پودوں اورپھلوں میں نر اور مادہ کا فرق
پہلے وقتوں میں بنی نوع انسان نہیں جانتا تھا کہ پودوں اورپھلوں میں بھی نر اور مادہ کا فرق پایا جاتا ہے۔ علم نباتات نے آج ہمیں بتایا ہے کہ ہر پودے اور پھل میں نر او رمادہ کی جنس پائی جاتی ہے۔یہاں تک کہ یک جنسی پودے میں بھی نمایا ں طورپر نر اور مادہ کا فرق پا یا جاتا ہے۔اس چیز کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیا ت میں بیان کیاہے:
(وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءََ ط فَاَخْرَجْنَا بِہ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰی)
'' او راوپر سے پانی برسایا او راس بارش سے پودوں میں سے جوڑے بنائے جو ایک دوسرے سے جدا جدا ہیں ''(1)
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتاہے:
(وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فَیْھَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ ط اِنَّ فَیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ)
''اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیداکیے ہیں اور وہی دن پر رات طاری کرتاہے۔ ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں'' (2)
تیسرے مقام پر فرمان باری تعالیٰ نازل ہوتا ہے:
(وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ)
'' اورہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کردیے شاید تم (ان سے ) سبق حا صل کرو''(3)
چوتھے مقام پر اللہ تعالیٰ اس حقیقت کا اظہار ان الفاظ سے فرماتاہے:
(سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ )
''پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی بناتات میں سے ہوں یا خود اِن کی اپنی جنس (یعنی نوع ِانسانی )میں سے یا اُن اشیا میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں ''(4)
مولانا عبدالرحمان کیلانی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ '' زوج کا لفظ عربی میں تین معنوں میں آتا ہے:
(1)متضاد اشیا جیسے دن اور رات ،دھوپ اور سایہ ،روشنی اور تاریکی ،سیا ہی اور سفیدی ،خوشی اور رنج ،خوشحالی اور تنگدستی وغیرہ۔
(2)ہم مثل اشیا کے لیے جیسے پاؤں کے دونوں جوتے ایک دوسرے کا زوج ہیں۔ اسی طرح ہر دور کے مشرک ایک دوسرے کا زوج ہیں۔ ایک ہی نوعیت کے مجرم ایک دوسرے کا زوج ہیں۔
(3)نر ومادہ کے لیے مثلاًخاوند بیوی کا زوج ہے،بیوی خاوند کی زوج ہے۔ ہر نر مادہ کا زوج ہے اور ہر مادہ نر کا زوج ہے۔اور اس آیت میں غالباًاسی قسم کے زوج مراد ہیں۔جانداروں میں ایک دوسرے کا زوج تو سب کے مشاہدہ میں آچکا ہے۔ نبا تات میں بھی یہ سلسلہ قائم ہے۔ باربردار ہوائیں نر درختوں کا تخم مادہ درختوں پر ڈال دیتی ہیں تو تب ہی ان میں پھل لگتا اور پکتا ہے اورجدید تحقیق کے مطابق یہ سلسلہ جمادات میں بھی پایا جاتا ہے۔بجلی کا مثبت اورمنفی ہونا یا ایک حقیر سے ذرہ (یعنی ایٹم) میں الیکٹرون اور پروٹون کا مثبت اورمنفی ہونا انسان کے علم میں آچکا ہے۔ مقناطیس میں بھی مثبت اورمنفی سرے ہوتے ہیں۔اورجمادات تو کیا ہر چیز ذرات ہی کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس نر ومادہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ چلایا کہ ان دونوں کے ملاپ سے ایک تیسر ی چیز وجو د میں آتی ہے جس میں بعض دفعہ تو اصل نر اورمادہ کے کچھ کچھ خواص موجود ہوتے ہیں اوربعض دفعہ یہ تیسری چیز ایسی چیز پیدا ہوتی ہے جس کے خواص پہلی دونوں چیزوں سے بالکل جداگانہ ہوتے ہیں اور اسی چیز کا نام کیمیا یا کیمسٹری ہے۔انسان کاعلم جس حد تک پہنچ چکا ہے وہ بہرحال محدود ہے۔جبکہ وحی الٰہی پورا علم ہے جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے جوڑے پیداکیے ہیں اوران میں غور کرنے سے انسان کو اللہ کی قدرت کاملہ سے متعلق بہت سے سبق ملتے اوراس کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔(5)
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عالم نباتات میں افزائش نسل کے دو طریقے ہیں'ایک جنسی دوسرا غیر جنسی۔ ان میں صرف پہلا طریقہ ایساہے جو افزائش نسل کی اصطلاح کا فی الحقیقت مستحق ہے کیونکہ اسی سے ایک ایسے حیاتیاتی عمل کا تعین ہوتاہے جس کا مقصد اس پودے کے مقابلہ میں جس سے یہ پیدا ہواہے ایک جدید منفرد وجو دکا اظہار ہے۔
غیر جنسی افزائش نسل بالکل سادہ طریقہ پر تعداد میں اضافہ کا نام ہے۔ یہ ایک نامیاتی وجود کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوتاہے جو اصل پودے سے جدا ہو گیا ہو اور اس طریقہ سے ترقی پاگیاہو کہ وہ پھر اسی پودے کے مطابق ہو جائے جس سے وہ نکلاتھا۔ مونڈ اورمینگنز کے نزدیک یہ بالیدگی کی ایک مخصوص کیفیت ہے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال قلم لیناہے۔ کسی پودے سے قلم لے کر ا س کو موزوں پانی میں نم مٹی کے اندرلگادیاجاتاہے اور نئی جڑیں نکل آنے سے وہ پھر جم جا تاہے۔ بعض پودوں کے نامیاتی اجزا خصوصیت سے اسی مقصد کے لیے وضع ہوتے ہیں۔لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں جن میں کلے پھوٹتے ہیں اور ان کاعمل وہی تخم جیسا ہوتاہے (یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تخم جنسی افزائش نسل کے عمل کے نتائج ہیں)۔
عالم نباتات میں جنسی افزائش نسل ایک ہی پودے پر نر اورمادہ کے ملاپ سے جنسی تشکیل کے ذریعے عمل میں آتی ہے یا جدا گانہ پودوں پر ہوا کے ذریعے وقوع پذیرہوتی ہے۔ اسی بات کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا ہے۔
ایک اور آیت کریمہ میں ارشادہوتاہے:
( فَاَنْبَتْناَ فِیْھَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ)
''پس ہم نے (زمین میں)ہر قسم کے نفیس جوڑے اگادئیے''(6)
ایک اور مقام پر فرمایا :
( وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیْھَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ )
'' اوراس میں ہرقسم کے پھلوں کے جوڑے دوہرے دوہرے پیداکردیے ہیں''(7)
ہمیں معلوم ہے کہ پھل ان اعلیٰ درجہ کے پودوں کی افزائش نسل کے عمل میں آخری حاصل ہے جن کا نظام انتہائی ترقی یافتہ اورپیچیدہ ہے۔ پھل سے قبل کا درجہ پھول کاہے جس میں نر اور ماد ہ دونوں کے اعضا (حاصل زر اوربیضہ) ہوتے ہیں۔آخر الذکر میں اگر ایک مرتبہ تخم اُگ گیا تو وہ گویا بار ور ہوجاتاہے جو اپنی باری سے بڑھتااور تخم پیدا کرتاہے۔ لہٰذا تمام پھل نرا ورمادہ کے اعضا کے وجود پر دلالت کرتے ہیں،قرآن میں بیان کردہ آیت کا یہی مفہوم ہے۔
تحقیق سے معلو م ہو ا ہے کہ بعض اقسام میں غیر بارور پھولوں سے بھی پھل پیداہوسکتاہے مثلاً کیلا،کئی قسم کے انناس ،انجیر ،سنترے اورانگور'اس کے باوجود وہ ان پودوں سے حاصل ہو سکتے ہیں جن میں واضح طورپر جنسی خصوصیات ہوتی ہیں۔
افزائش نسل کے عمل کی آخری شکل تخم کے نمونہ کے ساتھ اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب ایک دفعہ اس کا بیرونی خول پھٹ جاتاہے (بعض اوقات یہ تخم ایک گٹھلی میں بندہوتاہے)۔اس طرح پھٹنے سے جڑیں باہر نکل آتی ہیں جو مٹی سے وہ تمام چیزیں جذب کرلیتی ہیں جو پودے کی سست رفتار زندگی کے لیے ایک تخم کی حیثیت سے ضروری ہوتی ہیں جب کہ یہ تخم بڑھتا اورایک نئے پودے کو جنم دیتاہے۔
قرآ ن مجید کی ایک آیت نمو کے اس عمل کو اس طرح بیا ن کرتی ہے:
(اِنَ اللّٰہَ فَالِقَ اْلَحَبِّ وَالنَّوٰی) ط )
'' بے شک اللہ تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانہ کو اور گٹھلیوں کو' (8)
قرآن کریم اکثر عالم نباتات میں ایک جوڑے کے ان اجزائے ترکیبی کے وجود کا اظہار کرتاہے اورایک عمومی سلسلہ احکام کے تحت غیر مفصل طورپر ایک جوڑے (زوج)کا تصورپیش کردیتاہے۔
ایک اور جگہ فرمان الٰہی ہے:
(سُبْحَانَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِھِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ)
'' پاک ہے وہ ذات جس نے ہرچیز کے جوڑے پیداکیے اور خواہ خو د ان کے نفوس ہوں خواہ وہ چیزیں ہوں جنہیں یہ جانتے بھی نہیں'' (9)
ان اشیا کے معنوں کے متعلق جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ نہیں جانتے تھے بہت سے مفروضے قائم کیے جاسکتے ہیں۔آج ہم ان چیزوں کے ڈھانچوں یا مزدوج عملوں کے مابین امتیاز کرسکتے ہیں جو ذی روح اور غیر ذی روح اشیا میں بے انتہا چھوٹی چھوٹی چیزوں سے لے کر بے حد بڑی چیزوں تک چلی گئی ہیں۔اصل نکتہ جوان واضح طورپر بیان کردہ تصورات کو یاد رکھنے اورایک مرتبہ پھر ذہن نشین کرنے کا ہے وہ یہ ہے کہ وہ جدید سائنس سے کلی طورپر مطابقت رکھتے ہیں کہ نہیں۔(10)
حواشی
(1)۔ طہ،20:53
(2)۔ الرعد،13:03
(3)۔ الذاریات، 51:49
(4)۔ یٰس۔36:36
(5)۔تیسیرالقرآن ،جلد چہارم، الذاریات ،حاشیہ 43
(6)۔ لقمان ، 31:10
(7)۔ الرعد۔ 13:03
(8)۔ الانعام ۔ 06:95
(9)۔ یٰس ۔ 36:36
(10)۔بائیبل 'قرآن اورسائنس از مورس بوکائیے ۔ صفحہ 229-231
ایک تبصرہ شائع کریں