فرعون کی ممی کی دریافت اورڈاکٹر موریس بوکائل کی طبی تحقیقات اصل حقائق کیا ہیں ؟

 

فرعون  کی ممی کی  دریافت  اورڈاکٹر موریس بوکائل کی طبی تحقیقات

 اصل حقائق کیا ہیں ؟


حضرت  موسی علیہ السلام   سے ٹکر لینے والے فرعونوں کی لاشوں یا ممیوں  کے متعلق بہت سی صحیح اور غلط باتیں نیٹ پر موجود ہیں ، ہر بندے کی اپنی تحقیق ہے اورزیادہ تر سنی سنائی باتیں شئر کرتے رہتے ہیں ،جس سے کئی  لوگ بے یقنیی کا شکار ہیں  جبکہ اکثریت انہی غلط یا صحیح معلوما ت کو یقین کے ساتھ سوشل میڈیا پر پھیلاتی رہتی ہے ۔   چناچہ میں آج  آپ کو ان سوالوں کا جواب فراہم کرنے کی کوشش کروں گا جو اکثر لوگوں کے دماغ میں ابھرتے رہتے ہیں ۔مثلا

·       کیا حضرت موسی علیہ السلام   سےٹکر لینے والے فرعون  دو تھے یا ایک ؟

·       مصر میں جو ممیاں  ملی ہیں کیا وہ واقعی انہیں   فرعونوں کی ہیں ۔ اس کا ثبوت کیا ہے ؟

·       کیا فرعون مرنفتاح کے ممی زدہ جسم سے نمک کے ذرات ملے ہیں ؟

·       کس فرعون کو فرانس لے جایا گیا اور وہاں کیا تحقیقا ت ہوئیں ؟

·       کیا ڈاکٹر موریس بوکائیل فرانس میں فرعون پر تحقیقات کرنے والی ٹیم کے انچارج تھے؟

·       کیا ڈاکٹر موریس بوکائیل مسلمان ہو گئے تھے ، یا کس وجہ سےہوئے ؟

·       ڈاکٹر موریس بوکائیل   نے کن وجوہات کی بناء پر  مرتفتاح کی ممی  کو ڈوبنے والا  فرعون قرار دیا تھا ؟

فرعون  کی ممی کی  دریافت  اورڈاکٹر موریس بوکائل کی طبی تحقیقات

محترم ناظرین کرام ۔میں کافی عرصے سےاس موضوع  کے متعلق  واضح حقائق جاننے کی جستجو میں تھا ۔ کئی ویڈیو زیوٹیوب پر دیکھ چکا تھا ۔ کئی ویب سائٹ پر مضامین بھی پڑھے مگر متضاد اور اکثر بغیر دلائل کے باتیں سن اور پڑھ کر سخت کنفیوز  ہی رہا ۔  چناچہ  چند ہفتے قبل میں نے خود تحقیق کرنے کا ارادہ کیا اور   اصل حقائق جاننے اور درست  معلوما ت تک پہنچنے کے لیے ڈاکٹر موریس بوکائیل اور ان ممیوں کو دریافت کرنے والے  فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ ایلیٹ سمتھ کی کتابوں کا  براہ راست مطالعہ کیا ۔بے شمار نیٹ ریسرچ کی اورآج جس نتیجے پر میں پہنچا  ہوں ،وہ  میں آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کروں گا ہے۔ یہ مضمون کافی لمبا ہے مگر چونکہ مکمل حقائق کو پیش کرنا مقصود ہےاس لیے امید ہے کہ آپ اس سے بور نہیں ہونگے اور اس کو پڑھ  کر اپنے خیالات سے آگاہ فرمائیں گے ۔ ان شاء اللہ

ڈاکٹر موریس اپنی کتاب "ممیز آف دی فرعون " کے صفحہ 127 پر لکھتے ہیں (اختصار کے ساتھ یہاں صر ف مفہوم بیان کروں گا ) کہ مرنفتاح کو خروج کے وقت کا فرعون قرار دینے کے لیے میرے پاس تین طرح کے ذرائع سے  شہادتیں موجود  ہیں 

1.     مصر کی تاریخ اور دیگر تاریخی ماخذ

2.     قرآن اور بائبل کی شہادتیں  یعنی مذہبی

3.     اور طبی تحقیقات ۔

اگر طبی تحقیقا ت، پہلے دونوں ذرائع کی نفی کرتیں تو میں اس طرح کا دعوٰی کرنے کی بالکل کوئی جسارت نہیں کرسکتا تھا۔یہاں تینوں ذرائع ایک ہی بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ، جس کا انکار کرنا ناممکن ہے ۔جو اس نظریے کے مخالف ہیں ان کے پاس صرف ایک تاریخی ذریعہ ہے جس کی بنیاد پر وہ بات کرتے ہیں ۔ چناچہ ہر کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ کس کی بات میں وزن زیادہ ہے یا زیادہ قابل بھروسہ ہو سکتی ہے ۔

 

تاریخی شہادتیں

 

·       حضرت موسی علیہ السلام    کا بنی اسرائیل کو لے کر خروج کرنے کے واقعہ کا ذکر صرف بائبل اور قرآن مجید میں ہے ۔ اس کا ذکر کسی ہیروغلیفی زبان کی کسی لوح میں بھی نہیں پایا گیا ۔1896ء میں تبسیہ کےمقام سے کالے گرینائٹ کے پتھر کی تختی ملی تھی جو 3 میٹر اونچی ہے اور یہ قاہر ہ کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ اس تختی کو مرنفتاح سل ، مرنفتاح کی فتح کی سل یا اسرائیل سل بھی کہا جاتا ہے ۔  یہ تحریر شدہ سل بڑی دلچسپی کی چیز ہے کیونکہ ہیروغلیفی میں صرف یہی ایک معلوم شدہ دستاویز ہے جس میں لفظ " اسرائیل " آیا ہے ۔ اس میں مرنفتاح کی فتوحات کے ایک سلسلہ کا حوالہ ہے جو اس نے ہمسایہ حکومتوں پر حاصل کی تھیں۔خصوصا ایک ایسی فتح کا اس دستاویز کے اختتام پر تذکرہ ہے کہ ایک برباد شدہ اسرائیل کہ جس کی نسل میں سے اب کوئی بھی باقی نہیں رہا ۔

·       بائبل کی کتاب پیدائش (29،82) کے مطابق اسرائیل ، حضرت یعقوب علیہ السلام  کا دوسرا نام ہے۔ چونکہ یہ نام ایک فرد واحد کو دیا  گیا ہے لہذا یہ امر تعجب خیز نہیں ہے کہ بعد میں ایک ممتاز مورث اعلیٰ کی یاد میں ایک قوم یا لوگوں کی ایک جماعت کو بھی یہ نام دے دیا گیا ہو۔ اس  لیے حضرت موسی علیہ السلام سے بہت پہلےہی یہ نام مشہور و معروف تھا ۔ زیادہ صحت کو کام میں لایا جائے تو کہا جا سکتا ہےکہ کئی سو سال پہلے اس کی شہرت تھی ۔ چناچہ اگرمرنفتاح کے دور حکومت کے ایک  پتھر کی لوح پر یہ نام لکھا دکھائی دیتا ہے  تویہ کوئی  عجیب بات نہیں ہے ۔یعنی مرنفتاح کےدور حکومت میں ایسے لوگوں کاگروہ یا قوم موجود تھی کہ جنہیں  اسرائیل کا نام دیا گیا تھا۔اورہم جانتے ہیں کہ قرآن بھی حضر ت موسی علیہ السلام کی قوم کو   بنی اسرائیل کا خطاب  ہی دیتا ہے۔

·       ڈاکٹر مورس بوکائیل کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے والے حکمران کا نام رعمیسس دوم تھا۔ گوکہ بائبل میں بھی ان دونوں فرعونوں کے نام موجود نہیں ہیں مگر   بائیبل کے بیا ن کے مطابق  جس فرعون نے  بنی اسرائیل سے بیگا رکے طور پرکئی شہر تعمیر کروائے تھے  ان  میں سے ایک کانام ''رعمسس ''رکھا گیا تھا جبکہ دوسرے کا نام پتوم تھا۔  (خروج 1-11)

·       ڈاکٹر موریس بوکائیل اپنی کتاب "بائبل ، قرآن اور سائنس کے صفحہ 350)  لکھتے ہیں کہ مقدس صحیفوں سے ہٹ کر بنی اسرائیل نے مصر میں اپنے قیام کے جو اثرات چھوڑے ہیں ، وہ نہات دھندلے ہیں ۔تاہم کئی ہیروغیلفی  دستاویزات ایسی ہیں جو مصر میں ایسے مزدوروں کی جماعت کے وجود کا حوالہ دیتی ہیں جو اپیرو، ہاپرو اور ہابرو کہلاتی تھی، جن کو عبرانیوں سے مطابقت دی جاتی ہے ، اس جماعت میں تعمیراتی کام کرنے والے  زراعت سے متعلق مزدور، کھیتی بھاڑی کرنےوالے لوگ وغیرہ شامل ہیں ۔ لیکن یہ لوگ کہاں سے آئے تھے ؟ اس سوال کا جواب پانا مشکل ہے ۔ فادردے وو نے ان کے بارے میں حسب ذیل تحریر پیش کی ہے ۔ "وہ مقامی آبادی کے افراد نہیں ہیں ، اور نہ وہ خود کو معاشرہ میں کسی جماعت کی حیثیت سے روشناس کراتے ہیں ۔ ان سب کا نہ ایک پیشہ ہے اور نہ ایک مرتبہ "

·       تحوتمس سوم کے زیر حکمرانی ان کا حوالہ اصطبل میں کام کرنے والوں کی حیثیت سے ایک پائپرس پر لکھا ہوا ملتا ہے ۔

·       تاریخی طو ر پر یہ بات بھی معلوم شدہ ہے کہ 15ویں صدی قبل مسیح میں کس طرح ایمیوفس دوم ان کے 3600 لوگوں کو کنعان سے قید کر کے لایا تھا اور جیسا کہ فادردے وو کا کہنا ہے ۔

"ان میں ایک بڑی تعداد شامی فلسطینی آبادی کی تھی ۔ تقریبا 1300 قبل مسیح سیتھوس اول کے تحت اپیرو نے کنعان کے علاقہ بیت شین میں بڑا فتنہ و فساد برپا کیا تھا ۔ رعمیسس دوم کے دور حکمرانی میں ان میں سے کچھ لوگ پتھر کی کانوں میں کام کرنے   کے لیے مقرر کیے گئے اور کچھ ان ستونوں کی نقل وحمل کےکام پر مامو ر ہوئے جو فرعون کے تعمیر ی کاموں میں استعمال ہوتے تھے ۔

·       حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک مصر ی نام پی مانتے نے اپنی کتاب " مصر اور بائبل " میں بتایا ہے کہ میسو یا میسی ، وہ اعلام ہیں جو ہیرو غلیفی زبان کی لغت میں جس کو رینک نے مرتب  کیا ہے درج ہے ، موسیٰ اسی لفظ کی نقل ہے جو قرآن میں دی گئی ہے ۔ (بائبل ، قرآن اور سائنس ۔ صفحہ 352)

·       ڈاکٹر موریس بوکائیل کے مطابق ، اس صدی کے شروع میں ماہر مصریات گیسٹن ماسپیرو  نے اپنی کتاب رہنمائے عجائب گھر قاہرہ برائے سیاح 1900ء  میں لکھا تھا کہ " غالبا اسکندری روایت کے موجب مرنفتاح خروج کے زمانے کا فرعون تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ وہ بحیرہ احمر (بحیرہ قلزم) میں ڈوب مرا  تھا "

·       پی مانتے نے بھی اپنی کتاب "مصر اور بائبل " میں نہایت فراست کے ساتھ اس ابتدائی سکندری روایت کو دہرایا ہے جس کا ذکر  گیسٹن ماسپیرو نے کیا ہے ۔ اور اضافی دلائل کے ساتھ اس کی حمایت کی ہے ۔ (بائبل ، قرآن اور سائنس ۔ صفحہ 357)

·       ہیرو غلیفی رسم الخظ کا مفہوم تقریبا تیسری صدی قبل مسیح میں گم ہوگیا تھا ۔ جسے تقریبا 200 سال پہلے شمپولین نے ان نشانا ت کا جائزہ لے کر جو لفظ " رعمسس" کو ظاہر کرتے تھے ، ہیرو غلیفی رسم الخط کو سمجھنے کی کنجی دریافت کی ۔ اس وقت سے اب  اس لفظ کا مفہوم اب سب جان چکے ہیں۔ وگرنہ یہ لفظ بائبل اور یونانی اور لاطینی زبانوں میں لکھی گئی چندکتابوں کے علاوہ مشکل ہی سے محفوظ رہ سکا اور بگڑ کر رہ گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ٹاسی ٹس  اپنے " وقائع" میں لفظ" رہامس " کا ذکر کرتا ہے ۔۔ (بائبل ، قرآن اور سائنس ۔ صفحہ 357)

بائبل سے شہادتیں

·       رعمسس کے لیے عبرانی لفظ بائبل میں دو طرح سے لکھا جاتا ہے ۔ رعمسس یا راعیس۔ بائبل کے یونانی متن میں جو "ہفتاوی ترجمہ " کے نام سے موسوم ہے  یہ " رامیسے" ہے۔ لاطینی متن (ولگیٹ )میں یہ لفظ "راعمسیس" لکھا ہو ا ہے ۔

·       بائبل کے کلیمنتی متن میں جو فرانسیسی میں ہے (اشاعت اول 1921ء)یہ لفظ اسی طرح ہے یعنی  "راعمسیس" ۔ جس زمانہ میں شامپولین نے اس شعبہ میں کام کیا اس وقت فرانسیسی اشاعت ہی رائج تھی ۔ اپنی کتاب " قدیم مصریوں کے ہیروغلیفی  طرز کے خلاصہ (اشاعت ثانی 1828ء،صفحہ 278)میں شامپولین نے اس لفظ کے بائبل کےہجوں کو اختیار کیا تھا۔اس طرح بائبل نے معجزانہ طور پر رعمسس کے نام کو اپنے عبرانی ، یونانی  اور لاطینی متون میں قائم و برقرار رکھا ۔

·       جدیدِ تحقیقات کے مطابق"رعمسس" شہر  تیونس اورقطر کے اس علاقے میں واقع تھا جو دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹے میں واقع ہے۔یہ شہر بعد میں مصر کا شمالی دارلحکومت بنا ۔ اور بائبل سے ہی پہ چلتا ہے  کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی شہر کی تعمیر کے دوران پیدا ہوئے تھے ۔

·       مزید بائبل سے ہی پتہ چلتا ہے کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام جس وقت مدین  میں تھے  ۔ اس وقت  تک فرعون وفات پا چکا تھا۔یعنی رعمیسس دوم اس وقت تک مر چکا تھا۔(ابد2-23)

·       بائبل کے باب( خروج 7۔7) سے پتہ چلتا ہے کہ جس وقت حضرت موسی ٰ علیہ السلا م فرعون کے دربار میں پیش ہوے  اور اسے بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کی درخواست کی  ، اس وقت ان کی عمر 80 سال تھی ۔ یعنی جس فرعون سے آپ نے ملاقات کی وہ دوسرا فرعون یعنی مرنفتاح تھا ۔مگر فرعون نے یہودیوں یعنی بنی اسرائیل کو جانے کی اجازت نہ دی ۔

·       بائبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل اسی شہر رعمسس سے  خروج  کے لیے نکلے تھے۔ جن کی تعداد  بیوی ،بچوں کے علاوہ 6 لاکھ مردوں پر مشتمل تھی ۔

·       فرعون نے بھی اپنا رتھ تیار کروایا اور سارے مصر سے رتھ اکھٹے کر کے ،اپنے سبھی سرداروں  کے ہمراہ ، بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کے لیے نکلا۔ (خروج14، 6-8)

·       فرعون نے بنی اسرائیل کو سمندر کے قریب پایا ۔وہ سمندر سے نکل گئے جبکہ فرعون اور اس کا لشکر ڈوب کر مر گئے ۔ (خروج14، 23-29)

ڈاکٹر موریس بوکائیل  لکھتے ہیں کہ بائبل کے بیانات کی بڑی تاریخی قدروقیمت ہے۔ اس سے ہمیں فرعون کا تعین کرنے یا زیر بحث دونوں فرعونوں کو پہچاننے میں مدد ملتی ہے۔یہ مفروضہ جو بائبل کے ساتھ شروع ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں شامل معلومات کو جمع کرنے سے ، حقیقت واضح ہونے میں مد د ملتی ہے ۔ بائبل کی طرح قرآن بھی کوئی ایسا نام فراہم نہیں کرتا جس سے اس فرعون کی شناخت کی جاسکے جو خروج کے وقت حکمران تھا۔

قرآن سے شہادتیں

·       جو بات معلوم ہے ، وہ یہ ہے کہ فرعون کے مشیروں میں سے ایک کا نام ہامان تھا۔ قرآن میں اس کا ذکر 6 بار آیا ہے ۔

·       قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون  علیہ السلام کا فرعون سے بات چیت اور بنی اسرائیل کا مصر سے خروج کا ذکر 10 سے زائد سورتوں میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

·       قرآن مجید میں ڈاکٹر موریس بوکائیل  کے مطابق لفظ "فرعون" 27 سورتوں میں 74 مرتبہ ذکر ہوا ہے ۔

·       قرآن بنی اسرائیل کو کہتا ہے کہ " اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے ۔ اس نے تم کو فرعون والوں سے چھڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے ، تمہارے لڑکوں کو قتل کردیتے تھے اور تمہاری عورتوں کو چھوڑ دیتے تھے "۔ (سورۃ ابراہیم۔ آیت 6)۔ قرآن فرعون کے ظلم کا تذکرہ تو کرتا ہے لیکن ان شہرو ں کے ناموں کا ذکر نہیں کرتا جو بائبل میں مذکور ہیں ، جنہیں بنی اسرائیل نے بیگار میں تعمیر کیا تھا ۔

·       حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دریا کے کنارے چھوڑنا (سورۃ طہ)

·       فرعون کی بیوی کا تذکرہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو  دریا سے نکال کرلے گئی تھی ۔ (سورۃ  القصص)

·       حضرت موسی ٰ علیہ السلام کی جوانی ، ان کے مدین میں قیام اور ان کی شادی کا ذکر ۔ (سورۃ القصص)

·       بطور عذاب خداوندی ،بائبل میں 10 بلاؤں  اور وباؤں کا ذکر ہے ۔جبکہ قرآن میں صرف 5 کا ذکر ہے ۔ یعنی سیلاب ، ٹڈیاں ، جوئیں ،مینڈک اور خون ۔ (سورہ الاعراف۔ آیت 133)

·       مصر سے فرار کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے لیکن بغیر کسی ان جغرافیائی تفصیلات کے جو بائبل میں دی گئی ہیں۔ نہ ہی اس میں لوگوں کی وہ ناقابل یقین تعداد مذکور ہے جس کا حوالہ بائبل میں ہے ۔ یہ قیاس کرنا مشکل ہے کہ 6 لاکھ مرد مع اپنے اہل و عیال کے ایک طویل عرصہ تک صحرا میں رہ سکے ہوں گے ۔ جیسا کہ بائبل میں ہمیں یقین دلایا گیا ہے ۔

عام خیال ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے جس فرعون کے محل میں پرورش پائی اسی سے بعد میں ان کی مڈبھیڑ ہوئی تھی ،مگر تاریخی حقائق کی روشنی میں پرکھا جائے تو یہ خیال غلط ہے ،اس غلط فہمی کی وجہ شاید لفظ ’’فرعون ‘‘ہی بنا۔ حالانکہ  فرعون اس دور میں مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا یعنی جو بادشاہ بنتا اس کو فرعون کہا جاتا۔قدیم مصر پر اس طرح 30 خاندانوں نے حکومت کی تھی یعنی سیکڑوں فرعون وہاں حکمرانی کرتے رہے ۔ چناچہ  حضرت موسی علیہ السلام کو دو فرعونوں سے واسطہ پڑا  تھا۔ ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ کی پیدائش ہوئی اور جس کے گھر آپ نے پرورش پائی یعنی رعمیسس دوم ، جبکہ دوسرا وہ جس کے پاس دین حق کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور وہ بحیرہ احمر (بحیرہ قلزم بھی کہا جاتا ہے) میں غرق ہوا۔یعنی مرنفتاح ۔ دونوں ہی  بنی اسرائیل پر ظالم ڈھانے والے اور اپنے  کو خدا کہلاتے تھے ۔

بنی اسرائیل کے خروج اور فرعون کے تعاقب کا ذکر بائبل میں اس طرح کیا گیا ہے ۔

’’اور پانی پلٹ کر آیا اور اس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کر دیا اور ایک بھی ان سے باقی نہ چھوٹا۔ پر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔(بائبل خروج 14: 29-30)

اسی واقعہ کو قرآن مجید اس طرح بیان کرتا ہے ۔

(وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ۔ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ)

 

 ”اور ہم نے بنی اسرائیل کو (جب) سمندر سے پار گزار دیا تو فرعون اور اس کے لشکروں نے از راہ ظلم و سرکشی ان کا تعاقب کیا۔ حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بولا : میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ ’’الٰہ صرف وہی ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں اس کا فرمانبردار ہوتا ہوں‘‘( فرمایا) اب (تو ایمان لاتا ہے) جبکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا آج تو ہم تیری لاش کو بچا لیں گے تاکہ تو بعد میں آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنے، اگرچہ اکثر لوگ ہماری آیتوں سے غفلت ہی برتتے ہیں“۔  (سورۃ یونس۔ آیت 90-92)

سمندر سے پار گزار دیا تو فرعون اور اس کے لشکروں نے از راہ ظلم و سرکشی ان کا تعاقب کیا

حضرت موسی علیہ السلام اور ان کے لشکر کا تعاقب کرتے ہوئے فرعون اور اسکے چیلے امراء اور جرنیل غرق ہو گئے تھے ۔فرعون کی موت پر اس کے پجاریوں پر بجلی ٹوٹ پڑی۔ پورے ملک میں سوگ کی کیفیت تھی ،دویا تین دن بعد پانی نے اللہ کے حکم سے فرعون کی لاش کو اگل دیا ،جسے سمندر کی تیز لہروں نے کنارے پر پھینک دیا۔ لوگوں کو پتہ چلا تو وہ لاش اٹھا لائے ۔ اپنے حاکم کو پہچان کر انہوں حسب روایت اس کی لاش کو حنوط کر کے ایک قدیم فرعون ’’آمن ہیتب ثانی ‘‘(Amen Heteb-ii)کے مقبرہ کے تہ خانے میں دفن کر دیا گیا۔مورخین کا خیال ہے چونکہ یہ بحرانی دور تھا،اس لئے ہو سکتا ہے فوری طور پر مرنفتاح کا مقبرہ تعمیر کرنا ممکن نہ ہوا ۔اور اسے پرانے مقبرے میں ہی دفن کر دیا گیا ،یہ ممیاں اور ان کے مقبرے کئی سو سال محفوظ رہے ۔

قدیم اہل مصر نہ صرف اس حقیقت سے نا واقف تھے بلکہ فرعون کی غرقابی کے واقعے سے ہی انکاری تھے اسی لئے تو قدیم مصری لٹریچر میں اس قسم کے کسی واقعہ کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ، شاید وہ بنی اسرائیل کے ہاتھوں مصریوں کی شکست کو ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتے تھے ۔ہو سکتا ہے یہ ان کے نزدیک قومی حمیت کے خلاف بات تھی ۔

بائبل کا بیان اگرچہ تاریخ کو محفوظ تو کرتا ہے لیکن قرآن کریم کے مقابلہ میں بالکل سطحی ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام  کے ایک ماننے والے نے جو کچھ دیکھا اور محفوظ کیا وہ بس اتنا ہے کہ فرعون اور اس کا لشکر پہاڑوں جیسی دوبلند لہروں میں غرق ہو گیا۔ غرق ہونے سے پہلے فرعون پر کیا گزری؟ ڈوبتے وقت اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کیا بات ہوئی؟ بائبل صرف اتنا بتاتی ہے کہ وہ سب ڈوب گئے۔مزید برآں یہ امر توجہ طلب ہے کہ قرآنی بیان کے برعکس بائبل میں فرعون کی جسمانی نجات کے امکان کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ کیونکہ بائبل کے مطابق ان میں سے ایک بھی نہ بچا۔ چنانچہ قرآن کریم سے پہلے کسی انسانی تاریخ میں اس بات کا ذکر نہیں ملتا  کہ فرعون کے جسم کو اس لئے بچایا گیا تاکہ وہ آئندہ نسلوں کے لئے باعث عبرت ہو۔نزول قرآن کے وقت فراعین مصر کے مقابر صحرا کی ریت کی تہوں میں مدفون تھے۔ تو اس زمانہ کے لوگوں کو ممی بنانے کا علم نہیں تھا اور خصوصاً عرب تو اس سے بالکل ہی نابلد تھے۔  

قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ  میں ہے کہ جب فرعون اپنے لشکریوں کے ساتھ غرق ہونے لگا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے یہ استدعا کی کہ اب میں موسیٰ اور ہارون اور اُن کے خدا پر ایمان لاتا ہوں اس لئے تو مجھے بچا لے۔ تو اللہ تعالیٰ نے جواباً فرمایا اب یہ کوئی وقت ہے بچنے کا اور اس جواب میں بہت ہی گہری حکمت ہے۔اس کے ساتھ ہی فرمایا ،ہاں ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے۔ ایک طرف یہ کہنا کہ یہ کون سا وقت ہے بچانے کا اور پھر اچانک یہ کہہ دینا کہ ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے۔ اس میں بہت گہری حکمت ہے۔ مراد یہ کہ جب تیری روح کی نجات کا وقت تھا جب تیری روح کو خطرہ تھا اُس وقت تو تو ایمان نہیں لایا اب بدن کو خطرہ پیدا ہوا ہے تو تو ایمان لاتا ہے ہاں تیرے بدن کو نجات دیں گے اور محض ایک طعن کے رنگ میں نہیں بلکہ اس غرض سے کہ یہ آئندہ نسلوں کے لئے ایک عبرت کا نشان بن جائے۔ یہ ہے وہ مکمل جواب  جودراصل  چھوٹے سے جواب میں مضمر ہے۔

 

فرعونوں کی ممیاں کیسے ملیں ؟

 

تو چلیے چلتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ فرعونوں کی یہ ممی شدہ لاشیں کب ، کہاں ، کیسے اور کس نے دریافت کیں اور یہ کس طرح معلوم ہو ا کہ یہ کس کی لاش ہے ؟

فرعونوں  کی لاشیں کیسے ملیں؟یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ ’’ممیوں‘‘تک پہلے پہل رسائی کسی ماہر آثار قدیمہ نے نہیں  کی بلکہ،ہوا یوں کہ مصر میں دریائے نیل کے بائیں جانب شاہوں کی وادی کے نام سے مشہور ایک جگہ ہے ۔ اس جگہ کے قریب ایک مقام " دیر اَل بخاری" واقع ہے جس کے گردونواح میں کچھ گاؤں آباد ہیں ۔ ان میں سے ایک گاؤں کا نام " شیخ الغورنیہ " ہے ۔ وہاں ایک شخص احمد عبدالرسول کا خاندان آباد تھا ۔ یہ خاندان کسی طرح ان مقبروں تک پہنچا جہاں ان کو یہ تابوت ملے ۔ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ ان تابوتوں کا تعلق فرعونوں سے ہے ۔ وہ  ان کی قیمتی اشیاء چراتے اوران کو بازار لا کر فروخت کرتے ۔ ان کے پاس جب انتہائی منفرد اشیاء پائی گئیں تو لوگوں کو شک ہوا  ، اور ان کی شکایت پولیس کو کی گئی ۔

چناچہ جب پولیس نے احمد عبدالرسول سے  تفشیش کی تو اس نے بالآخر اس  بات کا اقرا ر کر لیا کہ وہ یہ قیمتی نوادرات اس علاقے میں موجود کسی مقبرے میں پائے گئے تابوتوں سے حاصل کرتا ہے ۔ چناچہ  1881ء میں پولیس اس مقام پر گئی جو زمین کی سطح سے 10 گز نیچے واقع تھا ۔ یہ ایک چھوٹا کمرہ تھا جس میں چوری کا مال جیسے کفن  دفن کا پرانا سامان  اور پرانے وقتوں کے نوادارت موجود تھے ۔ یہاں سے  راستہ ایک مقبرے کو جاتا تھا ،جہاں کئی تابوت موجود تھے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جگہ فرعونوں کے 21 ویں خاندان کے دور حکومت میں اس غرض کے لیے تعمیر کی گئی تھی کہ  مقبروں کے قیمتی سامان کو چوروں سے محفوظ کرنے کے لیے چھپا کر رکھا جا سکے ۔

رعمیسس دوم کی لاش کا تابوت

مصری آثار قدیمہ کے محکمے نے مزید تابوتوں کی تلاش کے لیے اس مقام کی کھدائی جاری رکھی ۔ یکم جون  1886ء کو کھدائی کے دوران لکڑی کا ایک اور تابوت بر آمد ہوا ۔ اس پر کچھ ایسی عبارت کندہ تھیں ،جن سے ظاہر ہوتاتھا۔کہ یہ رعمیسس دوم کی لاش کا تابوت ہے۔ اس کے باوجود آثار قدیمہ کے بعض ماہرین کو اس میں شک ہوا کہ یہ لاش واقعی فرعون کی ہے ۔اس کام کی سربراہی مصر کے آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جناب گیسٹن ماسپیرو کر رہے تھے ، جن کا تعلق فرانس سے تھا ۔

رعمیسس دوم کی لاش

انہوں نے  تابوت کا ڈھکنا الگ کیا  اور لاش کے اوپر والے کپڑے کو ہٹایا تو اصل کفن جس نے لاش کا سینہ ڈھانپ رکھا تھا۔ وہاں روشنائی سے نمایاںطور پر  ہیرو غلیفی زبان میں ’’رعمیسس دوم‘‘کا نام لکھا ہوا پایا گیا ،اس موقع پر  مصر کا حادیو،توفیق پاشا  اور مصر کے اعلی افسران بھی موقع پر موجود تھے۔ یہاںموجود تمام ممیوں کو بولق عجائب گھر میں لا کر رکھ دیا گیا ۔ بعد میں انہیں قاہرہ عجائب گھر میں لایا گیا ۔ جہاں  مصر کے آثار قدیمہ کے نئے ڈائریکٹر جناب ایلیٹ سمتھ نے 8 جولائی 1907ء کو  ، رعمیسس دوم کی ممی  پر سے بقیہ  پٹیوں کو کھولا  اور معائنہ کیا ۔ اس کا تفصیلی ذکر اس نے اپنی کتاب " دی رائل ممیز" میں کیا ہوا ہے  ۔ 

رعمیسس دوم کی لاش

  مرنفتاح کی لاش اس کے باپ کی لاش ملنے کے بارہ سال بعد بر آمد ہوئی ۔قبل ازیں کسی کو اس کی مدفن کا علم نہ تھا ،  1898ء میں ’’بادشاہوں کی وادی ‘‘میں کھدائی کا سلسلہ جاری تھا کہ مصر کے آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ایک مغربی ماہر مسٹر لوویٹ (Lovet)نے اپنے پانچ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شاہ   ہیتب ثانی کا مقبرہ کھولا تو اس کے ایک ذیلی کمرے سے ایک تابوت ملا۔تابوت کا چوبی ڈھکنا اٹھایا گیا تو ممی کے کفن پر واضح طور پر  ہیروغلیفی زبان میں فرعون مرنفتاح کا نام لکھا ہواپایا گیا۔  1900 ء میں اس ممی کو قاہرہ کے عجائب گھر میں لایا گیا ۔ اس مقبرے سے مزید 18 ممیاں بھی برآمد ہوئیں تھیں ۔ ایلیٹ سمتھ نے 8 جولائی 1907ء کو  اس پر سے  بھی پٹیوں کو کھولا  اور معائنہ کیا ۔ اس کا تفصیلی ذکر اس نے اپنی کتاب "دی رائل ممیز" میں کیا ہوا ہے  ۔ 

مرنفتاح کی لاش

ممیاں جب تک حنوط شدہ حالت میں اپنے مقبروں میں موجود رہیں ان کی حالت بہت بہتر تھی ۔ان کی حالت اس وقت بگڑنا شروع ہوئی  جب ان کی حنوط کرنے والی پٹیاں کھول کر، اُن کو  بغیر کسی حفاظتی تدابیراختیارکیے ، نمائش کے لیے عجائب گھر میں رکھ دیا گیا ۔ ان کوسخت موسمی اثرات اور نمی وغیرہ سے  خراب ہونے سے بچانے کےلیے کوئی  خاص انتظام نہ کیا گیا اور سخت بے احتیاطی کی گئی ۔

مرنفتاح کی لاش

 گیسٹن سپیرو کہ جس نے سب سے پہلے 1886ء میں ان پٹیوں کو ممیوں سے اتارا تھا ، اُسی نے 30 سال بعد 1916ء میں  قاہرہ کے عجائب گھر میں،جب ان ممیوں کو دوبارہ دیکھا تو احکام مصر کوان کی بگڑتی ہوئی  حالت کی طرف توجہ دلائی    مگر اس  کے باوجود  کوئی ضروری اقداما ت نہ اُٹھائے گئے ۔

ایلیٹ سمتھ نے 8 جولائی 1907ء کو  اس پر سے  بھی پٹیوں کو کھولا

ڈاکٹر موریس بوکائیل اپنی کتاب " ممیز آف دی فرعونز"کے صفحہ 11 پر لکھتے ہیں  کہ فرعونوں کی ممیوں کے حوالے سے مجھے سب سے زیادہ دلچسپی رعمیسس دوم کے بیٹے مرنفتاح کی ممی کے ساتھ صرف اس وجہ سے تھی کہ میں اُسے ہی قرآن اور بائبل کے حوالوں کے مطابق بنی اسرائیل کے خروج کے وقت کا فرعون سمجھتا تھا ۔ "

وہ مزید لکھتے ہیں کہ 1974ء میں ، جب میں مصر گیاتو ان دونوں فرعونوں کی ممیاں ،دوسری ممیوں کے ہمراہ وہاں عجائب گھر میں لوگوں کے دکھانے کے لیے رکھی ہوئی تھیں ۔ مگر 1979ء میں  ممیوں کی حالت بگڑنے کی وجہ سے ان کی نمائش پر پاپندی لگا دی گئی تھی کیونکہ ممیوں کو محفوظ بنانے کا ”فرانس مشن “ناکام ہو چکا تھا۔ 1974ء میں لوگ رعمیسس دوم کے جسم میں سے صرف چہرے اور بائیں ہاتھ کو دیکھ سکتے تھے جبکہ بقیہ جسم کتان کے موٹے کپڑے سے لپیٹا گیا تھا جو کہ ٹاٹ کے کپڑ ے کی طرح نہ تھا ۔لاش کو تابوت کے اندر اس طرح لٹایا گیا تھا کہ اس کا چہرہ اوپر کی جانب تھا۔ ممی شیشے کے باکس میں رکھی گئی تھی جس کا کور کھولا اور بند کیا جا سکتا تھا ۔

 ہاتھ کی انگلیوں کے ناخن کافی بڑھے ہوئے تھے اور ان پر مہندی لگی ہوئی تھی ۔ ناخن کے بڑھے ہونے کی وجہ سائنسی تھی کہ مرنے کے بعد بھی ان کی نشوونما جاری رہتی ہے ۔پیشانی پر کچھ بھورے رنگ کے گھومڑ موجود تھے جن کو بعد میں ماہرین جلد نے بڑھاپے کی وجہ قرار دیا تھا۔ مگر جس چیز نے میری توجہ سب سے زیادہ حاصل کی وہ اس کی بند پلکیں تھیں ،جو  ظاہر کر رہی تھیں کہ جسم کو حنوط کر نے والوں نے حنوط کرتے وقت اس کی آنکھیں نکال دی تھیں ۔

اس وقت قاہرہ عجائب گھر میں فرعون کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی 27 ممیاں وہاں موجود تھیں ۔شاہی ممیاں جس کمرے میں رکھی گئی تھی اس کی دیواروں پر دنیا بھر سے آنے والے ریڈلوجسٹ کے ایکسرے جو انہوں نے ان ممیوں کی تحقیق کی غرض سے لیے تھے ، آویزاں تھے اور ہر ایک نے اپنی دلچسپ تحقیق کے نتائج بھی عوام کی معلومات کے لیے لکھ رکھے تھے۔

مصر کے صدر  انورسادات کی بیوی کا ایک رشتہ دار ، ڈاکٹر موریس بوکائیل سے  علاج کے سلسلے میں فرانس آتا جاتا رہتا تھا ۔ وہاں صدر سادات کی بیوی کی ملاقات ڈاکٹر صاحب سے بھی ہوئی ۔ دوران ملاقات  ڈاکٹر صاحب نے  مسز سادات سے فرعون کی ممیوں کے متعلق اپنے خیالات و امکانات سے آگاہ کیا کہ میری تحقیق کے مطابق مرنفتاح ہی وہ فرعون ہے جو بنی اسرائیل کے خروج کے وقت فرعون مصر تھا ۔ چناچہ اگر آپ مجھے اس بات کی تحقیق  کی اجازت مرحمت فرمادیں تو نوازش ہو گی ۔اس بات کی حامی مسز سادات نے بھر لی  اور صدر سادات سے با ت کر کے ، ڈاکٹر صاحب کو ان سے ملنے کی دعوت دی ۔

چناچہ ڈاکٹر موریس ذاتی طور پر1974ء میں صدر سادات سے ملے اور ان سے اجازت طلب کی ،جو کہ انہیں ناصرف دے دی گئی بلکہ ہر طرح کی سہولت بہم پہنچانے کا حکم بھی صادر کیا گیا مگرا یک شر ط کے ساتھ کہ ان  ممیوں کو جسمانی طور پر کوئی نقصان نہ پہنچے ۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر صاحب صدر انور سادات اور مسز سادات کے ہمیشہ مشکور ر ہے ۔

 

مصر میں ڈاکٹر موریس بوکائیل کی ممیوں پر تحقیقات

 

اس ریسرچ میں معاونت کے لیے ڈاکٹر موریس کی درخواست پر ، مصر حکومت کی جانب سے فرانس کے ڈاکٹر مائیکل دوریگون کو دعوت دی گئی جو فرانزک میڈیسن میں ماہر تھے ۔ اس کے علاوہ اس ریسرچ میں پروفیسر کے کسیم ، پروفیسر آر ایل میلیجی  اور ڈاکٹر مصطفیٰ مینالوی  کی معاونت بھی شامل تھی ۔ ابتدائی ریسرچ کے دوران مجموعی طور پر فرانس اور مصر کے 10 ڈاکٹر ،جن میں ایکسرے ، اینڈو سکوپی کے ماہر اور دندان ساز اس اہم پروجیکٹ میں شامل تھے ۔

فرعون مرنفتاح کی کھوپڑی

اس  ریسرچ میں خاص طور پر اس چیز کو اہمیت دی گئی کہ فرعون مرنفتاح کی کھوپڑی  پر  نظر آنے والا رخنہ کس وجہ سے ہے اور اس کی مو ت کس وجہ سے ہوئی تھی ؟اس کے علاوہ رعمیسس دوم کی ممی کے بارے میں بھی تحقیق کرنا شامل تھا ۔اس ریسرچ سے قبل  عمومی نوعیت کی تحقیق میں اس بات کا مشاہدہ کیاجا چکا تھا کہ دوسری ممیوں کی طرح رعمیسس دوم کی ممی کی حالت بھی خراب ہو چکی ہے ،جبکہ رعمیسس دوم کی ممی کو دوہرا نقصان ہوا تھا ۔ ایک تو اس کے ڈھانچے کو جسمانی طور پر نقصان کا سامنا تھا جو اس کا ایکسرے لینے  سےمعلوم ہوا ، دوسرا حیاتیاتی طور پر بھی ممی کئی اقسام کی پھپوندیوں کا شکار ہو چکی تھی ۔

فرعون مرنفتاح کی کھوپڑی  پر  نظر آنے والا رخنہ

رعمیسس دوم اور مرنفتاح کی ممیوں میں چھاتی کے حوالے سے فرق پایا گیا۔ رعمیسس دوم کی چھاتی بھری ہوئی تھی جبکہ مرنفتاح کی چھاتی تقریبا خالی  ۔ مرنفتاح کی چھاتی خالی ہونے کے بارے میں ایک سادہ نظریہ یہ پایا جاتا ہے کہ چونکہ اس کی موت بنی اسرائیل کے خروج کے وقت حادثاتی طورپر ہوئی تھی اس لیے اس کے اندرونی اعضاء شدید متاثر ہوگئے ہونگے ۔ یعنی ان کو نکال کر پھینک دیا گیا ہو گا ۔

رعمیسس دوم اور مرنفتاح کی ممیوں میں چھاتی کے حوالے سے فرق پایا گیا

مرنفتاح کی چھاتی خالی ہونے کی ایک اور ممکنہ وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حنوط کرتے وقت  بعض اوقات ،پیٹ اور چھاتی کے اندرونی اعضاء کو نکال لیا جاتا تھا اور پھر ان کو الگ الگ حنوط کر کے کچھ حصوں کو پیٹ اور چھاتی کے خالی حصوں میں اور کچھ کو مخروطی شکل کے مرتبانوں میں رکھ دیا جاتا تھا ۔ مگر جب مرنفتاح کی پٹیاں کھولی گئی تو اس کے پیٹ کے نچلے حصے پر 4X6 سینٹی میٹر کا کٹ لگا ہوا تھا اور اس کا پیٹ اور چھاتی خالی تھی ۔ شاید کسی وقت کسی  چور لٹیرے نے قیمتی چیزوں کی تلاش میں اندر موجود ہر چیزکو نکال پھینکا ہو گا۔کیونکہ پٹیوں کے اوپر بھی کٹ کا نشان موجود تھا۔ مگر جب مرنفتاح کے ایکسرے کیے گئے تو چھاتی کے مقام پر ایک بے ترتیب خاکہ سا نظرآیا کہ جیسے اس جگہ کچھ ہو ۔  اس ایکسرے میں آپ ا س کو دیکھ سکتے ہیں ۔ ‘’

مرنفتاح کی چھاتی

مرنفتاح کے پیٹ پر تو چھوٹا ساسوراخ تھا مگر رعمیسس دوم کے پیٹ پر کافی بڑھا سوراخ تھا  ۔ جیسا کہ تصاویر سے واضح ہے ۔ مرنفتاح کے دونوں ہاتھوں کی کلائیاں بڑی ترتیب کے ساتھ  ایک دوسرے کو کراس کرتے ہوئے چھاتی کے اوپر رکھی ہوئی ہیں  جبکہ رعمیسس دوم کی کلائیاں اس انداز میں نہیں ہیں ۔ جیسا کہ تصاویر سے واضح ہے۔

رعمیسس دوم کے پیٹ پر کافی بڑھا سوراخ تھا

 ڈاکٹرموریس بوکائیل  اپنی کتاب "ممیز آف دی فرعون " میں لکھتے ہیں کہ رعمیسس دوم کی چھاتی کے اندر کیا کچھ ہے اس چیز کومعلوم کرنے کےلیے ہم نے اینڈو سکوپی آلے کو اندر ڈالنے کی ناکام کوشش کی کیونکہ پیٹ اور چھاتی کے درمیان کوئی نامعلوم مادے کی دیوار سی موجود ہے ،جسے توڑے بغیر ہم آلے کو اندر نہیں ڈال سکتےتھے ۔ اور ایسا کرنے کی اجازت نہیں تھی کیونکہ لاش کے ڈھانچے کو نقصان پہنچ سکتا تھا ۔

مرنفتاح کی دائیں کلائی کی بڑی ہڈی کچھ اس انداز میں ٹوٹی  ہوئی تھی

مرنفتاح کی دائیں کلائی کی بڑی ہڈی کچھ اس انداز میں ٹوٹی  ہوئی تھی کہ ٹوٹی ہوئی ہڈی بھی کئی اجزاء میں منقسم تھی ۔ میرے خیال میں ہڈی کا ٹوٹنا اس کی موت کے بعد ہوا  ہو گا ۔

مرنفتاح کی چھاتی  پر موجود سوراخ

مرنفتاح کی چھاتی  پر موجود سوراخ بھی کسی حادثاتی موت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔مرنفتاح کی چھاتی کے ایکسروں کے جانچنے سے میں نے یہ بات نوٹ کی کہ اس کی ہڈیوں پر تکلیف دہ چوٹ کے اثرات پائے جاتے ہیں اور یہ اس وقت ہوا ہو گا کہ جب یہ جسم زندہ تھا۔

مرنفتاح کی چھاتی کے ایکسروں کے جانچنے

مرنفتاح کے جسم میں 13 پسلیاں تھیں مگر ابھی موجودہ لاش میں بارہویں اور تیرہویں پسلی غائب ہے رعمیسس دوم کے کولہے کی ہڈیوں کے ایکسرے سے یہ معلوم ہوا  کہ دونوں طرف کی ران کی ہڈیوں کی شریانیں کیلشیم کی زیادتی کی وجہ سے سخت ہوچکی تھیں ۔ اس کے علاوہ اس کی شہ رگ کی شریانیں  بھی اسی بیماری کا شکار تھیں ۔ان علامتوں کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔  یہ بات بڑی حیران کن تھی کہ وہ شریانوں کی سوزش کے مرض کا بُری طرح شکا ر تھا ۔  ان تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی  کہ رعمیسس دوم کی عمر وفات کے وقت 80 سال سے زائد تھی ۔

مرنفتاح جو رعمیسس دوم کا تیرواں بیٹا تھا ۔ اس کے جسم کے اندر بھی اسی بیماری کی علامات پائی گی ہیں ۔ اس کے کولہے کی ہڈیوں ، ایک ران کی ہڈی کی شریان اور اس کی مزید شاخوں میں بھی اس بیماری کی علامتیں دیکھی جا سکتی  ہیں۔مصریوں کے کیے گئے بہترین ایکسروں سے ہمیں معلوم ہوا کہ رعمیسس دوم کی کھوپڑی میں دماغ موجود نہیں ہے ۔ حنوط کرنے والوں نے  ناک کے اندر سوراخ کر کے اس کو نکال دیا تھا ۔اور پھرکھوپڑی کے اس خالی حصے کو کسی جمنے والے مادے سے بھر دیا تھا ۔

ہیروغلافی میں لفظ فرعون اس طرح لکھا جاتا ہے

مصری احکام کو ممیوں کی بگڑتی  ہوئی صورتحال کے بارے میں مسلسل آگاہ کیا جاتا رہا ۔ڈاکٹر موریس بوکائیل نے  صدر سادات سے  ہونے والی  اپنی ملاقات میں بھی اس مسئلے کو اٹھایا  ۔ 23 جنوری 1976ء کو مصر کے مشہور اخبار " الاہرام" میں اس کے متعلق ایک مضمون بھی شائع ہوا ،جسے صدر سادات نے خصوصی اہمیت دی  اور جب فرانس کے صدر جسکارڈ ڈی ایسٹینگ ، مصر کے دورے پر تشریف لائے تو اُنہوں نے بھی اس سلسلے میں صدر سادات سے بات کی اور ممیوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی خدمات کی پیش کش کی ۔ جسے صدر سادات نے منظور کر لیا  اور رعمیسس دوم کی  ممی کی خصوصیت  اور حالت کے زیادہ بگڑنے کے پیش نظر اس کو  محفوظ کرنے اور مزید تحقیق کرنے کی غرض سے فرانس لے جانے کی اجازت دے دی  ۔تاکہ جس طریقے سے اس ممی کو محفوظ کیا جائے گا  اسی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے بقیہ ممیاں بھی محفوظ کی جاسکیں گی ۔

 

رعمیسس دوم کی ممی کی فرانس آمد

 

26 ستمبر 1976ء کو فرانس کے ائیر پورٹ " لی بورگٹ"پر فرعون رعمیسس دوم کی ممی پہنچی تھی ۔ اس کو مصر سے فرانس کے ایک خصوصی فوجی طیارے کے ذریعے لایا گیا تھا۔ جب یہ طیارہ ائیر پورٹ پر لینڈ ہوا ،  تو اس کو مکمل فوجی پروٹوکول دیا گیا کہ جیسے کسی زندہ صدر کے دورے پر دیا جاتا ہے ۔ ممی کا اسقبال کرنے کے لیے فرنس کے سیکرٹری آف سٹیٹ فار یونیورسٹیز مسٹر ایلس  ساونٹر سائٹ موجود تھے ۔اس کے علاوہ مصری سفارت خانہ کے ایک نمائندہ ، فرانس میں تعینات مصر کی مصری نوادرات کی سربراہ " کریسٹین ڈیسروچس نوبل کورٹ"ا ور فرانس کے علم الانسان عجائب گھر کے ڈائریکٹر " پروفیسر لیونل بالوٹ بھی موجود تھے۔(ممیز آف دی فرعونز۔ صفحہ 179)

فرانس لانے کے لیے اس کا پاسپورٹ بھی بنایا گیا تھا جس کی کوئی حقیقی تصویر موجو دنہیں ہے

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ممی کو فرانس لانے کے لیے اس کا پاسپورٹ بھی بنایا گیا تھا جس کی کوئی حقیقی تصویر موجو دنہیں ہے ۔ نیٹ پر جو تصویر عام طور پر پائی جاتی ہے وہ اصل نہیں ہے ۔

فرانس کے لوگوں کی مصری آثار قدیمہ میں بے حد دلچسپی کے باعث چند ماہ قبل رعمیسس دوم کی ممی کو اس لیے فرانس لانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا  تاکہ اس کو عجائب گھر میں بطور نمائش رکھا جائے  مگرا ب صرف اس مقصد کے لیے لایا گیا تھا کہ ممی کی بگڑتی ہوئی حالت کومزید خراب ہونے بچایا جائے  اور اس کے لیے فرانس میں موجود جدید ترین آلات و ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے ۔

یہاں پر یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ فرانس پہنچے والی ممی رعمیسس دوم کی تھی ناکہ منفتاح کی ۔ کیونکہ عام طور پر یوٹیوبرز جس انداز میں بات کرتے ہیں اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ

·       جس فرعون کے ڈوبنے  کا ذکر کیا جاتا ہے اس کی لاش فرانس  بھیجی گئی تھی  ،یہ بات غلط ہے، ڈوبنے والا فرعون مرنفتاح تھا  جبکہ فرانس  بھیجی جانے والی لاش ،رعمیسس دوم کی تھی ۔

·       ایک اور سوال جو  پیدا ہوتا ہے کہ اگر مرنفتاح پر ، خروج کے وقت کا فرعون ہونے کا شک تھا تو پھر اسے فرانس کیوں نہ بھیجا؟ تو  ڈاکٹر موریس  کے بقول ، مرنفتاح کی ممی کی حالت رعمیسس دوم کی حالت سے زیادہ خراب تھی  مگر مصر کے عجائب گھر کے ذمہ دارن نے یہ فیصلہ کیا کہ چونکہ مرنفتاح کی ممی پہلے ہی زیادہ خراب  ہو چکی ہے تو اس کی بجائے رعمیسس دوم کی ممی کو بھیجا جائے تاکہ وہ مزیدخراب ہونے سے بچ جائے ۔ (ممیز آف فرعونز صفحہ 167)

·        ڈاکٹر موریس   بوکائیل نے فرانس میں ہونے والی تحقیقات   یا آپریشن کے انچارج تھے۔ یہ بات بھی غلط ہے ، وہ صرف  اس ٹیم کا حصہ  تھے ۔ہاں مصرمیں ہونے والی تحقیقات کے وہ انچارج تھے۔

·       ممی کے جسم پر سمندری نمک کے ذرات پائے گئے ۔ چناچہ ثابت ہو گیا کہ یہ لاش اسی فرعون کی ہے ۔ یہ  بات بھی غلط ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے ایسی کوئی بات اپنی کتاب میں نہیں لکھی ۔

·       ان تحقیقات کی وجہ سے ڈاکٹر موریس متاثر ہوئے اور جب ان  کو بتایا گیا کہ قرآن میں تو ایسا کہا گیا ۔ جس پر ڈاکٹر صاحب بڑے حیران ہوئے ۔ یہ بات بھی غلط ہے ۔  کیونکہ ڈاکٹر صاحب اس ممی کے فرانس لانے سے قبل ہی ان تمام باتوں سے آگاہ تھے ۔  اور وہ 1974ء میں ، قاہر ہ عجائب گھر میں ان تمام ممیوں پر تحقیق کر چکے تھے ،جیسا کہ ویڈیو کے شروع میں بیان کیا گیا ہے ۔

·       ڈاکٹر موریس بوکائل کے اسلام قبول کرنے کے حوالے سے بھی کافی متضادمعلومات نیٹ پر پائی جاتی ہیں ۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ  ڈاکٹر صاحب نے  بھی اپنی کسی کتاب میں اپنے مسلمان ہونے یا نہ ہونے  کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس حوالے سے میں ایک مفصل وڈیو الگ سے بناؤں گا ۔ ان شاء اللہ

تو محترم قارئین کرام ۔ ان باتوں کامجھے ڈاکٹر صاحب کی کتابوں سے کوئی ثبوت نہیں ملا ۔ اگرکسی کے پاس ہے تو مجھے پیش کرے  تاکہ ہم حقیقت کو واضح طور پر جان سکیں ۔

رعمیسس دوم کی  ممی کو فرانس کے علم الانسان عجائب گھر کی لیبارٹری میں ایک مریض کی طرح داخل کر دیا گیا ۔ یہ پروجیکٹ "رعمیسس دوم آپریشن "8ماہ تک جاری رہا ۔یہ پروجیکٹ فرانس میں تعینات مصر کی مصری نوادرات کی سربراہ " کریسٹین ڈیسروچس نوبل کورٹ"ا ور فرانس کے علم الانسان عجائب گھر کے ڈائریکٹر " پروفیسر لیونل بالوٹ " کے زیر نگرانی کام کر رہا تھا ۔ جبکہ پروفیسر موریس بوکائیل اس ٹیم کا حصہ تھے ۔ علاوہ ازیں ابتداء میں  اس پروجیکٹ میں مصر کی کسی بھی یونیورسٹی کاکوئی ایک بھی پروفیسر شریک نہ تھا ۔

 فرانسیسی ماہرین نے ممی کا جدید مشینوں کی مدد سے معائنہ کیا۔ وہیں معلوم ہوا کہ ممی کو 89اقسام سے زائد پھپھوندیاں لگ چکی تھیں۔ڈکٹرو ں  کے  ایک بورڈ نے  اس کا معائنہ کیا ،ممی کو محفوظ کرنے کیلئے اقدامات تجویز کئے چنانچہ  فرانس کے جوہری توانائی کے کمیشن نے تین ہزار سال پرانی ممی کو گیما شعاعوں کے ذریعے محفوظ کرنے کے اقدامات کئے ،یہ اپنی نوعیت کا واحد تجربہ تھا ، اس لئے ماہرین کو کافی غور وخوض کے بعد اس کا ’’علاج ‘‘کرنا پڑا۔

ڈاکٹر موریس بوکائیل اپنی کتاب  میں لکھتے ہیں۔ کہ فرانس  میں ہونے والی تحقیقات  سے کوئی زیادہ پیش رفت سامنے نہیں آئی بلکہ ان تحقیقات سے تقریبا وہی نتائج ملے جو ہم مصرمیں ہونےوالی تحقیقات سے حاصل کر چکے تھے ۔فرانس میں ہونے والی تحقیق میں بھی وہی ڈاکٹر شامل تھے جو ڈیڑھ سال قبل مصر میں ہونے والی تحقیق میں میرے ساتھ شامل تھے۔(ممیز آف دی فرعونز۔ صفحہ 185)

ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں کہ 1974ء سے 1975ء تک ہونے والی تمام ریسرچ اور پھر جب رعمیسس دوم کی ممی 1976ء میں فرانس لائی گئی اور اس پر مزید تحقیق ہوئی ۔ تو ان سب تحقیقات کے نتائج کو اکھٹا کیا گیا اور اس دوران مصر میں کھدائی کے نتیجے میں ہونے والے مزید انکشافات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے ، ان کے نتائج کا انتظار کیا ، چناچہ مکمل اور حتمی رپورٹ تیار کرنے میں 10 سال کا عرصہ صرف ہوا ۔  اور بالآخر یہ حتمی رپورٹ نومبر 1987ء میں  اس کتاب کےفرانسیسی ایڈیشن میں شائع ہوئی ۔

 

طبی تحقیقات کے نتائج

 

 جس فرعون نے حضرت موسی علیہ السلام  اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا تھا اور اپنی فوج کی قیادت کی تھی اُسے اتنا صحت مند ہونا چاہیے کہ وہ ایسا کر سکتا ہو ۔ تاریخی تحقیقات سے ہم اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ کہ حضرت موسی علیہ السلام کو اپنے دور میں دو فرعونوں سے واستہ پڑا تھا ۔ یعنی پہلے رعمیسس دوم سے اور پھر مرنفتاح سے ۔

·       چناچہ موجودہ طبی تحقیقات سے ہمیں یہ معلومات ملی ہیں کہ رعمیسس دوم ایک بوڑھا شخص تھا جس کی عمر 80 سے 90 سال کے درمیان تھی ۔ جبکہ مرنفتاح نسبتا جوان شخص تھا ،جس کی عمر وفات کےوقت 60  سے 70 سال کے درمیان تھی ۔اس وجہ سے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ رعمیسس دوم میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام  کا تعاقب کرتا تو لامحالہ وہ فرعون مرنفتاح ہی تھا کہ جس نے خروج کے وقت ان کا تعاقب کیا تھا

·       اس کے علاوہ مرنفتاح کی کھوپڑی پر بڑا سا خلا یا رخنہ  کسی زبردست چوٹ کی وجہ سے ہی بن سکتا ہے  اور یہ چوٹ اس قدر زیادہ تھی کہ جس کی وجہ سے مرنفتاح کی موت یکدم واقعی ہو گئی ہو گی یا مرنے میں کچھ وقت ہی لگا ہوگا ۔

·        مرنفتاح کی چھاتی  پر موجود سوراخ بھی کسی حادثاتی موت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔کیونکہ اگر یہ مقبرے لوٹنے والوں نے اس پر کوئی ضرب لگائی ہوتی تو ممی شدہ پٹیوں پر بھی اس کے اثرا ت پائے جاتے ۔  علاوہ ازیں  ایکسروں کے جانچنے سے بھی یہ بات معلوم ہوئی  کہ اس کی چھاتی کی ہڈیوں پر تکلیف دہ چوٹ کے اثرات پائے جاتے ہیں اور یہ اس وقت ہوا ہو گا کہ جب یہ جسم زندہ تھا۔ (ممیز آف دی فرعونز۔ صفحہ 158)

·       مرنفتاح کے دائیں بازو کی لمبی ہڈی کندھے کے جوڑ سے ٹوٹی ہوئی ہے ۔ یہ بھی کسی حادثاتی چوٹ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب یہ جسم زندہ تھا ۔(ممیز آف دی فرعونز۔ صفحہ 158)

·       ڈاکٹر موریس بوکائل اپنی کتاب ”ممیز آف دی فرعونز۔ صفحہ 158“ میں لکھتے ہیں کہ جب ہم مصر میں مرنفتاح کی ممی کا معائنہ کر رہے تھے تو وہاں ہمارے ہمراہ کئی لوگوں نے ہمیں بتایا کہ یہ فرعون ڈوب کر مرا تھا ۔  جب ہم نے اس کامعائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ اگر یہ ڈوب  کر مرا تھا تو پھر یہ زیادہ عرصہ پانی میں نہیں رہا ہوگا ۔کیونکہ اگر یہ زیادہ عرصہ پانی میں رہا ہوتا تو اس کا جسم گل جانا تھا اور خراب جسم پر حنوطگی کا عمل کامیاب نہ رہتا ۔ چناچہ ہم نے فرعون کے جسم سے کچھ حصہ ٹیسٹ کرنے کے لیے بڑی خصوصی اجازت کے ساتھ لیا  اور اسے پروفسیر جیکوس مگنٹ اور مائیل دوریگون نے خوردبین کے ذریعے چیک کیا تو معلوم ہوا کہ جب اس کو حنوط کیا گیا تھا تو اس کا جسم ٹھیک تھا ۔یعنی یہ اگر ڈوب کر مرا تھا تو پھر اس کی لاش زیادہ  دیر تک پانی میں نہیں رہی تھی ۔

·       ڈاکٹر موریس بوکائیل اپنی کتاب " بائبل ،قرآن اور سائنس ،صفحہ 368) پر اپنی رپورٹ کے حوالے سے آخری بات یہ لکھتےہیں ۔ کہ جسم پر چوڑے چوڑے رخنوں کے ساتھ ہڈیوں پر متعدد زخموں  یا چوٹوں کانشان موجود ہیں ، جن میں سے بعض مہلک ثابت ہوئے ہوں گے ۔ حالانکہ ابھی تک اس بات کاپتہ چلانا ممکن نہیں ہے کہ ان میں سے بعض فرعون کی موت سے پہلے ہوئے یا بعد میں ۔ غالب گمان ہے کہ اس کی موت یا تو ڈوبنے سے ہوئی جیسا کہ  مذہبی کتابوں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے یا ڈوبنے سے قبل کی سخت چوٹوں سے یا بیک وقت دونوں سے ۔

چناچہ ان وجوہات کی بنا پر ڈاکٹر موریس بوکائیل  اس نتیجے پر پہنچے کہ   بنی اسرائیل کا تعاقب کرنے والا فرعون  مرنفتاح ہی ہو سکتا ہے ، کوئی اور نہیں ۔

 

ایک اہم مغالطے کی وضاحت

 

عام طور پر جو با ت فرعون کی شناخت کے حوالے سے بہت مشہور ہے وہ یہ ہے کہ اس کے جسم پر سمندری نمک پایا گیا ہے ، جو اس کے سمندر میں  ڈوبنے کا ثبوت ہے ۔ جبکہ ڈاکٹر موریس بوکائیل  نے اپنی کتابوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا  ہے  یعنی ان سے منسوب یہ بات غلط ہے ۔ بلکہ انہوں نے بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے  کہ مصری عام طور پر ممیوں کو محفوظ کرنے کے لیے نیٹرون نمک کا استعمال کرتے تھے ۔( یعنی نمک کا ملنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے)۔  یہ نمک بہت قیمتی ہوتا تھا جو وہ نیٹرون وادی سے خشک ہوجانے والی جھیلوں کے کناروں سے حاصل کرتے تھے ۔نیٹرون نمک سوڈیم کاربونیٹ ڈیکاہائیڈریٹ( یعنی دھوبی سوڈا) اور  سوڈیم بائی کاربونیٹ (جسے بیکنگ سوڈا  یا میٹھا سوڈا بھی کہا جاتا ہے) کا مرکب  ہوتاہے ۔ اس کے ساتھ سوڈیم کلورائڈاور سوڈیم سلفیٹ کی تھوڑی مقدار بھی شامل ہوتی ہے۔   ممی کے تمام اعضاء نکالنے کے بعد اس کو خشک کرنے کی غرض سے اس نمک کی تہہ کے اوپر اس کو تقریباً 40 د ن کےلیے رکھ کر چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ اس کے علاوہ اسی نمک کے تھیلے بنا کر پیٹ اور چھاتی کے اندر بھی رکھےجاتے تھے تاکہ وہ لاش کےجسم سے خون ،پانی اورچربی  کو جذب کرکے خشک کردیں ۔ اس عمل کی وجہ سے لاش کی اوپر والی جلد  کی تہہ بھی جل جاتی تھی جس کامشاہدہ ہمیں ان کے ایکسروں سے ہوا ہے ۔ (ممیز آف دی فرعونز ۔ ڈاکٹر موریس بوکائیل)

 

مصری عام طور پر ممیوں کو محفوظ کرنے کے لیے نیٹرون نمک کا استعمال کرتے تھے

ایک اہم سوال کاجواب

 اپنی بات کو ختم کرنے سے پہلے اس  سوال کا جواب دینا بھی نہایت ضروری ہے کہ قرآن حکیم کے نزول کے بارہ ساڑھے بارہ سو سال  بعد تک بھی فرعون ِمصر کی نعش منظر عام پر نہ آئی تھی۔  مگر کبھی کسی نے یہ کہہ کر اعتراض نہیں کیا تھا کہ قرآن تو کہہ رہا ہے کہ ہم فرعون کی لاش کو نشان عبرت کے لیے بچا کر رکھیں گے یا محفوظ رکھیں گے یا نزول آیت کے وقت صحابہ اکرام نے ہی اس طرح کا شک ظاہر کیا ہو ، جیسا کہ آج بعض لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال آتا ہے کہ پہلے مفسرین قرآن کس طرح لوگوں کو اس آیت کی تفسیر پر مطمئن کرتے تھے ۔تو اس بات کا جواب مولانا عبدالسلام بھٹوی نے بڑا خوبصورت دیاہے  جو ہر سچائی پسند شخص بغیر  کسی ہچکچاہٹ کے قبول کر ے گا  اور اعتراض نہ کرنے کی وجہ بھی معلوم  کر لے گا ۔

مولانا عبدالسلام بھٹوی اپنی تفسیر القرآن کریم میں لکھتے ہیں  کہ

عام طور پر مشہور ہے کہ فرعون کی لاش مصر کے عجائب گھر میں اب تک محفوظ ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں (یہ ان کے خیال کے مطابق ہے )کہ یہ اسی فرعون کی لاش ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس کی لاش محفوظ نہ بھی رہے تو تاریخ اور قرآن میں اس واقعہ کا ذکر ہی بعد والوں کے لیے بطور عبرت اور نشانی کافی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب سبت کو بندر بنانے کے متعلق فرمایاـ :

﴿ فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ

’’تو ہم نے اسے (یعنی اس واقعہ کو) ان لوگوں کے لیے جو اس کے سامنے تھے اور جو اس کے پیچھے تھے ایک عبرت اور ڈرنے والوں کے لیے ایک نصیحت بنا دیا۔‘‘ (البقرہ، 66)

حالانکہ ان میں سے کسی مسخ شدہ بندر کی کوئی ممی کہیں موجود نہیں۔ اسی طرح اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ قوم عاد،قوم ثمود،قوم لوط اور قوم شعیب نمونۂ عبرت ہیں جبکہ ان کی لاشوں اور ان کے بدنوں کا تابوتوں میں یا ویسے ہی محفوظ ہونے کا کوئی قائل نہیں۔الغرض! یہ اس فرعون کی لاش نہ ہو تب بھی بعد والوں کے لیے اس واقعہ کے نشان عظیم ہونے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

حاصل کلا م

محترم ناظرین کرام ۔ اس بات میں مؤرخین کے درمیا ن ابھی تک اختلاف موجود ہے کہ خروج کے وقت کا  فرعون رعمیسس دوم تھا یا مرنفتاح؟ لیکن اس امر میں تو شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ ’’ویلی آف کنگز‘‘ یعنی شاہوں کی وادی  سے برآمد ہونے والی ایک ممی اسی فرعون کی ہے جس نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے ٹکر لی تھی۔ لامحالہ اس سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ساری تاریخ عالم کے فیصلے کے خلاف صرف قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہی درست ثابت ہوا۔

”یعنی آج کے دن ہم تجھے تیرے بدن کے ساتھ نجات بخشیں گے“

قرآن کریم کا یہ وہ فیصلہ ہے جس پر تاریخ عالم نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ آج ان دونوں فرعونوں کی لاشیں ہمارے سامنے بطور نشان عبرت موجود ہیں کہ جو اپنے دور میں اپنے آپ کو " خدا " کہلواتے تھے ۔

Books Links:

  • Bible Quran aor Sceince in Urdu
 https://tinyurl.com/5xxk4jxh
  • Bible Quran And Science in English (Maurice Bucaille)
 https://tinyurl.com/42b7jp77
  •  Mummies of the Pharaohs in Englis (Maurice Bucaille)
https://tinyurl.com/k6e4spye
  •  The Royal Mummies by Elite Smith in English
https://tinyurl.com/586nf5nx


Video on YouTube




Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی