لوہا زمین پر پایا جانے والا عنصر نہیں ہے
لو ہا بنی نوع انسان کے لیے ایک اہم دھا ت رہا ہے۔ قرا ن مجید میں لوہے کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے:
(وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْس شَدِیْد وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ)
''…اورلو ہا اتاراجس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں ''۔(1)
تما م مفسرین نے آیت میں لوہے کے لیے ''اتارا'' کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہونے کے معانی لیے ہیں۔ چناچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں
''پھر فرماتاہے ہم نے منکرین حق کی سرکوبی کے لیے لوہا بنایا ہے یعنی اول تو کتاب و رسول اور حق سے حجت قائم کی پھر ٹیڑھے دل والوں کی کجی نکالنے کے لیے لوہے کو پیدا کردیا کہ اس سے ہتھیار بنیں اور اللہ کے دوست حضرات اللہ تعالیٰ کے دشمن کے دل کا کانٹا نکال دیں(تفسیرابن کثیر)۔
مولانا عبدالرحمن کیلانی اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں ۔
'' لوہا اگرچہ زمین کے اندر کانوں سے نکلتاہے تاہم اسے نازل کرنے سے تعبیر کیا جیساکہ میزان کو نازل کرنے سے تعبیر کیا ہے ۔اس سے مرادا ن چیزوں کو پیداکرنا اور وجود میں لانا اور اجمالاً تمام اشیاء ہی اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں ۔(تیسیر القرآن ۔ جلد چہارم)
مولانا مودودی کا بھی اس آیت کے حوالے سے یہی مؤقف ہے ۔آپ کے الفاظ ہیں:
''لوہا اتارنے کا مطلب زمین میں لوہا پیداکرناہے جیساکہ ایک دوسری جگہ قرآن میں فرمایا وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمَانِیَةَ اَزْوَاجٍ (الزمر)۔ اس نے تمہارے لیے مویشیوں کی قسم کے آٹھ نر ومادہ اتارے''۔چونکہ زمین میں جو کچھ پایاجاتاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں آیاہے خود بخود نہیں بن گیاہے اس لیے ان کے پیداکیے جانے کوقرآن مجید میں نازل کرنے سے تعبیر کیا گیاہے۔(تفہیم القرآن ،جلد پنجم ،صفحہ 322 )
لیکن آج سائنس کی ترقی نے اس آیت کے مفہوم میں حیرت انگیز اضافہ فرمادیاہے اور جب ہم اس کے لغوی معنوں ''طبعی طورپر آسمان سے اتارا''.....پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں ایک بے حد اہم سائنسی معجزے کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جدید فلکیا تی محققین نے انکشاف کیاہے کہ ہماری دنیا میں پایا جانے والا لوہا بیرونی خلا کے عظیم ستاروں سے آیا ہے۔
کائنات میں پائی جانے والی بھاری دھاتیں بڑے ستاروں کے نیوکلئیس (Nucleus) میں پیدا ہوتی ہیں تاہم ہمارے شمسی نظام کے اندر از خود لوہا پیدا کرنے کے لیے موزوں ڈھانچہ نہیں ہے۔ یہ صرف سورج سے بہت بڑے سائزکے ستاروں کے اندرپیداہو سکتاہے۔ جن میں درجہ حرارت کروڑوں درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتاہے۔ جب کسی ستارے میں بننے والے لوہے کی مقدار ایک خاص حد سے متجاوز ہو جائے تو وہ اسے برداشت نہیں کرسکتا او ر ایک دھماکے کے ساتھ ''نوا''(Nova)یا ''سپر نوا''(Super Nova)خارج کرتاہے جو ایک قسم کے شہابیے (Meteorites)ہوتے ہیں۔ان کی بہت بڑی تعداد خلا میں پھیل جاتی ہے۔ یہ اس وقت تک حرکت کرتے رہتے ہیں جب تک کسی جرمِ فلکی (Celestial Body)کی قوت ِجاذبہ انہیں اپنی طرف کھینچ نہ لے۔
اس سے پتہ چلتاہے کہ لوہا زمین پر تشکیل نہیں پایا بلکہ ستاروں کے پھٹنے کے عمل سے شہابیوں کی صورت میں''زمین پر اتارا گیا ہے ''بالکل اسی طرح جیسے متذکرہ آیت میں بیان کیاگیاہے۔ اب یہ بات واضح ہے کہ اس حقیقت کا سائنسی طور پر ساتویں صدی میںنزول ِقرآن کے وقت ادراک نہیں ہو سکتاتھا۔ (2)
پروفیسر آرم اسٹرانگ (Armstrong)جو امریکی خلائی ادارے ناسا (National Aeroxautics Space Administration) (NASA )میں مصروف عمل ہیں اورایک نہایت معروف سائنس دان ہیں۔ ان سے لوہے اور اس کی تشکیل کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے وضاحت سے بتایا کہ زمین میں تمام عناصر کس طرح تشکیل پاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تشکیل کے مرحلے سے متعلقہ حقائق سائنس دانوں نے حال ہی میں دریافت کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سورج کی ابتدائی مرحلے کی توانائی لوہے کی عنصری تخلیق کے لیے کافی نہیں تھی۔ ان کے الفاظ کامفہوم یہ تھا:
'' ریاضی کے حساب سے لوہے کے ایک ایٹم کو بنانے کے لیے ہمارے نظام شمسی (جس میں سورج اور آٹھ سیارے شامل ہیں)کی مجموعی توانائی ناکافی ہے ،اس سے کم ازکم چارگنا زیادہ توانائی کی ضرورت ہے۔ سائنس دانوں کو یقین ہے کہ لوہاایک (Extraterrestrial)غیر زمینی شے ہے جو زمین پر پیدا نہیں ہوئی بلکہ کسی دوسرے ذریعے سے زمین پر آئی ہے۔'' (3)
حواشی
(1)۔ الحدید:25
(2)۔ قرآن رہنمائے سائنس ،صفحہ 129-130
(3)۔سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ129-130
علاوہ ازیں اس سورة میں دو نہایت دلچسپ ریاضی کے اصول پائے جاتے ہیں۔ ”الحدید”(لوہا )قرآن کی سورة 57ہے۔ لفظ”الحدید ”کی عددی قیمت (عربی کے نظام ابجد کے مطابق جس میں ہر حرف کی ایک عددی قیمت ہوتی ہے )وہی بنتی ہے یعنی 57۔صرف لفظ ”حدید ”(لوہا )کی عد دی قیمت (ابجدکے حساب سے )یعنی اس کے ساتھ انگریزی گرامر کی”The” Definite Articleلگائے بغیر جو عربی میں ”ال” ہے ،26بنتی ہے اور 26لوہے کا ایٹمی عدد ہے۔ (4)
جواب دیںحذف کریںموٴلف ۔ طارق اقبال سوہدروی ۔ جدہ ۔ سعودی عرب
what is meant by this illogical information ?
محترم بات تو آپ کی ٹھیک ہے کہ عربی کانظام ابجد کوئی شرعی نظام نہیں ہے کہ ہم اس پر ایمان رکھیں اور اس کو دلیل کے طور پر پیش کریں تاہم چونکہ اس کے مطابق بھی لوہے کی عددی قیمت کا قرآن کی موجودہ ترتیب کے مطابق وہی نمبر آتا ہے تو اس کو بیان کردیا گیاتھا ۔ یہی صورت حال دوسری بات کی بھی ہے۔ مگر آپ کا اعتراض درست ہے۔ آپ کا توجہ دلانے کا شکریہ میں اس پیراگراف کو خذف کر دیتا ہوں۔ جزاک اللہ۔امید ہے کہ آپ دوسری پوسٹس کے متعلق بھی اپنی آراء سے مستفید فرمائیں گے ۔ ان شاءاللہ
جواب دیںحذف کریںجناب اگر لوہے کا اترنا مان لیا جائے تو مویشویوں کا کیا کریں،، کیا وہ بھی ستاروں میں بنے تھے،،
جواب دیںحذف کریںاور لوہے کی ہی بات نہیں، ہمارے ڈی این اے میں موجود نائٹروجن، ہمارے دانتوں کا کیلشیم، ہمارے خون میں موجود فولاد، سیب کے پائے میں موجود کاربن، یہ سب تباہ ہوتے ستاروں میں بنا تھا، ہم سب انہیں ستاروں کی دھول کے بنے ہوئے ہیں۔
محترم جس بات کی آپ نے نشان دہی کی ہےمیں نے خود اس بات کو مختلف علماء کے تراجم سے واضح کیا ہے کہ یقیناً جدید سائنسی معلومات سے پہلے اس آیت کا ترجمہ اور مفہوم یہی سمجھا جاتا تھا۔ بحرحال آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ عربی کے الفاظ کے معانی دوسری زبانوں کے الفاظ کے معانی سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ چناچہ کسی جملے میں موجود الفاظ کے معانی بھی سیاق وسباق اور قرینے کے لحاظ سے ہی معلوم کیے جاتے ہیں۔ پس یہاں چونکہ سائنسی معلومات کے بعد اس لفظ کا قرینہ بدل گیا ہے لہذا اس کا معنی اور مفہوم بھی بدل جاے گا ۔ اہم بات اور قابل اعتراض بات تب ہوسکتی ہے کہ جب اس لفظ کا وہ معنی استعما ل کیا جائے کہ جو اس لفظ سے نکلتا ہی نہ ہو۔ اگر ایسی بات ہے تو آپ کا اعتراض حق بجانب ہوگا وگرنہ نہیں ۔ اور پھر جلدی نہ کیجئے ،ہوسکتا ہے کہ کل کلاں کو اس مویشیوں والی آیت کا مفہوؐ م بھی کچھ اور ہوجائے۔
جواب دیںحذف کریںجہاں تک بات ہے ہمارے ڈی این اے وغیرہ اور سیب کی ۔ تو ان کی تخلیق بھی اللہ نے کی تھی اور اسی مٹی سے کی تھی کہ جس کے اندر یہ عناصر پائے جاتے ہیں۔ بات صر ف سمجھنے کی ہے اور اس سے وہی سمجھ سکتے ہیں کہ جسے اللہ ہدایت دینا چاہے۔ اللہ ہمیں ہدایت ونصرت عطافرمائے۔ آمین
اعتراضات ،اختلافات اور مباحث رحمت ہیں اور یہ سوچ کو آگے بڑھاتی ہیں . . . بلال امتیاز احمد نے اچھانکتہ اٹھایا ہے اور اس کا جواب بالکل واضح ہے . . . کہ ہاں انسان اس زمین پر ایلین ہے . . . یہ کسی اور دنیا سے اس سیارے پر آیا ہے . . . انسان کی پیدائش جنت میں ہوئی جو زمین سے مخفی ایک اور جہاں ہے . . .انسان سے پہلے دنیا میں فقط جنات آباد تھے . . . ان کی نافرمانی کے باعث ان کو نیابت سے ہٹا دیا گیا اور انسان کو دنیا پر آباد کیا گیا اور انسان کو بھی قرآن کریم میں کھلی وارننگ دی گئی ہے کہ اگر وہ سیدھے راستے کو ترک کر دے گا تو اللہ اس پر قادر ہے کہ ان کو ہٹا کر کسی اور قوم کو لے آئے . . .
جواب دیںحذف کریںfantastic
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں