آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو غلط قرار دینے کے بلند بانگ دعوےکا بھانڈا پھوٹ گیا

 آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کو غلط قرار دینے کے بلند بانگ

 دعوےکا بھانڈا پھوٹ گیا


نومبر 2011ء میں روشنی سے تیزرفتار ذرے نیوٹرینو کی دریافت اور آئن سٹائن کے شہرہ آفاق نظریہ اضافیت کو غلط قرار دینے کے بلند بانگ دعوے کرنے والے سائنس دانوں نے اب دبے لفظوں میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ان سے تجربات میں غلطی ہوگئی تھی اور آئن سٹائن کی سچائی آج بھی برقرار ہے۔

یورپ میں قائم دنیا کی سب سے بڑی زیر زمین تجربہ گاہ کے سائنس دان یہ بتانے میں جھجھک محسوس کررہے ہیں کہ ایک حالیہ تجربے نے آئن سٹائن کی سچائی ثابت کردی ہے  انہوں نے کچھ عرصہ قبل روشنی سے بھی تیزرفتار ذرات دریافت کرنے کے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے، وہ درست نہیں تھے۔
گذشتہ سال کے آخر میں سائنس دانوں نے روشنی سے تیز رفتار ذرات ’نیوٹرینو‘دریافت کرنے کا دعویٰ کرکے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔جس کے بعد آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت پر کئی پیچیدہ اور سنجیدہ سوالات کھڑے ہوگئے تھے۔ کیونکہ جدید سائنس کی بلند وبالا عمارت اسی نظریے پر قائم ہے اور جدید سائنسی دور کی بیشتر ایجادات کی بنیاد یہی نظریہ ہے۔
تقریباً ایک صدی قبل 1905ء میں آئن سٹائن نے اپنا یہ شہرہ آفاق تصور پیش کیا تھا کہ کائنات کی سب سے تیز رفتار چیز روشنی ہے اور کسی چیز کی رفتار روشنی کی رفتار سے نہیں بڑھ سکتی۔لیکن فزکس کی سب سے بڑی زیر زمین تجربہ گاہ ’سیرن‘ میں کئی ماہ تک مسلسل جاری رہنے والے تجربات کے بعد، جن میں دنیا بھر کے ممتاز سائنس دانوں نے حصہ لیا تھا، یہ دعویٰ کیا کہ کائنات کے ایک  انتہائی چھوٹے ذرے’ نیوٹرنیو ‘ کی رفتار روشنی سے قدرے زیادہ ہے اور باربار کے تجربات اور ان کے نتائج کے انتہائی باریک بینی سے  کیے گئے مطالعے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ نیوٹرینو مقررہ مقام پر روشنی سے قدرے پہلے پہنچا۔
اس دعوے نے جدید سائنس  کو ہلاکر رکھ دیا  کیونکہ الیکٹرانک فزکس اور کائنات کے اسرار ورموز سے پردہ اٹھانے کی کوششیں نظریہ اضافیت کو بنیاد بنا کر کی جارہی تھیں۔لیکن اب ایک سائنسی جریدے’سائنس ان سائیڈر‘ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیوٹرینو کی رفتار میں ریکارڈ کیے گئے اضافے کی وجہ جی پی ایس اور کمپیوٹر کے درمیان کیبل لنک کی خرابی تھی۔
رپورٹ کے مطابق   رفتار کی پیمائش کرنے والے جی پی ایس اور ڈیٹا ریکارڈ کرنے والے کمپیوٹر کے درمیان نصب آپٹک فائبر کیبل کے کنکشن ڈھیلے تھے جس نے یہ  ظاہر کرنے میں مرکزی کردارادا کیا  کہ مقررہ فاصلہ طے کرتے وقت  نیوٹرینو کی رفتار روشنی کی رفتار سے 60 نینو سیکنڈ زیادہ تھی۔نینو پیمائش کا ایک بہت ہی چھوٹا پیمانہ ہے اور وہ ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے کے مساوی  ہوتا ہے۔سیرن لیبارٹری میں روشنی کو مقررہ فاصلے طے کرنے میں دواعشارہ تین ملی سیکنڈ لگے جب کہ نیوٹرینو اس  وقت سے 60 نینو سیکنڈ پہلے پہنچ گئے۔

تیزرفتار نیوٹرینو  کا انکشاف گذشتہ سال ستمبر میں اس وقت ہوا تھا جب سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے جنیوا میں واقع زیر زمین لیبارٹری سیرن سے روشنی  اور نیوٹرینوز کی ایک بیم  روم کے قریب واقع  ایک دوسری لیبارٹری گران ساسو بھیجے تھے ۔  ان تجربات میں نیوٹرینو نے روشنی کے مقابلے میں مقررہ فاصلہ 60 نینوسیکنڈ پہلے طے کیا۔سائنس دانوں نے نتائج کی تصدیق کے لیے نومبر میں دوبارہ ان تجربات کو دوہرایا ، جس کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس میں اپنے دعوے کا اعلان کردیا۔لیکن سان ساسو لیبارٹری میں سائنس دانوں کی ایک اور ٹیم کو ڈیٹا کے مطالعے سے کچھ شبہ گذرا، کیونکہ ان تجربات میں  اس مخصوص تابکاری کی نشان دہی نہیں ہوئی تھی جو روشنی سے رفتار بڑھنے کےبعد نیوٹرینو میں ہونی چاہیے تھی۔
چنانچہ سائنس دانوں نے لبیارٹری کے آلات کا از سرنو معائنہ کیا جس دوران انہیں پتاچلاکہ جی پی ایس اور کمپیوٹر کے درمیان فائبر آپٹک کیبل کاکنکشن ڈھیلاتھا۔  کنکشن کسنے کے بعد جب اس تجربے کو دوہرایا گیاتو مقررہ مقام پر نیوٹرینو کے پہنچنے کی رفتار پہلے کے مقابلے میں60 نینو سیکنڈ کم ہوگئی ۔ گویا وہ روشنی کی سطح پر آگئی۔آئن سٹائن کا انتقال 1955ء میں ہوا تھا۔ اپنے انتقال کے 57 سال بعد دنیا کا یہ عظیم سائنس دان  ایک بار پھر اپنے نظریہ اضافیت کی سچائی ثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی