انٹارکٹیکا میں دوکروڑ سال پرانی زندگی اپنی اصل حالت میں موجود ہونے کا امکان ہے: سائنس دان


 انٹارکٹیکا میں دوکروڑ سال پرانی زندگی اپنی اصل حالت میں 

موجود ہونے کا امکان ہے: سائنس دان


 دنیا کے سرد ترین علاقے قطب جنوبی ، جسے براعظم انٹارکٹیکا کے نام سے جانا جاتا ہے، سینکڑوں پرانی منجمد جھیلیں موجود ہیں ، جن میں ووسٹوک جھیل بھی شامل ہے۔ برف کی تین کلومیٹر تہہ کے نیچے دفن اس جھیل کے پانی تک پہنچنے میں سائنس دانوں نے حال ہی میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس جھیل میں دوکروڑ سال پرانی زندگی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔


ممکن ہے کہ آپ کو یہ  علم ہو کہ دوکروڑ سال پہلے کی زندگی ، اپنی اصل اور جیتی جاگتی حالت میں آج بھی محفوظ ہے اور سائنس دان اس کی حقیقت سے پردہ اٹھانے کے انتہائی قریب پہنچ چکے ہیں۔سائنس دانوں کا خیال ہے کہ دوکروڑ سال پہلے کی زندگی دنیا کے سرد ترین براعظم انٹارکٹیکا کی جھیل ووسٹوک (Vostok) میں اپنی اصلی حالت میں موجودہے۔
انٹارکٹیکا قطب شمالی کے پاس واقع دنیا کا انتہائی جنوبی براعظم ہے ، جس کا 98 فیصد برف سے ڈھکا ہوا ہے۔سردیوں میں یہاں درجہ حرارت صفر سے 90 درجے نیچے تک گر جاتا ہے۔ انٹارکٹیکا میں  سارا سال تیز سرد ہوائیں چلتی ہیں ، جس کے باعث انسانی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔جھیل دوستک اس علاقے میں پائی جانے والی تقریباً چار سو جھیلوں میں سب سے بڑی ہے۔ اس کی لمبائی250 کلومیٹر اور چوڑائی 50 کلومیٹر کے لگ بھگ  ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی اس جھیل کے پانی کو دیکھ نہیں سکتا کیونکہ یہ قطبی برف کی تقریبا تین کلومیٹر موٹی تہہ کے نیچے ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جھیل دوستک کے پانی میں دوکروڑ سال پہلے کی زندگی اپنی اصل اور زندہ حالت میں موجود  ہوسکتی ہے کیونکہ یہ پانی دوکروڑ  سال سے بیرونی اثرات سے مکمل طورپر محفوظ ہے۔سائنس دانوں کو اس پانی تک پہنچنے کے لیے، جسے دوکروڑ سال سے کبھی کسی نے نہیں چھوا، برف کی تین کلومیٹر موٹی چٹانی تہہ میں سوراخ کرنے کے لیے 20 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ چونکہ جھیل کے پانی کو  اس کے گرد واقع برف کی موٹی تہہ نےاس طرح سیل کررکھاہے کہ باہر کی دنیا سے نہ توکچھ وہاں پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی وہاں سے کوئی چیز باہر نکل سکتی ہے، اس لیے دو کروڑ سال پہلے یہاں زندگی جس حالت میں تھی، اسی حالت میں محفوظ ہے۔ سائنس دانوں کو اس جھیل کے پانی تک رسائی کے بعدکرہ ارض پر زندگی کی ابتدائی حالت کے بارے میں معلومات حاصل ہونے کا اس لیے بھی یقین ہے کیونکہ ایک نظریہ یہ ہے کہ اس سیارے پر زندگی کی ابتدا پانی سے ہوئی تھی اور ابتدائی زندگی ایک خلیے کے جاندار کی شکل میں تھی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جھیل ووسٹوک میں زندگی اپنی ابتدائی شکل میں محفوظ ہوسکتی ہے اور ممکن ہے کہ یہ زندگی جراثیمی شکل میں ہو۔سائنس دانوں کا یہ خیال بھی ہے کہ جھیل کے پانی تک رسائی میں کامیابی  حاصل ہونے کے بعد اب یہ جاننے میں بھی مدد مل  سکتی ہے کہ کرہ ارض پر پائی جانے والی زندگی مقامی ہے یا یہ کسی بیرونی سیارے سے آئی تھی۔ کیونکہ ایک نظریے کے مطابق زمین پر زندگی کا آغاز کسی ایسے شہاب ثاقب یا سیارچے کے ٹکرانے بعد ہوا جس پر زندگی موجود تھی۔سائنس دانوں نے اس کامیابی کو ’ معلوم اور نامعلوم کے درمیان ملاقات‘ کا نام دیا ہے۔ناسا کے ایک سائنس دان ڈاکٹر ولید عبدالعطی کا کہناہے کہ سادہ ترین الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں اس کامیابی سے ہمیں  زندگی کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔
برفانی دور سے پہلے  زمین پر  آب وہوا گرم مرطوب تھی ۔ شدید بارشیں ہوتی تھیں اور گھنے جنگلات کی بہتات  تھی۔  زمین پر ڈینوساروں کاراج تھا۔ پھر لاکھوں سال تک جاری رہنے والے سرد برفانی دور نے ڈینوساروں سمیت زندگی کی کئی اور اقسام کو مٹا دیا۔  ماہرین کا کہناہے کہ برف کی موٹی تہوں سے سیل ہوجانے کے بعد، جھیل ووسٹوک میں موجود زندگی  کارابطہ بیرونی دنیا سے کٹ گیا ۔ اور اگر اس  پانی میں زندگی اب بھی موجود ہے تو وہ زندگی کی وہی شکل ہے جو برفانی دور کے آغاز سے قبل دو کروڑ سال پہلے پائی جاتی تھی۔
ووسٹوک جھیل کے پانی کا درجہ حرارت منفی تین درجے سینٹی گریڈ ہے۔ اگرچہ صفر درجہ حرارت پر پانی جم جاتا ہے لیکن برف کے شدید دباؤ کے باعث جھیل کا پانی مائع حالت میں ہے۔  سائنس دانوں کا کہناہے کہ اگر اس پانی میں زندگی موجود ہے تو اس سے مریخ کے برفانی قطبی علاقوں اور مشتری اور زحل کے چاندوں پر موجود برف کی تہوں میں زندگی کے امکان  پر تحقیق آگے بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
روس کے سائنس دان لیو سویت یوگن نے، جنہوں نے جھیل کے پانی تک ڈرل کرنے کے مشن کی قیادت کی تھی، کہناہے کہ انہیں توقع ہے کہ ماہرین کو پانی کے نمونوں میں  قبل  ازتاریخ کا بیکٹریا مل جائے گاجس سے زندگی کی ابتدا کے بارے میں جاننے میں مدد مل سکے گی۔جھیل کے پانی تک پہنچنے کے بعد ماہرین  نے  اس کے دہانے کو سختی سے بند کردیا ہے تاکہ کروڑوں  سال پرانے بیکٹریا کو باہر نکل کر پھیلنے کا موقع نہ ملے ۔ کیونکہ ماہرین کو خدشہ ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر تباہی بھی لا سکتا ہے۔پانی کے نمونے  حاصل کرنے کے بعد انہیں فی الحال وہیں محفوظ کردیا گیا ہے ۔ اس سال دسمبر میں  سردیاں شروع  ہونے پر ان نمونوں کو مزید تجربات کے لیے لیبارٹری میں منتقل کردیاجائے گا۔
دوسری جانب سينٹ پيٹرزبرگ کے انسٹيٹيوٹ برائے ارضيات اور سمندری معدنياتی امور کے ايک ماہر جرمن لائشنکاف نے اپنے خيالات کا اظہار کرتے ہوئے بتايا کہ جھيل کی تہہ ميں پانی اور گاد کی بدولت اس بات کا تعين کيا جا سکے گا کہ گزشتہ بيس سالوں ميں مختلف موسمی تبديلياں زمين پر کيا اثرات مرتب کرتی رہی ہيں۔ مہم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے لائشنکاف نے کہا، ’’ہميں قطب جنوبی کے بارے ميں زيادہ معلومات نہيں اور اسی ليے يہ مہم اور ووسٹوک جھيل تک رسائی اس خطے کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول ميں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا کہ مہم کا مکمل ہونا اور برف کاٹ کر جھيل تک پہنچنا تکنيکی اور ذہنی اعتبار سے ايک بڑی کاميابی ہے۔  اس موقع پر مہم کے سربراہ ويلری ليوکن نے اپنی مہم کا کسی خلائی مشن کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے اس کی اہميت اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ روسی حکومت اس پراجيکٹ کو کس قدر اہميت دے رہی ہے اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگايا جا سکتا ہے کہ اسی ماہ روسی وزير برائے قدرتی وسائل اور ماحوليات يوری ٹروٹنيو بھی اس جگہ کا دورہ کر چکے ہيں۔
مہم کے حوالے سے گرين پيس کے کارکنان اور چند ماہرين نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ روسی ٹيم کے ووسٹوک جھيل تک پہنچنے کے ليے کھودنے کے طريقہ کار سے خطے ميں آلودگی پھيلنے کا خطرہ ہے۔ اس حوالے سے ارضياتی امور کے ماہر جرمن لائشنکاف نے اے ايف پی کو بتايا کہ اس مسئلے پر ماہرين پہلے ہی سے کام کر رہے ہيں

ماحذ

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی