ایکسرے کے ذریعے معائنہ کم سے کم کروانا چاہیے۔ ۔نئی سائنسی تحقیق
ایکسرے کے ذریعے معائنے کا عمل بہت عام ہے۔ مثال کے طور پر 82 ملین کی آبادی پر مشتمل یورپی ملک جرمنی میں ہر سال 100 ملین ایکسرے معائنے کیے جاتے ہیں۔ایکسرے اور کمپیوٹر ٹومو گرافی ’سی ٹی اسکین‘، جس میں مختلف زاویوں سے جسم کے ڈھانچے کے مختلف حصوں کے امیجز محفوظ کیے جاتے ہیں، بہت عام معائنے تصور کیے جاتے ہیں اور اس بارے میں مریض بہت کم ہی سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ امر تعجب کا باعث نہیں کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایکسرے کے سائیڈایفیکٹس یا ضمنی اثرات براہ راست مرتب نہیں ہوتے۔ جرمن ریڈیو لوجیکل سوسائٹی کے ایگزیکیٹو بورڈ کے ایک رکن نوربرٹ ہوسٹن کے مطابق انسانی جسم کو نقصان پہنچانے کا موجب دراصل بہت تیز ریڈی ایشن یا شعاعیں بنتی ہیں۔ ان سے جلد سُرخ ہو جاتی ہے اور جلد کے جھلس جانے کے امکانات بھی قوی ہو جاتے ہیں۔ تیز ریڈی ایشن کے ذریعے ہونے والے علاج کے ضمنی اثرات کے طور پر اکثر مریضوں کے بال جھڑ جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایکسرے کے بالواسطہ اثرات زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کا دار ومدار ایکسرے کی شدت پر ہوتا ہے، اس کے ذریعے نکلنے والی شعاعیں کینسر یا سرطان کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔ جرمن ماہر نوربرٹ ہوسٹن نے ریڈی ایشن سے انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام ایکسرے کی ایک Beam یا شعاع انسانی جسم کے سیلز یا خلیوں کے جینیاتی مادے کو جلا سکتی ہےایکسرے کی شعاعوں سے بچنے کے لیے خاص قسم کے جیکٹس پہنے جاتے ہیں تاہم اس سے کوئی ٹیومر پیدا ہونے کے امکانات کافی کمزور ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ماڈرن یا جدید طرز کی ایکسرے مشینیں بہت کم مقدار میں شعاعیں خارج کرتی ہیں۔ تاہم ایکسرے کے بار بار کیے جانے سے یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ ریڈی ایشن یا مُضر شعاعوں کا اخراج انسانی جسم کو کینسر یا سرطان کی شکل میں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جرمنی کے ’فیڈرل آفس فار ریڈی ایشن پروٹیکشن‘ سے منسلک ماہر ’گُنار برکس‘ کہتے ہیں،’یہ امر نہایت ضروری ہے کہ ایکسرے کا معائنہ غیر ضروری طور پر بار بار نہ کیا جائے۔ یا ایک ایکسرے معائنے کو ممکنہ طور پر دہرایا نہ جائے۔ اس سلسلے میں مریضوں کو خود محتاط اور چوکنا رہنا چاہیے‘۔
جرمن ریڈیو لوجیکل سوسائٹی کے مطابق جرمنی میں مریض اپنی مرضی اور کسی ڈاکٹر یا ماہرکے مشورے کے بغیر ایکسرے یا سی ٹی اسکین کرواتے رہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جرمن میں محض تجربہ کار ریڈیو لوجسٹ ہی ایکسرے نہیں کرتے بلکہ دیگر طبیب بھی ایکسرے کے ذریعے معائنہ کرتے ہیں۔ جرمن ریڈیو لوجسٹ نوربرٹ ہوسٹن کا کہنا ہے کہ ہڈیوں کے امراض کے ماہرین ایکسرے کی اہلیت کی سند حاصل کر کے جسم کے چند خاص حصوں کا ایکسرے کر سکتے ہیں۔ نوربرٹ ہوسٹن نے اس امر پر زور دیا ہے کہ ایکسرے کے ذریعے کسی مرض کی تشخیص کا مشورہ طبیب یا معالج کی طرف سے آنا چاہیے اور اس اہم معائنے کو انجام دینے کے لیے کسی سند یافتہ ریڈیو لوجسٹ سے رجوع کیا جانا چاہیے۔ یعنی ڈاکٹر اور ریڈیو لوجسٹ کے باہمی مشورے اور رضامندی سے ہی ایکسرے یا سی ٹی اسکیننگ جیسے حساس ٹیسٹ کیے جانے چاہییں۔
جرمنی کے ’فیڈرل آفس فار ریڈی ایشن پروٹیکشن‘ نے طبی معائنوں میں کمپیوٹر ٹومو گرافی کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں امراض قلب کے معائنے کے لیے بروئے کار لایا جانے والا ٹیسٹ ’سی ٹی اسکیننگ‘ نہایت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس خاص سی ٹی اسکین سے بہت تیز ریڈی ایشن یا شعاعیں خارج ہوتی ہیں۔ دل کے مرض کی تشخیص کے لیے یہ ٹیسٹ کارآمد ثابت نہیں ہوا ہے۔ مریضوں کو چاہیے کہ اس سے پرہیز کریں۔
very nice info.
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں