ہمارا میڈیا : غلامانہ ذہنیت اور بے حیائی ۔ انصار عباسی کا فکر انگیز مضمون

 ہمارا میڈیا : غلامانہ ذہنیت اور بے حیائی 

 انصار عباسی کا فکر انگیز مضمون


قوموں کے عروج و زوال میں ثقافت کا بڑا کلیدی کردار ہے۔ اقبال نے ایک ناقابلِ انکار تاریخی حقیقت کو ان الفاظ میں ادا کیا تھا ؂

میں تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیرِ اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر

آج پاکستانی معاشرہ ثقافتی انتشار اور اخلاقی انحطاط کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ بگاڑ کی قوتیں جری سے جری تر ہوتی جارہی ہیں اور سرکاری اور غیرسرکاری، ملکی اور بین الاقوامی ادارے بگاڑ کو بڑھانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں قوم میڈیا، علما اور زندگی کے ہر شعبے کی قیادت کو جھنجھوڑنے اور غفلت اور لاپروائی کا رویہ ترک کر کے پوری ذمہ داری کے ساتھ معاشرتی فساد اور بگاڑ کو روکنے اور خیروصلاح اور تعلیم و تلقین کے بہترین ذرائع کو استعمال کر کے ملک و ملّت کو گرداب سے نکالنے اور حقیقی تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ مشہور صحافی اور تجزیہ نگار جناب انصار عباسی نے اس سلسلے میں بڑے دردبھرے انداز میں ان حقائق پر توجہ مرکوز کی ہے جو بگاڑ کو فروغ دینے کا باعث ہیں اور اصلاحِ احوال کے لیے دکھی دل سے قوم کو بیدار کرنے کا فرض انجام دیا ہے۔ ان کے یہ مضامین روزنامہ جنگ میں شائع ہوئے ہیں جسے ہم ان کے اور جنگ کے شکریے کے ساتھ یک جا پیش کر رہے ہیں۔ (مدیر)
بلاسوچے سمجھے، میڈیا ’میراثی کلچر‘ کا اس قدر بڑا حمایتی بن گیا کہ جنوری۲۰۱۲ء میں تعلیمی اداروں میں قابلِ اعتراض کنسرٹس (گانے بجانے کے پروگرام) پر پابندی کے متعلق پنجاب اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کو اس انداز میں آڑے ہاتھوں لیا، جیسے کہ کوئی بہت بڑا ظلم ہوگیا ہو۔ قرارداد (ق) لیگ کی سیمل کامران نے پیش کی۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے اراکین نے بھی اس کی حمایت کی، مگر اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی ٹی وی چینلوں نے ایک شور برپا کردیا، اور ’قابلِ اعتراض کنسرٹس‘ کی پابندی کو ’غیرقانونی‘ اور لوگوں بالخصوص نوجوانوں کے ’حقوق‘ کے خلاف گردانا۔ آناً فاناً میڈیا کی تنقید نے ایک مہم کا روپ اختیار کرلیا اور ہرسنائی جانے والی آواز پنجاب اسمبلی کے اس اقدام کو کوسنے لگی۔ نہ کسی نے قرارداد کو پڑھا نہ ’قابلِ اعتراض‘ کے الفاظ پر غور کیا، البتہ سب ایک ہی بولی بول رہے تھے: ’’یہ بڑا ظلم ہوگیا‘‘۔
گانے والے ایک ایک کر کے اپنا تجزیہ دے رہے تھے۔ میڈیا سرکس نے ایک ایسی ہیجان کی کیفیت پیدا کی کہ خود مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت پنجاب نے اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کردیا، جب کہ پیپلزپارٹی نے نئی قرارداد لانے کا اعلان کردیا۔ قرارداد کو پیش کرنے والی خاتون محترمہ سیمل کامران کو لینے کے دینے پڑ گئے، جب کہ کچھ علما حضرات نے میوزیکل کنسرٹس کے بارے میں ایسے بیان داغ دیے کہ ان کو سن اور پڑھ کر ہاتھ فوراً کانوں کی طرف اُٹھ گئے۔ چند گھنٹوں کی یہ جنگ ’میراثی کلچر‘ کے حامی جیت گئے۔ سچ گم ہوکر رہ گیا اور حقیقت چھپ گئی۔
جس معاشرے میں سوال اس بات پر اُٹھانا چاہیے کہ: ’موسیقی کی ایک اسلامی معاشرے میں کس حد تک اجازت ہے؟‘ وہاں اعتراض اس بات پر کردیا گیا کہ: ’قابلِ اعتراض کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد کیوں پیش کی گئی؟ مسلم لیگ (ن) کی حکومتِ پنجاب کی طرف سے اس قرارداد سے لاتعلقی حیران کن تھی، تو عمران خان کی طرف سے اس قرارداد کے خلاف بات کرنا اُس سوچ کا مکمل تضاد ہے، جس کا انھوں نے اپنی کتاب میں پرچار کیا۔ ایک اُردو اخبار نے ایک ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ’معروف عالم دین‘ سے کچھ اس طرح کا بیان منسوب کیا: ’’مفتی صاحب کا فرمانا تھا کہ پنجاب اسمبلی نے اگر مطلقاً میوزک پر پابندی لگائی ہے کہ طلبہ میوزیکل کنسرٹس نہیں دیکھ سکتے تو یہ غلط ہے۔ اسلام میں موسیقی حرام [ہونے کا حکم] واضح نہیں۔ عہد رسولؐ میں صحابہ میوزک کا اہتمام کرتے رہے۔ حضرت عائشہؓ کو دکھاتے رہے۔ مسجد میں میوزک کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔
’مفتی صاحب‘ کا یہ بیان (جس طرح اخبار میں شائع ہوا) کم از کم مجھ سے ہضم نہیں ہوسکا۔ معلوم نہیں کسی عالم دین اور اسلامی اسکالر نے اس بیان پر کوئی تبصرہ کیوں نہیں کیا۔ یہ کن مثالوں کی بات کی جارہی ہے اور ان مثالوں کے زور پر کس قسم کے میوزیکل کنسرٹس کو ’جائز قرار‘ دینے کے فتوے دیے جارہے ہیں؟ آج کل کے گانوں اور کنسرٹس کو، تمام تر بے ہودگیوں کے ساتھ اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا حوالہ دے کر کس طرح جائز بنانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ گانوں کے بول اور دوسرے اعتراضات اپنی جگہ، کنسرٹس میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک ساتھ ناچنے کا ہمارے دین اور ثقافت سے کیا تعلق؟ خدارا، دین کو اتنا سستا مت بیچو، ٹی وی چینلوں میں آنے کے شوق میں، اللہ کی بات اور رسولؐ اللہ کی سنت کو توڑ مروڑ کر مت پیش کرو۔
ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق کئی دوسری علامات کے علاوہ جب گانے والیاں اور موسیقی کے آلات عام ہوجائیں گے تو نبیؐ کی اُمت پر عذاب نازل ہوں گے۔ ہم پر پے درپے عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ کبھی زلزلہ تو کبھی سیلاب، کبھی طوفانی بارشیں تو کبھی ڈینگی اور جعلی ادویات کے ذریعے اموات،مگر کوئی سوچنے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ غوروفکر کا ہمارے پاس وقت نہیں۔ ہم سب کچھ میڈیا کی آنکھوں سے ہی دیکھتے ہیں، اسی کی سنتے ہیں، اور جو میڈیا کہتا ہے اسی کی بولی بولنا شروع کردیتے ہیں۔ ہم میڈیا والے بھی پیسہ کمانے کے چکر میں سب کچھ بھول گئے۔ ہمیں کوئی احساس نہیں کہ اس میڈیا سرکس کے ذریعے عوام کو کیا دیا جا رہا ہے؟ اخلاقی اقدار کو کس تیزی سے تباہ کیا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ناراضی مول لے کر شیطانیت کو پھیلایا جا رہا ہے۔ کاش! ہم میڈیا والے یہ بات سمجھ سکیں کہ آج بلاسوچے سمجھے جو کھیل ہم کھیل رہے ہیں، اس کی ہم سے آخرت میں سخت بازپُرس ہوگی۔
سوال یہ اُٹھایا جاتا ہے کہ ’بے ہودگی‘ اور ’قابلِ اعتراض‘ ہونے کا پیمانہ کون طے کرے گا؟ اگر ہم مسلمان ہیں تو واضح رہے کہ حیا ہمارے دین کا شعار اور پہچان ہے، جب کہ بے ہودگی اور بے شرمی کے کاموں کی اسلام سخت ممانعت کرتا ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی کی حدیں بہت پہلے متعین کی جاچکیں اور ان حدوں کو کوئی بدل نہیں سکتا۔ اگر یہ حق عوامی نمایندوں اور اسمبلیوں کو حاصل نہیں ہے تو یہ حق میڈیا کو بھی حاصل نہیں۔ میڈیا بھی وہ جو انٹرٹینمنٹ (تفریح) کے نام پر نیم عریاں ڈانس دکھاتا ہے، بے ہودہ گانے، قابلِ اعتراض اشتہارات اور فیشن شوز کے نام پر فحاشی و عریانی کو عام کر رہا ہے۔ ہم اپنے اور اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے لیے پسند نہیں کرتے کہ وہ قابلِ اعتراض کنسرٹس اور عام مخلوط گانے بجانے کے پروگراموں میں شرکت کریں، یا فیشن شوز کے نام پر پھیلائی جانے والی فحاشی کا حصہ بنیں، مگر دوسروں کی بیٹیوں اور بہنوں کو ایسے کاموں میں مشغول دکھا کر اسے خوب سراہتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ اس بات کو پسند کریں گے کہ اُن کی بہن ، بیٹا یا بیٹی فیشن شوز کے ریمپ پر سیکڑوں لوگوں کی موجودگی میں نیم عریاں لباس زیب تن کیے کیٹ واک کریں؟ کتنے لوگ اپنی بہن اور بیٹی کو ساتھ لے جاکر مخلوط کنسرٹس سنتے ہیں؟ جو کچھ ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے، وہ دوسروں کے لیے کیسے اچھا ہوسکتا ہے؟ ہم پاکستانیوں کے پاس تو اب ماسواے خاندانی نظام اور بچی کھچی شرم و حیا کے علاوہ باقی کچھ بچا ہی نہیں۔ اگر یہ بھی ہم سے چھن گیا تو پھر ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔ مغرب سے مرعوب ایک محدود طبقہ ہمیں ہمارے اس فخر سے محروم کرنا چاہتا ہے، اور اس مقصد کے لیے میڈیا کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کو روکنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

شہباز شریف ۔ میڈیا کے خوف اور اللہ کے ڈر کے درمیان حکمران

’میراثی کلچر‘ اور قابلِ اعتراض کنسرٹس کے فروغ کے لیے میڈیا کے کردار اور سیاسی و حکومتی ذمہ داروں کی بے فکری و بے بسی پر لکھے گئے میرے کالم پر مجھے بے پناہ عوامی ردعمل ملا۔ ایک آدھ کے سوا تقریباً ہر شخص نے اس بات کی تائید کی کہ اسلام کے نام پر بننے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیادوں کو فحاشی و عریانیت کے ذریعے تیزی سے کھوکھلا کیا جارہا ہے، جس میں میڈیا کا ایک اہم کردار ہے، جب کہ تمام تر ذمہ دار محض تماش بین کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
حکومت پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے بتایا کہ کمرشل کنسرٹس کے نام پر انتہائی فحش اور بے ہودہ پروگرام پنجاب کے مختلف شہروں میں منعقد کیے جاتے ہیں، جس کی حکومت پنجاب کو مکمل اطلاع ہوتی ہے، مگر اس کے باوجود کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی جاتی، محض اس لیے کہ کہیں آرٹ اور کلچر کے نام پر ایسے حکومتی اقدام کو ہدفِ تنقید نہ بنایا جائے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ: ’’ان قابلِ اعتراض کنسرٹس میں تقریباً برہنہ (topless) خواتین ’فن کار‘ اپنے ’فن‘ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ سینماگھروں میں بھی فلموں کے ساتھ ساتھ بے ہودہ ڈانس دکھائے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ بلاروک ٹوک جاری ہے‘‘۔
عوامی ردعمل کے برعکس قومی وصوبائی اسمبلیاں، وفاقی و صوبائی حکومتیں، سرکاری ادارے اور مشترکہ عوامی مسائل پر سوموٹو لینے والی اعلیٰ عدلیہ بھی اس مسئلے پر خاموش ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اس وقت پاکستان بھر میں کیبل نیٹ ورک کے ذریعے درجنوں غیرقانونی چینل (انڈین اور دوسرے) دکھائے جارہے ہیں، جن کے ذریعے انتہائی قابلِ اعتراض فلمیں اور گانے چلائے جاتے ہیں۔ ان بے ہودہ چینلوں کو دیکھنے والوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے، جب کہ ’پیمرا‘ (PEMRA) اور دوسرے متعلقہ اداروں کی طرف سے کوئی خاص تادیبی کارروائی نہیں کی جارہی۔ میڈیا کی ایک اہم شخصیت سے جب میں نے پاکستانی چینلوں میں انٹرٹینمنٹ اور گانے بجانے کے نام پر فحاشی و عریانی کے فروغ کی وجہ پوچھی، تو اُن کا کہنا تھا: ’’انڈین اور دوسرے غیرقانونی چینلوں کے ذریعے دکھائی جانے والی بے ہودگی اور گندگی نے پاکستانی چینلوں کو بھی ایک حد تک ’کھلے ڈلے پن‘ کا اظہار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ غیرقانونی چینلوں کو بند کر کے ہی پاکستانی چینلوں کو راہِ راست پر لایا جاسکتا ہے‘‘۔
یہ صرف حیلے بہانے ہیں، ورنہ جو غلط کام ہے وہ غلط ہی ہوتا ہے۔ غیرقانونی فحاشی کا مقابلہ قانونی چینلوں کے ذریعے دکھائی جانے والی فحاشی سے کرنے کا بھلا کیا مقصد؟ یہ بات طے ہے کہ جب تک حکومت اور متعلقہ حکومتی ادارے (’پیمرا‘ اور وزارتِ اطلاعات و نشریات) اپنی بنیادی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے اور قانون کی عمل داری کو یقینی نہیں بنائیں گے، نمایش و عریانیت کا یہ سیلاب نہیں رُک سکتا۔ یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے بچے اور نوجوان ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں، جو بحیثیت قوم ہمارے لیے مکمل تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے، مگر تمام متعلقہ ادارے، حکومتیں، اسمبلیاں، عدالتیں اور میڈیا سب سو رہے ہیں۔
مثال کے طور پر پنجاب اسمبلی نے صرف ایک قرارداد پاس کی، مگر اس پر میڈیا نے ایسا دھاوابولا جیساکہ کوئی ظلم ہوگیا۔ سب ڈر کر سہم گئے اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ میڈیا سے پوچھے کہ وہ کس کلچر کی وکالت اور کیسے پاکستان کا تصور پیش کر رہا ہے؟چند روز قبل وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف سے میری بات ہوئی، تو میں نے اُن سے پوچھا: ’’آپ نے کبھی سوچا کہ دوسری حکومتوں سے بہتر کارکردگی کے باوجود ڈینگی اور جعلی ادویات کے عذابوں نے اُن کی حکومت کو کیوں آن پکڑا؟‘‘ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ: ’’یہ اللہ رب العزت کی آزمایش ہوسکتی ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ: ’’اگر آپ یہ سمجھتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے پنجاب اسمبلی کی اُس قرارداد کا مکمل طور پر صوبے بھر میں نفاذ کیوں نہیں کرتے، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ قابلِ اعتراض کنسرٹس منعقد نہ کیے جائیں؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’میرے لیے دعا کی جائے، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس معاملے پر غور کروں گا‘‘۔
بے ہودگی، عریانیت اور فحاشی جیسی بیماریوں کا قلع قمع کرنا ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب اس معاملے میں کیا کرتے ہیں؟ آنے والے دن یہ بات طے کردیں گے کہ آیا وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں یا کہ میڈیا کے خوف سے اپنی اس بنیادی ذمہ داری سے پہلوتہی کریں گے، جس کو پورا کرنے کے لیے وہ دینی، قانونی اور آئینی طور پر پابند ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میاں شہباز شریف صاحب کا مثبت قدم دوسری حکومتوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بن جائے۔ انتظار اس بات کا بھی ہے کہ وفاقی وزارتِ اطلاعات اور ’پیمرا‘ کب جاگیں گے تاکہ ٹیلی ویژن چینلوں کو فحاشی و عریانیت سے پاک کیا جاسکے۔ معلوم نہیں وفاقی وزارت انفارمیشن ٹکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کیسے اور کب، انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کے لیے چین، سعودی عرب اور دوسرے کئی ممالک کی طرح فحش سائٹس کو بلاک کریں گے؟
کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک پندرہ سالہ بچے عبداللہ نے، لبرل فاشسٹوں اور بے حیائی کے کلچر کو فروغ دینے والوں کے تمام پروپیگنڈے کے باوجود حال ہی میں پی ٹی اے کو ساڑھے سات لاکھ فحش سائٹس کے انٹرنیٹ ایڈریس بھجوائے ہیں، تاکہ ان سب کو بلاک کیا جاسکے اور انٹرنیٹ کے مثبت استعمال کو یہاں فروغ دیا جاسکے۔ عبداللہ نے ۲۰۱۱ء میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری صاحب کو اس بارے میں ایک خط بھی لکھا تھا۔ محترم چیف جسٹس نے پی ٹی اے کو اس سلسلے میں ضروری ہدایات بھی دیں، مگر ابھی تک کوئی خاطرخواہ کارروائی سامنے نہیں آسکی۔ عبداللہ پوچھتا ہے کہ کیا کرپشن کے دوسرے معاملات کی طرح چیف جسٹس آف پاکستان اس اخلاقی، سماجی اور معاشرتی کرپشن کے خلاف بھی سخت ترین اقدام اُٹھائیں گے؟
حال ہی میں پی ٹی اے چیئرمین سے بھی میری بات ہوئی۔ اُن کا کہنا تھا کہ: وہ فحش انٹرنیٹ سائٹس کو بند کرنے کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ یہ پراجیکٹ کب شروع ہوتا ہے اور کب مکمل، یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر آثار ابھی تک کوئی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ گذشتہ سال اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان صاحب نے بھی مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی میں فحاشی و عریانی کے خلاف نہ صرف بات کریں گے، بلکہ کچھ عملی اقدامات بھی تجویز کریں گے، تاہم ابھی تک اُن کی طرف سے کوئی عملی اقدام نہ اُٹھایا جاسکا۔
حیرانی اس بات کی ہے کہ ماضی کے برعکس اسلامی جماعتوں نے ان مسائل پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ نہ کوئی احتجاج کیے جا رہے ہیں، نہ ان مسائل کو عدلیہ سمیت متعلقہ اداروں کے سامنے اُٹھایا جا رہا ہے۔اسلامی جماعتوں پر مشتمل پاکستان دفاع کونسل کی تمام تر توجہ پاکستان کی دفاعی سرحدوں اور ناٹو سپلائی لائن پر مرکوز ہے۔ مغرب اور ہندستان کی بے رحم ثقافتی یلغار کے سامنے سب نے عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟ آج کل ہر گھر میں نیوز چینل کو دیکھتے ہوئے بھی ٹی وی ریموٹ کو ہاتھ میں تھامنا پڑتا ہے، کیونکہ نجانے کس وقت انٹرٹینمنٹ (تفریح) کے نام پر قابلِ اعتراض ڈانس یا کوئی دوسرا سین اسکرین پر آجائے اور وہاں موجود خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے نظریں چرانی پڑ جائیں۔
مارچ ۲۰۱۲ء کے دوران کراچی میں جئے سندھ قومی محاذ کے جلسے میں عالمی طاقتوں سے اپیل کی گئی کہ سندھ اور بلوچستان کو پاکستان سے آزاد کرانے میں مدد اور تعاون کریں۔ پاکستان کے خلاف اس کھلی بغاوت کی نہ صرف سندھ حکومت نے اجازت دی بلکہ مادر پدر آزاد میڈیا نے بھی پاکستان توڑنے کے اس پیغام کو پوری دنیا تک پھیلانے کا فریضہ بڑی تندہی سے ادا کیا۔ یومِ پاکستان کے روز اس سازش کا کھلے عام اظہار کیا گیا، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسی انداز میں امریکی کانگریس میں بلوچستان کی آزادی کے متعلق پیش کی گئی قرارداد کے پیچھے پاکستانیوں سے بھی کوئی پوچھ گچھ نہ ہوئی۔ اگر حکومت اور دوسرے ذمہ دار، پاکستان توڑنے والوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں تو کم از کم آزاد میڈیا کو قومی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ یہ کیسی آزادیِ صحافت ہے کہ فحاشی و عریانی کو پھیلانے کے بعد اب ملک توڑنے کی سازش کرنے والوں کی آواز کو دنیا بھر تک پھیلا دیا جائے! اللہ تعالیٰ پاکستان کو اس مادر پدر آزاد میڈیا کے شر سے بچائے۔

فحش کلچر کا فروغ اور ہماری خاموشی

میرا ارادہ تھا کہ میں انجمن غلامانِ امریکا کی طرف سے ناٹوسپلائی کے لیے پاس کی گئی قرارداد پر کچھ لکھتا۔ مگر دی نیوز کے سینیر رپورٹر خالدمصطفی کی فون کال نے مجھے اُس موضوع پر لکھنے پر مجبور کردیا جو عمومی طور پر ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے۔
قدرے غصے میں خالد نے ایک خاتون کی میزبانی میں چلنے والے ایک تفریحی شو کا حوالہ دیتے ہوئے استفسار کیا کہ: ’’آپ نے وہ شو دیکھا یا نہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا :’’کبھی اُس شو کو دیکھنے کا موقع ملا اور نہ کبھی خواہش پیدا ہوئی۔ خالد کا کہنا تھا کہ :’’میں اپنی فیملی کے ساتھ شو دیکھ رہا تھا کہ پروگرام میں شامل ایک مہمان نے کہا کہ گذشتہ پانچ سال سے میں کسی عورت کے ساتھ نہیں سویا، جب کہ اسی پروگرام میں مدعو ایک فاحشہ نے کہا کہ میں اپنے ہندستانی مرد دوست سے بغل گیر بھی ہوتی ہوں اور اُسے ’کِس‘ بھی کرتی ہوں جس پر مجھے شرمندگی نہیں‘‘۔ اُس فاحشہ کا کہنا تھا کہ: ’’اس میں کیا برائی ہے؟ کسی دوسرے کو اس پر کیوں تکلیف ہے؟‘‘ خالدمصطفی کارونا تھا کہ انٹرٹینمنٹ کے نام پر میڈیا فحاشی و عریانیت کی تمام حدوں کو پھلانگ چکا ہے، مگر ’پیمرا‘، حکومت، عدالت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں سب اپنی اپنی ذمہ داری سے عاری آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ اب تو حالات ایسے ہوچکے ہیں کہ گھر بیٹھ کر ہم پاکستانی چینلوں کو بھی نہیں دیکھ سکتے۔ نہیں معلوم کب کس قسم کی بے ہودگی ٹی وی اسکرین پر چل پڑے اور دیکھنے والے خاندان کے لوگ شرمندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ آنکھیں ملانے کے بجاے کترانے کی کوشش کریں‘‘۔ میرے اس صحافی دوست نے بتایا کہ: ’’امریکا سے پاکستان منتقل ہونے والی میری ہمسائی خاتون نے بھی مجھ سے کیبل کے ذریعے فحاشی و عریانی کے فروغ پر بات کی اور بتایا: ’’میں اپنے بچوں کو امریکا چھوڑ کر پاکستان اس لیے لائی تاکہ ان بچوں کو اپنی اقدار سکھائی جائیں، اور اُنھیں اُس فحش ماحول سے دُور رکھا جائے جس کا سامنا مغربی دنیا کو ہے‘‘۔ مگر اس خاتون کا گلہ یہ ہے کہ پاکستان کا ماحول تو انتہائی ابتری کا شکار ہے اور اس میں کیبل ٹی وی نیٹ ورک کا بہت اہم کردار ہے۔
بات ختم کرنے کے بعد میں نے ’پیمرا‘ میں ایک افسرسے اس موضوع پر بات کی، جس نے مجھے بتایا کہ ’پیمرا‘ نہ صرف اس تمام صورت حال سے واقف ہے، بلکہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں میں دکھائے جانے والے قابلِ اعتراض پروگرام، گانے، ڈانس وغیرہ کا اُس فحش مواد سے کوئی مقابلہ ہی نہیں جسے غیرقانونی طور پر پاکستان بھر میں کیبل آپریٹر بلاروک ٹوک دکھا کر اشتہارات کے ذریعے اربوں روپے بٹورتے ہیں۔ ’پیمرا‘ کو خوب معلوم ہے کہ درجنوں انڈین اور دوسرے غیرقانونی چینل دکھانے کے ساتھ ساتھ کیبل نیٹ ورک کے ذریعے غیرقانونی ان ہاؤس سی ڈی چینلوں کی بھی بھرمار ہے، جو قابلِ اعتراض مواد دکھا کر خوب پیسہ بٹور رہے ہیں‘‘۔
مجھے بتایا گیا کہ: ’’اس حرام کاروبار سے کمائے جانے والی رقم مبینہ طور پر ’پیمرا‘ کے اعلیٰ افسروں کی جیبوں تک پہنچتی ہے، جس کی وجہ سے یہ بے ہودہ کاروبار، بلاروک ٹوک جاری و ساری ہے۔ ان فحش چینلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی طور پر چلنے والے پرائیویٹ چینل بھی بے ہودگی کے سفر پر گامزن ہیں تاکہ ان کا کاروبار تباہ نہ ہو۔ معاشرے کی تباہی اور اپنی نسلوں کی اخلاقی اقدار کو تار تار کر کے پیسہ کمانے والوں کو ’پیمرا‘ اور دوسرے حکومتی اداروں نے کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ ہیرامنڈی کلچر کو ملک کے کونے کونے بلکہ ہرگھر میں پھیلا دیں۔ ماضی میں برائی چھپ کر کی جاتی تھی، مگر اب بُرائی کو نہ صرف کھلے عام پیش کیا جاتا ہے بلکہ آزاد میڈیا کے نام پر اُس کا پُرزور دفاع بھی کیا جاتا ہے۔
چند روز قبل ایک قاری نے مجھے لکھا کہ ہم صحافیوں کو اس بات کی نہ فکر ہے اور نہ احساس کہ ایک مخصوص طبقہ پاکستان کے ہرگھر میں ہیرامنڈی کلچر پھیلانے میں مصروف ہے۔ اس قاری نے مزید لکھا کہ ایک فاحشہ کو ’نام ور‘ کا درجہ دے کر اور طوائفوں کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ناچ گانے اور طوائفوں کا شوق ہمیشہ سے مخصوص علاقوں تک محدود رہا، مگر کبھی اس کو اچھی نظر سے نہ دیکھا گیا۔ آج کیبل نیٹ ورک اور میڈیا کی وجہ سے اس گندے کاروبار میں شامل افراد کو نہ صرف عزت دی جا رہی ہے بلکہ اسے غیرمعمولی فروغ بھی مل رہا ہے، جس سے ہر خاندان متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت کجا یہ کہ اس گندگی سے معاشرے کو صاف کرلے، وہ بھی ہیرامنڈی کلچر کے نمایندوں کو اعلیٰ قومی ایوارڈز سے نواز رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ ایک بہت بڑی تعداد میں پاکستانی اس صورت حال سے پریشان ہیں مگر کوئی کچھ کر نہیں رہا۔ چودھری نثار علی خان جیسے بااثر سیاست دان بھی اس پریشانی میں مبتلا ہیں، مگر وعدے کے باوجود ابھی تک کوئی عملی اقدام اُٹھانے سے قاصر ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں پاکستان کے کچھ انتہائی محترم مفتی صاحبان سے بھی میری اس موضوع پر بات ہوئی اور میں نے ان سے درخواست کی کہ :’’اس بڑھتی ہوئی سماجی بُرائی کی روک تھام کے لیے علماے کرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔ اسی سلسلے میں میری ملاقات پاکستان کے ممتاز قانون دان اکرم شیخ صاحب سے ہوئی، جو خود بھی اس مسئلے میں انتہائی مضطرب نظر آئے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی انٹرنیٹ، غیرقانونی انڈین چینلوں، اِن ہاؤس سی ڈی چینلوں اور کیبل ٹی وی کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانی کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔
کیا میڈیا احتساب سے بالا.تر ہے؟
میرے کالم ’ہیرامنڈی کلچر کا فروغ اور ہماری ذمہ داری‘پر مجھے عام قارئین کی طرف سے بہت حوصلہ افزا ردعمل ملا، جب کہ میڈیا اور کیبل نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے کئی لوگ مجھ پر سیخ پا ہوگئے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا، جرمنی، کینیڈا، برطانیہ وغیرہ میں رہنے والے پاکستانیوں نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں عریانی کلچر کے فروغ پر انتہائی رنج اور غم کا اظہار کیا اور عمومی طور پر میڈیا کو فحاشی و عریانیت کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ حکومت، ’پیمرا‘، پارلیمنٹ، عدلیہ اور دوسرے ریاستی ذمہ دار اس تباہی پر خاموش ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ماسواے جماعت اسلامی کے، کسی نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔ سابق ایم این اے اور جماعت اسلامی خواتین کی رہنما ، سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ نے فحاشی و عریانی کے خلاف جدوجہد کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے کہ وہ اس سماجی و مذہبی برائی کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ:’’ لاہور ہائی کورٹ میں اسی نوعیت کا ایک کیس دائر کر رکھا ہے، مگر اس کیس کو سنا ہی نہیں جا رہا‘‘۔
ملک کے اہم ترین سیاسی رہنماؤں میں صدرزرداری، [سابق] وزیراعظم گیلانی، میاں نواز شریف، عمران خان، اسفندیارولی وغیرہ سب اس معاملے میں خاموش تھے، ہیں اور شاید رہیں گے، کیونکہ میڈیا چاہے کتنا ہی بُرا کیوں نہ کرے اس کو کوئی بُرا نہیں کہنا چاہتا کیوں کہ سیاست بھی تو کرنی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن صاحب نے ۱۷؍اپریل کو بے حیائی کے فروغ کے خلاف حوصلہ افزا بیان دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس بیان کو عمومی طور پر میڈیا میں جگہ نہیں ملی، مگر امیرجماعت نے درست کہا کہ: ’’پاکستان میں عورت کی ترقی اور برابری کے نام پر مغربی تہذیب مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عورت جسے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے مقدس رشتوں سے احترام حاصل تھا اسے بازار کی زینت بنا کر پاکستانی معاشرے میں بے حیائی کے کلچر کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا بھی ہندو تہذیب کے غلبے کے لیے عریاں اور فحش بھارتی فلموں کی نمایش کر کے دو قومی نظریے کی دھجیاں اُڑا رہا ہے۔ معمولی اشیا کی فروخت کے لیے عورت کو سائن بورڈ اور ہورڈنگز پر تشہیر کا ذریعہ بنا کر نوجوان نسل کو تباہی کے راستے پر ڈالا جا رہا ہے، جس کا حکومت کوئی نوٹس نہیں لے رہی اور ’پیمرا‘ بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے‘‘۔
منور حسن صاحب نے بلاشبہہ سچ کہا کہ: ’’عریانی اور فحاشی کا سیلاب گھروں کے اندر پہنچ چکا ہے۔ ایسے اشتہارات چینلوں پر دکھائے جاتے ہیں کہ خبرنامہ بھی فیملی کے ساتھ دیکھنا محال ہوگیا ہے‘‘۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ: ’’ایسے بے ہودہ اشتہارات، فلموں اور پروگراموں کو بند کرنے کے لیے حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے‘‘۔ یہاں مَیں امیرجماعت سے اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا، کیونکہ انھوں نے ایک ایسی حکومت کے سامنے اپنا یہ مطالبہ رکھا ہے، جسے لُوٹ کھسوٹ کے علاوہ کسی دوسرے کام سے کوئی سروکار نہیں۔ اس لیے مَیں اُمید کرتا ہوں کہ جماعت اسلامی اس گندگی سے معاشرے کو پاک کرنے کے لیے دوسری دینی و سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر انٹرنیٹ، غیرقانونی کیبل چینلوں اور پاکستانی چینلوں کے ذریعے پھیلائی جانے والی بے حیائی کے خلاف نہ صرف عوامی مہم چلائے گی، بلکہ سپریم کورٹ میں بھی اس بُرائی کے خلاف آواز اُٹھائے گی۔
اب ذرا میڈیا کے اندر کی بات کرلی جائے۔ ہم میڈیا والے آزادیِ راے کی تو بہت بات کرتے ہیں مگر میں نے جب بھی کوئی ایسا کالم لکھا جو فحاشی و عریانی کے خلاف ہو، یا جس میں اسلامی سزاؤں کی بات کی گئی ہو، یا کسی دوسرے موضوع پر اسلامی نقطۂ نظر کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہو، یا میڈیا کے کردار پر اعتراض کیا گیا ہو، تو مجھے میڈیا کے اندر سے کوسا گیا۔ میرا مذاق اُڑانے کی کوشش کی گئی۔ میرے خلاف ادارے کی اعلیٰ انتظامیہ کے کان بھرے گئے اور یہ تک کہا گیا کہ میں ’جنگ گروپ‘ اور ’جیو‘ کے خلاف کام کر رہا ہوں، اور ان کا کاروبار تباہ کرنے کے در پے ہوں۔ اعتراض کرنے والوں میں کیبل آپریٹرز بھی شامل تھے۔ ادارے کی طرف سے جب اس قسم کے اعتراضات مجھے بھجوائے گئے تو میں نے یہ بات واضح کی کہ: ’’میرے لیے اللہ تعالیٰ اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے سامنے کسی شے کی کوئی حیثیت نہیں۔ چاہے میرا ادارہ ہو یا میرا کوئی قریبی رشتہ دار، جو غلط کرے گا اور اسلام کی روح کے مخالف چلے گا، میں اس پر ضرور بات کروں گا، نتیجہ چاہے جو بھی ہو‘‘۔
ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ میں حکومت، اپوزیشن، عدلیہ، فوج، ایجنسیوں اور پارلیمنٹ کے متعلق اپنی راے کا کھل کر اظہار کروں، مگر میڈیا چاہے (وہ ادارہ جس سے مَیں منسلک ہوں) کچھ بھی کرلے اس پر محض اس لیے خاموش ہوجاؤں کہ یہ ہماری برادری کا مسئلہ ہے، یا یہ کہ اس سے میرے ادارے کا کاروبار تباہ ہوگا ،یا یہ کہ میرا کوئی صحافی ساتھی یا میڈیا مالک ناراض ہوجائے گا۔ میں کیسے بے حیائی، بے شرمی اور عریانیت کے کلچر کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلوں، اور وہ بھی اس لیے کہ کوئی دوسرا شخص مجھ سے ناراض نہ ہوجائے یا اس لیے کہ ایسی بات کرنے سے میرا مذاق اُڑایا جائے گا، اور مجھے ’دقیانوسی‘ اور ’طالبان‘ جیسے القابات سے نوازا جائے گا۔ اپنے اللہ کے کرم سے میں ایسی باتوں سے گھبرانے والا نہیں۔ مجھے اگر خوف ہے تو اپنی آخرت کا، مجھے ڈر ہے تو اپنے اللہ کا جو رازق ہے، اور جس کے ہاتھ میں عزت، ذلت، زندگی اور موت ہے۔ میں دنیا کے منافع، دوسروں کے کاروباری فائدے اور صحافی برادری کی ’عزت‘ کے لیے سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ کی اس واضح وارننگ کو کیسے بھول جاؤں:’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے، وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘ (النور۲۴:۱۹)۔پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا‘‘۔ (النور۲۴:۲۱)
سورۂ توبہ کی آیت۲۴کا ترجمہ بھی پڑھ لیجیے: ’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو اُن کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبیؐ، کہہد و کہ اگر تمھارے باپ، اور تمھارے بیٹے ، اور تمھارے بھائی، اور تمھاری بیویاں، اور تمھارے عزیز واقارب، اور تمھارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمھارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تم کو خوف ہے، اور تمھارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘۔
بے حیائی اور بے شرمی کے کاموں سے اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی اُمت کو سختی سے منع فرمایا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ’حیا‘ کو ایمان کا حصہ اور دین اسلام کا شعار بھی قرار دیا ہے۔ مجھے کوسنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ فحاشی و عریانی کے متعلق اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے واضح احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے خوداحتسابی کریں، تاکہ ہم دنیا و آخرت میں رسوا ہونے سے بچ جائیں۔ میڈیا والے اور کیبل آپریٹر یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ہرحال میں پورا ہوکر رہے گا، جب کہ ہماری دولت، ہماری شان، ہمارا کاروبار، ہمارے ٹی وی شوز، ہماری شہرت،سب کچھ عارضی چیزیں اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں۔

کاغذی کارروائی اور زمینی حقائق

پاکستان کی بے شرم سیاست کی نہ ختم ہونے والی بے شرمیوں، اور جمہوریت کے نام پر عوام سے کیے جانے والے فراڈ اور دھوکوں پر لکھنے کو بہت کچھ ہے، مگر اس گندگی کے برعکس میں نے سوچا کہ اپنے معاشرے کی بربادی کا سبب بننے والی اس گندگی، فحاشی و عریانیت پر ہی مزید لکھا جائے۔ نجانے اس کا کیا سبب تھا، تاہم ’پیمرا‘ نے چند روز قبل اپنی کاغذی کارروائی ڈالتے ہوئے اخباری اشتہار کے ذریعے ٹی وی چینلوں اور کیبل آپریٹروں کو خبردار کیا کہ فحش اور بے ہودہ پروگرام چلانے پر سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ ’پیمرا‘ کی فائل کا پیٹ تو بھر گیا مگر زمینی حقائق ویسے کے ویسے ہی ہیں۔
یہ تو ایک معمول ہے بلکہ کارروائی ڈالنے کے لیے چند ایک کیبل آپریٹرز کے خلاف ایکشن بھی لے لیا جاتا ہے اور ٹی وی چینلوں کو بھی نوٹس جاری کیے جاتے ہیں، مگر یہ سب ڈراما اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں کیوں کہ زمینی حقائق بدل نہیں رہے۔ ماضی کی طرح ’پیمرا‘ کی اس تازہ کارروائی کے بعد بھی کیبل پر غیرقانونی انڈین اور دوسرے فحش چینل چلانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ کیا متعلقہ ذمہ دار اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ کیبل آپریٹرز اپنے سی ڈی چینلوں کے ذریعے غیراخلاقی مواد عوام کو دکھا کر اپنی ہی نسلوں کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں؟
’پیمرا‘ کے اس نوٹس اور کاغذی کارروائی کے بعد کیا پاکستانی ٹی وی چینلوں میں دکھائے جانے والے غیراخلاقی ڈرامے، فحش گانے اور ڈانس، تفریح کے نام پر عریانیت اور دوسرا متنازع مواد دکھانا بند کردیا گیا ہے؟ کیا دنیا بھر میں مسلمانوں اور پاکستان کی بدنامی کا سبب بننے والی ایک ’نام ور‘ فاحشہ کو اس کی تمام تر گندگی کے ساتھ پاکستان کی ٹی وی اسکرین پر اب بھی نہیں دکھایا جا رہا؟ کیا غیرقانونی چینلوں پر غیرقانونی اشتہارات دکھا کر روز کے کروڑوں نہیں کمائے جارہے؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج بھی کیبل نیٹ ورک غیرقانونی اور فحش چینلوں کے ذریعے سالانہ کروڑوں اور اربوں کی اپنی حرام کمائی میں سے رشوت کے طور پر متعلقہ حکام کی بھی جیبیں بھرتے ہیں اور اسی وجہ سے کارروائی محض کاغذی ہوتی ہے؟ اپنی نسلوں کو تباہ کر کے پیسہ کمانے کے نشے میں دھت ایسے کردار کیا اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچ سکیں گے؟
افسوس کہ اس معاملے پر تمام سیاسی ذمہ دار بولنے سے قاصر ہیں۔ پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم چھوڑ یں، یہاں تو اسلامی فلاحی ریاست کا نعرہ بلند کرنے والے عمران خان اور ان کی تحریکِ انصاف، میاں محمد نواز شریف اور اُن کی مسلم لیگ (ن) اور حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمن اور اُن کی جمعیت علماے اسلام اس انتہائی اہم معاملے پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔ یہ بات قابلِ ستایش ہے کہ کم از کم جماعت اسلامی نے فحاشی و عریانیت کے خلاف ایک مہم کا بھی آغاز کردیا ہے۔ توقع ہے کہ سول سوسائٹی اور کچھ وکلا حضرات میڈیا، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورک کے ذریعے پھیلائی جانے والی فحاشی و عریانیت کے خلاف اس مہم میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ چوں کہ اس سنگین معاملے کو اعلیٰ عدلیہ کے سامنے اُٹھائے جانے کے واضح اشارے مل رہے ہیں، تو ایسے میں متعلقہ حکام کاغذی کارروائی ڈالنے میں مصروف ہیں تاکہ اگر کل کو عدالت بلائے تو وہ کہہ سکیں کہ تمام ممکنہ اقدامات اُٹھائے گئے۔ درجنوں کیبل آپریٹروں کے خلاف کارروائی کی گئی اور کتنے چینلوں کو نوٹس بھیجے گئے۔ پی ٹی اے اور وزارتِ انفارمیشن ٹکنالوجی کے پاس بھی انٹرنیٹ پر فحش سائٹس کو روکنے کی کارروائی ڈالنے کے لیے کئی کاغذی ثبوت ہوں گے، چاہے حقیقت اس کے کتنے ہی برعکس کیوں نہ ہو۔
یہ کسے معلوم نہیں کہ سپریم کورٹ گذشتہ سال پی ٹی اے کو فحش سائٹس کو روکنے کا حکم دے چکی ہے، مگر ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی بہتری کے آثار نمودار نہیں ہوئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ’پیمرا‘ کو بھی پابند کیا تھا کہ کیبل پر دکھائے جانے والے غیرقانونی انڈین اور دوسرے فحش چینلوں کو بند کیا جائے، مگر پاکستان بھر میں ماسواے ایک دوشہروں کے ہرقسم کی گندگی بلاروک ٹوک دکھائی جارہی ہے۔ صوبائی حکومتیں اور خصوصاً پنجاب حکومت باقی معاملوں میں دوسروں سے بہتر ہونے کے باوجود فحش اسٹیج ڈراموں اور سینماگھروں میں دکھائی جانے والی بے ہودہ فلموں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
حال ہی میں ایک خاتون ڈاکٹر (گائناکالوجسٹ) نے جو پنجاب کے ایک انتہائی پس ماندہ علاقے میں اپنا فرض ادا کر رہی ہیں، مجھے ایک ای میل بھیجی جس میں ان کا کہنا تھا کہ: وہ ایک ایسے کرب سے گزر رہی ہیں، جس کی طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ نے لکھا کہ یہ ای میل لکھتے ہوئے مَیں انتہائی افسردہ، رنجیدہ اور بے بسی کے عالم میں ہوں، کیونکہ کچھ دیر قبل ہی میرے پاس ایک غیرشادی شدہ حاملہ بچی کو لایا گیا۔ اس بچی کی ماں اُس کا حمل ضائع کرنے کی درخواست لے کر آئی، مگر میں نے ایسا نہ کیا، جس پر اس ماں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بچی کو زہر دے کر موت کی نیند سلا دے گی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے لکھا ہے: کاش! آپ اس بچی کے چہرے اور آنکھوں پر نمایاں خوف اور مایوسی کو دیکھ سکتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ چونکہ مَیں اس لڑکی کی مدد نہیں کرسکی، اس لیے خود مجھے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہورہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسوں کا مجھے اکثر سامنا ہوتا ہے اور آئے دن غیرشادی شدہ حاملہ لڑکیاں میرے پاس آتی ہیں۔ جس علاقے سے ان کا تعلق ہے وہ انتہائی پس ماندہ اور بجلی جیسی سہولت سے بھی محروم ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ کا گلہ یہ ہے کہ: شہروں میں فحاشی و عریانیت کے خلاف جنگ کرنے والے ان پس ماندہ علاقوں میں چھوٹی چھوٹی بچیوں پر ہونے والے اس ظلم پر آواز کیوں نہیں اُٹھاتے اور اُن عوامل کو اُجاگر کیوں نہیں کرتے، جس کی وجہ سے یہ ظلم و زیادتی تیزی سے ایسے علاقوں میں پھیلتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو یہ بھی شکایت تھی کہ: حکومتیں، عدالتیں، حکام، سیاسی جماعتیں اور حتیٰ کہ میڈیا دُور افتادہ علاقوں کو کیوں بھلا بیٹھے ہیں۔ پھر مذہبی رہنما بھی ان مسائل کو نظرانداز کر رہے ہیں،کہ جیسے پاکستان کے دیہی علاقوں میں سب اچھا ہے اور وہاں اس نوعیت کے مسائل درپیش ہی نہیں۔ یہ خرابی تو شہباز شریف کے پنجاب کی ہے، جہاں فحاشی و عریانیت کا کھیل سب سے زیادہ اور بلاخوف و خطر کھیلا جا رہاہے۔

اب بھارت کی غلامی!

امریکا کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کے دوران اب تو ہندستان کی غلامی کے لیے پاکستان کے عوام کو تیار کیا جا رہا ہے۔ کیا کبھی کوئی سوچ سکتا تھا کہ شہباز شریف صاحب جیسا محب وطن اور قابل وزیراعلیٰ پنجاب، ہندستان سے آئے ہوئے کاروباری افراد کے وفد سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندستان زندہ باد کا نعرہ بھی بلند کردے گا؟ کیا کبھی پہلے کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ پاکستان کا کوئی اعلیٰ عہدے دار (ڈپٹی اٹارنی جنرل خورشید خان) بھارت کے دورے پر نئی دہلی میں ایک گوردوارہ کے باہر بیٹھ کر سیکڑوں سکھ یاتریوں کے جوتے صاف کرے گا، اور اس واقعے پر پاکستان میں کوئی نوٹس تک نہ لیا جائے گا؟ خورشید خان کا بھی کیا قصور، ہمیں تو بحیثیت قوم ہندستانیوں کے جوتے صاف کرنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ سیاست دانوں سے شکایتیں اور اُن کی نااہلی اپنی جگہ، مگر یہاں تو آرمی اور آئی ایس آئی جیسے ادارے سب سو رہے ہیں، جب کہ انڈیا ہمارے گھروں کے اندر گھس چکا ہے اور گھسا بھی ایسے کہ کوئی گولی چلی نہ توپ کا گولہ گرا، بلکہ مکمل خاموشی اور سکون کے ساتھ۔
اس خاموش یلغار نے ہمیں کس حد تک فتح کیا ہے؟ اس کا شاید کسی کو صحیح اندازہ نہیں ہے۔ ہر گھر کے افراد کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ بھارتی فلمیں دیکھ سکتے ہیں۔ انڈیا اپنا بھرپور امیج پیش کرتا ہے اور پاکستان، پاکستان کی فوج یا دوسرے اداروں کے بارے میں منفی تصویر دکھاتا ہے۔ اس کا کسی کو کوئی احساس نہیں مگر ہم سب اس پروپیگنڈا وار کا شکار ہیں۔
ہمارے سیکرٹریوں، وزرا، مشیروں اور پالیسی میکروں کا بھی یہی حال ہے۔ عوام بھی انڈین پروپیگنڈے کی اس کی زد میں ہیں۔ ’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘ والا محاورہ گئے وقتوں کی بات ہوچکی، اور اب تو انڈیا کے بارے میں ہمارا وہ تصور بن رہا ہے جو خود انڈیا ہمارے ذہنوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے، اور گذشتہ کئی برس سے بڑی کامیابی سے یہ کام کر رہا ہے۔ ہم نے ہندستان کو یہ نظریاتی جنگ لڑنے کے لیے کھلا میدان فراہم کیا ہوا ہے۔ اس حقیقت کو جان کر انتہائی مایوسی ہوئی کہ انڈین فلوں کی نمایش بھی عمومی طور پر سب سے پہلے: پی اے ایف، ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ اور ڈیفنس کے سینماگھروں میں ہوتی ہے۔ پاکستان کی فوج کے گھروں میں جب انڈین پروپیگنڈے کا راج ہوگا، جب ان کو اپنے سینماگھروں میں دیکھنے کے لیے انڈین فلمیں ملیں گی تو ’رائزنگ انڈیا‘ سے اگر ضرورت پڑگئی تو، لڑنے کا جذبہ کیسے پیدا ہوگا؟ جب عوام نظریہ پاکستان کو بھلا کر انڈین کلچر کے گرویدہ ہوجائیں گے تو پھر فوج میں بھرتی ہونے کے لیے جو ان کس جذبے سے سرشار ہوکر آئیں گے۔
جب انڈیا اتنا اچھا ہے، وہ ہمارا بھائی اور دوست ہے اور جو کچھ پچھلے ۶۵سالوں میں کہا گیا وہ سب ’جھوٹ‘ اور ’لغو‘تھا، تو پھر ہمیں فوج کی بھی کیا ضرورت! بلکہ کہیں قائداعظم محمدعلی جناح نے یہ ملک بناکر غلطی تو نہیں کردی تھی! اپنی ذمہ داریوں اور پہچان سے ہم اس قدر بے نیاز ہوجائیں گے، میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ یہ بات ذہن ماننے کے لیے تیار نہیں کہ کوئی قوم کتنی مشکل اور قربانیوں سے حاصل کی گئی اپنی شناخت اتنی آسانی سے کھونے کے لیے تیار ہے۔ ہندستان کے بارے میں کچھ لوگوں کی خوش فہمیاں اپنی جگہ، مگر آج بھی امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ہندستان ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے: بھئی انڈیا سے امن قائم کرو۔ کشمیر، سیاچن کے مسائل، بات چیت کے ذریعے ہی حل کرو۔ لیکن خدارا، اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے اپنے دامن کو تو کم از کم انڈین پروپیگنڈے سے بچا کر رکھو، ورنہ وہ وقت دُور نہیں جب ہماری زبان بھی اُردو سے ہندی میں اس خاموشی سے بدل جائے گی کہ ہمیں خود بھی احساس نہ ہوگا۔
کچھ روز قبل میاں نواز شریف صاحب سے بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت حیران و پریشان ہوگئے جب ان کے گھر آئی ہوئی ایک مہمان بچی نے ان سے کہا کہ ان کا گھر کتنا ’سندر‘ ہے۔ میاں صاحب کا کہنا تھا کہ: وہ بچی ’خیال‘ کے لفظ کو ’کھیال‘ بول رہی تھی۔ شکر ہے میاں صاحب حیران اور پریشان ہوئے ورنہ باجی، آپا تو پہلے ہی ’دیدی‘ بن چکیں۔ کچھ لوگوں نے تو بہنوئی کو بھی ’جیجاجی‘ کہنا شروع کر دیا ہے، جب کہ اب انتظار ہے کہ کب میاں بیوی کو یہاں بھی ’پتی، پتنی‘ کہا جانے لگے گا۔ یہاں تو شادی کے موقعوں پر سات پھیرے لگانے کے بارے میں بھی بچوں کے حوالے سے بات ہوتی ہے۔ اگر بحیثیت قوم ہم اس ثقافتی یلغار کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کرسکے، تو ہم یہ جنگ مکمل طور پر ہارجائیں گے، اور (اللہ نہ کرے)، امریکا کے ساتھ ساتھ بھارت کی غلامی بھی ہمارا مقدر ہوگی!
_______________
  • مضمون نگار معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ ای میل:ansar.abbasi@thenews.com.pk
  •  یہ مضمون ترجمان القرآن کے شمارہ جولائی 2012 میں شائع ہوا ہے

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی