زمین کی شکل کروی ہے
پرانے زمانے میں یہ خیال کیا جاتاتھا
کہ زمین چوڑی ہے اور صدیوں تک لوگ اسی وجہ سے دور دراز تک سفر کرنے سے ڈرتے تھے کہ
مبادا وہ کہیں زمین کے کناروں سے نیچے نہ گر پڑیں۔ سر فرانسسکو وہ پہلا شخص تھا کہ
جس نے 1597 ء میں دنیا کا چکر لگایا اور اس بات کو ثابت کیاکہ زمین کی بناوٹ کُروی
ہے۔ (1)
اللہ تعالیٰ نے زمین کی اس بناوٹ کے
متعلق درج ذیل آیت میں اشارہ دیا ہے۔
( اَلَمْ
تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُوْلِجُ الَّیْلَ فَی النَّھَارِ وَیُوْلِجُ النَّھَارَ فِی
الَّیْلِ)
'' کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ رات کو
دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتاہے ...''(2)
یہاں داخل ہونے سے مراد رات کا
بتدریج دن میں تبدیل ہونا اور اسی طرح دن کا رات میں بتدریج تبدیل ہوناہے۔ یہ عمل
اسی وقت ممکن ہے اگر زمین کروی ہواور اگر زمین چوڑی ہو تی تو یہ عمل بتدریج
نہ ہوتا بلکہ شاید رات فوراً دن میں اور دن فوراً رات میں تبدیل ہوتا۔
( یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّھَارِ
وَیُکَوِّرُ النَّھَارَ عَلَی الَّیْلِ)
'' وہ رات کو دن پر اورد ن کو رات پر
لپیٹتا ہے.. '' (3)
مولانا عبدالرحمان کیلانی
اس آیت کی تشریح کر تے ہوئے لکھتے ہیں: '' یعنی شام کے وقت اگر مغرب کی طرف نگاہ
ڈالی جائے تو معلوم ہوتاہے کہ ادھر سے اندھیرا اوپر کو اٹھ رہا ہے جو بتدریج بڑھتا
جاتاہے تاآنکہ سیاہ رات چھا جاتی ہے۔ اسی طرح صبح کے وقت اجالا مشرق سے نمودار
ہوتاہے جو بتدریج بڑھ کر پورے آسمان پرچھاجاتاہے۔اور سورج نکل آتا ہے تو کائنات
جگمگا اٹھتی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ رات کو دن پر اور دن کو رات پر لپیٹا
جارہاہے''۔دن اور رات کو ایک دوسرے پر لپیٹنا اسی صورت ممکن ہے جب زمین گول ہو۔
زمین گیند کی طرحگول بھی نہیں ہے بلکہ یہ انڈے کی طرح بیضوی ہے۔ فرمایا گیا:
(وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰھَا)
'' اور اس کے بعد زمین کو بچھادیا ''(4)
مولانا عبدالرحمان کیلانی اپنی
تفسیر میں لکھتے ہیں: '' دحیٰ اور طحیٰ دونوں ہم معنی بلکہ ایک ہی لفظ ہے۔
صرف مختلف علاقوں کے الگ الگ تلفظ کی وجہ سے یہ دو لفظ بن گئے ہیں۔ قرآن میں یہ
دونوں الفاظ صرف ایک ایک بار ہی استعمال ہوئے ہیں اور ایک ہی معنی میں آئے ہیں،
کہتے ہیں دحی المطر الحصٰی یعنی بارش کنکریوں کو دور دور تک بہا کر لے گئی۔ گویا
ان دونوں الفاظ کامعنی دور دور تک بچھا دینا ہے نیز دحیٰ کے مفہوم میں گولائی
کاتصور پایاجاتاہے۔ دحوہ شتر مرغ کے انڈے کو کہتے ہیں۔ اس سے بعض لوگوں نے زمین کے
گول ہونے پر استدلال کیاہے۔''
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اس آیت کا ترجمہ
اس طرح کیا ہے '' علاوہ ازیں زمین کو اس نے انڈے کی شکل میں بنایایہاں لفظ دحھا
استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں Ostrich
Egg یعنی شترمرغ
کے انڈے کی طرح''۔(5)
وکی آن لائن
ڈکشنری پر بھی ان الفاظ ، دحی اور دحیہ کے معانی دیکھے جاسکتے ہیں۔جبکہ سائنسدان زمین کی شکل کو “Oblate Spheroid “ کی طرح کا قرار دیتے ہیں یعنی ایسی چیز جو قطبین پر شلجم کی
طرح چپٹی ہو۔ اب ذیل میں زمین
،شترمرغ کے انڈے اور “Oblate
Spheroid “ کی
شکلیں دی گئی ہیں جن سے آپ اندازہ کرسکتےہیں کہ ان میں کچھ فرق نہیں ہے۔
علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے کہ
مسلمان روزاول سے زمین کے کروی ہونے پر یقین رکھتے تھے ۔ اس کا ثبوت ماہرجغرافیہ
دان محمد الادریسی (1099–1165 or 1166) کاوہ پہلہ
عالمی نقشہ ہے جو اس نے 1154ء میں
بنایاتھا۔اس میں زمین کے جنوبی حصے کو اوپر کی جانب دکھایا گیا تھا۔
چنانچہ قرآن مجید زمین کی شکل کے
متعلق وہی اطلاعات فراہم کرتاہے جو آج سا ئنس نے ہمیں بتائی ہیں جبکہ قرآن کے نزول
کے وقت یہ خیال کیاجاتا تھا کہ زمین چوڑی ہے۔
حواشی۔
(1)۔ بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر
نائیک ،صفحہ 8
(2)۔ لقمان، 31:29
(3)۔ الزمر، 39-05 ۔
''تیسیرالقرآن'' جلد چہارم
(4)۔ النازعات،79-30
(5)۔بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر
نائیک ،صفحہ 9
ایک تبصرہ شائع کریں