سورج سے دو کروڑ گنا زیادہ کمیت کا حامل بلیک ہول آنکھیں کھول رہا ہے

سورج سے دو کروڑ گنا زیادہ کمیت کا حامل بلیک ہول آنکھیں کھول رہا ہے


ماہرین فلکیات پہلی مرتبہ ایک ایسے بلیک ہول کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کی سرگرمی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ برطانوی ادارے جوڈریل بینک سینٹر کے سائنس دان میگن ایرگو کی قیادت میں اس سرگرمی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
بلیک ہول ستاروں کی ایک قسم ہے، جن کی کمیت ایک مرکزی نقطے پر اس قدر مرکوز ہو جاتی ہے کہ وہ ستاروں کی طرح روشنی پیدا کرنے کی بجائے اسے جذب کر لیتے ہیں اور جو بھی چیز ان کی تجاذبی کشش کی حد میں آتی ہے، اسے پی جاتے ہیں۔ زمان و مکان، یعنی ٹائم اینڈ سپیس بھی بلیک ہول میں گر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دم توڑ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بلیک ہول کو آج تک براہ راست دیکھا نہیں جا سکا۔

ماہرین فلکیات کے مطابق چند ہی مہینوں میں یہ زیرمطالعہ بلیک ہول سینکڑوں گنا بڑا ہو چکا ہے۔ اس مطالعے سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ ’سپر میسِو بلیک ہولز‘ یا ’انتہائی کمیت کے حامل بلیک ہولز’ کیسے بنتے ہیں۔
اس مطالعے میں مصروف سائنس دان اپنی تحقیق برطانیہ کی رائل اسٹرونومیکل سوسائٹی کے نیو ویلز کے علاقے لانڈودنو میں منعقدہ اجلاس میں پیش کریں گے۔
ماہرین کے مطابق زمین سے 42 ملین نوری سال کے فاصلے پر موجود کہکشاں پولر رنگ گلیکسی یا قطبی چھلا کہکشاں NGC660 کے مرکز میں بھی ایک سپر میسِو بلیک ہول ہے۔ سپر میسِو اس لیے کیوں کہ اس کی کمیت سورج کے مقابلے میں بیس ملین گنا زیادہ ہے۔
سائنسی نظریے کے مطابق ہر بڑی کہکشاں کے مرکز میں سپر میسِو بلیک ہول موجود ہوتے ہیں۔ ہماری کہکشاں ’ملکی وے‘ یا ’دودھیا راستہ‘ بھی مرکز میں ایک انتہائی زیادہ کمیت کے حامل بلیک ہول کی حامل ہے، اور یہ عموما ’نیند‘ میں ہوتے ہیں، یعنی سرگرم نہیں ہوتے۔ بلیک ہولز چوں کہ روشنی جذب کر لیتے ہیں، اس لیے انہیں دیکھنا ناممکن ہوتا ہے، اور صرف بالواسطہ طور پر انہیں ان کی زبردست تجاذبی قوت اور اسی وجہ سے ان کے آس پاس موجود ستاروں کی حرکت و گردش کے مطالعے سے مشاہدے میں لایا جا سکتا ہے۔
جب یہ بلیک ہولز بڑی مقدار میں مادہ ہضم کرنے لگتے ہیں، تو انہیں سرگرم قرار دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران انتہائی زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے، کیوں کہ بلیک ہول میں گرنے سے قبل یہ مادہ بے انتہا طاقت سے جلنے لگتا ہے اور بلیک ہول سے اس جلتے مادے کی طاقت ور دھار بلیک ہول کے مرکزی چھلے سے دونوں جانب آؤٹر سپیس یا خلائے بیرون کی جانب رخ کر لیتی ہے، اس دھار کو ’جیٹس‘ کا نام دیا جاتا ہے۔


پولر رنگ گیلکسی این جی سی 660 کو ریڈیو دوربین کی مدد سے جب سن 2012ء میں دیکھا گیا تھا، تو یہ اچانک اپنے عمومی دور کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ روشن دکھائی دی تھی۔ اس کے بعد ماہرینِ فلکیات نے اس پر نگاہ جما لی۔ اس سلسلے میں آرکائیو تصاویر کے ساتھ ساتھ برطانیہ، چین اور جنوبی افریقہ میں قائم متعدد بڑی ریڈیو دوربینوں کو اس کہکشاں پر باریکی سے نگاہ رکھنے کے لیے ایک طرح سے جوڑ دیا گیا۔
ان ہائی ڈیفینیشن تصاویر نے روشنی کے اس منبع کا اشارہ ٹھیک اس جانب کیا، جہاں یہ سپر میسِو بلیک ہول موجود ہو سکتا تھا۔



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی