50 سال قبل بھیجے گئے دو خلائی جہازوں نے نظام شمسی سے باہر نکل کر کیا دیکھا ؟

 

 50 سال قبل بھیجے گئے دو خلائی جہازوں نے نظام شمسی سے باہر نکل کر کیا دیکھا ؟

 

ستاروں کے درمیان کی پراسرار تاریک جگہ کو بالآخر دو بے خوف خلائی جہازوں نے دکھانا شروع کر دیا ہے جو کہ نظامِ شمسی سے باہر جانے والی انسانوں کے بنائے ہوئے پہلے خلائی جہاز بن گئے ہیں۔سورج کے محفوظ احاطے سے بہت دور، ہمارے نظامِ شمسی کا سرا بظاہر ایک ٹھنڈی اور تاریک جگہ سمجھی جاتی تھی اور ہمارے اور ہمارے قریب ترین ستارے کے درمیان کی انتہائی وسیع جگہ کے متعلق کافی عرصے سے یہ سوچا جاتا رہا ہے کہ وہ عدم وجود کا ایک ڈرا دینا والا لا متناہی سلسلہ ہے۔کچھ عرصے تک بنی آدم صرف اس کا نظارہ دور سے ہی کر سکتا تھا۔ ماہرین فلکیات نے اس کے متعلق تو زیادہ دھیان ہی نہیں دیا تھا، بلکہ اس کے مقابلے میں وہ اپنی دور بینیں ہمسایہ ستاروں، کہکشاؤں اور نیبولا یا ستاروں کے جھرمٹ کے چمکتے ہوئے مادے کی طرف رکھتے تھے۔

لیکن 1970 میں بنائِے اور لانچ کیے گئے دو خلائی جہاز گذشتہ دو برسوں سے اس عجیب جگہ سے جسے ہم انٹرسٹیلر سپیس یا ستاروں کے درمیان واقع خلا کہتے ہیں، ہمیں اس دنیا کے پہلی جھلکیاں دکھلا رہے ہیں۔ نظامِ شمسی سے آگے جانے والے پہلے انسانی ہاتھ سے بنائے ہوئے آلات کے طور پر وہ ایسے علاقے میں داخل ہو رہے ہیں جس کےمتعلق کسی کو کچھ بھی پتا نہیں ہے، اور جو گھر سے اربوں میل دور ہے۔ کسی اور جہاز نے کبھی اتنا لمبا سفر نہیں کیا ہے۔ اور انھوں نے جو راز افشا کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے نظامِ شمسی سے آگے ایک ایسا نہ نظر آنے والا علاقہ ہے جہاں افراتفری اور اڑتی ہوئی جھاگ کی طرح کی سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں۔

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی یونیورسٹی آف کینٹربری کے ماہر فلکیات مشیل بینسٹر کہتی ہیں کہ ’جب آپ الیکٹرومیگنیٹک سپیکٹرم کے مختلف حصے دیکھتے ہیں، تو وہاں خلا کی جگہ اس تاریکی سے بہت مختلف ہے جس کا ادراک ہم اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔مشیل نظامِ شمسی کے بیرونی پھیلاؤ کا مطالعہ کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مقناطیسی فیلڈز ایک دوسرے سے لڑتی ہیں، دھکیلتی ہیں اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ آپ اس کے متعلق یہ تصور بنا سکتے ہیں جیسے نیاگرا فالز کے نیچے تیراکی کا تلاب۔

 


تاہم ادھر ادھر ہلتے ہوئے پانی کے بجائے یہاں ہلچل شمسی ہواؤں کا نتیجہ ہے، جو کہ ایک چارجڈ ذرات کی طاقتور بوچھاڑ یا پلازمہ کا متواتر چھڑکاؤ ہے جو سورج کی ہر سمت کی طرف اس وقت نکلتا ہے جب یہ پلازمہ گیسوں کی کاکٹیل، خلائی مٹی اور کائناتی شعاؤں سے ٹکراتا ہے، جو ستاروں کے نظاموں کے درمیان اڑتی رہتی ہیں اور اسے انٹرسٹیلر میڈیم کہا جاتا ہے۔

ریڈیو اور ایکسرے ٹیلیسکوپس کی مدد سے سائنسدان گذشتہ ایک صدی سے یہ تصویر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انٹرسٹیلر میڈیم کس چیز سے بنا ہے۔ انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ یہ بہت ہی زیادہ منتشر آئیونائزڈ ہائیڈروجن ایٹمز، مٹی اور کائناتی شعاعوں سے مل کر بنا ہے جو گیس کے گہرے مالیکیولر بادلوں کے درمیان ہیں اور خیال ہے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں نئے ستارے جنم لیتے ہیں۔

لیکن ہمارے نظام شمسی سے ذرا باہر اس کی اصل حالت کیسی ہے یہ ابھی تک ایک راز ہے، کیونکہ سورج، سبھی آٹھوں سیارے اور کائپور بیلٹ کے نام سے مقبول دور دراز ستاروں کے ملبے کی ڈسک، سبھی ایک بہت بڑے بلبلے کے اندر ہیں جو شمسی ہواؤں کی وجہ سے بنا ہے، جسے ہیلیو سفیئر کہتے ہیں۔ جب سورج اور اس کے گردو و نواح کے سیارے کہکشاں سے گزرتے ہیں، تو یہ بلبلہ انٹرسٹیلر میڈیم سے ایک نہ نظر آنے والی شیلڈ کی طرح مسلسل ٹکراتا ہے، جس کی وجہ سے مضر کائناتی کرنوں کی ایک بڑی تعداد اور دیگر مادہ باہر ہی رہتا ہے۔لیکن اس کی زندگی بچانے والی خصوصیات بھی اس کے متعلق جاننے میں مشکلات پیدا کرتی ہیں کہ بلبلے سے پرے کیا ہے۔ حتیٰ کہ اندر سے یہ جاننا بھی بہت مشکل ہے کہ اس کا حجم اور شکل کیسی ہے۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اپلائیڈ فزکس لیبارٹری کی محقق ایلینا پروورنیکوا کہتی ہیں کہ ’یہ اس طرح ہے کہ آپ اپنے گھر کے اندر ہیں اور آپ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ باہر سے کیسا لگتا ہے۔ آپ کو باہر جانا چاہیے اور واقعی طور پر بتانے کے لیے دیکھنا چاہیے۔

سمجھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سورج سے بہت دور سفر کیا جائے، پیچھے دیکھا جائے اور بیرونی ہیلیوسفیئر سے تصویر لی جائے۔

یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر اس کا موازنہ ملکی وے یا ستاروں کی طویل کہکشاؤں کے ساتھ کیا جائے تو ہمارا نظامِ شمسی بحر الکاہل میں ایک چاول کے دانے سے بھی چھوٹا لگتا ہے۔ لیکن پھر بھی ہیلیو سفیئر کا بیرونی کنارا اتنا دور ہے کہ وائجر 1 اور وائجر 2 خلائی جہازوں کو زمین سے وہاں تک پہنچتے ہوئے 40 سال لگے۔

وائجر 1 جس نے نظامِ شمسی کے درمیان سے زیادہ براہ راست راستہ اختیار کیا تھا، 2012 میں انٹرسٹیلر سپیس میں داخل ہو گیا تھا جبکہ وائجر 2 نے ایسا 2018 میں کیا۔ دونوں اس وقت زمین سے بالاترتیب تقریباً 13 ارب اور 11 ارب میل دور ہیں، اور دونوں ہمارے نظامِ شمسی سے پرے خلا میں ریگِ رواں ہیں، اور اس دوران وہ زیادہ ڈیٹا بھیجتے جا رہے ہیں۔ کار کے حجم کے وائجر خلائی جہاز کو 1977 میں لانچ کیا گیا تھا اور یہ اب انٹرسٹیلر سپیس سے ڈیٹا بھیج رہا ہے

 

ان دونوں بوڑھے ہوتے ہوئے خلائی جہازوں نے ہمیں ہیلیو سفیئر اور انٹر سٹیلر میڈیم کے درمیان کی سرحد کے متعلق بہت کچھ بتایا ہے اس سے ہمیں تازہ سراغ ملتے ہیں کہ ہمارا نظامِ شمسی کس طرح وجود میں آیا تھا اور زندگی زمین پر کیسے ممکن ہو پائی تھی۔ ایک دور کی سرحد سے بہت پرے، نظامِ شمسی کا کنارا دراصل طوفانی مقناطیسی فیلڈز، کوکبی ہواؤں کے طوفانوں کا ٹکراؤ، انتہائی طاقت والے مادے کی طوفان اور ہر طرف سے آتی ہوئی گھومتی تابکاری پیدا کرتا ہے۔

جیسے ہی سورج کی آؤٹ پٹ یا پیداوار میں تبدیلی آتی ہے، یا ہم انٹرسٹیلر میڈیم کے مختلف علاقوں سے گذرتے ہیں تو ہیلیو سفیئر کے بلبلے کا حجم اور شکل بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔ جب شمسی ہوائیں تیز یا کم ہوتی ہیں، تو وہ بلبلے کے خارجی دباؤ کو بھی بدل دیتی ہیں۔

2014 میں سورج میں سرگرمی بڑھ گئی تھی، جس سے اس نے خلا میں شمسی ہواؤں کا ایک طوفان سا بھیجنا شروع کیا تھا۔ اس طوفان نے فوراً مرکری (عطادر) اور وینس (زہرہ) کو شعاؤں سے نہلا دیا تھا جو کہ 800 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چل رہی تھیں۔دو دن اور 150 ملین کلومیٹر طے کرنے کے بعد اس نے زمین کو بھی اپنے گھیرے میں لیا۔ خوش قسمتی سے ہمارے سیارے کی مقناطیسی فیلڈ نے ہمیں اس طاقتور اور خطرناک تابکاری سے محفوظ رکھا۔

یہ طوفان ایک دن کے بعد مریخ سے گزرا اور اسٹرؤیڈ بیلٹ سے ہوتا ہوا دور افتادہ گیسوں کے پہاڑ نما سیاروں مشتری، زحل اور یورینس سے گزرا اور دو ماہ سے زیادہ عرصے کے بعد نیپچون پہنچا جو کہ سورج سے تقریباً 4.5 کلو میٹر دور ہو کر بھی اس کے مدار میں چکر لگاتا ہے۔

چھ ماہ کے بعد یہ ہوائیں بالآخر سورج سے 13 ارب کلو میٹر دور پہنچیں۔ اس جگہ کو ’ٹرمینیشن شاک‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں سورج کی مقناطیسی فیلڈ، جو کہ شمسی ہوا کو دھکیلتی ہیں، اتنی دھیمی پڑ جاتی ہے کہ انٹرسٹیلر میڈیم اسے اس کو مخالف سمت میں دھکیل سکتا ہے۔

ٹرمینیشن شاک سے شمسی ہوا کی آندھی کم از کم اپنی پہلے سے آدھی رفتار سے نکلتی جیسے تیز سمندری طوفان کم ہو کر ٹراپیکل طوفان میں بدل جاتا ہے۔ پھر 2015 میں یہ وائجر 2 کے بے قاعدہ جسم سے ہو کر گزرا، جو کہ ایک کار جتنا ہے۔ وائجر کی 40 سالہ پرانی حساس ٹیکنالوجی نے اس کی کھوج لگائی۔ یہ سینسر ابھی تک تو آہستہ آہستہ تباہ ہوتی ہوئی پلوٹینیئم بیٹری کی مدد سے چل رہے ہیں۔

جہاز نے یہ ڈیٹا زمین کی طرف بھیجا، جو کہ اگرچہ روشنی کی رفتار سے آیا لیکن پھر بھی اسے یہاں پہنچتے پہنچتے 18 گھنٹے لگے۔ ماہرینِ فلکیات کو وائجر کی بھیجی ہوئی معلومات صرف بڑے پیمانے پر لگی 70 میٹر کی سٹیٹلائٹ ڈشز اور جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملیں۔ جب وائجر 1977 کو زمین چھوڑ رہا تھا تو اس وقت اس ٹیکنالوجی کا ایجاد کیا جانا تو دور کی بات اس کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔

شمسی ہوا کا پھیلاؤ وائجر 2 سے اس وقت ٹکرایا جب وہ ابھی نظامِ شمسی کے اندر ہی تھا۔ تقریباً ایک سال سے کچھ زیادہ عرصے کے بعد، اس مرتی ہوئی ہوا کے آخری جھونکے وائجر 1 تک پہنچے، جو کہ 2012 میں انٹرسٹیلر سپیس میں داخل ہو چکا تھا۔

دونوں خلائی جہازوں نے مختلف روٹ اختیار کیے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ایک جہاز شمسی سطح سے 30 ڈگری اوپر ہے جبکہ دوسرا اتنا ہی نیچے۔ شمسی ہوا کا جھونکا ان تک مختلف علاقوں اور مختلف اوقات میں پہنچا، جس کی وجہ سے ہیلیوپاز کی فطرت کے متعلق نہایت مفید سراغ ملے۔ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہنگامہ خیز باؤنڈری لاکھوں کلومیٹر چوڑی ہے اور یہ ہیلیو سفیئر کے سطح کے گرد اربوں مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔

ہیلیو سفیئر بھی غیر متوقع طور پر بڑا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کہکشاں کے اس حصے میں انٹر سٹیلر میڈیم اس سے کافی کم گہرا یا ٹھوس ہے جتنا کہ خیال کیا جاتا ہے۔ سورج اس انٹرسٹیلر سپیس سے اس طرح گذرتا ہے جس طرح کشتی پانی کے اندر سے، اس سے ایک ’کمان جیسی لہر‘ پیدا ہوتی ہے اور اپنے پیچھے ایک تغیر چھوڑ جاتی ہے، جو کہ ممکن دمدار سیاروں کی طرح کی ایک دم (یا زیادہ دموں) جیسی ہو۔ دونوں وائجر ہیلیو سفیئر کی ’ناک‘ سے نکلے، اس لیے انھوں نے دم کے متعلق کوئی معلومات نہیں بھیجیں۔

پروورنیکوا کہتی ہیں کہ ’وائجرز کے اندازوں کے مطابق ہیلیو پاز تقریباً ایک آسٹرونومیکل یونٹ موٹا ہے (جو کہ اوسطاً زمین سے سورج کا فاصلہ ہے)۔ یہ حقیقت میں کوئی سطح نہیں ہے۔ یہ ایک بہت گھمبیر عوامل والا علاقہ ہے۔ اور ہمیں نہیں معلوم کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔

نہ صرف اس باؤنڈری والے علاقے میں شمسی اور انٹرسٹیلر ہوائیں ہنگامہ خیز رسی کشی کا سماں پیدا کرتی ہیں، لیکن ذرات چارجز اور رفتار بھی بدلتے نظر آتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انٹرسٹیلر میڈیم کا ایک حصہ شمی ہوا میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور حقیقت میں بلبلے کے باہر کی طرف دھکا دینے کے عمل میں اضافہ کرتا ہے۔

اور اگرچہ شمی ہوا نہایت دلچسپ ڈیٹا مہیا کر سکتی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر اس کا بلبلے کے مجموعی سائز اور شکل پر بہت کم ہی اثر ہوتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ہیلیو سفیئر کے باہر ہونے والے عوامل کا اس کے اندر ہونے والے عوامل پر بہت زیادہ فرق پڑتا ہے۔ شمسی ہوا وقت کے ساتھ ساتھ کم یا زیادہ ہوتی ہے اور بظاہر اس کا بلبلے پر کوئی ڈرامائی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن اگر یہ بلبلہ کہکشاں کہ اس علاقے میں چلا جائے جہاں گہری یا کم گہری انٹرسٹیلر ہوا ہے، تو یہ سکڑتا اور پھیلتا ہے۔ لیکن ابھی بھی بہت سے سوالات کے جواب نہیں ہیں۔


پروورنیکوا کہتی ہیں کہ اپنے ہیلیو سفیئر کے متعلق زیادہ جاننے سے ہمیں یہ زیادہ پتہ چلے گا کہ کیا ہم اس کائنات میں واقعی اکیلے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جس چیز کا ہم اپنے نظام میں مطالعہ کرتے ہیں وہ ہمیں دوسرے سٹیلر سسٹم میں زندگی کی نشونما کے حالات کے متعلق بتاتی ہے۔

یہ زیادہ تر اس لیے ہوتا ہے کیونکہ انٹرسٹیلر میڈیم کو دور رکھ کے، شمسی ہوا زندگی کے لیے مضر تابکاری اور دور خلا سے آنے والے مضر زیادہ توانائی والے ذرات مثلاً کائناتی کرنوں، کو بھی دور رکھتی ہے۔ کائناتی کرنیں پروٹونز اور آٹومک نیوکلیائی (جوہری مرکز) ہیں جو خلا سے روشنی کی رفتار سے گزر رہے ہیں۔ وہ اس وقت پیدا ہو سکتے ہیں جب ستارے پھٹتے ہیں، جب کہکشائیں بلیک ہولز میں ضم ہو جاتی ہیں، اور دوسرے تباہ کن واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔

پرنسٹن یونیورسٹی میں ہیلیو فزکس پر تحقیق کرنے والے جیمی رینکن کہتی ہیں کہ وائجر نے حتمی طور پر بتایا ہے کہ سورج سے آنے والی 90 فیصد تابکاری فلٹر ہو جاتی ہے۔ رینکن پہلی فرد ہیں جنھوں نے وائجر کے انٹرسٹیلر ڈیٹا پر پی ایچ ڈی تھیسز لکھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہمیں شمسی ہوا تحفظ مہیا نہ کرتی تو مجھے نہیں پتہ کہ ہم زندہ بھی ہوتے۔

ناسا کے تین مشن جلد ہی انٹرسٹیلر سپیس میں وائجر جہازوں سے جا ملیں گے، تاہم دو کی پہلے ہی بیٹریاں بند ہو گئی ہیں اور انھوں نے ڈیٹا بھیجنا بند کر دیا ہے۔ اس دیو ہیکل جگہ کے متعلق یہ چھوٹی سے سوئیاں اپنے طور پر کتنا ڈیٹا بھیج سکتی ہیں، یہ ہم سب کو پتہ ہے۔ اس لیے زیادہ مہنگی تحقیق ’گھر‘ کے نزدیک کرنے کی ضرورت ہے۔

ناسا کی آئبیکس (انٹرنیشنل باؤنڈری ایکسپلورر) سیٹیلائٹ نے، جو سنہ 2008 سے زمین کے گرد چکر لگا رہی ہے، ایسے ذرات دریافت کیے ہیں جنھیں ’اینرجیٹک نیوٹرل آٹمز‘ کہتے ہیں اور وہ انٹرسٹیلر باؤنڈری سے گذرتے ہیں۔ آئبیکس ہیلیوسفیئر کے کنارے پر ہونے والے ان عوامل کے تھری ڈائمینشنل نقشے تیار کرتی ہے۔


 رینکن کہتی ہیں کہ ’آپ آئبیکس کو ایک ’ڈوپلر ریڈار‘ اور وائجرز کو زمین پر قائم موسم کا حال بتانے والے سٹیشنز سمجھ سکتے ہیں۔‘ انھوں نے وائجرز، آئبیکس اور دوسرے ذرائع سے ڈیٹا لے کر شمسی ہواؤں میں تھوڑے اضافوں کا تجزیہ کیا، اس وقت وہ 2014 میں ہونے والے بہت بڑے دھماکے پر ایک مضمون لکھ رہی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب وائجر 1 ہیلیو سفیئر سے گذر رہا تھا تو وہ سکڑ رہا تھا لیکن جب وائجر 2 وہاں سے گذرا تو وہ پھیل رہا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کافی ڈرامائی باؤنڈری ہے۔ یہ بڑی زبردست بات ہے کہ اس دریافت کی آئبیکس کے 3 ڈی نقشوں میں تصویر بنائی گئی ہے جس سے ہمیں موقع ملا ہے کہ وائجرز سے اسی دوران کا مقامی ردِ عمل دیکھ سکیں۔

آئبیکس نے انکشاف کیا ہے کہ یہ باؤنڈری کتنی متحرک ہو سکتی ہے۔ اپنے پہلے سال میں اس نے توانائی سے بھرپور ایٹموں کا ایک بڑا ربن دیکھا جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ربن والا والا علاقہ ہیلیو سفیئر کی ناک تھی جہاں شمسی ذرات کائناتی مقناطیسی فیلڈ سے ٹکرا کر اچھلتے ہیں اور واپس نظام شمسی میں چلے جاتے ہیں۔


لیکن وائجرز کی کہانی میں ایک موڑ بھی ہے۔ اگرچہ وہ ہیلیو سفیئر چھوڑ چکے ہیں، وہ ابھی بھی ہمارے سورج کے بہت سے اثرات کی زد میں ہیں۔ مثال کے طور پر سورج کی روشنی کو، دوسرے سیاروں سے بھی انسانی آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ اور ہمارے ستارے کی کشش ہیلیو سفیئر سے بھی پرے تک جاتی ہے اور اس نے اربوں کھربوں میل دور برف، مٹی اور خلائی ٹکڑوں کے علاقے کو یکجا رکھا ہوا ہے، جسے اوورٹ کلاؤڈ کہتے ہیں۔

اوورٹ کے مادے سورج کے گرد گھومتے ہیں، حالانکہ وہ دور دراز کی انٹرسٹیلر سپیس میں تیر رہے ہیں۔ اگرچہ کچھ دم دار سیاروں کے مدار اوورٹ کلاؤڈ تک پہنچتے ہیں، جو کہ 300-1,500 ارب کلو میٹر کا علاقہ ہے، لیکن پھر بھی ہمارے لیے یہ کوئی بھی مشن بھیجنے کے لیے بہت بہت زیادہ دور ہے۔

جب سے نظامِ شمسی بنا ہے ان دور دراز کی چیزوں میں شاید ہی کوئی تبدیلی آئی ہو۔ سو اس لیے ہو سکتا ہے ان میں وہ راز اب تک پوشیدہ ہوں کہ سیارے کس طرح وجود میں آئے، اور کس طرح ہماری کائنات میں زندگی کا ظہور ہوا۔ اور نئے ڈیٹا کی ہر لہر کے ساتھ، نئے راز اور نئے سوالات بھی جنم لے رے ہیں۔


پروورنیکوا کہتی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ہائیڈروجن کی چادر نے کچھ یا سارے ہی ہیلیو سفیئر کو ڈھانپ رکھا ہو، جس کے اثرات ابھی بھی ڈی کوڈ ہونا باقی ہیں۔ اس کے علاوہ ہیلیو سفیئر کا جھکاؤ انٹرسٹیلر کلاؤڈ کی طرف لگتا ہے جو کسی قدیمی واقعے کے بعد پیدا ہونے والے ذرات اور مٹی کا مجموعہ ہے اور جس کے اس کی باؤنڈری یا اس کے اندر رہنے والے جانداروں پر، اثرات کے متعلق ابھی تک پیشن گوئی نہیں کی گئی۔

پروورنیکوا کہتی ہیں کہ ’یہ ہیلیو سفیئر کا طول و عرض بدل سکتا ہے، یہ اس کی شکل بدل سکتا ہے۔ اس میں مختلف درجہ حرارت ہو سکتی ہے، مختلف مقناطیسی فیلڈ ہو سکتی، مختلف آئیونائزیشن اور اس طرح کے کئی مختلف پیرا میٹرز یا عوامل ہو سکتے ہیں۔ یہ بہت دلچسپ ہے کیونک یہ بہت زیادہ دریافتوں کا علاقہ ہے، اور ہم اپنے ستارے اور مقامی کہکشاں کے درمیان اس تعلق کے متعلق بہت کم جانتے ہیں۔

جو بھی ہو، کار کے حجم جتنی بڑی دو چیزوں نے جو دھات کی ڈشوں سے جڑی ہوئی ہیں، ہمارے نظام شمسی کی طرف ہمارا پہلا محافظ دستہ ہو گا، جس نے نہ صرف اس عجیب اور نامعلوم علاقے کے متعلق ہمیں نت نئی معلومات فراہم کیں بلکہ دور کی دنیاؤں کا راستہ بھی دکھایا۔

بشکریہ بی بی سی اردو ویب سائٹ

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی