زمین کے بلندی اور گہرائی کے
لحاظ سے 24 اہم مقامات
زمین پر بلندی اور
گہرائی کے لحاظ سے کئی اہم مقامات اور
جگہیں پائی جاتی ہیں کہ جن کے بارے میں جاننا آپ کے لیے بہت ہی دلچسپ اور معلوماتی ہو گا ۔ایسے کل 24
مقامات کے بارے میں آپ کو تفصیلات سے آگاہ کروں گا ۔ ان شاء اللہ ۔ امید ہے کہ آپ کو یہ مضمون کافی
دلچسپ معلوم ہوگا ۔ آپ کے سامنے اس تصویر
ی نقشے میں تمام مقامات کو دکھایا گیا ہے اور ان کو ایک سیریل نمبر بھی دے دیا ہے
تا کہ آپ کو اسے سمجھنے میں آسانی رہے ۔ تو چلتے ہیں او ر سب سے پہلے معلوم کرتے
ہیں کہ نمبر 1 پر کیا ہے ؟
یہ زمین پر بلندی کے لحاظ سے وہ مقام ہے کہ جہاں پر ہمارے مسافر طیارے یعنی ہوائی جہاز اڑائے جاتے ہیں ۔ اس کی بلندی زمین سے 9،144 میٹر سے 10،668 میٹر یا (30،000 سے 35،000فٹ) تک ہوتی ہے ۔
نمبر 2 ۔ مونٹ ایورسٹ
پہاڑ۔ Mount Everest
دنیا کے سب سے بلند
پہاڑ مونٹ ایورسٹ کی بلندی سطح زمین سے
8،848.86 میٹر یا (29،031.7 فٹ) ہے ۔ ماؤنٹ
ایورسٹ پاکستان کے سلسلہ کوہ
ہمالیہ میں نیپال اور چین کی سرحد پر واقع ہے۔ اسے پہلی
بار 29مئی، 1953ء کو ایڈمنڈ ہلری
اور ٹینزنگ نورگے نے سر کیا۔ نذیر صابر پہلا پاکستانی تھا جس نے اسے
سر کیا۔ ماؤنٹ ایورسٹ کا نیپالی نام ساگرماتھا ہے۔ یہ پہاڑ 5 سے 6 کروڑ سال پرانا
ہے ۔ ہر سو سال بعد اس کی اونچائی آدھا میٹر بڑھ جاتی ہے ۔ یہ پہاڑانڈین اور
یوریشین ٹیکٹونکس پلیٹوں کے ٹکرانے کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ چونکہ یہ چین اور نیپال کی سرحد پر واقع ہے اس
لیے کوہ پیما اسے سر کرنے کے لیے دونوں اطراف سے چڑھتے ہیں۔
نمبر
3 ۔ ڈیتھ زون ۔ آکسیجن کا دباؤ کافی کم ہوجاتا ہے
طبی ماہرین کے مطابق
انسانی جسم سطح سمندر سے 2،100 میٹر تک کی بُلندی پر رہنے کے لیے بنا ہے۔ اور اس
سے زیادہ بلندی پر انسانی جسم میں آکسیجن کی مقدار تیزی سے کم ہونا شروع ہوجاتی ہے
اور جسم میں منفی اثرات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ کوہ پیمائی میں، ڈیتھ
زون سے مراد ایک خاص نقطہ سے اوپر کی بلندی ہے جہاں آکسیجن کا دباؤ انسانی زندگی
کو طویل مدت تک برقرار رکھنے کے لیے ناکافی ہو جاتا ہے۔ یہ
نقطہ عام طور پر 8,000 میٹر (26,000 فٹ) کی بلندی سے شروع ہو جاتا ہے۔ ڈیتھ زون میں 8000 میٹر سے اوپر کی تمام 14 چوٹیاں ایشیا کے ہمالیہ
اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں ۔
کوہ پیمااونچے
پہاڑوں پر جانے سے قبل کئی ہفتوں تک جسم
کو ماحول کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کا عمل کرتے ہیں تاکہ ان کا دماغ آکسیجن کی سپلائی
کے مطابق آہستہ آہستہ ماحول کے حساب سے کام کرنے لگے۔کوہ پیمائی کے ماہرین کے
مطابق کے ٹو پر عموماً کیمپ ون (6000 میٹر کی بلندی) کے بعد کوہ پیما خطرناک زون
میں داخل ہو جاتے ہیں اور ان میں آکسیجن کی کمی کے منفی اثرات بھی نمُودار ہونا
شروع ہو جاتے ہیں۔
ہائپوکسیا
یعنی آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ، نبض تیز
ہو جاتی ہے، خون گاڑھا ہو کر جمنے لگتا ہے اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ زیادہ
خراب حالت میں کوہ پیماؤں کے پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے ۔انھیں خون کے ساتھ یا اس کے بغیر کھانسی آنے
لگتی ہے اور ان کا نظام تنفس بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ایسی حالت میں بیشتر کوہ
پیماؤں کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی
ہے، انھیں عجیب ہذیانی خیالات آتے ہیں ۔
ڈیتھ زون میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور یہاں آپ
مخصوص وقت سے زیادہ نہیں گزار سکتے ہیں اور یہاں نیند یا زیادہ دیر رکنے کا مطلب
موت ہے۔اسی لیے کیمپ فور میں پہنچنے والے کوہ پیما سوتے نہیں۔ بس کچھ دیر سستا کر
سمٹ کرنے یا چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور تقریباً 16 سے 18 گھنٹوں کے
دورانیے میں چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔کوہ پیما ڈیتھ زون
میں اضافی آکسیجن کے بغیر زیادہ سے زیادہ
16 سے 20 گھنٹےزندہ رہ سکتے ہیں ۔ کوہ پیماؤں کو خصوصی ہدایت کی جاتی ہے کہ
وہ ڈیتھ زون میں اس سے زیادہ وقت ہرگز نہ گزاریں۔
نمبر 4۔دنیا کا سب سے بلند غیر فعال آتش فشاں ۔ Ojos Del Salado
یہ
دنیا کا سب سے بلند غیر فعال آتش فشاں ہے ۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے پہاڑی سلسلے 'انڈس "
میں اس جگہ پایا جاتا ہے کہ جہاں ارجینٹینا اور چلی کی سرحدیں آپس میں ملتی
ہیں ۔ یہ چلی کی سب سے بلند چوٹی بھی ہے ۔ اس آتش فشاں کی سب سے بلند چوٹی کی اونچائی سطح زمین سے 6،893 میٹر (22،615 فٹ)
ہے ۔ اس کارقبہ 70 سے 160 کلومیٹر پر
مشتمل ہے ۔ ا س کے ارد گرد بھی بہت سے آتش فشاں پائے جاتے ہیں ۔
نمبر 5 ۔ اونچائی والے بادل ۔ Cirrus & Cirrocumulus
سائروکیومولس بادل اونچائی والے ٹروپوسفیرک
بادلوں کی تین اہم قسموں میں سے ایک ہے، باقی دو سائرس اور سائروسٹریٹس ہیں۔ یہ
عام طور پر 5 سے 12 کلومیٹر (16,000 سے 39,000 فٹ) کی اونچائی پر پائے جاتے ہیں۔ اونچائی والے ٹروپوسفیرک بادلوں جیسے سائرس اور
سائروسٹریٹس کے برعکس، سائروکیومولس میں تھوڑی مقدار میں مائع پانی کی بوندیں شامل
ہوتی ہیں، گوکہ یہ بہت ہی زیادہ ٹھنڈی حالت میں ہوتے ہیں۔اس بادل میں آئس کرسٹل اہم جزو ہیں، اور عام طور پریہ برف کے
کرسٹل بادل میں پانی کے ٹھنڈے قطروں کو تیزی سے جمنے کا باعث بنتے ہیں، جس سے سائروکیومولس
بادل، سائروسٹریٹس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس عمل کے
دورا ن دھند اور برف باری کی کیفیت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس طرح، سائروکیومولس
بادل عام طور پر قلیل المدت ہوتے ہیں۔
نمبر 6۔ دنیا کا سب سے بلندی پر واقع ایک بڑا گاؤں۔
La Rinconada, Peru
یہ
دنیا کا سب سے بلندی پر واقع ایک بڑا گاؤں ہے ۔ یہ سطح سمندر سے 5،100 میٹر
(16،700 فٹ) اونچا ہے ۔ اس کی آبادی 30،000 افراد سے زائد ہے ۔ اس گاؤں کے نزدیک
سونے کی کانیں پائی جاتی ہیں ، جس میں کام کرنے والے یہاں رہائش پذیر ہیں ۔یہاں سالانہ اوسطاً درجہ حرارت 1.3 سینٹی گریڈ
تک ہوتا ہے ۔ سونے کی کانوں کی مالک کمپنی اپنے مزدوروں کا تنخواہ نہیں دیتی بلکہ
مزدور 30 دن کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں جبکہ آخری ایک دن مزدورں کا ہوتا ہے ۔ اس
دن مزدور کھودے گئے چٹانوں کے ٹکڑوں کو اپنے کندھوں پر جتنا اٹھا کر لے جا سکتے
ہوں، لے جاتے ہیں ۔ اب یہ ان کی قسمت پر ہوتا ہے کہ اس خام مال میں سے کتنا سونا
نکلتا ہے ، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ بھی نہ نکلے ۔ چناچہ ساری محنت ، خوش قسمتی
پر منحصر ہوتی ہے ۔
نمبر 7۔ پیرا شوٹر کے جمپ لگانے کی اونچائی
دنیا
بھر میں اسکائی ڈائیونگ کی اوسط اونچائی
10,000 فٹ سے
13،000 فٹ ہے۔ اس اونچائی کا تعین عام طور پر استعمال شدہ ہوائی جہاز کی قسم، علاقے
کی بلندی، یا FAA فلائیٹ کی شرائط کےتحت کیا
جاتا ہے۔ اسکائی ڈائیونگ آپریٹرز کی اکثریت آزمودہ ، سیسنا 182 طیارہ ہی اڑاتی ہے۔
یہ اسکائی ڈائیونگ کی ریڑھ کی ہڈی ہے کیونکہ یہ ایک قابل اعتماد اور دوسرے طیاروں
کی نسبت سسستا پڑتا ہے ۔
15,000 فٹ سے اوپر سے اسکائی ڈائیونگ کے لیے
آکسیجن سلنڈر کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ایک تو اسکائی ڈائیو کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اوردوسرا
خطرے کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا ہے
کیونکہ اس سے ہائی پوکسک یعنی آکسیجن کے دباؤ کی کمی کی وجہ سے ہونے والی بیماری
کے ، ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں
10,000 فٹ سے چھلانگ لگانے پر آپ زمین پر تقریباً
40 سیکنڈ میں پہنچیں گے ۔اور اگر 13,000 فٹ سےچھلانگ لگائیں گے تو آپ کا فری فال وقت تقریباً 55 سیکنڈ سے ایک منٹ تک ہوگا۔فری فال کے
وقت بعض لوگوں کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے مگر یہ کوئی اتنا اہم مسئلہ
نہیں ہے کیونکہ ایسا ، اس وقت عام طور پر
120 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا آپ کے چہرے پر ٹکرانے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔
نمبر 8۔ فُوجی پہاڑ۔Mount Fuji
فُوجی
پہاڑ جاپان
کا سب سے اونچا پہاڑ ہے، ہونشو جزیرے پر واقع ہے۔ جس کی چوٹی کی
بلندی 3,776.24 میٹر (12,389 فٹ) ہے۔ یہ ایشیا کے ایک جزیرے پر واقع دوسرا بلند
ترین آتش فشاں ہے ، اور زمین پر کسی جزیرے کی ساتویں بلند ترین چوٹی ہے۔ ماؤنٹ
فُوجی ایک فعال آتش فشاں ہے جو آخری بار 1707 ءسے1708ء تک پھٹا تھا۔یہ پہاڑ ٹوکیو
سے تقریباً 100 کلومیٹر (62 میل) جنوب مغرب میں واقع ہے اور صاف دنوں میں وہاں سے
نظر آتا ہے۔
قریبا
ہر سال دو لاکھ لوگ اس پر چڑھتے ہیں۔ جن میں 30٪ غیر ملکی ہوتے ہیں۔ اس پہ چڑھنا
مشکل نہیں ہے۔ چڑھنے میں 3 سے لے کر 7 گھنٹے لگتے ہیں جبکہ اترنے میں 2 سے لے کر 5
گھنٹے۔ ماؤنٹ
فُوجی کی چوٹی شلجم کی طرح مخروطی ہے اور یہ سال میں پانچ ماہ تک برف میں ڈھکی
رہتی ہے ۔ یہ عام طور پر جاپان کے ثقافتی نشانی
کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اسے اکثر
آرٹ اور فوٹو گرافی میں دکھایا جاتا ہے ۔
ماؤنٹ
فُوجی جاپان کے "تین مقدس پہاڑوں" میں سے ایک ہے ۔ یہ قدرتی خوبصورتی کا
ایک خاص مقام اور جاپان کے تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ اسے 22 جون 2013 کو عالمی
ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ یونیسکو کے مطابق، ماؤنٹ فوجی نے
"فنکاروں اور شاعروں کو متاثر کیا ہے اور صدیوں سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز
رہا ہے ۔
نمبر 9۔برطانیہ کا سب سے اونچا پہاڑ۔ Ben Nevis
بین
نیوس، سکاٹ لینڈ، برطانیہ اور برطانوی جزائر کا بلند ترین پہاڑ ہے۔ اس کی چوٹی سطح سمندر سے 4,411 فٹ (1,345 میٹر)
بلندی پر ہے اور 459 میل (739 کلومیٹر) تک
کسی بھی سمت میں ،سب سے اونچی جگہ ہے۔ بین نیوس فورٹ ولیم کے قصبے کے قریب
لوچابر کے ہائی لینڈ علاقے میں گرامپین پہاڑوں کے مغربی سرے پر واقع ہے۔
یہ پہاڑ
سیاحت کا ایک اہم مرکز ہے، ایک اندازے کے مطابق یہ ایک سال میں 130,000 لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے، جس میں سے تقریباً
تین چوتھائی گلین نیوس سے ماؤنٹین ٹریک کا استعمال کرتے ہیں۔ شمالی طرف کی 700
میٹر (2,300 فٹ) چٹانیں اسکاٹ لینڈ میں سب سے اونچی چٹانیں ہیں، جو کوہ پیماؤں کےلیے
نہایت کشش کی حامل ہیں ۔ یہ برف پر چڑھنے کے لیے سکاٹ لینڈ کے اہم مقامات میں سے بھی ایک ہے۔چوٹی، جو کہ ایک قدیم آتش فشاں کا منہدم
گنبد ہے،اس میں ایک آبزرویٹری کے کھنڈرات پائے
جاتے ہیں جس میں 1883ء اور 1904ء کے درمیان مسلسل عملہ تعینات رہا تھا۔ اس عرصے کے دوران جمع کیا گیا موسمیاتی ڈیٹا
سکاٹش پہاڑی موسم کو سمجھنے کے لیے اب بھی اہم ہے۔ سی ٹی آر ولسن کو آبزرویٹری میں
کام کرنے کی بدولت ہی ایک عرصے کے بعد
کلاؤڈ چیمبر ایجاد کرنے کی تحریک ملی تھی ۔
نمبر 10۔دبئی کا ٹاور ۔ برج الخلیفہ۔ Burj Al Khalifa
برج خلیفہ متحدہ عرب
امارات کے شہر دبئی میں واقع ہے۔برج خلیفہ کی تعمیر کا آغاز 21 ستمبر 2004ء کو برج دبئی کے نام سے ہوا۔ عمارت کے ماہر
تعمیرات ایڈریان اسمتھ ہیں۔ برج خلیفہ کی کل بلندی 828 میٹر ہے جبکہ اس کی کل
منزلیں 162 ہیں۔ اس طرح یہ دنیا میں سب سے زیادہ منزلوں کی حامل عمارت بھی ہے۔
برج خلیفہ دنیا کی وہ بلند ترین عمارت ہے جس نے 4 جنوری 2010ء کو تکمیل کے بعد تائیوان کی تائی پے 101 کو پیچھے چھوڑ دیا۔ یہ انسان کی تعمیر کردہ
تاریخ کی بلند ترین عمارت ہے۔ اس عمارت کو افتتاح کے موقع پر متحدہ عرب امارات کے
صدر شیخ خلیفہ بن زاید آل نہیان کے نام سے موسوم کیا گیا۔
برج خلیفہ میں دنیا
کی تیز ترین لفٹ بھی نصب کی گئی ہے جو 18 میٹر فی سیکنڈ (65 کلومیٹر فی گھنٹہ، 40 میل فی گھنٹہ) کی
رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس سے پہلے دنیا کی تیز ترین لفٹ تائی پے 101 میں نصب تھی
جو 16.83 میٹر فی سیکنڈ (60.6 کلومیٹر فی گھنٹہ، 37.5 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے
چلتی ہے۔ پورے عمارتی منصوبہ میں 30ہزار رہائشی مکانات، 9 ہوٹل، 6 ایکڑ باغات،19
رہائشی ٹاور اور برج خلیفہ جھیل بھی شامل ہے۔ اس کی تعمیر پر 8 ارب ڈالرز کی لاگت
آئی۔ تکمیل کے بعد ٹاور کا کل رقبہ 20
ملین مربع میٹر ہے ۔
اس
ٹاور میں قائم منزلوں کو اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ اوپر والی منزلوں کو
رہائشی فلیٹس کے لیے مختص کیا گیا ہے ، درمیان میں مختلف اداروں کے دفاتر قائم ہیں
جبکہ نچلی منزلوں میں فائیو سٹار ہوٹل اور ریسٹورنٹس واقع ہیں۔ اس بلڈنگ کو زلزلے
سے بھی محفوظ بنایا گیا ہے اور آسمانی بجلی سے بھی یہ عمارت متاثر نہیں ہو سکتی۔
علاوہ ازیں برج خلیفہ
ٹاور میں دنیا کی سب سے بلند ترین مسجد واقع ہے جو 158 ویں منزل پر موجود ہے۔ اس سے
قبل دنیا کی بلند ترین مسجد ریاض، سعودی عرب کے برج المملکہ میں واقع تھی۔برج خلیفہ کی تکمیل سے مشرق وسطی نے ایک مرتبہ پھر دنیا کی بلند ترین عمارت کا
اعزاز حاصل کر لیا ہے جو 3 ہزار سال تک اہرام مصر کی صورت میں اس خطے کو حاصل تھا۔ 1300ء
میں لنکن کیتھڈرل کی تعمیر کے بعد سے مشرق وسطی اس اعزاز سے محروم تھا۔
نمبر 11۔شنگھائی ٹاور۔ Shanghai Tower
شنگھائی ٹاورچین کے شہر
شنگھائی میں واقع ایک فلک بوس عمارت ہے۔ دنیا کی بلند ترین عمارتوں کی فہرست میں
یہ دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کی اونچائی 632 میٹر (2073 فٹ) ہے ۔اس عمارت
میں 128منزلیں ہیں ۔ اس کا تعمیراتی کام 21 نومبر2008ء کو شروع جبکہ 2ستمبر 2014ء کو مکمل ہوا تھا۔
اس کا افتتاح 2 فروری 2015ء کو کیا گیا تھا۔ اسے تعمیر
کرنے کی لاگت 4.2بلین ڈالرز تھی۔ اس عمارت میں
97لفٹ ہیں ۔ اس کا ڈیزائن چینی ڈیزائنر
جون ژیا نے امریکی کمپنی گنسلر کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔ شیشے سے بنی یہ عمارت
اپنی بنیاد سے عمودی ہے لیکن اوپر کی سمت جاتے ہوئے یہ 120ڈگری پر مڑ جاتی ہے۔ اور پھر
عمودی ہوجاتی ہے۔اس عمارت میں بیک وقت 16،000 افراد آسانی سے رہائش
اختیار کرسکتے ہیں ۔ شنگھائی ٹاور میں دنیا کا دوسرا بلند ترین ہوٹل ہے جس میں کل 258کمرے ہیں۔
یہ 562 میٹر اونچائی پر کسی عمارت یا ڈھانچے کے اندر دنیا کی
سب سے اونچی آبزرویشن ڈیک رکھنے کا ریکارڈ بھی رکھتی ہے۔اس کے پاس 2017 تک 20.5 میٹر فی
سیکنڈ (74 کلومیٹر فی گھنٹہ؛ 46 میل فی گھنٹہ) کی سب سے زیادہ رفتار پر دنیا کی
دوسری تیز ترین لفٹیں تھیں ۔ اس کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ توانائی کی زیادہ
سے زیادہ مقدار کو بہترین طریقے سے استعمال کیا جا سکے ۔نیز اس کو ، دفتری، تجارتی
اور تفریحی استعمال کےلحاظ سے نو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
نمبر 12۔یورپ کی ساتویں بلند عمارت۔ The Shard
شارڈ ٹاور لندن برج کے قریب دریائے ٹیمز کے
جنوبی کنارے پر واقع ہے ۔اسے پہلے لندن برج ٹاور کے نام سے بھی جانا جاتا
تھا۔ایک 72 منزلہ فلک بوس عمارت ہے، جسے اطالوی معمار رینزو پیانو نے ڈیزائن کیا
ہے۔ شارڈ ٹاور کی اونچائی 309.6 میٹر
(1,016 فٹ) ہے ۔ شارڈ، برطانیہ کی سب سے اونچی عمارت ہے، اور یورپ کی ساتویں بلند
ترین عمارت ہے ۔
شارڈ
کی تعمیر مارچ 2009 میں شروع ہوئی۔اور 5 جولائی 2012 کو افتتاح کیا گیا۔ نومبر
2012 میں اس کی عملی تکمیل ہوئی۔ ٹاور کے نجی طور پر چلنے والے آبزرویشن ڈیک، دی
ویو فرام دی شارڈ کو عوام کے لیے یکم فروری 2013 کو کھول دیا گیا۔ اہرام ٹاور میں
72 رہائش پذیر منزلیں ہیں، 244 میٹر (801 فٹ) کی اونچائی پر 72ویں منزل پر ایک
ویونگ گیلری اور اوپن ایئر آبزرویشن ڈیک بھی موجود ہے ۔ اس میں زیادہ تر سرمایہ کاری قطر
حکومت کی ہے ۔
پچانوے منزلہ شارڈ کے بیرونی ڈھانچے پر فٹ بال
کے آٹھ میدانوں کے برابر شیشہ لگایا گیا ہے جبکہ اس میں اتنا زیادہ کنکریٹ استعمال
ہوا ہے کہ اُس سے اولمپک سائز کے بائیس سوئمنگ پولز کو بھرا جا سکتا ہے۔اس عمارت
میں بارہ ہزار افراد کی گنجائش ہے۔ اس میں ایک فائیو سٹار ہوٹل کے علاوہ چھ لاکھ
مربع میٹر گنجائش کے حامل دفاتر، لگژری ریستوراں اور دکانیں بھی ہیں۔
نمبر13۔انسان کا کھودا ہوا سب سےبڑھا گڑھا۔
Bingham Canyon Mine
مقامی
لوگ اسے Kennecott
Copper Mine کے نام سے جانتے ہیں ۔ انسان کا کھودا
ہوا یہ سب سےبڑھا گڑھا ہے ۔ تاریخ میں سب سے زیادہ تابنا جس کان سے نکالا گیا ہے
وہ یہی ہے ۔ اس کان سے ایک کروڑ 70 لاکھ ٹن تابنا نکالا جا چکا ہے ۔ یہ کان برطانیہ اور آسٹریلیا کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی ملکیت ہے ۔ یہ جگہ 1848ء میں دریافت ہوئی
تھی ۔
یہاں
پروڈکشن کا آغاز 1906ء میں ہوا تھا ۔ یہ گڑھا 1210 میٹر گہرا اور 4 کلومیٹر چوڑا ہے ۔ جبکہ اس کا رقبہ
مجموعی طور پر 7.7 مربع کلومیٹر ہے ۔یہ امریکہ کی ریاست یوٹاہ کے ضلع سالٹ لیک میں
واقع ہے ۔
نمبر 14۔امریکہ کا گہرا ترین نیشنل پارک ۔ Grand Canyon
یہ
امریکہ کی ریاست ایروزینا میں واقع ہے ۔
یہ 446 کلومیٹر لمبا جبکہ 6 سے 29 کلومیٹر چوڑا ہے ۔ اور 1857 میٹر یا 6093 فٹ
گہرا ہے ۔ اس وادی کے درمیان میں کلو ریڈو دریا بہتا ہے ۔ سپین کی فوج سے تعلق رکھنے والے ایک کیپٹن نے اس جگہ کو 1540ء
میں دریافت کیا تھا۔پہلے اس جگہ کو Big
Canyon یعنی بڑی وادی کہا جاتا تھا۔1871ء میں
اسے گرینڈ کینئن کا نام دیا گیا ۔ 1908ء میں اسے سرکاری طور پر قومی یادگار قراد
دیا گیا جبکہ 1919ء میں اسے نیشنل پارک قراد دیا گیا ۔آج ا س کروڑوں سال پرانی اس
جگہ کو دنیا بھر سے لاکھوں سیاح دیکھنے آتے
ہیں ۔
نمبر 15۔چونچ والی ویلز جو گہرا غوطہ لگاتی ہے
Cuvier Beaked Whale
یہ
چونچ والی ویلز میں سے ایک ایسی قسم ہے جو
پانی میں بہت گہرا غوطہ لگاتی ہے۔ اور دودھ دینے والے سمندری جانوروں میں سے ہے
۔ سائنسدانوں نے مشاہدہ کیا ہے کہ یہ ویل
دنیا میں سب سے زیادہ گہری ڈبکی یا غوطہ لگاتی ہے ۔ اب تک جو پیمائش نوٹ کی گئی ہے
وہ ، 2،992 میٹر یا 9،816 فٹ ہے ۔یعنی اگر نیویارک کی بلند عمارت " ایمپائر
اسٹیٹ بلڈنگ" کو 7 مرتبہ اوپر نیچے
رکھا جائے تو اس بلندی کے برابر یہ ویل غوطہ لگاتی ہے ۔ اور اس غوطہ کی مدت 222
منٹ یا 3 گھنٹہ 42 منٹ ،تک ریکارڈ کی گئی
ہے۔
سائنسدانوں
نے اس غوطے کی پیمائش کے لیے سونار نظام کو استعمال کیا تھا ، جس میں پانی کے اندر
منتقل ہونے والی اور منعکس ہونے والی آواز
کی لہروں کو ڈوبی ہوئی اشیاء کا پتہ لگانے
کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔اس قدر لمبا غوطہ لگانے کے باوجود یہ ساحل پر سب سے
زیادہ دیکھی جانے والی ساحلی ویلز میں شمار کی جاتی ہیں۔
نمبر 16۔ٹائی ٹینک جہاز کا ملبہ
1912ء
میں ڈوبنے والے جہاز ٹائی ٹینک کا ملبہ نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل سے 690 کلومیٹر دور
جنوب مشرق کی سمت میں 3،800 میٹر یا 12،500 فٹ گہرائی میں موجود ہے ۔یہ ملبہ دو
حصوں میں منقسم ہے جن کے درمیان 600 میٹر
کا فاصلہ ہے ۔ ملبے میں جہاز کے ڈوبتے وقت پھسل کر گرنے والی سینکڑوں ، ہزاروں
اشیاء وہاں موجود ہیں ۔جہاز سے مسافروں اور عملے کی لاشیں بھی گر کر سمندر کے فرش
پر پھیل گئی تھیں جنہیں سمندری مخلوق کھا گئی تھی ۔
نمبر17۔جنوبی افریقہ میں سونے کی 2 کانیں۔
Mponeng Mine & Tou Tona Mine
ٹاؤ
ٹونا مائن ،دنیا کی دوسری گہری ترین سونے کی کان تھی ۔ جو زمین کی سطح سے 3.9 کلومیٹر گہرائی پر واقع
ہے ۔ یہاں کام کا آغاز 1962 ء میں ہوا تھا
اور 2018ء میں اسے بند کر دیا گیا تھا ۔
ایمپونینگ کان ، دنیا کی سب سے گہری کان ہے ۔ یہ جنوبی افریقہ کے صوبہ گوتینگ میں واقع ہے ۔ یہ سطح زمین سے 4 کلومیٹر سے زیادہ گہرائی میں واقع ہے ۔ کام کے لیے جانے والے ورکرز کو نیچے جانے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے ۔یہا ں کام 1987ء میں شروع کیا گیا تھا ۔ اس کان میں روزانہ 5،400 میٹرک ٹن چٹانوں کی کھدائی کی جاتی ہے ۔ 19.4 ڈالر فی گرام سونے کی قیمت پر اگر کان میں ایک ٹن کھودی ہوئی چٹان میں سے 10گرام سونا نکل آئے تو اسے منافع بخش مانا جاتا ہے۔
نمبر 18۔سنیل فیش۔ Snail Fish
سنیل
فیش جسے "سی سنیلز ۔ Sea Snails"
بھی کہا جاتا ہے ، قطب شمالی سے انٹارکٹیکا کے سمندروں تک اور ان کے درمیانی
سمندری حصوں پر بھی پائی جاتی ہیں ۔ان مچھلیوں کا خاندان 30 سے زائد نسلوں 410
اقسا م کی انواع میں پایا گیا ہے ۔ ان کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں ،جنہیں ابھی
دریافت نہیں کیاجا سکا ہے ۔
یہ سطح
سمندر سے 8،000 میٹر یا 26،247 فٹ گہرائی میں پائی جاتی ہیں ۔ان کا سائز 2انچ سے
لے کر 30انچ تک ہوتا ہے ۔ بڑی مچھلیوں کا وزن 11 کلوگرام تک ہوتا ہے ، تاہم زیادہ
تر یہ چھوٹے سائز میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ اس قدر گہرائی میں اتنی چھوٹی جسامت کی
مچھلی ایک حیران کن دریافت ہے کیونکہ اس گہرائی میں پانی کا دباؤ بے حد زیادہ ہوتا
ہے ۔ سائنسدانوں کی پیمائش کے مطابق 7،000 میٹر گہرائی پر اتنا پانی کا دباؤ ہوتا
ہے کہ جیسے اگر کوئی پورے ایفل ٹاور کو آپ کے پاؤں کے انگوٹھے پر رکھ دیا جائے ۔ان
کے چھوٹے سائز کی وجہ سے ان کو تجاری بنیادوں پر استعمال نہیں کیا جاتا۔
نمبر 19۔جرمن بور ہول۔ KTB Borehole
جرمنز
نے جرمن کانٹینل ڈیپ ڈرلنگ پروگرام (کے ٹی بی) کے تحت 1987ء میں ریاست" باویریا" میں زمین میں سوراخ کرنے شروع
کیے تھے ۔ جرمنز نے عمودی ڈرلنگ کا نظام تیار کیا۔ اور انھوں نے جو ٹیکنالوجی تیار کی وہ آج دنیا
بھر میں تیل اور گیس نکالنے کے لیے معیاری ٹیکنالوجی تصور کی جاتی ہے۔جرمنز نے
برمے کا ہیڈ خصوصی طور پر ایسا تیار کروایا جو 250 سے 300 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ
حرارت برداشت کر سکے ۔ کیونکہ اس وقت تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ زمین کا درجہ
حرارت 10 سے 14 کلومیٹر گہرائی تک اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا ۔
جرمنز
نے کل تین سوراخ کئے تھے ۔ پہلا سوراخ 22 ستمبر 1987ء کو
شروع ہوا ۔ اور 4 اپریل 1989ء کو اس کی گہرائی 4 کلومیٹر تک مکمل ہوئی ۔ دوسرا
سوراخ ، پہلے والے سوارخ سے 200 میٹر ہٹ کر کیا گیا ۔ تیسرا سب سے لمبا سوراخ تھا
، یہ سوراخ 6 ا کتوبر 1990ء کو شروع ہوا اور 21 اکتوبر 1994ء کو اس کی گہرائی
9،101 میٹر (29،859فٹ)تک ہی پہنچ سکی ۔
نمبر 20۔امریکہ میں کھودا گیا تیل کا کنواں۔ جسے آگ لگی گئی تھی ۔ Deepwater Horizon
یہ آئل
کا کنواں امریکہ میں لوزیانا کے ساحل سے 64 کلومیٹر دورخلیج میکسیکو میں کھودا گیا
تھا ۔یہ تکمیل کے قریب تھا کہ20 اپریل 2010ء میں ، اچانک
اس میں آگ بھڑک اٹھی ۔ اس پر 150 افراد کام کر رہے تھے ۔ 10 افراد موقع پر
ہی ہلاک ہوگئے ۔ جبکہ بقیہ افراد کو ہیلی کاپٹروں کی مدد سے نکال لیا گیا۔ آگ کی
شدت اس قدر زیادہ تھی کہ 60 کلو میٹر دورسے بھی ، شعلے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے
دیکھے جا سکتے تھے ۔
کنوئیں
سے تیل کا اخراج اس قدر شدید تھا کہ جسے بند نہ کیا جا سکا اور یہ تیل سمندر میں بڑے پیمانے پر پھیلنا
شروع ہو گیا ۔ 36 گھنٹے بعد یہ پوری رِگ یعنی پورا پلیٹ فارم ہی ڈوب گیا اور آج
بھی اس کا ملبہ 1،500 میٹر کی گہرائی میں،کنوئیں کے آس پاس 400 میٹر کے رقبے میں
موجود ہے ۔ اس کنوئیں سے تیل کے اخراج کو 15 جولائی 2010ء میں بند کیا جا سکا ،مگرتیل کے اخراج سے ساحلی اور سمندری زندگی بے حد متاثر ہوئی ۔ 87 دن تیل اور گیس کے اخراج کی وجہ سے 11،000 کلومیٹر سمندری سطح
جبکہ 2،000 کلومیٹر ساحلی پٹی متاثر ہوئی تھی ۔ اس وقت امریکہ کے صدر بارک اوبامہ
تھے ۔ ماہی گیروں کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا، ہزاروں مزدور بےروزگار ہوگئے ، عوام نے
کمپنی کے خلاف شدید احتجاج کیا ۔ عدالت نے کمپنی کو غفلت کی وجہ سے حادثے کا زمہ
دار قرار دیا اور اُسے مجموعی طور پر 54 ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑا ۔اس حادثے
پر ہالی وڈ کی فلم Deepwater Horizon بھی
2016ء میں بن چکی ہے ۔
نمبر 21۔چیلنجر ڈیپ کو سر کرنے والی سب میرین۔ Challenge Deep
یہ ماریانہ ٹرینچ میں سمندر کی تہہ کا دریافت کیا
جانے والا گہرا ترین مقام ہے ۔ جس کی گہرائی
10،910 میٹر سے 10،929 میٹر ہے ۔یہ بحرالکاہل کے مغرب میں ، ماریانہ جزائر
کے قریب ، ماریانہ ٹرینچ یا کھائی کے جنوبی سرے پر واقع ہے ۔ اس گہرائی تک پہنچنے والے ایک امریکن وکٹر لانس ویسکوو
ہیں ۔جو سابقہ نیوی آفیسر ، سرمایہ کار اور خلائی سیاحت کے ساتھ ساتھ سمندر کے
اندر نئی دریافتوں کے لیے مہمات سرانجام دینےکے شوقین بھی ہیں ۔
وہ
سمندری نقشہ سازی کی تکمیل کی خاطر ،اب تک دنیا کے پانچوں بڑے سمندروں کی
گہری ترین جگہوں پر جا چکے ہیں۔ وہ سمندری تحقیقات کی خاطر ہی جنوبی و شمالی قطبوں
پر بھی پہنچے اور وہاں کی 7چوٹیوں کو بھی سر کیا ۔ چیلنج ڈیپ مقام پر وہ کل 8
مرتبہ گئے اور ہر دفعہ کچھ نیا دریافت کیا ۔ 28 اپریل 2019ء ، وہ دن تھا کہ جب وہ
سب سے زیادہ گہرائی میں گئے اور ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا ۔ انہوں نے 10،929
میٹر کافاصلہ تقریبا ً ڈھائی گھنٹے میں طے کیا ۔ اس گہرائی پر سمندر کے پانی کا
دباؤ 1,086 bar یا 15,750 psi تھا۔
نمبر 22۔ماریانہ ٹرینچ۔ Mariana Trench
ماریانا ٹرینچ
ایک سمندری کھائی ہے جو مغربی بحر الکاہل
میں واقع ہے، جو ماریانا جزائر کے مشرق میں تقریباً 200 کلومیٹر (124 میل) کے فاصلے پرہے۔ یہ زمین پر سب سے گہری سمندری کھائی
ہے۔ اگر آپ آسمان سے اس کو دیکھیں تو یہ پاکستان کے جھنڈے پر ہلال کی
شکل جیسا نظر آتی ہے۔
اس کی لمبائی 2,550 کلومیٹر
(1,580 میل) اور چوڑائی 69 کلومیٹر (43 میل) ہے زیادہ سے زیادہ معلوم گہرائی
10,984 ± 25 میٹر (36,037 ± 82 فٹ) ہے ۔اس
کی جنوبی سرے کی تہ میں ایک چھوٹی سی وادی پائی جاتی ہے جسے چیلنجر ڈیپ کہا جاتا ہے ۔ ماؤنٹ ایورسٹ سطح سمندر سے 8,849 میٹر بلند ہے
جبکہ ماریانا ٹرینچ سطح سمندر سے تقریباً 11,000 میٹر گہرائی میں ہے۔ اس کی گہرائی
ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی سے تقریباً 2 ہزار میٹر زیادہ ہے۔ یعنی اگر ماؤنٹ ایورسٹ
ماریانا ٹرینچ میں ڈوب جائے تو اس کی چوٹی سے 2 کلومیٹر اوپر تک سمندر کا پانی
موجود ہوگا۔
اس مقام
کی سب سے پہلے جو اسٹڈی کی گئی وہ ایک رسی کے ذریعے کیمرے کی مدد سے 1875 میں کی
گئی۔ اس کیمرے نے پہلی بار ماریانا ٹرینچ کے اندر کی دنیا کا ایک دھندلا سا خاکہ
پیش کیا۔ اس کے بعد سائنسدانوں نے تفصیلی کھوج کیلئے ایسی زیرِ آب سواری تیار کی
جو اتنی گہرائی میں آسانی کے ساتھ جا سکے اور سمندر کے پریشر کو بھی سہار سکے۔
زیرِ آب
جب ماہرین گئے تو ایسی حیاتیاتی زندگی کی دریافت ہوئی جو انہوں نے پہلے نہ کبھی
سنی اور نہ دیکھی تھی۔ ایک تو یہ بات ان ماہرین کو حیرت میں ڈالنے کیلئے کافی تھی
کہ اتنی گہرائی میں جہاں سورج کی روشنی چھو کے بھی نہیں گزر سکتی ایک اور دنیا
آباد ہوسکتی ہے اور کچھ نے عجیب المخلوقات کو دیکھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ یہ اس
دنیا کی مخلوقات نہیں ہیں۔
کھائی کے نچلے حصے میں، سمندر کے پانی کا دباؤ، 1,086
بار (15,750 psi) تک ریکارڈ کیا گیا ہے، جو سطح سمندر پر معیاری ماحولیاتی دباؤ سے
1,071 گنا زیادہ ہے۔ اس دباؤ پر پانی کی کثافت میں 4.96 فیصد اضافہ ہوتا ہے۔ نیچے
کا درجہ حرارت 1 سے 4 °C تک ہوتا ہے ۔2009 میں،
ماریانا ٹرینچ کو امریکی قومی یادگار قرار دیا گیا تھا ۔
نمبر 23۔ساخلین 1 پروجیکٹ ، روس میں کھودا گیا تیل کا لمبا ترین کنواں
28 جنوری 2011ء میں
روس کے جزیرہ " ساخلین " پر ایکسین نیفٹی گیس لمٹیڈ نے تیل اور
گیس کی تلاش کے لیے یہ ایک لمبا سوراخ کیا تھا ۔ اس سوارخ کی کل لمبائی 12،345 میٹر (40،502 فٹ)
تھی مگر اس میں 11،475 میٹر (37،648 فٹ) لمبائی افقی (Horizontal) طور پر تھی ۔یہ سوراخ صرف
60 دن میں مکمل کیا گیا تھا ۔ یہ
پروجیکٹ " ساخلین 1" کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس کمپنی کے پاس دنیا کی
بہترین ٹیکنالوجی تھی ،جس کی وجہ سے اس نے یہاں اپنے کئی ریکارڈز قائم کیے ہیں اور
دنیا کے 10 بڑے کنوؤں میں سے 9 لمبے ترین
کنوئیں اسی پروجکیٹ پر کھودے گئے ہیں۔
اس نے سب سے لمبا ترین کنواں نومبر
2017ءمیں کھودا ، جس کی لمبائی 15 کلومیٹر(49،000 فٹ ) تھی ۔
تاہم مجموعی طورپر مکمل عمودی
گہرائی کے تناسب سے اب بھی کولا سوراخ دنیا کا سب سے گہرا سوراخ تسلیم کیا جاتا
ہے۔
نمبر 24۔روس میں کولا بورہول ۔ گہرا ترین سوراخ
زمین
میں انسان کا کھودا ہوا ،دنیا کا سب سے
گہراترین سوراخ روس میں ہے جسے' کولا سپر ڈیپ بور ہول' کہا جاتا ہے۔ یہ
ناروے کی سرحد کے قریب روسی علاقے مورمانسک میں واقع ہے۔اس جگہ روس کا سائنسی
تحقیقی سٹیشن آباد تھا۔لیکن آج
یہ سٹیشن متروک ہو چکا ہے اور عمارت کا ایک خستہ حال ڈھانچہ نظر آتا ہے ۔ اس خستہ
حال عمارت کے درمیان میں فرش پر زنگ آلود دھات کا ایک بڑا سا ڈھکن ہے جسے موٹے
موٹے زنگ آلود نٹ بولٹ سے بند کیا گيا ہے۔اسے ہی "کولا سپرڈیپ بور ہول "
کہا جاتا ہے ۔
یہ ’کولا سُپرڈیپ‘
زمین پر سب سے گہرا سوراخ ہے جو انسان کا کھودا ہوا ہے۔یہ زمین میں 12،262 میٹر(40،230 فٹ )،یعنی سوا 12 کلو
میٹر اندر تک جاتا ہے۔ اس قدر گہرائی تک جاتا ہے کہ مقامی لوگ قسم کھا کر کہتے ہیں
کہ ’آپ وہاں جہنم میں سزا یافتہ روحوں کی چیخیں سن سکتے ہیں۔زمین میں
کیے جانے والے اس ،سب سے گہرے
سوراخ کو سائنس دانوں نے 1995ء بند کر دیا
تھا ۔
یہ
سوراخ اتنا بڑا نہیں کہ انسان اس میں اتر سکے۔ سوراخ کا دہانہ صرف نو انچ ہے۔ اگر
اسے سیل نہ بھی کیا گیا ہو تو بھی یہ ناممکنات میں سے ہے کہ کوئی شخص اس کے اندر
گر سکے۔ اگرچہ یہ سوراخ مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے لیکن اس کے اندر سے چیخوں
جیسی خوف ناک آوازوں کی وجہ سے یہ جگہ سیاحت کا ایک مرکز بن گئی ہے۔ لوگ یہاں آ کر
اس اجڑے اور غیر آباد مقام کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھتے ہیں جہاں لگ بھگ 20 سال
تک زمین کے اندر 3000 افراد پر مشتمل ایک
کمپنی کھدائی کرتی رہی تھی ۔
ایک تبصرہ شائع کریں