کولا سپرڈیپ بور ہول، زمین میں دنیا کا سب سے گہرا ترین انسان کا کھودا ہوا سوراخ

 

کولا سپرڈیپ بور ہول، زمین میں دنیا کا سب سے گہرا  ترین انسان کا کھودا ہوا سوراخ

کولا سپرڈیپ بور ہول، زمین میں دنیا کا سب سے گہرا  ترین انسان کا کھودا ہوا سوراخ


 زمین میں انسانی ہاتھوں سے کیا جانے والا دنیا کا سب سے  گہراترین سوراخ روس میں ہے جسے' کولا سپر ڈیپ بور ہول' کہا جاتا ہے۔ یہ ناروے کی سرحد کے قریب روسی علاقے مورمانسک میں واقع ہے۔اس جگہ روس کا سائنسی تحقیقی سٹیشن آباد تھا۔لیکن آج یہ سٹیشن متروک ہو چکا ہے اور عمارت کا ایک خستہ حال ڈھانچہ نظر آتا ہے ۔ اس خستہ حال عمارت کے درمیان میں فرش پر زنگ آلود دھات کا ایک بڑا سا ڈھکن ہے جسے موٹے موٹے زنگ آلود نٹ بولٹ سے بند کیا گيا ہے۔اسے ہی "کولا سپرڈیپ بور ہول " کہا جاتا ہے ۔

روس کا سائنسی تحقیقی سٹیشن

 یہ ’کولا سُپرڈیپ‘ زمین پر سب سے گہرا سوراخ ہے جو انسان کا کھودا ہوا ہے۔یہ زمین میں     12،262 میٹر(40،230 فٹ )،یعنی سوا 12 کلو میٹر اندر تک جاتا ہے۔ اس قدر گہرائی تک جاتا ہے کہ مقامی لوگ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ’آپ وہاں جہنم میں سزا یافتہ روحوں کی چیخیں سن سکتے ہیں۔زمین میں کیے جانے والے  اس ،سب سے گہرے سوراخ کو سائنس دانوں نے 1995ء  بند کر دیا تھا، لیکن اس مقام سے خوف ناک اور دل دہلا دینے والی چیخوں کی آوازں کی ریکارڈنگ آج بھی خوفزدہ کر دیتی ہے۔ اور یہ ریکارڈنگ یوٹیوب پر موجود  ہے ۔  اس مقام کے قریب رہنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ آوازیں دوزخ سے آتی ہیں اور یہ سوراخ زمین اور جہنم کے درمیان ایک راستہ ہے۔ تاہم سائنس اسے تسلیم نہیں کرتی۔

کولا سپرڈیپ بور ہول

یہ سوراخ اتنا بڑا نہیں کہ انسان اس میں اتر سکے۔ سوراخ کا دہانہ صرف نو انچ ہے۔ اگر اسے سیل نہ بھی کیا گیا ہو تو بھی یہ ناممکنات میں سے ہے کہ کوئی شخص اس کے اندر گر سکے۔ اگرچہ یہ سوراخ مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے لیکن اس کے اندر سے چیخوں جیسی خوف ناک آوازوں کی وجہ سے یہ جگہ سیاحت کا ایک مرکز بن گئی ہے۔ لوگ یہاں آ کر اس اجڑے اور غیر آباد مقام کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھتے ہیں جہاں لگ بھگ 20 سال تک زمین کے اندر  3000 افراد پر مشتمل ایک کمپنی کھدائی کرتی  رہی تھی ۔

کولا سپرڈیپ بور ہول

یہ ایک خالص سائنسی پروجیکٹ تھا۔ اس مقام پر سائنس دان تیل یا کوئی قیمتی دھات تلاش نہیں کر رہے تھے بلکہ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ زمین کے اندر کی ساخت کیسی ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ایک جلتا ہوا گولہ جانداروں کے رہنے کے قابل ایک سیارہ کیسے بنا۔اپنے اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے سائنس دان تقریباً 9 میل نیچے جا کر چٹانوں کے نمونے اکھٹے کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔

کولا سپرڈیپ بور ہول

1992ء میں جب ڈرل مشین کا نوکیلا برما ساڑھے سات میل کی گہرائی میں واقع چٹان سے ٹکرایا تو انجنیئرز کو محسوس ہوا کہ اب مزید نیچے جانا ممکن نہیں رہا۔ اس گہرائی میں موجود چٹانیں تقریباً پونے تین ارب سال پہلے کی حالت میں تھیں۔ اس مقام کا درجہ حرارت 180 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ جو سائنس دانوں کے اندازے سے تقریباً دگنا تھا۔

کولا سپرڈیپ بور ہول

اتنے زیادہ درجۂ حرارت پر مزید کھدائی کرنا اس لیے بھی ممکن نہیں رہا تھا کہ اسٹیل کے پائپ اور برمے کی نوک ٹیڑھی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اس درجۂ حرارت پر زیرِ زمین چٹانیں بھی چٹان جیسی نہیں رہی تھیں بلکہ پروجیکٹ کے سائنس دانوں کے بقول ان کا طرزِ عمل پلاسٹک جیسا ہو گیا تھا۔اس پروجیکٹ پر کل 5 سوراخ کئے گئے تھے ۔ پہلے سوراخ  پر کا م 24مئی 1970ء کو شروع ہوا تھا  اور پانچواں آخری سوراخ 1994ء  میں شروع ہوا اور اسی سال فنڈ کی کمی کی وجہ سے بند کرد یا گیا۔ سب سے زیادہ گہرائی والا سوراخ تیسرا تھا جو 1992ء میں مکمل ہوا ۔

   سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس قسم کے پروجیکٹ کو فنڈ کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے اور تین سال بعد1995ء  میں  اس پروجیکٹ کو بند کر دیا گیا۔ اور اب یہ سنسان مقام مہم جو سیاحوں کی منزل بن کر رہ گیا ہے۔ یہ سوراخ اب بھی وہاں موجود ہے لیکن اسے بڑے بڑے نٹ بولٹ سے بند کر دیا گیا ہے۔روس  کا ’سپر ہول‘ یا ’بڑا سوراخ‘ صرف اکیلا ایسا سوراخ نہیں ہے۔ سرد جنگ کے دوران دنیا کی سپر پاورز کے درمیان  خلا میں جانے کے مقابلے کی طرح زمین کے اندر بھی  زیادہ سے زیادہ گہرائی تک کھدائی کرنے کی دوڑ لگی ہوئی  تھی اور وہ زمین کے اندر اس کے مینٹل تک پہنچنا چاہتے تھے۔

اگر زمین پیاز کی طرح ہے تو اس کی پرت پیاز کی پتلی جھلی کی طرح ہے جس کو کرسٹ کہتے ہیں اور  جو صرف 40 کلومیٹر موٹی ہے۔ اس کے بعد 1800 میل گہرا مینٹل ہے اور اس کے بعد ٹھیک زمین کے مرکز میں اس کا کور یعنی مرکزی حصہ ہے۔

سائنسدان وہاں تک پہنچ رہے تھے جہاں پہلے کوئی نہیں گیا تھا۔ زمین کے اندر گہرائی میں کی جانے والی اس کھدائی میں چٹانوں کے نمونے سائنس کے لیے اتنے ہی اہم تھے جتنے امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے ذریعے چاند سے لائی جانے والی کوئی چیز۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس معاملے میں امریکہ کی جیت نہیں ہوئی۔ در حقیقت کسی کی بھی جیت نہیں ہوئی۔

زمین کی اندرونی پرتوں کو جاننے کے لیے سائنسی بنیادوں پر  سب سے پہلے  امریکہ نے کھدائی شروع کی اور سنہ 1950 کی دہائی کے اواخر میں امریکن میسیلینیئس سوسائٹی نے زمین کے مینٹل تک کھودنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ سوسائٹی امریکی سائنسی برادری کےممتاز افراد پر مبنی تھی۔

زمین  میں بہت ہی زیادہ گہرا سوراخ کرنے کی بجائے امریکی ٹیم نے فیصلہ کیا کہ میکسیکو کے گوادالیوپ ساحل سے دور بحرالکاہل کے فرش میں کھدائی کر کے آسان راستہ تلاش کیا جائے۔سمندر کے فرش میں کھدائی کرنے کا فائدہ یہ تھا کہ وہاں زمین کی پرت نسبتاً پتلی تھی لیکن یہاں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ زمین کی پرت وہاں سب سے زیادہ پتلی تھی جہاں سمندر سب سے زیادہ گہرا تھا۔  چناچہ سنہ 1961 میں سمندر کی تہہ میں پروجیکٹ موہول کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا۔ اس  پروجیکٹ میں کل 5 سوراخ کیے گئے ، جن میں سے ایک کی گہرائی 183 میٹر ( 601 فٹ) تھی ۔ یہ دنیا میں پہلا گہرا سوراخ تھا جوسطح سمندر سے  3،600 میٹر  (11،700 فٹ )نیچے سمندرکے فرش پر ہوا تھا ۔اس لحاظ سے یہ ایک بے مثال کامیابی تھی ۔

پروجیکٹ موہول

نیل آرم سٹرانگ کے چاند پر قدم رکھنے سے دو سال قبل امریکی کانگریس نے پروجیکٹ موہول کی فنڈنگ اس وقت منسوخ کردی جب اس کے اخراجات بڑھنے لگے اور قابو سے باہر ہو گئے۔ جو چند میٹر بسالٹ یعنی سنگ سیاہ کو زمین کی تہہ سے باہر لانے میں کامیاب ہوئے ان کا خرچ آج کے دور میں تقریباً چار کروڑ امریکی ڈالر آیا تھا۔

زمین پر دوسراگہرا ترین سوارخ یا کنواں ، امریکہ کی ہی  ایک کمپنی لون سٹار پروڈیوسنگ نے ریاست  اوکلوہوما  کے شہر "دل "میں تیل کی تلاش کی غرض سے کیا تھا ۔ اس سوراخ کانام" برتھا روجر ہول "ہے ۔ اس سوراخ کا آغاز 25 اکتوبر 1972ء کو ہوا تھا ،اس کی گہرائی  13 اپریل 1974ء کو 9،583 میٹر ( 31،441 فٹ )تک پہنچ سکی تھی ۔ اس سوراخ کار یکارڈ  ، روس میں کولا بور ہول   کےپہلے ہونے والے سوراخ نے 6 جون 1979ء کو توڑ دیا تھا ۔

امریکہ اور روس کے بعد  جرمن بھی اس میدان میں کود پڑے ۔ جرمن کانٹینل ڈیپ ڈرلنگ پروگرام (کے ٹی بی) بالآخر1987ء میں ریاست"  باویریا" میں شروع ہوا اور انھوں نے نو کلومیٹر گہرائی تک کھدائی کی۔جیسا کہ چاند پر جانے کے مشن کے ساتھ تھا یہاں بھی یہ مشکلات درپیش تھیں کہ مہم کی کامیابی کے لیے نئی ٹیکنالوجی تیار کرنے کی ضرورت تھی۔

جرمن کانٹینل ڈیپ ڈرلنگ پروگرام (کے ٹی بی)

  جرمن انجینئروں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ انھیں جہاں تک ممکن ہو بالکل عمودی کھدائی کرنی تھی۔ کیونکہ روسیوں کے تجربے سے یہ بات واضح  ہو چکی تھی  جہاں تک ممکن ہو بالکل عمودی کھدائی کریں  وگرنہ سوراخ میں پیچ اور بل آتے جائيں گے۔ اسی لیے جرمنز نے  عمودی ڈرلنگ کا نظام تیار کیا۔  اور انھوں نے جو ٹیکنالوجی تیار کی وہ آج دنیا بھر میں تیل اور گیس نکالنے کے لیے معیاری ٹیکنالوجی تصور کی جاتی ہے۔جرمنز نے برمے کا ہیڈ خصوصی طور پر ایسا تیار کروایا جو 250 سے 300 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت برداشت کر سکے ۔ کیونکہ اس وقت تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ زمین کا درجہ حرارت 10 سے 14 کلومیٹر گہرائی تک اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا ۔جرمنز نے کل دو سوراخ کئے تھے ۔ پہلا سوراخ 22 ستمبر 1987ء کو شروع ہوا ۔ اور 4 اپریل 1989ء کو اس کی گہرائی 4 کلومیٹر تک مکمل ہوئی ۔ دوسرا سوراخ ، پہلے والے سوارخ سے 200 میٹر ہٹ کر کیا گیا ۔ یہ سوراخ 6 ا کتوبر 1990ء کو شروع ہوا اور 21 اکتوبر 1994ء کو اس کی گہرائی 9،101 میٹر تک ہی پہنچ سکی ۔

جرمن ماہرین کہتے ہیں کہ 'ہمارا سوویت یونین سے زیادہ گہری کھدائی کا منصوبہ تھا لیکن ہمیں جتنا وقت حاصل تھا اس میں ہم دس کلومیٹر تک بھی نہیں پہنچ سکے جس کی ہمیں اجازت تھی اور پھر جہاں ہم کھدائی کر رہے تھے وہ جگہ روسیوں کی کھدائی کی جگہ سے زیادہ گرم تھی۔ اور یہ واضح ہو گیا تھا کہ مزید گہرائی میں کھودنا بہت زیادہ مشکل ہوتا جا رہا تھا۔اور پھر یہ سنہ 1990 کی دہائی تھی اور مزید گہرائی میں جانے کے لیے مزید فنڈ کی گنجائش نہیں تھی کیونکہ جرمنی کے دونوں حصوں کے ایک ہونے میں بہت زیادہ پیسے لگ رہے تھے۔'

جرمنز کی کھدائی کا انجام باقی ممالک کی کھدائی کی نسبت کامیاب ہی رہا۔ کیونکہ یہ پروجیکٹ اپنی مطلوبہ گہرائی تک صرف اس لیے  نہ جا سکا کہ  زمین کا اس گہرائی پر درجہ حرارت توقعات سے بہت زیادہ تھا ۔ ابھی بھی کھودنے والی بڑی مشینیں وہیں ہیں اور یہ آج سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ جگہ در حقیقت سیاروں کے مشاہدے کی جگہ یا پھر آرٹ گیلری بن کر رہ گئی ہے۔

ڈچ فنکار لوٹے جیون

جب ڈچ فنکار لوٹے جیون نے جرمن سوراخ میں اپنا مائکرو فون ڈالا تو انھیں گہرائی میں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی جس کی سائنسدان وضاحت سے قاصر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا مائیکرو فون تھرمل شیلڈ سے محفوظ تھا۔ وہ ایک ایسی گڑگڑاہٹ تھی جسے سن کر وہ خود کو 'بہت چھوٹا محسوس کرنے لگيں۔ میری زندگی میں پہلی بار یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں زندہ ہو اٹھی اور وہ آواز بار بار یاد آتی ہے۔'

مائکرو فون

انھوں نے مزید کہا 'بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جہنم کی آواز تھی جبکہ دوسروں نے کہا کہ وہ زمین کو سانس لیتا ہوئے سن رہے تھے۔'۔ یہ آواز نیچے لنک پر کلک کر کے سن سکتے ہیں ۔

لنک

جرمن کے بعد  جاپان نے بھی اس مید ان میں اپنا قدم رکھا اور پروجیکٹ " موہول ٹو مینٹل''  شروع کیا تھا۔  اس پروجیکٹ کے سائنسدانوں نے  سمندر کی اس جگہ سے کھدائی کی کہ جہاں زمین کی پرت  یعنی کرسٹ  ،زمین کے دوسرے مقامات کی نسبت سب سے کم چوڑی ہے یعنی  تقریباً 6 کلومیٹر ۔  اس پروجکیٹ کی لاگت تقریباً 55کروڑ ڈالر تھی ، جس کا مقصد   پرت کے نیچے مینٹل کی چٹانوں کے نمونے  حاصل کرنا تھا ۔

اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے  کھدائی کرنے والا بڑا بحری جہاز چیکایو ، 20 سال پہلے  ہی تیار کر لیا گیا تھا۔ چیکایو میں جی پی ایس کے نظام کے ساتھ چھ ایڈجسٹ کیے جانے والے کمپیوٹر سے کنٹرول جیٹ بھی ہیں جو کہ اس بڑے جہاز کی جگہ کو زیادہ سے زیادہ 50 سینٹی میٹر تک ہی ہلنے دیتے ہیں ۔ انہوں نے ٹھیک اسی جگہ سے کھدائی دوبارہ شروع کی تھی کہ جہاں 50 سال قبل اصل " موہول پروجیکٹ "  کے وقت کی گئی تھی ۔ 

پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے  کھدائی کرنے والا بڑا بحری جہاز چیکایو

28 مئی 2019 کو نیچر ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق جاپان کے سوراخ کرنے والے اس جہاز نے اب تک سمندر کے فرش سے نیچے سب سے زیادہ گہرا سوراخ کیا ہے مگر پھر بھی اس جگہ تک پہنچنے میں ناکامی ہوئی کہ جہاں یورشین پلیٹ ، فیلپائن پلیٹ سے ملتی ہے  اور ان دونوں پلیٹوں کے آپس میں ٹکرانے سے خطرناک زلزلے وجود میں آتے ہیں ۔ اس ڈرل یا سوراخ کی گہرائی کا ہدف 5،200 میٹر تھا مگر سوراخ کے اچانک بیٹھ جانے کی وجہ سے یہ ڈرلنگ صرف 3250 میٹر کے بعد روک دینی پڑی ۔ یہ ڈرلنگ 6 ماہ تک جاری رہی ۔ ماہرین اب اس با ت پر غور کر رہے ہیں کہ سوراخ کے اچانک بیٹھ جانے کی وجہ آخر کیا تھی ؟

کولا سپر ڈیپ سوارخ 1989 ء سے لے کے 2008ء تک دنیا کا سب سے گہرا سوراخ مانا جاتا رہا  مگر 2008ء میں  قطر کے الشاہین آئل فیلڈ میں اس سے لمبا سوراخ کیا گیا جوکہ  12 کلومیٹر سے زیادہ لمباتھا ۔ یعنی 12،289 میٹر ( 40،318 فٹ  ) تھا مگر یہ مکمل عمودی سوراخ نہیں تھا ، کیونکہ اس میں 10،902 میٹر (35،768 فٹ)  لمبائی افقی (Horizontal) طور پر تھی ۔یہ سوراخ صرف 36 دن میں مکمل کیا گیا تھا ۔

قطر کے الشاہین آئل فیلڈ

28 جنوری 2011ء میں الشاہین آئل  فیلڈ کا یہ ریکار ڈبھی روس کے جزیرہ " ساخلین " پر ایکسین نیفٹی گیس لمٹیڈ نے ایک بڑا سوراخ کر کے توڑ دیا ۔ اس سوارخ  کی کل لمبائی 12،345 میٹر   (40،502 فٹ)  تھی ۔ اور اس  میں 11،475 میٹر (37،648 فٹ)  لمبائی افقی (Horizontal) طور پر تھی ۔یہ سوراخ صرف 60 دن میں مکمل کیا گیا تھا ۔  یہ پروجیکٹ " ساخلین 1" کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس کمپنی کے پاس دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی تھی ،جس کی وجہ سے اس نے یہاں اپنے کئی ریکارڈز قائم کیے ہیں اور دنیا کے 10 بڑے کنوؤں میں  سے 9 لمبے ترین کنوئیں  اسی پروجکیٹ پر کھودے گئے ہیں۔ اس  نے سب سے لمبا ترین کنواں نومبر 2017ءمیں کھودا ، جس کی لمبائی 15 کلومیٹر(49،000 فٹ  ) تھی ۔

روس کے جزیرہ " ساخلین " پر ایکسین نیفٹی گیس لمٹیڈ نے ایک بڑا سوراخ کر کے توڑ دیا

   تاہم مجموعی طورپر مکمل  عمودی گہرائی کے تناسب سے اب بھی کولا سوراخ دنیا کا سب سے گہرا سوراخ تسلیم کیا جاتا ہے ۔کولا سپرڈیپ بول ہول کی  کھدائی سے اب تک 3 اہم دریافتیں کی جاچکی ہیں۔ آئیں دیکھتے ہیں وہ دریافتیں کیا ہیں۔

   بسالٹ نامی تہہ  کی غیر موجودگی

زمین کے اندر موجود پتھریلی تہہ میں بسالٹ نامی تہہ موجود نہیں۔ سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین کی تہہ میں بلند درجہ حرارت کے باعث سخت مادے مائع حالت میں موجود ہیں اور انہی میں سے ایک تہہ بسالٹ کی ہے۔تاہم اس کھدائی میں ماہرین کو بسالٹ نہیں ملا۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ اس تہہ کا کوئی وجود نہیں، ممکن ہے یہ تہہ مزید گہرائی میں واقع ہو جہاں ابھی تک انسان نہ پہنچ سکا ہو۔

بسالٹ نامی تہہ  کی غیر موجودگی

گہرائی میں پانی کی  موجودگی

پانی عموماً زمین کے اندر اوپر ہی ہوتا ہے اور تھوڑی سی کھدائی کے بعد نکل آتا ہے جس کا ثبوت جا بجا کھدے کنویں اور دیہی علاقوں میں نصب ہینڈ پمپس ہیں جو زمین سے پانی نکال کر زمین کے اوپر آباد افراد کی ضروریات پورا کرتے ہیں۔تاہم سائنس دانوں نے اس گہرائی سے بہت دور 3 سے6 کلومیٹر نیچے بھی پانی دریافت کیا۔ اس قدر گہرائی میں پانی کی موجودگی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔

گہرائی میں پانی کی  موجودگی

فاسلز کی سب سے حیرت انگیز دریافت

کھدائی کے اس عمل کے دوران سب سے حیرت انگیز دریافت زمین کے اندر 6 کلو میٹر گہرائی میں خوردبینی رکازیات (فاسلز) کی شکل میں زندگی کی موجودگی تھی۔یہ فاسلز جن پتھروں میں دریافت کیے گئے ان پتھروں کی عمر 2 ارب سال تھی۔ ان فاسلز میں خورد بینی جانداروں کی 35 انواع دریافت کی گئیں۔

فاسلز کی سب سے حیرت انگیز دریافت

اور آخر میں آپ کو سب سے زیادہ حیرت انگیز بات سے آگاہ کرتا چلوں کہ آج تک جتنی کھدائی ہوئی ہے یہ مقام زمین کے مرکز تک کا صرف 0.002 حصہ ہے۔یعنی زمین کی لامتناہی گہرائی ابھی مزید کئی عظیم دریافتوں کی منتظر ہے، کیا معلوم انسان اس قابل ہے بھی یا نہیں کہ اسے دریافت کرسکے۔

وڈیو ڈاکومینٹری 

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی