سائنس اوردنیا ئے انسانیت کی بے حد خدمت بھی کی۔ان میں سے چند ایک کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جاتاہے جن سے ہمارے اس مؤقف کو تقویت ملے گی کہ سائنس نے مذہب کی خد مت کی ہے اور دونوں لازم وملزوم ہیں۔آئزک نیوٹن جسے دنیا کے  عظیم ترین سائنس دانوں میں شمار کیا جاتاہے ا س کا نظریہ ٔ کائنات اس کے اپنے الفاظ میں اس طرح ہے :

''سورج'ستاروں اوردمدار تاروں کا حسین ترین نظام ایک ذہین ترین اور انتہائی طاقتور ہستی کی منصوبہ بندی اورغلبے کا نتیجہ ہو سکتاہے ۔  وہی ہستی تما م موجودا ت پر حکمرانی کررہی ہے جس کی عمل داری اور اقتدارمیں سب کچھ ہو رہا ہے۔ وہ اس امر کا استحقاق رکھتا ہے کہ اسے خدائے عظیم وبرتر اورہمہ گیر حکمران تسلیم کیا جائے۔ [1]

وہ اپنی دوسری کتاب ''پر نسیپیا میتھیمیٹیکا''میں اس طرح لکھتاہے :

''وہ (خدا )لافانی 'قادر مطلق 'ہمہ گیر ،مقتدراورعلیم وخبیر ہے'یعنی وہ ازل سے ابد تک رہے گا۔ایک انتہا سے دوسری انتہا تک ہمہ وقت موجود ہے، تمام مخلوقات پر حکمرانی کرتاہے اوران سب کاموں کو جانتا ہے جو کرنے ہیں یا کیے جاسکتے ہیں۔وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا۔ اسے بقائے دوام حاصل ہے۔ وہ ہر جگہ اورہر مقام پر حاضروناظر ہے۔ہم اس سے اس کی بے مثال صناعی اور اس کی پیداکردہ اشیا میں کمال کی جدتوں کی وجہ سے متعارف ہوئے ہیں۔ہم اس کے عاجز بندے ہیں اورتہہ دل سے اس کی حمدوثنا بیان کرتے ہیں'' [2]

جرمن ماہر ریاضی وفلکیا ت کیپلر (Kepler)کے بارے میں یہ مشہورہے کہ اس کے سائنسی کارنامے اس کے مذہبی رجحانات کے مرہونِ منت تھے۔1978ء میں فزکس کا نوبل پرائز جیتنے والے سائنس دان ارنوپینزیاس (Arno Penzias)نے جو کلمک بیگ گراؤنڈ ریڈی ایشن کی دریافت میں بھی شریک تھا'کیپلر کو ایک صاحب ایمان سائنس دان قرار دیا ہے۔بطور سائنس دان کیپلراس بات پر بھی یقین رکھتاتھا کہ کائنات 'خالقِ حقیقی کی پیداکردہ ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ سائنس دان کیوں بنے ہیں؟تو اس نے جواب دیا

''میں عالم دین بننا چاہتا تھا....لیکن اب میں نے اپنی کوششوں سے معلو م کرلیا کہ خدا کیسا ہے 'علم فلکیا ت میں بھی تحقیق سے مجھ پریہ بات آشکار ہوئی کہ یہ آسما ن خدا کی عظمت وجلا ل کا اقرار کررہے ہیں''۔ [3]

 لوئی پاسچر(Louis Pasteur)خداپرپختہ ایمان رکھتا تھا۔ ڈارون کے نظرئیے کی سخت مخالفت کرنے کی وجہ سے اسے شدید

تنقید کا بھی نشانہ بننا پڑا۔وہ سائنس اور مذہب میں کامل ہم آہنگی کا قائل تھا۔ اس کے الفاظ ہیں:

''میرا علم جتنا بڑھتاہے 'میرا ایمان اتنا ہی زیادہ پختہ ہو تا جاتاہے۔ سائنس کی تعلیم کی کمی انسان کو خدا سے دُور لے جاتی ہے اور علم کی وسعت اور گہرائی اسے خداکے قریب پہنچا دیتی ہے'' [4]

سر جیمز جینز (Sir James Jeans)نامورماہر طبیعیات تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ کائنات کو دانش وحکمت کے مالک نے تخلیق کیا ہے۔ اس موضوع پر اس کے متعدد بیانات میں سے دو بیانات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں جن میں اس کے عقیدے کا بھرپور اظہار ہو رہا ہے۔

''ہمیں اپنی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات ایک خاص مقصد کے تحت تخلیق کی گئی ہے یایہ اس کنٹرولنگ پاور کی تخلیق ہے جو ہمارے ذہنوں کے ساتھ کچھ اشتراک رکھتی ہے '' [5]

''کائنات کے سائنسی مطالعے کا نتیجہ مختصر ترین الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا ڈیزائن کسی خالص  ریاضی دان نے تیا ر کیا تھا۔'' [6]البرٹ آئن سٹائن (Albert Einstein)جو پچھلی صدی کے اہم ترین سائنس دانوں میں سے تھا او رخداپر ایمان رکھنے کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔وہ اس نظرئیے کا حامی تھاکہ سائنس مذہب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی 'اس سلسلے میں اس کے الفاظ یہ تھے

''میں ایسے سائنس دان کا تصور ہی نہیں کرسکتا جو گہرے مذہبی رجحانات نہ رکھتا ہو۔ شاید میری بات اس تمثیل سے واضح ہو جائے

کہ مذہب کے بغیر سائنس لنگڑی ہے'' [7]

آئن سٹائن اس امر پر بھی پختہ یقین رکھتا تھا کہ کائنات کا منصوبہ اتنی زبردست ہنرمندی سے بنایا گیا ہے کہ اسے کسی طرح بھی اتفاقی مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا۔اسے یقینا ایک خالق نے بنایا ہے جو اعلیٰ ترین حکمت ودانش کا مالک ہے۔ آئن سٹائن اپنی تحریرو ں میں اکثر خدا پر ایمان کا اظہار کیا کرتاتھا اورکہتا تھا کہ کائنات میں حیرت انگیز فطری توازن پایا جاتاہے جو غوروفکر کے لیے بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس نے اپنی ایک تحریر میں کہا''ہر سچے محقق کے اندرگہرے مذہبی رجحانات پائے جاتے ہیں'' [8]

آئن سٹائن کو ایک بچے نے خط لکھا جس میں اس نے پوچھا کہ کیا سائنس دان دعاکرتے ہیں ؟ اس کے جواب میں آئن سٹائن نے اسے لکھا:

''جو شخص سائنس کے مطالعہ اورتحقیق کی راہ اپناتاہے اسے اس امر کا قائل ہوناپڑتاہے کہ قوانین فطرت میں واضح طورپر ایک روح موجود ہے۔یہ روح 'انسانی روح سے بلند ترہے۔اس طرح سائنس کا مشغلہ انسان کو ایک خاص قسم کے مذہبی جذبے سے سرشارکر دیتاہے۔'' [9]

ورنہر وان بران (Wernher Von Branu) کادنیا کے چوٹی کے سائنس دانوں میں شمار ہوتا تھا۔ وہ ایک ممتاز جرمن راکٹ انجنیئرتھا جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ''V-2'' راکٹ تیا رکیے۔ڈاکٹر بران جو ناسا(امریکی ادارہ خلائی تحقیق)کا ڈائریکٹر بھی رہ چکا تھا'پختہ ایمان رکھنے والا سائنس دان تھا۔ اس نے ''فطرت کی تحقیق ومنصوبہ بندی ''کے موضوع پر چھپنے والے ایک مجلّے کے پیش لفظ میں لکھا کہ

” انسان بردارخلائی پرواز ایک حیرت انگیز تجربہ ہے لیکن اس سے یہاں تک پہنچنے والے انسان کے لیے خلا کی پر جلال وسعتوںمیں جھانکنے کے لیے ایک چھوٹا سا در کھلا ہے جو کائنات کے بے کراں اسرارمیں جھانکنے کے لیے محض ایک سوراخ ہے۔ اس سے ہمارے اس عقیدے کو تقویت پہنچنی چاہیے کہ کائنات کا ایک خالق موجود ہے۔ میرے لیے اس سائنس دان کو سمجھنا بہت مشکل بات ہے جو اس کائنات کے وجود کے پیچھے کارفرما اعلیٰ ترین حکمت ودانش کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو 'اسی طرح اس مذہبی شخصیت کو بھی سمجھنا بہت مشکل امر ہے جو سائنس کو تسلیم کرنے سے انکار کردے ''۔ [10]

ورنہر وان بران نے مئی 1947ء میں اپنے ایک مقالے میں لکھا:

''کوئی بھی شخص کائنات کے نظم وضبط کو اس وقت تک نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ اس کارخانۂ قدرت کے پیچھے کارفرما واضح منصوبہ بندی اورمقصد کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ہم نے کائنات کے رازوں کو جتنا بہتر سمجھنے کی کوشش کی ہے اس کے منصوبے پر ہماری حیرت میں اتنا ہی اضافہ ہوا ہے۔کسی کا خودکو صرف اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور پانا کہ یہ سب کچھ محض اتفاقاًہو گیا ہے خود سائنسی علم کے منافی ہے۔و ہ کون سا اتفاقی امر ہے جو انسانی دماغ یا اس کی آنکھ کے نظام کو جنم دے سکتا ہے؟ [11]

پروفیسر مالکم ڈنکن ونٹرجونیئرMalcolm Duncan Winter , Jr)) نے میڈیسن میں ایم ڈی کی ڈگری نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میڈیکل ا سکول سے حاصل کی 'بے شمار سائنس دانوں کی طرح وہ بھی کائنات اور جملہ انسانوںکو عظیم خالق کی

قدرت ِ تخلیق کا شاہکار سمجھتے ہیں۔اس مسئلے پر انہوں نے یوں اظہار خیال کیا:

''زمین اوریہ کائنات جو اتنی پیچیدگیوں اورزندگی کی مختلف اشکال سمیت ہمارے سامنے موجود ہے اور وہ انسان بھی جو سوچ سمجھ کی اتنی زبردست صلاحیتیں رکھتا ہے یہ تو اتنی لطیف اور پیچیدہ حقیقتیں ہیں کہ اپنے آپ تو نہیں بن سکتیں۔ ان کے بنانے کے لیے ایک عظیم مفکر ماسٹر مائنڈ خالق کا موجود ہونا ضروری تھا۔ اس سارے کارخانے کے پیچھے ایک خالق کی قدرت کارفرما ہو نی چاہیے اوروہ یقینا خداہے۔''  [12]

پروفیسرڈیل سوارزنڈ روبر(Dale Swartzendruber)پہلے کیلی فورنیا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ سوائل سائنٹسٹ تھے۔ پھر پر ڈیویونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مقررہوگئے۔اب سوائل سائنس آف امریکہ کے ممبر بھی منتخب ہوگئے ہیں، وہ خداپر ایمان رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ کائنات محض اتفاق کانتیجہ نہیں بلکہ ایک خالق کی قدرت کا نتیجہ ہے 'ان کا بیان حسب ذیل ہے:

'' حقیقت یہ ہے کہ آپ اوپر آسمان کی طرف دیکھیں یا نیچے زمین کی جانب 'ہر طرف ایک مقصدیت اورایک منصوبہ بندی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ اس عظیم منصوبہ ساز کی موجودگی سے انکار اتنی غیر منطقی بات ہے جتنی کہ گندم کی لہلہاتی زردزرد فصلوں کی تعریف بھی آپ کریں اور ساتھ ہی کسان کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیں۔'' [13]

ڈاکٹر الن ساندیجAllan Sandage)) موجودہ دور کے عظیم ماہر فلکیات ہیں۔ انہیں 50سال کی عمر میں خداپر ایمان لانے کی توفیق ہوئی۔ انہوں نے امریکی جریدہ نیوز ویک کو انٹرویودیا جو کور سٹوری کے طورپر اس سرخی کے ساتھ شائع ہو ا۔

''سائنس نے خدا تلاش کرلیا ساندیج نے اپنے قبول کردہ مذہب کے بارے میں کہا یہ سائنس ہی کا نتیجہ تھاکہ جس نے مجھے اس نتیجے پر پہنچایا کہ کائنات اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ سائنس کی گرفت میں نہیں آسکتی۔ چنانچہ میں موجودات کے معّمے کو مافوق الفطرت حوالوں سے ہی سمجھ سکا ہوں۔ '' [14]

پروفیسر البرٹ کومبس ونچسٹر(Albert Mcombs Winchester)نے یونیورسٹی آف ٹیکساس سے پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد بیلر یونیورسٹی میں طبیعیات کے پروفیسرکے طورپر خدمات انجام دیں اورفلوریڈا اکیڈمی آف سائنس کے صدربھی رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سائنسی تحقیق خداپران کے یقین کو مزید کو مستحکم کررہی ہے۔

''آج میں نہایت مسر ت سے کہہ رہا ہوں کہ سائنس کے مختلف شعبوں میں سالہا سال کے تحقیقی کاموں کے نتیجے میں خدا پر میر اایمان متزلزل ہونے کی بجائے مستحکم تر ہوگیا ہے اور اب پہلے کی نسبت مضبوط تر بنیادوں پر استوارہو چکا ہے۔سائنس نے اس عظیم ترین ہستی کے بارے میں انسان کی بصیرت کو گہرائی بخشی ہے او ر یہ اس کی قدرت کاملہ پر ایمان بڑ ھاتی ہے اورہر نئی دریافت ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔'' [15]

 تہران میں شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ماہر طبیعیات پروفیسر گلشنی (Mehdi Golshani)نے نیوزویک کوانٹرویو دیتے ہوئے خداپر ایمان کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ سائنسی تحقیق مذہب کی توثیق و تصدیق کا ذریعہ بن رہی ہے۔

''مظاہر فطرت 'کائنات میں  خدا کی نشانیاں ہیں۔ان کا مطالعہ کرنا 'اس لحاظ سے ایک مذہبی فریضہ بن جاتاہے۔ قرآن انسانوں کوزمین میں سفر وسیاحت کی تلقین کرتاہے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ اس نے تخلیق کا کیسے آغاز کیا۔ ''تحقیق کرنا خدا کی عبادت کرنے کی طرح ہے کیونکہ اس سے عجائب تخلیق کا انکشاف ہوتاہے۔ '' [16]




    ([1] Principia, Newton, 2nd Edition; J.D.E Vries,Essentials of Physical Science, B.EEerdmasn Pub. Co., Grand Rapids,Sd, 1958,P.15)

    ([2] Sir Issac Newton, Mathematical Principles of Natural Philosophy,Translated By  Andrew Motte, Revised By Florian Cajore, Great Books of Western World 34,Robert Maynard Hotchins, Editor in Chief, william Benton, Chicago, 952 ; 273 - 274)


  ([3] JOHANNES KEPLER, QUOTED IN: J.H.TINER, Johannes kepler - Giant of Faith and Science (MILFORD, MICHIGAN:MOTT MEDIA, 1977) P. 197.

[4] Jean Guitton, Dieu et la science : Vers le Metarealisme, Paris : Grasset, 1991, P.5

Sir james Jeans, in his rede lecture at cambridge, Reported in the Times london Nov.5,1930 [5]

[6] Sir James Jeans, The mysterious universe,New York : Macmillan Co. 1932 Cambridge

      [7]Science, Philosophy and Religion - A symposium, Published by the conference on science and religion in their relation to the Democratic way of life  Inc. New York,1941).

[8] Quoted in Moszkow SKI,Conversations With(Einstein),P.46

[9] Einstein Archive 42-601 , Jan 24, 1936

[10] Henry M.Morris,Men of Science Men of God, Master Books , 1992, P.85

[11] Dennis R.Peterson Unlocking the Mysteries of Creation, Creation Resource

 Foundation:Eldorado,California,1990,P.63

[12] John Clover Monsma, The Existence of God in an Expanding Universe, P. 182-183

[13] John Clover Monsma, The evidence of God in an expanding universe,P.191

[14] News Week, July 27, 1998, P.46

[15] John Clover Monsma, The evidence of God in an expanding universe,P.165

[16] News Week, July 27, 1998. P. 49

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی