اسلام میں استنجاء کا طریقہ کار جدید سائنس کی روشنی میں

 اسلام میں استنجاء کا طریقہ کار جدید سائنس کی روشنی میں


 اللہ تعالیٰ نے عبادت کو دین اسلام کا جزو اعظم ٹھہرایا ہے اور عبادت کو ظاہر ی و باطنی ذرائع کےلیے حسن وجمال کا غازہ، تہذیب اخلاق وعادات اور اصلاح حالات کا وسیلہ قرار دیا ہے ،طہارت و پاکیزگی بھی عبادت کا اہم ترین حصہ ہے ۔ اس میں استنجاء کا طریقہ کار بہت اہم ہے ،جس کو سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے بہت ضروری ہے ۔

اسلام میں " تُخْلِقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہِ" کا حکم ہے یعنی خود کو اللہ تعالیٰ جیسی اخلاقیات سے مزین کرو۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات برتر اور نہایت پاک ہے ۔ اس کی ذات ہر قسم کی برائی کی آلودگی سے پاک ہے ۔ا س کی صفات پاکیزہ اور محمود ہیں ۔وہ حمید ومجید ہے ۔ تو حکم ہے کہ اے مسلمانو! مخلوق ہوتے ہوئے تمہارے لیے جہاں تک ممکن ہے تم بھی اخلاقیات اور اوصاف الٰہیہ کو اپنی ذات میں راسخ کرو۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ واضح ہو اکہ ایک حقیقی اور باعمل مسلمان کی زندگی ہر لحاظ سے پاک ،صاف اور برائی کے ہر جراثیم سے محفوظ ہوتی ہے ۔ وہ ہر قسم کی ظاہر ی وباطنی آلودگی سے پاک اور صاف ہوتا ہے ۔ہر مسلمان کے لیے حکم ہے کہ حلال کھائے ،حرام سے بچے ،اپنے خیالات کو پاک و صاف رکھے ،جسم ولباس کو پاک و صاف رکھے اور اپنے کلام وکردار کی صفائی پیش کرے کہ بات  میں جھوٹ نہ بولے اور کردار کو صاف رکھے ۔گویا کہ یوںمحسوس ہوکہ ہر مسلمان مکمل طور پر ظاہری اور باطنی صفائی کا مجسمہ ہے۔
اسلامی تعلیمات وعبادات میں نماز کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔نماز ادا کرنےکے لیے شرط ہے کہ آدمی کا جسم پاک وصاف ہو ، اس کا لباس صاف ستھرا ہو اور وہ باوضو ہو۔ نماز سے پہلے ہر قسم کی جسمانی طہارت ضروری ہے اسی لیے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
" اَلطَّہُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَان" (صحیح مسلم )
یعنی " طہارت ایمان کاحصہ ہے "۔
ایک اور جگہ فرمایا :
" اَلطَّہُوْرُ نِصْفُ الْاِیْمَان" (سنن ترمذی)
یعنی " طہارت نصف ایمان ہے "۔

اس سے واضح ہو ا کہ ایک مسلمان کے لیے اپنے ایمان کے حصے کو ہر وقت اپنے پاس رکھنا چاہیے ۔یعنی اسے ہروقت پاکیزگی اپنانی چاہیے ۔اسلام نے ظاہری و باطنی طہارت کا ایسا سبق دیا کہ غیر مسلموں کے رہبرو رہنمابھی یہ بات ماننے پر مجبور ہوگئے کہ اسلام جیسی تطہیر اور کوئی دین مذہب نہیں سکھاتا ۔چناچہ "ڈاکٹر رابرٹ سمتھ" مشہورسرجن مسلمہ ماہر ِ سرجری لکھتا ہے :

"ہم نے تطہیر کا عمل اسلام سے سیکھا ہے "

اسلام میں استنجاء کا طریقہ کار


سب سے بڑی گندگی وہ ہے جو انسان کے جسم سے پاخانے اور پیشاب کی صورت میں خارج ہوتی ہے ۔ اسلام نے اس کے خروج کے بعد اچھی طرح استنجاء کرنے کا حکم دیا ۔ چناچہ حکم ہے کہ اگر انسان کو پیشاب یا پاخانہ کی حاجت ہے تو سب سے پہلے اس حاجتِ ضروریہ سے فارغ ہو جائے ،پھر طہارت یعنی استنجاء کرے ۔ پہلے اچھی طرح مٹی کے ڈھیلوں سے صفائی کرے اور پھر دوبارہ پانی سے اچھی طرح صفائی کرے یا پھر پانی پر ہی اکتفا کرے۔صفائی کرتے ہوئے بائیں ہاتھ کو استعمال کیا جائے ۔پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت نہ قبلہ کی طرف پیٹھ کی جائے اور نہ ہی منہ ، چاہے میدان ہو یا گھر۔ اگر کبھی بھول کر ایسا کر لیا تو یاد آنے پر فوراً رُ خ بدل لے ۔ پیشاب یا پاخانہ کرتے وقت ننگے سر نہ جائے اور نہ ہی ہوا کے رُخ پیشاب کرے۔
پیشاب اور پاخانہ کو جاتے وقت مستحب ہےکہ باتھ روم میں داخل ہونے سے پہلے یہ دُعا پڑھے:

" بِسْمِ اللہِ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَائِثِ" (متفق ٌ علیہ)
یعنی " اللہ کے نام سے ،اے اللہ ! بے شک میں خبیث جنوں اور خبیث جننیوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں"

پھر پاخانہ کرنے والابایاں پاؤں اندرر کھے ۔جب بیٹھنے کے قریب ہو تو کپڑا بدن سے ہٹائے اور ضرور ت سے زیادہ بدن نہ کھولے ۔پھر پاؤں کشادہ کرکے بائیں پاؤں پرزور دے کر بیٹھے اور خاموشی سے سرجھکائے فراغت حاصل کرے ۔ جب فارغ ہوجائے تومرد بائیں ہاتھ سے اپنے آلہ تناسل کو جڑ کی طرف سے سرے کی طرف سونتے  تاکہ جو قطرے رُکے ہوں وہ نکل جائیں ۔پھر پانی ،ڈھیلوں یا پھر یکے بعد دیگرے ،دونوں سے طہارت حاصل کرے ۔یوں کہ پہلے تین ڈھیلوں سے طہارت کرے اور پھر پانی سے یا پھر فقط پانی سے ہی طہارت حاصل کرے۔
داہنے ہاتھ سے پانی بہائے اور بائیں ہاتھ سے دھوئے اور پانی کا لوٹا اورنچا نہ رکھے تاکہ چھینٹیں نہ پڑیں ۔ پہلے پیشاب کا مقام دھوئے ،پھر پاخانہ کا مقام ،پاخانہ  کامقام دھوتے وقت سانس کا زور نیچے کو دے کر ڈھیلا رکھے اور پھر خوب اچھی طرح دھوئے ،یہاں تک کہ دھونےکے بعد ہاتھ میں بُو باقی نہ رہے ۔پھر کسی پاک کپڑے سے پونچھ لے اور اگر کپڑا نہ ہوتو باربار ہاتھ سے پونچھے کہ برائے نا م تری رہ جائے او ر اگر وسوسے کا غلبہ ہوتو رومالی پر پانی چھڑک لے۔ اس بات کا خیال رکھے کہ کھڑے ہونے سے پہلے بدن چھپالے ۔پھر تہبند درست کرلے اور باہر آجائے ۔ نکلتے وقت پہلے داہنا پاؤں باہر نکالے اور باہر نکل کر یہ دعا پڑھے :

" غُفْرَانَکَ" (زاد المعاد)
یعنی " (اے اللہ ! ) میں تیری بخشش کا طلب گار ہوں "۔

استنجاء پانی یا ڈھیلوں سے یا پھریکے بعد دیگرے دونوں سے کرنا چاہیے ۔ہڈی او رگوبر وغیرہ سے استنجاء منع ہے کیونکہ اس کے بہت سے نقصانات ہیں جو عنقریب ان شاء اللہ بیان ہوں گے۔آج دنیا پھر سے انہیں طریقوں پر واپس آرہی ہے جس طریقے سے حضور نبی کریم ﷺ نے ہمیں زندگی گزارنے کا حکم فرمایا اور جس طریقہ سے آپ ﷺ نے خود زندگی گزاری۔ استنجاء کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کے سائنسی و طبی چیدہ چیدہ فوائد پیش کیے جاتے ہیں۔

استنجاء کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی سنتوں کے سائنسی و طبی  فوائد


1:  رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے بہت دور تشریف لے جاتے تھے ۔قضائے حاجت کے لیے چل کر دور جانا بہت زیادہ بہتر ہے ۔ سائنس اور طب کی رو سے چند حقائق ملاحظہ فرمائیں۔ اس وقت جدید سائنس زیادہ چلنے پر زور دے رہی ہے ،حتٰی کہ امریکہ کے بڑے بڑ ے ہسپتالوں میں یہ بات نمایاں لکھی ہوئی ہے :

"پاؤں پہلے پیدا ہو یا پہیہ؟"

ظاہر ہے کہ پاؤں پہلے پیدا ہوا ، اس معقولے کا مقصد قوم کو زیادہ سے زیادہ پیدل چلنےکی دعوت دینا ہے ۔ بائیو کیمسٹری کے ایک ماہر نے نکتے کی بات کہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں:

"جب سے شہر پھیلنے لگے ہیں ،آبادی  بڑھنے لگی ہے اورکھیت ختم ہونے لگے ہیں ، اس وقت سے اب تک امراض کی بہتات ہوگئی ہے ۔ کیونکہ جب سے دور چل کر قضائے حاجت کرنا چھوڑ دیا ہے اس وقت سے اب تک قبض ،گیس ،تبخیر اور جگر کے امراض بڑھ گئے ہیں "

چلنے سے آنتوں کی حرکات تیز ہوجاتی ہیں ،جس کی وجہ سے قضائے حاجت تسلی بخش ہوتی ہے ۔آج کیونکہ ہم بیت الخلا ء ہی میں پیشاب کرتے ہیں اور باہر چل کر نہیں جاتے ، اسی لیے آج حاجت غیر تسلی بخش ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے بیت الخلاء میں زیادہ وقت گزارنا پڑتا ہے۔
2:  رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے کچی اور نرم زمین کا انتخاب فرماتے تھے ۔ اس میں بھی بہت زیادہ سائنسی فوائد ہیں ۔ چند ایک ملاحظہ فرمائیں۔ لیول  پاول اپنی کتاب " اُصول صحت" میں لکھتا ہے :

" انسانیت  کی بقا مٹی سے ہے  اور فنا بھی مٹی ہے ۔جب سے مٹی پر قضائے حاجت چھوڑ کر ہم نے سخت زمین (فلش،کموڈ اور ڈبلیو سی وغیرہ)استعمال کرنا شروع کی ہے ، اس وقت سے اب تک مردوں میں جنسی کمزوری اور پتھری کا رجحان بڑھ گیا ہے  اور اس کے اثرات پیشاب کے غدود پرپڑتے ہیں "۔

دراصل  جب آدمی کے جسم سے فضلات نکلتے ہیں تو مٹی ان کے جراثیم اور تیزابی اثرات جذب کرلیتی ہے ۔ جبکہ فلش وغیرہ اس کیفیت سے عاری ہیں ۔ اس لیے وہ تیزابی اور جراثیمی اثرات دوبارہ ہمارے جسم پر براہ راست پڑتے ہیں  اور جسم ِ انسانی صحت سے مرض کی طرف مائل ہونے لگتا ہے ۔ ایک اور ماہر طب لکھتےہیں:

"نرم اور بھربھری زمین ہر چیز کو جذب کرلیتی ہے ۔چونکہ پیشاب اور پاخانہ جراثیمی فضلہ ہے اس لیےایسی  زمین چاہیے جو کہ اس کو جذب  کرنےا ور اس کے چھینٹے اُ ڑ کر بدن اور کپڑوں پر پڑنے کوروکے"۔

جبکہ یہ کیفیت فلش (ٹائلٹ)میں نہیں ہوتی ۔ وہاں بھی چھینٹوں کا احتمال رہتا ہے  اور مزیدیہ کہ فضلے کو جذب کرنے کی صلاحیت اس میں نہیں ۔فلش میں پیشاب کرنے کی وجہ سے فضلے کے بخارات جذب نہیں ہوپاتے اور فضلے سے اُٹھنے والے یہ بخارات صحت کے لیے مضر ثابت ہوتے ہیں۔اس مغربی تہذیب نے " کموڈ " متعارف کرایا ہے کہ لوگ اس پر کرسی کی مانند بیٹھ جاتےہیں اور پاخانہ یا پیشاب کرتے ہیں ۔ کمو ڈکو استعمال میں لا کر آدمی اچھی طرح فراغت حاصل نہیں کرسکتا،کیونکہ یہ غیر فطری طریقہ ہے ۔ اسی کموڈ کی وجہ سے پاخانہ صحیح خارج بھی نہیں ہو پاتا کہ انتڑیوں میں پھنسا رہتا ہے نیز  کموڈ کو استعمال کرنےکے بعد علیحدہ جگہ پر بیٹھ کر شرمگاہ کو دھونا پڑتا ہے ۔ ڈبلیو سی پر قضائے حاجت کرنے سے کئی ایک مہلک امراض لاحق اور کئی ایک نقائص انسانی جسم میں پیدا ہو جاتے ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
  • ڈبلیو سی پر بیٹھ کر قضائے حاجت کرنے سے اعصابی تناؤ اور کھچاؤ پیدا ہو جاتا ہے جس سے جسم انسانی ڈسٹرب ہونے کا غالب امکان ہے ۔
  • ڈبلیو سی (W.C)  کی مدد سے پاخانہ کرنے کی وجہ سے حاجت بھی غیر تسلی بخش ہوتی ہے جو کہ انتہائی پیچیدہ بیماریوں کو جنم دیتی ہے جیسے قبض،تبخیر،معدے کی جلن،شرمگاہ کی خارش،شرمگاہ کی جلن ،گیس اور بواسیر وغیرہ۔
  • ڈبلیوسی  پر قضائے حاجت کرنے کے لیے کرسی کی طرح بیٹھنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے پاخانے کا صحیح اور طبعی اخراج ممکن نہیں ہو پاتا اور فضلہ بڑی آنت میں اَ ٹک کر رہ جاتا ہے ۔ جو بے شمار بیماریوں کو جنم دیتا ہے ۔
  • ڈبلیوسی  پر قضائے حاجت کے باوجود بعد میں پیشاب کے قطرے گرنے کا غالب امکان رہتا ہے اور قطرا ت گرنے سے خارش اور دوسری کئی متعدی امراض وجود میں آتی ہیں ۔
  • ڈبلیوسی  کی مددسے قضائے حاجت کرنے سے آنتوں اور معدے پر زور نہیں پڑتا جس کی وجہ سے معدے اور آنتوں کے بے شمار امراض پیدا ہوتے ہیں ۔جیسے معدے کی جلن ،بدہضمی اور معدے کا السر وغیرہ۔
  • یہ جدیدیت کی پہچان ڈبلیو سی وضع ِ جسم کی فطری کیفیت کے خلاف ہے ۔جب سنت کے مطابق قضائے حاجت کی جاتی ہے تو اس و قت دماغ پورے جسم کو ڈھیلے رہنے اور پاخانے کے مقام کو پاخانہ خارج کرنے کا حکم ارسال کرتا ہے ۔ لیکن ڈبلیو سی استعمال کرنے سے پورا جسم ڈھیلا نہیں ہو پاتا اور پاخانہ کا مقام بھی کسا رہتا ہے جس کی وجہ سے بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔

پیغمبر اسلام ﷺ کے بتائے ہوئے طریقےنہایت مفید ہیں بلکہ کسی مذہب میں ان کی مثال نہیں ملتی ۔جب تک پیغمبر اسلام ﷺ والا طریقہِ طہارت نہ اپنایا جا ئے گا تو طہارت و استنجاء کا اصل مقصد پورا نہیں ہو گا۔ رسول اللہ ﷺنے کس قدر خوبی کے ساتھ انسان کو طہارت و پاکیزگی کا نظام عطا فرمایا کہ آج طبی ماہرین بھی یہ بات کہنے پر مجبور ہیں  کہ :

"واقعی پیغمبر اسلام( ﷺ) والا نظام ِ طہارت بے مثل و بے مثال ہے اور رسول اللہ (ﷺ )کے بتائے اور اپنائے ہوئے طریقے نہایت مفید ہیں"

بہر حال  فلش سسٹم فطری انداز اور طریقےکے قریب تر ہے  ۔ اسی لیے اس کے نقصانات کموڈ اور ڈبلیو سی سےبہت کم ہیں۔ لیکن جو فوائد کچی زمین اور نرم مٹی پر حاجت کرنے کے ہیں وہ یہاں میسر نہیں ہوسکتے ،چونکہ مٹی اور میدان ہر جگہ میسر نہیں اس لیے فلش بہرحال بہتر ہے ۔
3:  رسول اللہ ﷺ پاؤں کشادہ کرکے اور بائیں پاؤں پر زور دے کر خاموشی سے سر جھکائے فراغت حاصل کرتےتھے ۔ اس طریقے میں بھی سائنسی و طبی فوائد ہیں ۔ ان میں چند ملاحظہ فرمائیں ۔فزیالوجی کے ایک سنئیر پروفیسر کہتےہیں :

"میں مراکش میں تھا۔ایک یہودی ڈاکٹر کے پاس بخار کی دوائی کے لیے جانا پڑا ۔ ڈاکٹر کافی بوڑھا تھا۔جب میں نے اپنا نام لکھوایا تو وہ کہنے لگا:

"کیا تم مسلمان ہو؟"
میں نے کہا : " جی ہاں ! میں مسلمان ہوں "۔ یہودی ڈاکٹر کہنے لگا:
"اگر ایک طریقہ جو خود تمہارے نبی( ﷺ )کا ہے ،زندہ ہو جائے تو لوگ کئی امراض سے بچ جائیں "
میں حیران ہوا اور میں نے پوچھا:
" ڈاکٹر !وہ کو ن سا طریقہ ہے ؟"، یہودی ڈاکٹر نے کہا :

" وہ قضائے حاجت کا طریقہ ہے ۔ اگر قضائے حاجت کےلیے اسلامی طریقے پر بیٹھا جائے تو اپنڈے سائٹس ، دائمی قبض،بواسیر اور گردو ں کے امراض پیدا ہی نہیں ہوں گے۔ اگر مسلمان اپنے نبی کریم( ﷺ) والا طریقہ ِ حاجت اپنائیں گے تو وہ ان تمام بیماریوں سے بچ جائیں گے "

پروفیسر صاحب کہتےہیں :
'' میں اپنے نبی کریم ﷺ کے اس طریقے سے واقف نہ تھا ۔مجھے افسوس ہوا کہ میں نے علمِ دین کو تھوڑا سا وقت بھی نہ دیا کہ اتنے اہم اور ضروری مسائل ہی سیکھ لیتا ۔ اس وقت مجھے اس طریقے سے شناسائی کا اشتیاق ہوا ۔ میں نے اس یہودی ڈاکٹر سے تو نہ پوچھا،ہا ں مراکش میں ہی ایک عالم ِ دین تھے ۔میں ان کے پاس حاضر ہوا اور ان سے طریقہ دریافت کیا ۔ جب انہوں نے مجھے وہ طریقہ بتایا اور سمجھایا تو میں نے فی الفور اس پر عمل شروع کردیا  ۔ پہلے پہل تو مجھے کچھ دقت ہوئی لیکن اس کے فوائد جلد ہی میری سمجھ میں آگئے اور اس وقت سے اب تک میں حاجت کے لیے وہی طریقہ استعمال کرتا ہوں  جو میرے نبی ﷺ نے تعلیم فرمایا تھا"
جدید سائنس حضور ﷺ کےاس قضائے حاجت کے طریقے پرمسلسل ریسرچ کر رہی ہے اور اب تو غیر مسلم سائنسدان بھی یہ کہتے ہیں :

" صحت وزندگی کی بقا اور خوشحالی کے لیے پیغمبر اسلام (ﷺ )کے حاجت والے طریقے سے بڑھ کر کوئی طریقہ نہیں ۔ پیغمبر اسلام (ﷺ) کے اس طریقے پر عمل کرنے سے گیس ،تبخیر،بدہضمی ،قبض او ر گردوں کے امراض واقعی کم ہوجاتے ہیں  اور مستقل آپ (ﷺ) والا طریقہ اپنا کر اِن امراض کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے"

4:  رسول اللہ ﷺ استنجاء کے لیے پہلے ڈھیلے استعمال فرماتے اور ڈھیلے طاق عدد میں استعمال فرماتے تھے۔ اس سنت مبارکہ میں بھی کئی سائنسی اور طبی فوائد ہیں ۔ ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:
جدید سائنس  کی ریسرچ کے مطابق مٹی میں نوشادر اور اعلی درجےکے دافعِ تعفن اجزاء موجود ہیں ۔چونکہ پاخانہ اور پیشاب سارے کا سارا فضلہ ہوتا ہے اور جراثیموں سے لبریز ہوتا ہے اس لیے اس کا جلد ِ انسانی کولگنا انتہائی نقصان دہ ہے ۔ اگر اس کے کچھ اجزاء جلد پر چپک جائیں یا ہاتھ پر ر ہ جائیں تو بے شمار امراض کے پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ڈاکٹر ہلوک لکھتے ہیں:

"ڈھیلےکے استعمال نے سائنسی اور تحقیقی دنیا کو ورطہِ حیرت میں ڈال رکھا تھا لیکن اب یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ مٹی کے تمام اجزاء جراثیموں کے قاتل ہیں۔ جب ڈھیلے کا استعمال ہوگا تو پوشیدہ اجزاء پر مٹی لگنے کی وجہ سے ان پر بیرونی طور پر چمٹے ہوئے تمام جراثیم مرجائیں گے ۔ بلکہ تحقیقات نے تو یہ بھی ثابت کردکھایا ہے کہ مٹی کا استعمال شرمگاہ کو کینسر سے بچاتا ہے ۔میں نے ایسے مریضوں کو جن کی شرمگاہ پر زخم تھے اور خراش بھی پڑگئی تھی ،مستقل مٹی استعمال کرائی اور انہیں مٹی سے استنجاء کرنے کو کہا تو مریض حیرت انگیز طریقے سے صحت مند ہو گئے"

الغرض میرا ، تمام محقق سائنسدانوں اور اطباء کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ مٹی سے بنا ہوا انسان پھر مٹی سے عافیت پائے گا۔چاہے دنیا کے تمام فارمولے استعما ل کرلے اس کو فقط پیغمبر اسلام ﷺ کے طریقوں ہی سے بیماریوں سے تحفظ ملے گا۔
آج کل استنجاء اور طہارت کے لیے ٹشو پیپر یا پھر ٹائلٹ پیپر کا استعمال کیا جاتا ہے اور لوگ بڑے شوق سے اس کا استعمال کرتے ہیں ۔تمام لوگوں کو معلوم ہے کہ ٹائلٹ پیپر سے اچھی طرح صفائی نہیں ہوتی ۔کچھ نہ کچھ گندگی جسم پرباقی رہ جاتی ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے ۔اگر غسل کی بھی حاجت ہوتو انسان اسی طرح ٹائلٹ پیپر سے باقی ماندہ گندگی کےساتھ ہی پانی میں بیٹھ جاتا ہے جس سے نہ صرف وبائی امراض بڑھتے ہیں بلکہ ٹب کا سارا پانی بھی پلید اور گندا ہو جاتا ہے جو کہ غسل کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ اگر پھر بھی انسان اس سے نہا  لے تو اس کا سارے کا سار ا جسم ناپاک اور گند ا ہو جاتا ہے ۔ یہ مغربی تہذیب کا انسان کے حق میں نقصان ہے جو کسی بھی مسلمان کو ہرگز گوار ہ نہیں ہونا چاہیے ۔
ٹائلٹ پیپر بنانے والی فیکٹری کے ایک ملازم سے ایک ڈاکٹر اور ماہر طب کی ملاقات ہوئی ۔انہوں نے اس ملازم سے پوچھا کہ کیا اس  نرم و ملائم اور لطیف ٹائلٹ پیپر کی تیاری میں کوئی خطرناک کیمیکل  استعمال ہوتا ہے ؟تو ملازم نے کہا کہ:

" ڈاکٹر صاحب ! اس کے بنانے میں  بے شمار کیمیکل استعمال ہوتے ہیں ۔ بعض کیمیکل تو انتہائی مہلک ہیں جن سے جلد ی امراض ،ایگریما اور جلد میں رنگت کی تبدیلی کے امراض پیدا ہوسکتے ہیں"۔

اس وقت تمام یورپ ٹائلٹ پیپر استعمال کررہا ہے ۔پچھلے دنوں اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا کہ اس وقت یورپ میں شرمگا ہ کے مہلک امراض خاص طور پر شرمگاہ کا کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس کے سدِّباب کے لیے جب تحقیقی بورڈ بیٹھا تو اس بور ڈکی رپورٹ صرف دوچیزوں پر مشتمل تھی ۔ بورڑ کا کہنا ہے کہ یہ مہلک امراض اور شرمگاہ کا کینسر فضلے کی صٖفائی کے لیے ٹائلٹ پیپر کا استعمال کرنے اور پانی استعمال نہ کرنے کی وجہ سے بڑھ رہا ہے ۔ایک یورپین ڈاکٹر "کینن ڈیوس " نے پوری یورپی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :

" اگر تم اسی طرح زندگی گزارتے رہے کہ غلاظت اور پاخانہ کے مقام کو پانی کی بجائے ٹائلٹ پیپر سے صاف کرتے رہے تو پھر تم بہت جلد شرمگاہ کا کینسر،بھگندریا فسچولہ،پھپھوند کے امراض اور جلد انفیکشن کے امراض کا شکار ہو جاؤ گے"

 یورپ کا یہ تحفہ ہمارے لیے بہتر ہے یا نقصان دہ،فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔چونکہ یورپین استنجاء کے لیے صرف ٹائلٹ پیپر پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور پانی استعمال نہیں کرتے ،ا سی لیے ٹائلٹ پیپر ان کے لیے مہلک  ثابت ہوتا ہے لیکن اگر ٹائلٹ پیپر کے استعما ل کے بعد پانی بھی استعمال کیا جائے تو اس کے مضر اثرات نہ ہونے کے برابر ہو جائیں۔
5:  رسول اللہ ﷺ استنجاء کے لیے پہلے مٹی کے ڈھیلے اور پھر پانی استعمال فرماتے تھے ۔ خالی پانی سے بھی استنجاء کیا جاسکتا ہے ۔چناچہ حدیث اقدس میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"پانی سے استنجاء کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے "۔ (صحیح مسلم ۔ باب خصال الفظرۃ)

 پانی  کائنات کی عظیم نعمت ہے ۔یہ ہر غلاظت کو طہارت میں تبدیل کردیتا ہے ۔ اسلام نے نظام ِ طہارت کو اتنا واضح اور پاک بنا دیا ہے کہ اس کو مانے بغیر چارہ نہیں ۔ ہم کیا غیر مسلم سائنسدان اور اطباء بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے۔ جانٹ ملن مستشرق کا کہنا ہے :

"اسلام پاکیزگی اور صفائی کامذہب ہے ۔تمام مذاہب اس سے اپنی پاکیزگی کا باب پورا کرتے ہیں ۔ اسلام کا طریقہ استنجاء بھی بے مثال ہے کہ اس سے جسم پر گندگی کا ذرّہ بھی باقی نہیں رہتا ۔ اگر کسی جسم کو پانی لگائے بغیر صاف کیا جائے تو تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ جسم کا حصہ کبھی بھی صاف نہیں ہوگا بلکہ مختلف بیماریوں کا پیش خیمہ بن جائے گا۔ پھر پانی کے استعمال سے تو جسم کے اس حصے (شرمگاہ) کا درجہ ِ حرارت نارمل ہوجاتا ہے ،جوکہ نہایت مفید ہے کہ اس سے بواسیر وغیرہ نہیں ہونے پاتی ۔ اگر پانی استعمال نہ کیا جائے تو حاجت کے وقت مخصوص اعضاء کے علاوہ تما م اعضائے جسم کا درجہ ِ حرارت بھی بڑھ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے انسان مختلف بے شمار امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے "۔

ممنوعاتِ استنجاءکے سائنسی وطبی فوائد

رسول اللہ ﷺ نے پیشاب سے بچنے کے بارے میں پرزور احکامات ارشاد فرمائے ۔ اس کے علاوہ پیشاب کو روکنے ،کھڑے اور چلتے پانی میں پیشاب کرنے ،راستہ میں پیشاب کرنے ،سایہ دار اور پھلدار درخت کے  نیچے پیشاب کرنے ،ہوا کے رُخ پیشاب کرنے ،بل اور سوراخ میں پیشاب کرنے ،غسل خانے میں پیشاب کرنے ،کھڑے ہو کر پیشاب کرنے ،لید ،گوبر،ہڈی سے استنجاء کرنے اور قبلہ رُخ منہ یا پیٹھ کرکے پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔
نیز طہارت کےلیے دایاں ہاتھ پانی ڈالنے  اور بائیں ہاتھ سے صفائی کرنے ،قضائے حاجت کے بعد کسی چیز (صابن یا مٹی )سے ہاتھ دھو لینے اور قضائے حاجت کرتے ہوئے پردے کا سخت خیال رکھنے کاحکم ارشاد فرمایا ۔ ان تعلیمات کے بے شمار سائنسی اور طبی فوائد ہیں ۔ ان تعلیمات میں سے ہر ایک کے مختصر مختصر چند فوائد بیان کیے جاتے ہیں۔
1:  احادیث میں کثرت کے ساتھ پیشاب سے نہ بچنے پر وعیدیں  آئی ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

"پیشاب سے بچو کیونکہ اکثر عذاب ِقبر پیشاب سے نہ بچنے
 کی وجہ سے ہوتا ہے "
مستشرق " ڈاکٹر جانٹ ملن " کہتا ہے :

"رانوں کی خارش اور پھنسیوں ،پیڑو کی جلد کا ادھرنا،سرینوں اور اس کی اطراف کی الرجی اور عضوِ خاص کے زخم کے مریض جب بھی میرے پاس آتے ہیں تو میرا  ان سے پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ " کیا وہ پیشاب سے بچتے ہیں ؟"،ان  میں سے اکثر پیشاب سے نہیں بچتے  اور پھر لاعلاج اور مشکل امراض لے کر میر ے پاس آتے ہیں "۔

جینز اور پینٹ کی زنجیری اور بٹن کھول کر پیشا ب کرنے اور پھر بغیر استنجاء کے فوراً باندھ لینے کی صورت میں پیشاب کے قطرات اعضائے جسم پر گرتے رہتے ہیں جس سے جلدی امراض اور دیگر بے شمار امراض پیدا ہوتے ہیں

2:   رسول اللہ ﷺ نے پیشاب کور وکنے سے منع فرمایا اور فقہاء رحمتہ اللہ علیہم فرماتے ہیں :

" پیشاب اگر سواری پر آجائے تو اسی وقت دیر کیے بغیر سوار ی کو روکے  اور پہلے پیشاب کرے۔ اسی طرح اگر جماعت کا وقت ہوگیا ہے اور پیشاب آگیا ہے تو پہلے پیشاب کرے ،پھر وضو اور پھر جماعت کے ساتھ ملے۔کسی کام کو کرتے ہوئے پیشاب آجائے تو پہلے پیشاب سے فراغت حاصل کرنی چاہیے "۔

پیشاب کو نہ روکنے اور بروقت پیشاب کردینے کے درج ذیل طبی فوائد ہیں:

میڈیکل کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ جب بھی پیشاب یا پاخانہ آجائے تو اسی وقت اس سے فراغت حاصل کی جائے ۔ میڈیکل نے حاجتِ ضروریہ پیشاب اور پاخانے کو روکنے سے منع کیا ہے ۔ میڈکل فیلڈ کے ساتھ تعلق رکھنے والے سنئیر کہتے ہیں:

"حاجت ِ ضروریہ کو روکناگونا گوں بے شمار امراض کاپیش خیمہ بن سکتا ہے ۔ اس میں زیادہ نقصان دماغ،معدہ، اعصاب  اور گردوں کو ہوتا ہے ۔ بعض اوقات تو حاجت ِضروریہ کے روکنے سے قے اور چکر شروع ہو جاتے ہیں جوکہ نہایت ہی مضر ثابت ہوتے ہیں"۔

3:  رسول اللہ ﷺ نےکھڑے ہوئے پانی میں پیشاب اور پاخانہ کرنے سے منع فرمایا ۔ اس کے طبی اور سائنسی فوائد ملاحظہ فرمائیں۔
کنواں ،تالاب ،جوہڑ اور جھیل جیسے کھڑے پانی میں اگر قضائے حاجت کی جائے گی تو پانی میں جراثیموں کے داخل  ہونے سے تمام پانی آلودہ او ر خطرناک امراض کا سبب بن جائے گا ۔ اب اگر کوئی ذ ی روح (پرندے ،جانور یا انسان وغیرہ) اس پانی کو پئے گا تو وہ کئی ایک مہلک امراض کا شکار ہو جائے گامثلاً تپ محرقہ،ٹائی فائیڈ ،جراثیمی یرقان،آنتوں کے کیڑوں کے انڈے کی پیدائش ،پیراسائٹ اور طفیلی کیڑوں کی پیدائش وغیرہ۔
اس کے علاوہ کھڑ ے پانی میں پیشاب کرنے والا خود بھی کئی بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے مثلاً پیشاب کے چھینٹے اُڑنے کی وجہ سے ایک قسم کی بھاپ اٹھتی ہے جو پیشاب کرنے والے کو کئی بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے ۔ اس بھاپ سے سونگھنے کی قوت سلب ہو سکتی ہے ،آدمی آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوسکتا ہے  اور دماغ وگلے پر بھی گہرا اثر پڑسکتاہے۔

4:  رسول اللہ ﷺ نے چلتے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔ اس کی سائنسی اور طبی وجہ ملاحظہ فرمائیں:

چلتا پانی جیسے دریا،نہریں اور نالے کیونکہ قریہ قریہ سےگزر کر جاتے ہیں ۔کئی انسان او ر جانور اس پانی سے نفع لیتے ہیں ۔اگر فضلے کی وجہ سے یہ پانی آلودہ ہو جائے تو چلتے چلتے جراثیم کا گڑھ بن جاتا ہے اور بیماریاں پھیلاتا جاتا ہے ۔ اگر کوئی آدمی اس نہر یا نالے وغیرہ کو پار کرنے کے لیے پانی سے گزرے گا تو اس کا جتنا جسم پانی میں جائے گا اس کو نقصان کا اندیشہ ہے ۔ اس پانی سے الرجی ،پھوڑے ،پھنسیاں اور وبائی خارش وغیرہ بھی پھیلتی ہے ۔ اس کے علاوہ جب کوئی شخص چلتے پانی میں پیشاب کرے گا تو اس سے بو اُٹھے گی جو کہ دماغ اور پھیپھڑوں کے لیے انتہائی مضر ہے ۔

5:    رسول اللہ ﷺ نے گزرگاہوں اور راستوں میں پیشاب کرنے سے بڑی سختی سے منع فرمایا ۔ اس کے طبعی ،طبی اور سائنسی فوائد درج ذیل ہیں:
راستہ سے ہرکوئی گزرتا ہے اور جب راستہ میں پیشاب کیا جاتا ہے  تو پیشاب کی بُو اور جراثیم فضا ء میں معلق ہوجاتےہیں اور ہوا کی وجہ سے اس راستہ سے گزرنے والوں کے جسم میں سرایت کرجاتے ہیں  جس سے سانس کی پرابلم پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ پیشاب کی بو اور جراثیم سے آلودہ ہوا اگر انسان کے اندر پہنچ جائے تو دل ، جگر او ر پتے کی بیماریوں کا بھی غالب گمان کیا جا سکتا ہے۔

6:  احادیث اورفقہ میں سایہ دار اور پھلدار درخت کے نیچے پیشاب کرنے سے منع فرمایا گیا ہے ۔ اس کے چند طبعی ،طبی اور سائنسی فوائد یہ ہیں:
سایہ دار درخت لوگوں کے قیام او ر سکون کی جگہیں ہیں۔یہاں فضلہ کرنا انتہائی بُرا ہے اور اس سے یقیناً بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں کہ اس درخت کے سائے میں بیٹھنے والے کئی قسم کی وبائی امراض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ نیز پھلدار درخت سے گرنے والا پھل بھی گندگی سے آلودہ ہو کر قابل استعمال نہ رہ سکے گا۔

7:   احادیث اور فقہ میں ہوا کے رُخ پر پیشاب کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اس کے طبی و سائنسی فوائد درج ذیل ہیں۔
اگر ہو اکے رخ پیشاب کیا جائے  تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے وہ پیشاب اُڑ کر جسم ،چہرے اور کپڑو ں پر پڑےگاجس سے جسم اور کپڑے پلید ہوجائیں گے ۔ نیز اس  پیشاب کے جراثیم بھی مساموں کے راستے سے جسم میں داخل ہو کر الرجی ،خارش ،فسادِ خون اور کئی اورجلدی امراض پیدا کریں گے۔ آنکھوں میں پڑنے سے آنکھیں سوج جائیں گی،سرخ ہو جائیں گی ۔علاوہ ازیں آنکھوں میں خارش ہونے اور پانی کے بہنے کے ساتھ ساتھ کئی وبائی بیماریاں بھی لاحق ہو سکتی ہیں ۔ او ر اگر ہوا کی وجہ سے پیشاب اُڑ کر منہ میں چلاگیا تو اس سے منہ کی بیماری لاحق ہو نے کے ساتھ ساتھ منہ کا فالج بھی ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ منہ میں زخم ،مسوڑھوں میں پیپ اور دانتوں کی بیماری بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ زبان اورگلہ بھی بُری طرح متاثر ہو سکتا ہے ۔

8:   حضور نبی کریم ﷺ نے بل اور سوراخ میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا اس کے بھی بے شمار سائنسی اور طبی فوائد ہیں ۔ مثلاً
اگر زہریلے جانور کے بل میں پیشاب کیا گیا تو اس جانور کے باہر نکل کر نقصان پہنچانے کا خطرہ ہوتا ہے ۔بعض زمینیں کلرزدہ اور شورہ زدہ ہوتی ہیں  اور ان کے بلوں اورسوراخوں میں تیزاب اور شورہ کے مادے جمع ہوتے ہیں ۔ اگر ان میں پیشاب کیا گیا تو پیشاب چونکہ خود ایک تیزاب ہے اور جب ایک تیزاب دوسرے تیزاب سے ملے گا توزہریلے بخارات اُٹھ کر جسم ِ انسانی کو نقصان پہنچائیں گے۔

9:  رسول اللہ ﷺ نے غسل کی جگہ پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے کہ اس سے بے شمار وسوسے پیدا ہوتے ہیں۔ فقہاء کرام رحمتہ اللہ علیہم فرماتے ہیں:

" غسل کی جگہ پیشاب نہیں کرنا چاہیے ،کیونکہ اس سے عقل اور ذہن پر اثر پڑتا ہے ،یاداشت کمزور ہوجاتی ہے اور آدمی کئی وسوسوں میں پھنس کر شیطان اور بیماری کا شکار ہوجاتا ہے"۔

ایک سائنسی میگزین بنام " سائنس اور صحت " میں لکھا ہے :

"غسل کی جگہ پیشاب کرنے سے شہوتِ نفاسیہ کی زیادتی ہوتی ہے اور اس سے معاشرتی مہلکات پیدا ہوتے ہیں ۔ غسل کی جگہ پیشاب کرنے سے انسان نفسیاتی امراض کا شکار ہو جاتا ہے ۔ غسل کی جگہ پیشاب کرنے سے گردے میں پتھری پیدا ہوتی ہے ۔بہرحال غسل کی جگہ پیشاب کرنے سے اور بھی بہت سے نقصانات کا قوی اندیشہ ہے "

10:   حضور نبی کریم ﷺ نےکھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ چونکہ پیشاب جراثیموں سے پُر ہوتا ہے اور بعض اوقات اس میں بعض امراض (سوزاک،آتشک،گردوں کا جراثیمی انفیکشن وغیرہ)کی وجہ سے پیپ بھی موجود ہوتی ہے ۔کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے اس کے چھینٹے بدن اور لباس کو آلودہ کردیتےہیں  ،جس سے کئی امراض وجود میں آسکتے ہیں ۔ اس طرح پیشاب کرنے سے غدہ ِ قدامیہ پر بُرا اثر پڑتا ہے  اوروہ متورم ہو کر بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے پیشاب بند ہو جا تا ہے ،قطرہ قطرہ آتا ہے او ر دھار بھی پتلی ہوجاتی ہے ، اس کے علاوہ اور بھی کئی امراض جنم لے سکتے ہیں۔

11:   حضور نبی کریم ﷺ نے لید اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ لید میں بے شمار مہلک جراثیم ہوتے ہیں کیونکہ یہ ایک جانور کا فضلہ (پاخانہ ) ہے  اور ہر پاخانہ جراثیموں سے پُر ہوتا ہے ۔لید میں تشنج اور تپِ محرقہ کے جراثیم بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔اگرلید سے استنجاء کیا جائے تو وہ جراثیم جسم میں منتقل ہو کر بیمار کرسکتےہیں ۔ اس کے علاوہ اس سے شرمگاہ کو بھی بہت سے بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔جیسے خارش ،جلن،پیپ کا پڑھنا اور شرمگاہ کا کینسر وغیرہ۔
ہڈی سے جب گوشت کھا کر پھینک دیا جاتاہے تو اس کوجانور کھاتے ہیں ۔بعض جانوروں کے لعاب میں خطرناک جراثیم ہوتے ہیں مثلاً کتے کے لعاب میں ایک خاص جرثومہ ہوتا ہے جو اس کی کھائی ہوئی ہڈی پر لعاب کے ساتھ منتقل ہوجاتا ہے ۔مزید یہ کہ ہڈی پر مٹی ،گردوغبار او ر گندگی وغیرہ جم جاتی ہے  اس گردوغبار میں گوناگوں جراثیم پائے جاتے ہیں ۔ اب اگر یہ ہڈی استنجاء کےلیے استعمال کی جائے گی تو دیگر جراثیموں کے ساتھ ساتھ کتے کا خاص جرثومہ بھی جسم میں منتقل ہو جائے گا جس سے فسادِ خون ،دل ،جگر،پتا،انتڑیوں اور معدے کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔

12:   رسول اللہ ﷺ کے ارشادات کے مطابق قبلہ کی طرف تھوکنا ،پیشاب کرتے ہوئے پیٹھ اور منہ کرنا منع ہے ۔ ا س میں بھی کئی ایک طبی و سائنسی فوائد ہیں۔ چناچہ ڈاکٹر "ڈارون" ،ڈاکٹر " لیڈ بیٹر" اور ڈاکٹر "الیگزنڈر" کی تحقیق کے مطابق "کاسمک ورلڈ" کا نظام انسانی زندگی پر حاوی ہے ۔ خانہ کعبہ کے چاروں طرف سے نکلنے والی مثبت شعاعیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔پیشاب ،پاخانہ اور تھوک جو کہ خالص منفی شعاعیں ہیں کعبہ کی طرف ڈالنے سے آدمی کے لیے مسلسل نقصان کا باعث بنیں گی۔
مشہور پیراسائیکالوجسٹ ڈاکٹر کامن بیم نے اس بات کو اپنی تحقیقی زندگی کا حصہ بنایا ہے کہ مسلمانوں کے کعبہ کی طرف سے مسلسل مثبت شعاعیں پوری کائنات میں پھیل رہی ہیں اور اس طرح منفی شعاعوں (تھوک،پیشاب اور پاخانہ وغیرہ)کا رجحان ضرر کا باعث ہے ۔

13:   رسول اللہ ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ :

" طہارت کے لیے پانی دائیں ہاتھ سے ڈالو او ر صفائی کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کرو۔خبردار دایاں ہاتھ استنجاء کے لیے استعمال نہ کرو۔ جب کوئی شخص قضائے حاجت کےلیے جائے تو اپنی شرمگاہ کو بھی اپنے دائیں ہاتھ سے نہ چھوے"۔ (متفق علیہ)

استنجاء فقط بائیں ہاتھ سے کرنا چاہیے ۔ اسکی کئی وجوہات ہیں ۔ دائیں ہاتھ سے مثبت اور بائیں ہاتھ سےمنفی شعاعیں نکلتی ہی ۔ اگر استنجاء کے لیے دایاں ہاتھ استعمال کیا جائے تو جسم کا شعاعی نظام بگڑ جائے گا  اور اس کے بد اثرات دماغ اور حرام مغز پر پڑیں گے ۔ چیز  کھانے کےلیےچونکہ دایاں ہاتھ استعمال کیا جاتا ہے  اس لیے اگر استنجاء کے لیے بھی دایاں ہاتھ استعما ل کیا جائے تو پھرکھانا کھاتے وقت مادہِ نفرت کےپھیلنے کا ڈر ہے ۔

14:   قضائے حاجت کے بعد رسول اللہ ﷺ ہمیشہ مٹی پر ہاتھ رَگڑ رَگڑ کر دھوتے تھے۔ اس میں بھی بے شمار طبی فوائد ہیں ۔ مثلاً ہم مختلف اشیاء کو ہاتھوں سے ہی پکڑتے ہیں نیز ہاتھ ننگے رہتے ہیں اور اس طرح ہاتھوں پر مختلف بیماریوں کے جراثیم  یا مختلف کیمیکلز موجود رہتے ہیں جو ہمارے ہاتھوں کو آلودہ کردیتےہیں ۔ اگر ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کھا لیا جائے ،کھانے والے برتن میں ہاتھ داخل کردئیے جائیں ،کلی کرلی جائے یا ناک میں پانی ڈال لیا جائے تو یہ جراثیم باآسانی ہمارے کھانے ،منہ یا ناک کے ذریعے جسم کے اندر جاسکتےہیں  اور جسم کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کرسکتے ہیں ۔ اسی لیے دنیا بھر میں ہاتھ دھونے پر بہت زور دیا جارہا ہے تاکہ مختلف آلائشیں ہمارے جسم کے اندر منتقل نہ ہو سکیں۔
جب ہم ہاتھ دھوتے ہیں تو انگلیوں کے پوروں میں سے نکلنے والی شعاعیں ایک ایسا حلقہ بنا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے اندر دَور کرنے والا برقی نظام تیز ہو جاتاہے اور برقی رَو ایک حد تک ہاتھوں میں سمٹ آتی ہے ۔ اس عمل سے ہاتھ خوبصورت ہوجاتے ہیں ۔ صحیح طریقہ پر ہاتھ دھونے سے انگلیوں میں ایسی لچک پیدا ہوجاتی ہے جس سے آدمی کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو کاغذ یا کینوس پر منتقل کرنے کی خفتہ صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ قضائے حاجت کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے مَل مَل کر دھوتے تھے ۔چونکہ ہاتھوں کو جراثیم لگے ہوتے ہیں اور بعض جراثیم ایسے بھی  ہوتے ہیں جو عام پانی سے ضائع نہیں ہوتے اس لیے ہاتھوں کو مٹی یا صابن وغیرہ سے صاف کرلینا ایک اہم سنت اور طبی و سائنسی اصول ہے ۔ مٹی اعلیٰ درجے کی " انٹی سپٹک " ہے حتیٰ کہ اس میں کتے کے جراثیموں (جو کہ سب سے زیادہ قوی جراثیم ہوتے ہیں )کو بھی مار ڈالنے کی قوت و طاقت موجود ہوتی ہے ، اس لیے یہ عام جراثیموں کو تو فوراً ہی ختم کردیتی ہے ۔

(یہ مضمون جناب شیخ احمد دیدات کی کتاب " اسلامی نظامِ زندگی ،قرآن عصری سائنس کی روشنی میں "سے تلخیص شدہ ہے)

4 تبصرے

  1. ماشاء اللہ بہت اچھا مضمون ہے۔ شکریہ

    جواب دیںحذف کریں
  2. ارسلان راجپوت15 فروری، 2012 کو 9:53 PM

    ماشاء اللہ واقعی اسلام ایک ایسا دین ہے کہ جس نے اپنے ماننے والوں کو ہر میدان میں مفید ہدایا ت سے نوازا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. ماشاءاللہ بھت اچھا مضمون ہے۔تز کیر کے لیے جزاک اللہ

    جواب دیںحذف کریں
  4. Very beautiful but refrences must be quoted with more clarity and detail

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی