عذاب ِیوم کے دن کی طوالت پچاس ہزار سال ۔ جدید سائنس کی روشنی میں

 عذاب ِیوم کے دن کی طوالت پچاس ہزار سال ۔ جدید سائنس کی روشنی میں


ستاروں کے چال چلن سے لوگ مستقبل کا حال بتاتے ہیں ۔ طرح طرح کے دل دہلانے والے انکشافات کرتے ہیں ۔ شاعر لوگ چاند ستاروں پر نظر رکھتے ہیں بلکہ اوروں سے کچھ زیادہ ہی ۔ جب ہی تو شاعر نے یوں کہا ،
"ہیں کواکب کچھ ، نظر آتے ہیں کچھ"
وینس (Venus)  ہی کو لے لیجئے ۔ یہ بڑا عجیب سیارہ ہے ۔اپنے محور کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس کی رفتااس قدر سست ہوتی ہے کہ  اس کا ایک دن زمین کے 243 دن کے برابر ہوتا ہے ۔ (دن کیا ہوا گویا سال ہو گیا)مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ سورج کے گرد یہ ایک چکر 117 دن میں لگاتا ہے ۔یوں کہئے کہ وینس کا ایک دن وینس کے ایک سال سے تقریباً دوگنا ہے ۔ کم وبیش ،طویل و قلیل اور چھوٹے بڑے کے جہاں یہ معیار ہوں بھلا اب دن کس کو کہیں گے۔
اسی طرح اگر کوئی جرم فلکی یعنی سیارہ اپنے پیارے اور چہیتے سورج کے گرد ایک چکر 50 ہزار دن (ہمارے حساب سے )میں مکمل کرتا ہے توا س کا سال پچاس ہزار دن کا ہوگا۔جبکہ یہی سیارہ اگر اتنا سست رفتا ر ہے کہ اپنے ہی گرد چیونٹی کی چال چلتا ہوا ایک چکر ایک لاکھ دن (ہمارے حساب سے ) میں مکمل کرتا ہے تو ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ سیارے کا دن (ہمارے حساب سے)ایک لاکھ دن کے برابر ہے ۔یادرہے کہ جب  کوئی سیارہ اپنے محور کے گرد (جس طرح چکی کا پاٹ اپنے محور کے گرد گھومتا ہے )گھومتے ہوئے ایک چکر مکمل کرتا ہے تووہ اس کا دن کہلاتا ہے  اور جب یہی سیارہ سورج کےگر د گھومتے ہوئے ایک چکر مکمل کرتا ہے تو وہ اس سیارے کا سال کہلاتا ہے ۔ اورسیارہ یہ دونوں حرکتیں ہمہ وقت جاری رکھتا ہے ۔
کائنات کا نظام جتنا منظم ہے اتنا ہی دشوار بھی ۔ اربوں کھربوں نوری سال دور پھیلی ہوئی کہکشاں میں موجود اجرام فلکی مختلف رفتاروں  سے اپنے گرد ،کسی سورج کےگرداور کہکشاں کے مرکز کے گرد محوسفر ہیں ۔خود ہماری زمین کی تین عدد حرکتیں معلوم ہوئی ہیں ۔ اپنے گرد یہ 1674 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتا ر سے حرکت کررہی ہے جبکہ سورج کے گرد گھومتے ہوئے اس کی رفتار 1 لاکھ 7 ہزار 2سو  کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے ۔جبکہ سورج کے ہمراہ ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے اس کی رفتار 7 لاکھ 92 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہوجاتی ہے ۔چناچہ دنوں کی طوالت اورماہ وسال اتنا پیچیدہ ہے کہ ابھی انسان کی اس پر پوری طر ح دسترس نہیں ہے ۔ نے محض اتنا کہا تھا کہ زمین ساکن نہیں بلکہ سورج کے گردگھوم رہی ہے تو اسے سزائے موت سنا دی گئی تھی ۔پھرسائنسدانوں نے بالآخر یہ بھی ثابت کیا کہ سورج ساکن نہیں ہے ۔ اب سورج کی کئی طرح کی حرکت پر غور وخوض اور تحقیق ہو رہی ہے ۔
کائنات میں اجرام فلکی بنتے اور فنا ہوتے رہتے ہیں ۔ مختلف کہکشائیں اور ثریائیں مختلف رفتار سے پھیل رہی ہیں ۔بھلا لاکھوں کلومیٹرفی گھنٹہ کی رفتارسے بھاگتی ہوئی کہکشاں کے بارے میں ،اس کے دن اور ماہ وسال کے بارے میں ہم کیا بتا سکتے ہیں ۔ انسان ابھی بہت پیچھے ہے ۔ اس رفتار سے قدم ملانے میں جانے کتنا وقت لگے گا ۔ جس پر یہ کائنات اور اس کا سرحدی علاقہ دوڑتا جا رہا ہے اور پھیلتا ہی جارہا ہے ۔
دن اور رات کی طوالت کا اندازہ یوں بھی مشکل ہے کہ بھلا ہم اس بات کو کیا کہیں گے کہ کائنات کو  بنے ہوئے تقریباً 15 ارب سال ہو گئے ،جبکہ ہمارا سورج محض پانچ ،چھ ارب سال پرانا ہے ۔ بھلا اس سورج کی پیدائش سے پہلے کائنات کے کسی اور کونے میں دن کتنا بڑا ہوگا، ذرا اس کا تصور تو کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
" اور تمہارے رب کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے۔تم لوگوں کے شمار کے مطابق"۔ (سورۃ الحج 47)
"اور بے شک تمہارے رب کے یہاں ایک دن ایسا ہے جیسا تم لوگوں کی گنتی میں ہزار برس ۔ کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمانوں سے زمین تک ، پھر اس کی طرف رجوع کرے گا اُس دن جس کی مقدار ہزار سال ہے تمہاری گنتی میں "۔ (سورۃ السجدہ، 5)
جبکہ سورۃ المعارج میں ارشاد ہوتا ہے :
"ملائکہ اور رُوح (جبرائیل) اس کی بارگاہ کی طرف عروج کرتے ہیں وہ عذاب اس دن ہو گا جس کی مقدار 50 ہزار برس ہے "۔ (المعارج، 4)
ماہرین فلکیات کہتے ہیں کہ ہمارا سورج اپنے اہل وعیال کے ساتھ (زمین اور دوسرے سیارے اور سیٹلائٹ کے ہمراہ) اپنی ہی کہکشاں کے محور کے گرد ایک چکرتقریباً 22 سے 25 کروڑ سال میں لگاتا ہے ۔یعنی ہمارے حساب سے سورج  کا ایک سال زمین کے 22 سے 25 کروڑ سال کے برابر ہے ۔
واقعہ معراج کے متعلق علماء میں عجیب و غریب اختلافات پائے جاتے ہیں ۔ ہم معجزات کو اس لئے رد کردیتے ہیں کہ وہ ہمارے دائرہ ادراک سے باہر ہوتے ہیں ۔عدم سے کائنات کا بننا کیا ہے ۔ آسمانوں اور زمین کا چھ ادوار میں بننا سنورنا کیا ہے ۔ پیدائش ِ حضرت آدم ؑ کیا ہے ۔ حضرت حوا کی پیدائش کو ہم کیا کہیں گے ۔ حضرت مریم ؑ کے بطن سے حضرت عیسٰی ؑ کی پیدائش کیا کہلائے گی ۔ سائنسداں تو اسی با ت پر پریشان ہیں کہ اربوں سال پہلے کرہ ارض پر آغاز حیات کیسے ہوا ۔ روشنی کی شعاعوں کو برق رفتاری ( ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ) کس نے عطا کی اور یہ سب کیا ہے ۔ یہاں میں تو صرف چند باتوں کے بارے میں لکھ رہا ہوں ،دنیا میں بے شمار معجزے ہر دور میں ہوئے ہیں اور لوگ انکار بھی کرتے رہے مگر اللہ نے خود ہی فرما دیا کہ اس کی ذات پاک ہے ہر عیب ،نقص اور کمزوری سے ۔
اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کی وسعتوں اور حیات کے گہواروں میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو حیران کن ہیں مگر ہم غور نہیں کرتے، نہ جانے واقعہ معراج پر بحث کیوں کرتے ہیں ۔اب جبکہ تیز رفتار سواریاں ایجاد ہو گئی ہیں ہمیں رات کے قلیل حصے میں مسجد حرم سے مسجد اقصی تو کیا دور افتادہ براعظم تک جاناممکن لگتا ہے ۔ جس زمانے میں یہ واقعہ رونما ہوا اس وقت تو اکثر لوگوں کو یہ سفر بھی اس مختصر عرصے میں ناممکن لگتا تھا ،اللہ کی ذات کے لئے کیا مشکل یا ناممکن ہے ۔ وہ تو بس کسی بات کو فرماتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے ۔
  1. اگر آپ “Time Travel” کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وقت کا دھارا مختلف حالتوں میں مختلف رفتار سے بہتا ہے ۔ عام حالات میں ہم وقت کے سیلاب میں ایک سیکنڈ فی سیکنڈ کے حساب سے آگے کی جانب بڑھتے ہیں ۔البتہ اگر آپ ایک کلومیٹر فی سکینڈ سے زمین کے گردا گرد سفر شروع کریں اور دس سال بعد جب یہ سفر ختم کریں تو زمین پر موجود لوگوں پر دس سال اور 9.5 دن گزر چکے ہوں گے ۔ یعنی مسافر مستقبل میں 9.5 دن آگے سفر کر چکا ہے ۔ اگر مسافت کی  رفتار بڑھنے لگے تو زمین کے مکیں اوراس مسافر کے درمیان وقت کی خلیج بڑھتی چلی جائے گی اگر آپ روشنی کی رفتارکی 98.3 فیصد رفتار سے سفر کرنے لگیں تو گردش ارض و سما میں دس سال بعد معلوم ہوگا کہ مسافر پر دس سال گزرے جبکہ اہل زمیں کے لئے 54.4 سال ۔ مسافت کی رفتار بڑھنے سے یہ خلیج مسافت اور بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ واقعہ معراج کو اسی تنا ظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ( ویسے واقعہ معراج پر ایک مستقل مضمون بھی موجود ہے ۔ جس کو آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں
سورج کی روشنی ہم تک 8 منٹ اور بیس سکینڈ میں پہنچتی ہے ۔اگر ہم روشنی سے بھی تیز رفتاری سے سفر کریں تو اہل زمین کو کئی منٹ پہلے بتا سکتے ہیں کہ سورج اب روشن نہیں رہا جبکہ عام حالات میں اہل زمین کو یہ بات آٹھ منٹ اور بیس سیکنڈ بعد معلوم ہوگی ۔ دور افتادہ کہکشاؤں اور ثریاؤں کا معاملہ اور بھی پیچید ہے ان سے آنے والی روشنی اربوں کھربوں سال میں ہم تک پہنچتی ہے ۔ چناچہ روشنی سے زیادہ سبک رفتاری سے ممکن ہوجاتا ہے کہ ہم مستقبل میں جتنی دور تک دیکھنا چاہیں اس اصول کے مطابق دیکھ سکتے ہیں ۔ ممکن ہے یہی رفتار فرشتوں کے نصیب میں آئی ہو جو روشنی کو بھی گردِ راہ سمجھتے ہیں ۔ ہمارے اردگرد شعاعوں ،لہروں کا ایک سمندر ہے ،کچھ سست رفتارہیں اور کچھ تیز ۔
اگر اسی طرح ہماری کہکشاں کا دوسری کہکشاؤں کی نسبت گھومنے کا تصور کیا جائے تو ماہ وسال کی گنتی اس سے تجاوز کرجائےگی ۔ یہ ساری کائنات اپنے ایک مرکز یعنی دائرہ البروج کے گرد گھوم رہی ہے ۔ اس کے تصور (حساب سے ) ذہن چکرانے لگتا ہے ۔چناچہ مندرجہ بالا معلومات سے دو باتیں باآسانی اخذ کی جاسکتی ہیں کہ
1۔ اللہ کے حکم سے اس کائنات کا نظام چلانے والے فرشتوں کی رفتار معلوم شدہ روشنی کی رفتارسے کئی گنا زیادہ ہوگی ۔
2۔ اس کائنات میں کئی ایسے سیارے ہو سکتے ہیں کہ جن پر  ایک دن ہمارے حساب سے ہزاروں سال پر محیط ہوسکتا ہے ۔علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ اسی زمین کی اپنےمحور کے گرد رفتار کو کنڑول کرکے اس کے دن کوبھی ہزروں سال لمبا کرسکتا ہے ۔ اور سائنسدانوں کے مطابق بھی جب زمین معرض وجود میں آئی تھی تو اس وقت اس کا ایک دن موجودہ 24 گھنٹے کے دن کے مقابلے میں کئی دن لمبا ہوتا تھا۔باقی اللہ کے بھید اللہ تعالیٰ خود ہی جانتا ہے ، وہ  ِبلااسباب سب کام کرسکتا ہے ۔ہم تو اسی کے حکم کے بموجب اس کی قدرت کی نشانیوں کو سائنسی علم کی مدد سے دیکھ کر اور غوروفکرکرکے کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کر تے رہیں گے اس لئے کہ  ہم جتنا بھی اس کے نظام قدرت کو سمجھتے ہیں تو اس سے ہمیں اس کی طاقت و عظمت کا احساس ہوتا ہے جس سے ہمارا ایمان بڑھتا ہے اور ہمیں مسلمان ہونے پر فخر اور اطمینان محسوس ہوتاہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر قائم و دائم رکھے ۔ آمین
حواشی:
1۔ قرآن سائنس اور ٹیکنالوجی از شفیع حیدر دانش صدیق
2َ۔سانئس قرآن کے حضور میں از طارق اقبال سوہدروی

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی