دماغ کے اندرقوتِ گویّائی کا مرکزاور قرآن
کیا انسانی دماغ کے افعال اور
کارکردگی کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں انسان کو وہ تمام
معلومات حاصل تھیں جو آج ہمیں جدید سائنس کی بدولت حاصل ہیں؟ مندرجہ بالا سوال کا
جواب صرف ''نہیں '' ہے۔ انسانی دماغ کی ساخت 'اس کے مختلف حصوں کے افعال جیسے
دیکھنا،سننا، جذبات کا اظہار ،اچھی یا بری بات کا سوچنا ،اس کی منصوبہ بندی کرنا
اور پھر ا س پر عمل درآمد کرواناوغیرہ۔ ا ن سب افعال کا علم انسان کو آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً 1000 سال بعد معلوم ہونا شروع ہوا اور آج ہم
اُن معلومات کا ایک ذخیرہ رکھتے ہیں جن کا نزول ِقرآن کے وقت تصور تک نہیں کیا جا
سکتاتھا۔ حال ہی میں جدید سائنس نے معلوم کیا ہے کہ انسانی دماغ کے کئی ایک حصے
ہیں اور ہر حصے کا اپنا الگ الگ فعل ہے۔ جیسے سننے کا حصہ ،دیکھنے کا حصہ ،جذبات
کے پید اہونے اور ان کی ادائیگی کا حصہ اوران سب سمیت پورے جسم کے تما م اعضا کو
احکا م جاری کرنے والا اورا ن پر عمل درآمد کروانے والا حصہ ،سب الگ الگ شعبوں میں
دماغ کے اندرخالقِ کائنات کی طرف سے دی گئی ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں۔ آئیے اب ہم
قرآن مجید اور جدید سائنس کی روشنی میںانسانی جسم کے اس اہم حصے کے پوشیدہ رازوں
کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو انسان کے اندر شعور اورتہذیب پیدا کرنے کا واحد
منبع ہے۔ رب کائنات ارشاد فرماتا ہے:
(وَجَعَلَ
لَکُمُ السَّمْعَ وَالْابْصَارَوَالْاَفْئِدَةَ ط)
(اور تمہارے کان ،آنکھیں اور دل
بنائے - ( 1)
دوسری جگہ ارشاد ہوتاہے:
(وَھُوَالَّذِیْ
اَنْشَاَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَوَالْاَفْئِدَةَ ط قَلِیْلًا مَّا
تَشْکُرُوْنَ)
'' وہی توہے جس نے تمہیں کان ،آنکھیں
اوردل عطاکیے (تاکہ تم سنو ،دیکھواور غورکرو)مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو
''(2 )
تیسری جگہ ارشاد ربانی ہے :
(اِنّاخَلَقْنَا
الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ ق نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیْعًا م
بَصِیْرًا )
'' ہم نے انسان کو (مرد اور عورت کے )
ایک مخلوط نطفے سے پید اکیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے
سننے اور دیکھنے والا بنایا ''( 3)
ان تمام آیات میں سننے کی حس کو
دیکھنے کی حس سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ یعنی کانوں کا ذکر آنکھوں سے پہلے
ہے۔چنانچہ بعض جدید مفسرین نے غلط فہمی سے دعویٰ کیا ہے کہ قرآن کانوں کو آنکھوں
پر فضیلت دیتاہے کیونکہ قرآن میں ہر مقام پر کانوں کا ذکر آنکھوں سے پہلے کیا گیا
ہے اوراس فضیلت کی وجوہات انہوں نے درج ذیل بیان کی ہیں:
٭ جب بچہ پیداہوتاہے تو سب سے پہلے اس
کی سماعت بیدار ہوتی ہے اور اس کی سننے کی حس ، دیکھنے کی حس سے پہلے کام کرنا
شروع کر دیتی ہے۔تجربے کے طور پر نومولود کے پاس اگر کوئی ڈراؤنی یا عجیب سی آواز
پیدا کی جائے تو وہ ڈر جائے گا مگر کسی ڈراؤنی چیز کو دکھانے سے وہ نہیں ڈرے گا
کیونکہ نومولود کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور وہ اس وقت دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔
٭ کانوں کو آنکھوں پر اس وجہ سے بھی
فوقیت حاصل ہے کہ کان کبھی بند نہیں ہوتے،یہ ہر وقت کام کے لیے تیار رہتے ہیں اور
مسلسل کام کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ آنکھیں سوتے ہوئے بند ہوتی ہیں اور اس وقت ان سے
کام نہیں لیا جاتا۔یعنی کان آنکھوں کے مقابلہ میں زیادہ کام کرتے ہیں۔
٭ اس کے علاوہ آنکھوں کو کسی منظر یا
چیز کو دیکھنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ روشنی کی شعاعیں جب تک کسی چیز سے
ٹکرا کر منعکس نہ ہوں ،آنکھوں کو وہ چیز نظر نہیں آسکتی۔ جبکہ کانوں کو ایسے کسی
ذریعہ کی ضرورت نہیں ہے، وہ اندھیرے میں بھی آوازوں کو سن سکتا ہے۔
٭ کان ،انسان اور دنیا کے درمیان
رابطے کا کام کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے بھی جب اصحاب کہف والوں کو 309 سال تک سلایا
تھا تو ان کے کانوں کو بند کردیا تھا کہ جس سے وہ باہر کی آوازیں سن کر بیدار ہو
سکتے تھے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے۔
(فَضَرَبْنَا عَلٰی
اٰذَانِھِمْ فِی الْکَھْفِ سِنِیْنَ عَدَدًا)
'' پس ہم نے ان کے کانوں پر گنتی کے
کئی سال تک اسی غار میں پردے
ڈال دیے''( 4)
یقینا مندرجہ بالا تمام باتیں اپنی
جگہ درست ہیں مگر شاید ان کو معلو م نہیں کہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر آنکھوں
کا ذکر کانوں سے پہلے بھی کیا گیا ہے۔ مثلاً
(اَمْ لَھُمْ اَعْیُن
یُّبْصِرُوْنِ بِھَآ ز اَمْ لَھُمْ اٰذَان یَّسْمَعُوْنَ بِھَا ط)
''کیا یہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے
دیکھیں؟کیا یہ کان رکھتے ہیں
کہ ان سے سنیں ؟''( 5)
(وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ
وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ)
''آنکھ کے بدلے آنکھ ،ناک کے بدلے
ناک،کان کے بدلے کان،دانت کے بدلے دانت''(6)
چنانچہ جیسا کہ آپ نے نوٹ کیا کہ
مندرجہ بالا آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے آنکھوںکا ذکر کانوں سے پہلے کیا ہے جبکہ
پچھلی آیا ت میں کانوںکا ذکر آنکھوں سے پہلے موجود ہے۔ لہٰذا یہ بات درست معلوم
نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے کانوں کو آنکھوں پر فضیلت بخشی ہے بلکہ بات کچھ اور
ہے جس کا انکشا ف اللہ تعالیٰ نے سورة البقرہ کی آیت کریمہ میں کیا ہے۔ (واللہ
اعلم ) ار شاد باری تعالیٰ ہے:
( صُمٌّ م
بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُوْن )
''ایسے لوگ بہرے ہیں،گونگے ہیں،اندھے
ہیں۔یہ (ایمان لانے کی طرف) لوٹ کر نہیں آئیں گے''(7)
اگرچہ اس آیت کریمہ کے مخاطب کفارمکہ
تھے کہ جن کے کان 'حق بات سننے کے لیے بہرے ، زبانیں' حق گوئی کے لیے گونگی اور
آنکھیں 'حق بینی کے لیے اندھی تھیں مگر اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی اعضا کی
ترتیب میں ایک معجزانہ پہلو پنہاں ہے جس کا ہم جدید سائنس کی روشنی میں جائزہ لیتے
ہیں۔
سائنس دانو ں نے حال ہی میں معلوم کیا
ہے کہ انسان کے دماغ میں ایک حصہ ایساہے جو صرف آوازوں کو محسوس کرتا اور ان کو
ریکارڈ کرتا ہے اور پھر انہی کے مطابق ردعمل ظاہر کرتاہے۔ یہ حصہ مرکز سماعت
کہلاتاہے۔ اسی طرح ایک حصہ بصارت کا ہے جو مرئی چیزوں کو محسوس کرتا اوردیکھتاہے
اورپھر انہی کے مطابق ردعمل بھی ظا ہر کرتاہے۔ علاوہ ازیں 'آلہ سماعت کا مرکز کان
ہیں جو آوازوںکو ریکار ڈ کرتے ہیں'جبکہ آلہ بصارت کا مرکز آنکھیں ہیں جو اشکال کو
قبول کرتی ہیں۔ اگرچہ انسان کے سر میں کانوں کی نسبت 'آنکھیں اگلے حصے میں واقع
ہیں مگر درحقیقت انسان کے دماغ کے اندر سننے والا حصہ آگے ہے جبکہ دیکھنے والا
مرکز یا حصہ سر کے پچھلے حصے میں واقع ہے۔ ان دونو ں حصوں کے درمیان ایک اور حصہ
پایا جاتا ہے جس کا نام " Fornix" ہے اور اسے "Eloquence Zone"
بھی کہا جاتاہے۔ جب سننے والا مرکز 'دیکھنے والے مرکز سے ملتا ہے تو اسی دوران
درمیان والے حصے میں دیکھی اور محسوس کی جانے والی چیز کے متعلق قوت ِگویائی پیدا
ہوتی ہے اور اسی حصے کی بدولت انسان اپنی زبان سے الفاظ ادا کرتاہے۔ یعنی یہ حصہ
قوت گویائی کا مرکز ہے۔ ( 8 ) چنانچہ مندرجہ بالا آیت میں بیان کی گئی اعضا کی
ترتیب 'جدید سائنسی معلومات کے عین مطابق ہے۔
حواشی
( 1)۔ السجدہ ، 32-9 (2 )۔
المومنون،23-78 ( 3)۔ الدھر ، 76-2 ( 4) ۔ الکہف، 18:11 (5)۔ الاعراف ، 7:195 ( 6)
۔المائدہ ، 5:45 ( 7)۔ البقرہ ، 2:18 ( 8) ۔ http://www.quran-m.com/firas/en1/index.php?option=com_content&view=article&id=178:physique-of-the-human-brain-in-the-light-of-the-holy-quraan&catid=38:human&Itemid=94
بہت خوب۔ بہت اچھی معلومات فراہم کی ہیں آپ نے ۔ بہت بہت شکریہ
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں