پاکستان میں چھاتی کے سرطان میں تشویشناک حد تک اضافہ
پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے مریضوں کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چھاتی کے سرطان کے متعلق آگاہی پھیلانے والے ایک غیر سرکاری ادارے پنک ربن کے پاکستان میں قومی رابطہ کار(نیشنل کوارڈینیٹر) عمر آفتاب کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے سرطان سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ایشیا کے تمام ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال پاکستان میں نوے ہزار سے زائد خواتین اس مرض کے علاج کے لیے ہسپتالوں سے رابطہ کرتی ہیں۔ یاد رہے اس تعداد میں وہ خواتین شامل نہیں ہیں جوکسی ہسپتال نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے تشخیص اور علاج کی سہولتوں سے محروم رہتی ہیں۔ پنک ربن کی طرف سے دیئے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال چالیس ہزارعورتیں اس بیماری کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے عمر آفتاب نے بتایا کہ پاکستان میں (نو میں سے ایک) یعنی ہر نویں عورت کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہے۔ جبکہ ان کے بقول بھارت میں ہر بائیسویں عورت کو اس بیماری کے خطرے کا سامنا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کئی دیگر امراض کی طرح کینسر کے مرض کے لیے بھی الگ رجسٹری قائم نہیں ہے۔ اس لیے سرکاری طور پر اس بیماری کے حوالے سے تفصیلی اعدادوشمار میسر نہیں ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے کوئی خاص تحقیقی کام بھی نہیں ہو رہا ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ چھاتی کا سرطان کن علاقوں میں ، کن خاندانوں میں اور کن رجحانات کے تحت فروغ پا رہا ہے اور اس حوالے سے پاکستان میں کون کون سے رسک فیکٹرز اہم ہیں۔ پاکستان میں طبی ماہرین مغربی محققین کا ڈیٹا ہی استعمال کر رہے ہیں۔ حال ہی میں پنک ربن نے پاکستان میں اعلی تعلیم کے کمیشن کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت چھاتی کے سرطان کے حوالے سے مقامی طور پر محدود تحقیق کی جا سکے گی
ایک سوال کے جواب میں عمر آفتاب نے بتایا کہ چھاتی کا سرطان کینسر کی وہ واحد بیماری ہے جس کی جلد تشخیص پر صحت یابی کے امکانات نوے فی صد سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن اس مرض کے حوالے سے مناسب آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے مریض خاص طور پر خواتین اس کی علامات ظاہر ہو جانے کے باوجود ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتیں اس وجہ سے مریض کی پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔لاہور کے شوکت خانم کینسر ہسپتال میں زیر علاج صغری نامی ایک خاتون نے بتایا کہ اس کے بچے کی کہنی لگنے سے اس کی چھاتی پر ایک گلٹی سی بن گئی تھی، در حقیقت وہ کینسر کی گلٹی تھی لیکن وہ اسے ایک حادثاتی تکلیف سمجھ کر نطر انداز کرتی رہی جس سے مرض کی پیچیدگیاں بڑھ گئیں۔
شوکت خانم کینسرہسپتال میں کینسر کے مریضوں کا علاج کرنے والی ایک سینیئر کنسلٹنٹ ڈاکٹر نیلم صدیقی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انسانی خلیوں میں موجود کیمیائی مادوں کے توازن کے بگڑنے سے کینسر کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ چھاتی کے کینسر کی علامات کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی خاتون کو چھاتیوں یا اس کے ارد گرد کوئی گلٹی محسوس ہو، یا وہاں کوئی پھوڑا سا نکل آئے، یا چھاتیوں کی رنگت یا سائز میں غیرمعمولی تبدیلی کا احساس ہو تو فورا ڈاکٹر سے رابطہ کرکے اپنا میڈیکل چیک اپ کروانا چاہیے۔
مغربی معاشروں میں برسٹ کینسر کے بارے میں عوام میں شعور بیدار کرنے کے متعدد طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔چھاتی کے سرطان کی وجوہات کے حوالے سے ڈاکٹرنیلم کا کہنا تھا کہ زیادہ تر بڑی عمر کی ایسی عورتیں اس بیماری کا شکار ہو سکتی ہیں جن کے خاندانوں میں اس بیماری کے جینز پائے جاتے ہوں۔ اس کے علاوہ شعائیں لگوانے سے اور بعض ادویات کے ردعمل سے بھی اس بیماری کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر نیلم کے بقول خواتین اپنا وزن کم کرکے، متحرک طرز زندگی اختیار کرکے اور صحت بخش غذائیں استعمال کرکے بھی اس مرض کا بہتر مقابلہ کر سکتی ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنک ربن نامی غیر سرکاری تنظیم نے پاکستان میں چھاتی کے حوالے سے قومی سطح پر ایک اسکریننگ پروگرام شروع کیا ہے۔ عمر آفتاب کے مطابق تشویشناک بات یہ ہےکہ اس سکریننگ پروگرام کے ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے سرطان کا مرض غیر روایتی طور پراب چھوٹی عمر کی لڑکیوں میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا محکمہ اب صوبائی حکومتوں کے پاس چلا گیا ہے۔جہاں ابھی حالات پوری طرح سنبھل نہیں پائے ہیں۔ عمر آفتاب کا کہنا تھا۔"ہم جیسے ادارے جو منصوبہ بندی کے تحت صحت کے میدان میں کوئی مدد کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے وفاقی سطح پر قائم متعلقہ دفتر میں رابطہ کر لیتے تھے، آجکل ہم کس سے ملیں کچھ سمجھ نہین آ رہا۔"
واقعتاً یہ پاکستان میں بہت بڑا مسلہ بن چکا ہے ۔ ہماری دو خواتین رشتہ دار وفات بھی پاچکی ہیں۔.
جواب دیںحذف کریںthanks for good info.
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں