گھر میں کتے پالنا جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا ضرورت گھر میں کتے پالنے کی ممانعت فرمائی ہے۔مگر کس قدردکھ کی بات ہے کہ یورپ کی تقلید میں ہمارے ہاں بھی امیر گھرانوں میں کتوں سے کھیلنا اور شوقیہ طور پر گھروں پر پالنا ایک فیشن اور سٹیٹس سمبل بنتا جارہاہے ۔پچھلے دنوں پاکستانی چینلز پر ایک موبائل کمپنی کی جانب سے ایک ایڈ دی جارہی تھی، جس میں ایک معصوم بچی ایم ایس ایم کے ذریعے اپنے والد سے کتے کے ایک بچے کو گھر میں لانے کی فرمائش کرتی ہے۔اسلام میں کتے رکھنابالکل ہی منع نہیں کیاگیا ہے بلکہ اس کی محدود اجازت بھی دی گئی ہے چناچہ جو کتے کسی ضرورت سے پالے جائیں مثلاً شکاری کتے یا کھیت اور مویشیوں وغیرہ کی حفاظت کرنے والے کتے تو وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں ۔
مشاہدے کی بات ہے کہ لوگ کتوں پر تو خوب خرچ کرتے ہیں لیکن انسان کی اولادپر خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتے ہیں اورمغرب میں توایسے بھی لوگ ہیں جو مرتے وقت اپنی جائیداد کتوں کے نام وقف کردیتے ہیں جبکہ وہ اپنے اقرباسے بے رخی برتتے ہیں اور اپنے پڑوسی اوربھائی کو بھول جاتے ہیں ۔مسلمان کے گھر میں اگر کتا ہوتو اس بات کا احتمال رہتاہے کہ وہ برتنوں وغیرہ کوچاٹ کر نجس بنا کر رکھ دے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
''جب کتا کسی کے برتن میں منہ ڈالے تو اسے چاہیے کہ برتن کو سات مرتبہ دھوئے ۔ان میں سے ایک
مرتبہ مٹی لگا کر دھولے۔'' [1]
ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' میرے پاس جبریل تشریف لائے اور کہا : گزشتہ شب میں آیا تھا لیکن گھر میں داخل نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ دروازہ پر مجسمہ تھا اور گھر میں تصویروں والا پردہ تھا اور گھر میں کتا بھی تھا۔لہذا جو مجسمہ گھر میں ہے اس کا سر آپ اس طرح کٹوادیجئے کہ وہ درخت کی شکل میں رہ جائے اور پردہ پھاڑ کر تکیے بنالیجئے جن کو پامال کیا جائے اور کتے کو گھر سے باہر نکلوادیجئے۔[2]
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی درج ذیل الفاظ میں مذکور ہے۔
'' جو شخص کتا پالتا ہے اس کا اجر روزانہ ایک قیراط کم ہوجاتاہے الا یہ کہ شکار یا کھیتی یا مویشیوں کے لیے پالا جائے ۔''
ان احادیث کی رو سے گھر میں کتا پالنے کی ممانعت واضح الفا ظ میں موجود ہے مگر اس ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کتوں کے ساتھ سنگدلانہ برتاؤ کریں اور ان کو ختم کردیاجائے۔کیونکہ سنن ابی داؤدکی ایک حدیث میں نبی مہرباں صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشا د گرامی موجود ہے کہ
'' اگر کتے بھی ایک امت نہ ہوتے تو میں انہیں قتل کرنے کا حکم دیتا ''۔
چناچہ کتوں کے متعلق اسلامی احکامات بیان کرنے کے بعد یہ مناسب معلوم ہوتاہے کہ کتوں کے گھر میں پالنے کے بارے میں جدید سائنسی معلومات سے بھی عوام الناس کو آگاہ کردیاجائے جس سے جہاں ایک عام مسلمان کااپنے دین پر ایمان مضبو ط ہوگا وہیں ایک غیر مسلم کے دل میں بھی دین اسلام کے بر حق ہونے کے بارے میں ایک مثبت فکر پیدا ہوگی۔انشاء اللہ
علامہ یوسف القرضاوی نے ان سائنسی معلومات کو اپنی کتا ب ''اسلام میں حلال وحرام ''میں ایک جرمن اسکالر سے قلمبند کیا ہے ، اس کا یہ مضمون ایک جرمن رسالے میں شائع ہوا تھا۔اس مضمون میں ان اہم خطرات کو بیان کیا گیا ہے جو کتے کو پالنے یا ا س کےقریب رہنے کی صورت میں لاحق ہوتے ہیں۔چناچہ وہ لکھتا ہے :
گزشتہ چند برسوںمیں لوگوں کے اندر کتا پالنے کا شوق کافی بڑھ گیا ہے،جس کے پیش نظر ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ لوگوں کی توجہ ان خطرات کی طرف مبذول کرائی جائے جو اس سے پیدا ہوتے ہیں خصوصاً جبکہ لوگ کتا پالنے ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ خوش طبعی بھی کرنے لگتے ہیں اور اس کو چومتے بھی ہیں،نیز اس کو اس طرح چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ چھوٹوں اوربڑوں کے ہاتھ چاٹ لے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بچا ہوا کھانا کتوں کے آگے اپنے کھانے کی پلیٹوں میں رکھ دیاجاتاہے ۔علاوہ ازیں یہ عادتیں ایسی معیوب ہیں کہ ذوق سلیم ان کو قبول نہیں کرتا اور یہ شائستگی کے خلاف ہیں ۔مزید برآں یہ صحت ونظافت کے اصول کے بھی منافی ہے۔
طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو کتے کو پالنے اوراس کے ساتھ خوش طبعی کرنے سے جو خطرات انسان کی صحت اور اس کی زندگی کو لاحق ہوتے ہیں ان کو معمولی خیال کرنا صحیح نہیں ہے ۔بہت سے لوگوں کو اپنی نادانی کی بھاری قیمت اد اکرنی پڑی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کتوں کے جسم پر ایسے جراثیم ہوتے ہیں جو دائمی اور لاعلاج امراض کا سبب بنتے ہیں بلکہ کتنے ہی لوگ اس مرض میں مبتلا ہوکر اپنی جان سے ہاتھ دو چکے ہیں۔اس جرثومہ کی شکل فیتہ کی ہوتی ہے اوریہ انسان کے جسم پر پھنسی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں۔گو اس قسم کے جراثیم مویشیوں اور خاص طورسے سؤروں کے جسم پر بھی پائے جاتے ہیں لیکن نشوونما کی پوری صلاحیت رکھنے والے جراثیم صرف کتوں پر ہوتے ہیں۔
یہ جراثیم گیدڑ اور بھیڑئیے کے جسم پر بھی ہوتے ہیں لیکن بلیوں کے جسم پر شاذ ہی ہوتے ہیں ۔یہ جراثیم دوسرے فیتہ والے جراثیم سے مختلف ہوتے ہیں اور اتنے باریک ہوتے ہیں کہ دکھائی دینا مشکل ہے ،ان کے بارے میں گزشتہ چند سالوں ہی میں کچھ معلومات ہوسکی ہیں۔''
مقالہ نگا ر آگے لکھتاہے :
'' یہ جراثیم انسان کے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور وہاںمختلف شکلوںمیں ظاہر ہوتے ہیں ۔یہ اکثر پھیپھڑے ، عضلات ،تلی ،گردہ اور سر کے اندرونی حصہ میں داخل ہوتے ہیں ۔ان کی شکل بہت کچھ بدل جاتی ہے،یہاں تک کہ خصوصی ماہرین کے لیے بھی ان کی شناخت مشکل ہو جاتی ہے۔بہرحال اس سے جو زخم پیدا ہوتاہے خواہ جسم کے کسی حصہ میں پیداہو ،صحت کے لیے سخت مضر ہے ۔ان جراثیم کا علاج اب تک دریافت نہیں کیاجاسکا ہے ۔ان وجوہ سے ضروری ہے کہ ہم تمام ممکنہ وسائل کے ساتھ اس لا علاج بیماری کا مقابلہ کریں اور انسان کو اس کے خطرات سے بچائیں۔
جرمن ڈاکٹر نوللر کا بیان ہے کہ کتے کے جراثیم سے انسان پر جو زخم ابھر آتے ہیں ان کی تعداد ایک فی صد سے کسی طرح کم نہیں ہے اور بعض ممالک میں تو بارہ فیصد تک اس میں مبتلا پائے جاتے ہیں.......اس مرض کا مقابلہ کرنے کی بہترین صورت یہ ہے کہ ان جراثیم کو کتوں تک ہی رہنے دیاجائے اورانہیں پھیلنے نہ دیاجائے........
اگر انسان اپنی صحت کو محفوظ اور اپنی زندگی کو باقی رکھنا چاہتا ہے تو اسے کتوں کے ساتھ خوش طبعی نہیں کرناچاہیے ، انہیں قریب آنے سے روکناچاہیے ،بچوں کو ان کے ساتھ گھل مل جانے سے بازرکھناچاہیے۔کتوں کوہاتھ چاٹنے کے لیے نہیں چھوڑ دیناچاہیے اورنہ ان کو بچوں کے کھیل کود اورتفریح کے مقامات میں رہنے اور وہاں گندگی پھیلانے کا موقع دیناچاہیے ۔لیکن بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ کتوں کی بڑی تعداد بچوں کی ورزش گاہوں میں پائی جاتی ہے......
اسی طرح ان کے کھانے کے برتن الگ ہونے چاہئیں۔انسان اپنے کھانے کے لیے جو پلیٹیں وغیرہ استعمال کرتاہے ان کو کتوں کے آگے چاٹنے کے لیے نہ ڈال دیاجائے۔غرضیکہ پوری احتیاط سے کام لے کر ان کو کھانے پینے کی تمام چیزوں سے دور رکھا جائے''۔ [3]
قارئین کرام سے گزار ش ہے کہ وہ ان معلومات کو بغور پڑھیں اور پھر ان کا موازنہ نبی مہرباں ،آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلمکے ان فرمودات کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں کہ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں کتے پالنے سے منع فرمایا ہے۔مقام غور ہے کہ کیا اس زمانے میں کوئی جدید لیبارٹری موجود تھی کہ جہاں سے حاصل ہونے والی معلومات کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو ان باتوں کی تلقین فرمائی ؟۔یقیناایسی بات نہیں تھی ،تو پھر ان نصیحتوں کا مأخذکیاتھا؟ہمارا ایمان ہے کہ وہ مأخذ !رب ذوالجلال کی ذات بابرکات ہے ۔اس کاثبوت قرآن مجید کی سورة النجم کی اس آیتِ مبارکہ میں ملتاہے :کہ '' وہ (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم)اپنی خواہش ِ نفس سے نہیں بولتا ۔یہ تو ایک وحی ہے جو اس کی طرف کی جاتی ہے ۔''اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن و حدیث کو سمجھنے ،ان پر ایمان رکھنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
................................................................
ایک تبصرہ شائع کریں