ہر زندہ چیز کو پانی سے پیداکیاگیا ہے۔ القرآن
درحقیقت قرآن کریم علوم ومعارف کا مخزن ہے ،جیسے جیسے ذہن انسانی کے بلوغ ورسوخ میں عہد بہ عہد ارتقاء ہوتارہے گا اسی طرح اللہ کی کتاب کے اسرارورموز منکشف ہوتے رہیں گے ،سائنس تجربات ومشاہدات کی بنیاد پر اپنے نتائج پیش کرتی ہے ،قرآن کریم نے خود بنی نوع انسان کو باربار مشاہدہ وتجربات کرنے کی کی دعوت دی ہے ۔اس وسیع وعریض کائنات میں مظاہر فطرت اور عجائبات قدرت ہرطرف پھیلے ہوئے ہیں ان کے اخذو استفاد ہ کے لئے سائنس ایک اہم ذریعہ ہے،کائنات کے بہت سے عجائبات اور مظاہر قدرت قرآن کریم میں مذکور ہیں جن کے اکتشاف واقتباس کے سلسلے میں سائنس کا اہم رول سامنے آتا رہا ہے اور آتا رہے گا،اس لیے علمی و سائنسی تحقیقات سے قرآن کو سمجھنے میں مدد لی جاسکتی ہے ۔
پیش نظر مضمون میں پانی سے متعلق قرآن کی آیات کا مطالعہ وتجزیہ پیش کیا جائے گااور سائنسی تحقیقات کی روشنی میں ان سے کیسے کیسے قیمتی نکات سامنے آتے ہیں ان کی بھی نشاندہی کی جائے گی۔قرآن کریم میں 63 مقامات پر (ماء) پانی کا ذکر آیا ہے جس سے خود اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پانی انسانی زندگی کے لیے کس قدر ضروری ہے ۔مثلاً
( وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ ط اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ) (الانیباء : 30)
”اور ہر جاندار چیز کو پانی سے زندگی بخشی ،کیا پھر بھی یہ لوگ (اللہ تعالیٰ کی خلاقی ) پر ایمان نہیں لاتے؟”
(وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءَ ط فَاَخْرَجْنَا بِہ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰی) (طہ : 53)
” او راوپر سے پانی برسایا او راس بارش سے پودوں میں سے جوڑے بنائے جو ایک دوسرے سے جدا جدا ہیں ”
(اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآ ءَ فَسَلَکَہ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہ ثُمَّ یَھِیْجُ فَتَرٰ ہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُہ حُطَامًا ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لِذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ) ۔(الزمر: 21)
'' کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا 'پھر اس کو سوتوں ، چشموں اوردریاؤں کی شکل میں زمین کے اندرجاری کیا 'پھر اس پانی کے ذریعہ سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتاہے جن کی قسمیں مختلف ہیں'پھر وہ کھیتیاں پک کر تیارہو جاتی ہیں'پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئیں 'پھر آخر کار اللہ اُن کو بھس بنادیتا ہے۔ درحقیقت اس میں ایک سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے۔''
(وَمِنْ اٰیٰتِہ یُرِیْکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآ ءَ فَیُحْی بِہِ الْاَرْضَ بَعَدَ مَوْتِھَا ط اِنَّ فَیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ)
'' اور اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تمہیں بجلی (کی چمک )دکھاتا ہے جس سے تم ڈرتے ہو اور امید بھی رکھتے ہو اور آسمان سے پانی برساتاہے جس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیتا ہے۔سمجھنے سوچنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیا ں ہیں ''
وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ ﴿ المومنون ۔ 18﴾
'' اورآسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرادیا 'ہم اُ سے جس طرح چاہیں غائب کرسکتے ہیں ''
وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿4 ۔ الرعد﴾
اور دیکھو، زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کمتر ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں
پودوں کے جوڑے جوڑے پیداکرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس پانی کے ذریعہ ہر طرح کےپھلوں کے جوڑے پیدا کئے ۔اس طرح پودوں کے مختلف عمل اور ان کے اندر پائے جانے والے توازن وتناسب کا ایک منظر سورہ رعد کی آیت نمبر 4 میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔جس میں خاص طورپر یہ نقظہ مذکور ہے کہ ایک ہی پانی سے سیراب کئے جانے کے باوجود کھجوروں کے ذائقوں میں تفاوت پایا جاتا ہے ۔اسی طرح ایک ہی پانی سے سیرابی کے باوجود ان میں کچھ اکہرے تو کچھ دوہرے ہوتے ہیں ،اس طرح سے دیکھا جائے تو پانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نشانیوں کو مخفی رکھا ہے ۔ان میں کچھ رفتہ رفتہ علوم وفنون کی ترقی کے ساتھ منظر عام پر آرہی ہیں اور کچھ آئندہ ذہن انسانی کی گرفت میں آئیں گی ،لیکن تاقیامت قرآن کریم کے عجائبات ختم ہونے والے نہیں ہیں۔
مذکورہ آیات پر موریس بکائیے لکھتے ہیں کہ " ہم جانتے ہیں کہ اعلی قسم کے درختوں میں پیدائشی عمل سے جو آخری پیداور حاصل ہوتی ہے وہ پھل ہے ۔پھل سے پہلے جو پھول آتا ہے جس میں نر اور مادہ دونوں ہی اجزا ہوتے ہیں ۔ جب پھولوں کا زیرہ بیضوں سے مل جاتا ہے تو وہ پھل کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور بڑے ہو کر اپنے بیجوں کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ اس لیے تمام پھل نرومادہ کے اجزا کے اختلاط کا نتیجہ ہوتے ہیں"۔
پودوں کی نشوونما کے ابتدائی مراحل سے لے کر آخر ی مراحل تک کا جائزہ لیا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ نباتات کی پیدائش کا پہلا عامل بارش کا پانی ہے ، اس کے بعد اس کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وہ زمین اور چٹانوں کو پھاڑ کر باہر آتے ہیں اور ایک ننھا اورکمزور سا پودا بڑھتے بڑھتے تناور درخت کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔ اس پودے کی نشوونما میں پانی اور مٹی کا سب سے اہم رول ہے ۔
ابھی کچھ دنوں قبل تک لوگوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ مختلف علاقوں کی زمینوں میں فرق کیوں پایا جاتا ہے ۔یہ اختلاف اصلاً زمین میں موجود مسامات اور ان کے حجم اور عدد کی بنیاد پر ہوتے ہیں ،مٹی کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ایک کالی مٹی ،جس کے مسامات بہت تنگ ہوتے ہیں جو پانی کو اپنے اندر مخفوظ کرلیتے ہیں ۔اس کے برعکس پیلی مٹی کے مسامات بہت چوڑے ہوتے ہیں جو پانی کو مخفوظ نہیں کر پاتے ،جس کی وجہ سے پانی بہت تیزی سے ادھر ادھر ہو جاتا ہے ۔ زمین کے ان مسامات میں جب پانی جاتا ہے تو ان میں اہتزاز یعنی حرکت اور قوت نمو پید ا ہوتی ہے نیز اس کا حجم بڑھ جاتا ہے ۔ یہی بات قرآن کریم نے پیش کی ہے ۔
جدید سائنس نے آج اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ” ہرجاندار شۓ میں پانی کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے اور کسی بھی جاندار کے جسم کی ساخت کا وزن 50 سے 90 فی صد تک پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مورس بوکائیے لکھتے ہیں کہ ”ان آیات کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہر زندہ چیز پانی سے بنائی گئی ہے (جو ا س چیز کا لازمی عنصر ہے)اور دوسرا یہ کہ ہر جاندار شے کی ابتدا پانی سے ہوئی ہے۔ یہ دونوں امکانی مفہوم سائنسی معلومات سے کلی طورپر مطابقت رکھتے ہیں’حیات کی ابتدا فی الحقیقت پانی ہے اور پانی تمام جاندار خلیات کا جزو اعظم ہے۔ پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں ہے۔ جب کسی دوسرے سیارے پر حیات کے امکان پر بحث کی جاتی ہے تو پہلا سوال ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ کیا وہاں حیات کو قائم رکھنے کے لیے کافی مقدار میں پانی موجود ہے ؟
نزول قرآن کےا یک طویل عرصہ کے بعد یہ دریافت ہو اکہ سورج کی حدت وحرارت کی وجہ سے سمندر کا پانی بھاپ بن کر ایک سرد مقام پر پہنچ کر پانی کی صورت اختیار کر لیتا ہے ،پہلے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بنتے ہیں اور یہی ٹکڑے بڑے ٹکڑوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ،یعنی بادل کی صورت اپنا کر زمین کو سیراب کرتے ہیں ،اس عمل کی مثال بالکل آگ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کی ہے جس کا پانی بھاپ بن کر ڈھکن تک پہنچتا ہے اور وہاں سے ٹپک ٹپک کر گرتا ہے ۔ گویا دھوپ آگ کے مانند ہے اور سمندر ،ہانڈی کےمانند۔
قرآن کریم نے ان بادلوں سے ٹپکتے ہوئے قطرات یعنی بارش کے پانی کو "ماء طھور" پاکیزہ پانی اور 'ماء مبارک"یعنی بابرکت پانی کہہ کر پکارا ہے ،بارش کے علاو ہ کسی پانی کو بھی ان اوصاف سےنہیں نوازا گیا ہے ۔بارش کے پانی کو پاک اور بابرکت اس لیے بھی کہا گیا کہ سمندر کا نمکین پانی جب بھاپ بن کر بادلوں کو بوجھل بناتا ہے یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا کر جمتاہے تو اللہ تعالیٰ اپنے خاص نظا م کے تحت اسے میٹھے پانی میں بتدیل کردیتا ہے ۔سائنسی تحقیقات کے ذریعے انسان کو بہت بعد میں معلوم ہوا کہ ہوائیں صرف پانی کو لے کر اوپر جاتی ہیں اور سمندرکے پانی میں ملے نمک کو یہیں چھوڑ دیتی ہیں۔
أَفَرَأَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِي تَشْرَبُونَ ﴿68﴾ أَأَنتُمْ أَنزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنزِلُونَ﴿69﴾ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاهُ أُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُونَ ﴿70﴾
'' کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا یہ پانی جو تم پیتے ہو اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں پھر کیوں تم شکر گزار نہیں ہوتے ؟۔(واقعہ )
وَأَسْقَيْنَاكُم مَّاءً فُرَاتًا ﴿ 27﴾.. (المرسلات)
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ۖ لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ ﴿ 10﴾
''وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمہارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے ''۔ (النحل )
قدیم دور میں یہ تصور بھی رائج تھا کہ پانی صرف چشموں ،دریاؤں اورسمندروں میں پایا جاتا ہے لیکن سخت ترین چیزوں یعنی پتھروں اور چٹانوں میں اس کا وجود ممکن نہیں ہے لیکن سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ 95 فیصد رطوبت تمام اشیاء میں ہوتی ہے ۔ جبکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو بہت پہلے بیان کردیاتھا کہ اس نے مناسب مقدار میں پانی کو آسمان سے نازل کرکے زمین میں ٹھہرا دیا ہے ۔ اسی طرح قرآن نے یہ بھی بتایا کہ پتھروں میں بھی پانی موجود ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :
وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ ﴿ البقرہ ۔ 74﴾
(کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے ۔۔۔)
اللہ تعالیٰ نے جس وقت زمین کو انسانوں کی رہائش کےلیے ہموار کیا تھا ،اسی وقت سے ان کی ضروریات کے مطابق اس میں پانی رکھدیا تھا ۔زمین کا یہی پانی بارش کی شکل میں واپس آتا ہے ،زمین کا یہی پانی چشموں اور ٹیوب ویلوں کی مدد سے نکلتا ہے اور زیر زمین راستوں ،دریاؤں ،ندی نالوں کی صورت میں سمندر میں جا ملتا ہے ۔ مختصر یہ کہ یہ تمام پانی زمین کے اندر اس کی تخلیق کے وقت ہی سے اس میں موجود ہے اور یہ واٹر سائیکل کے ذریعہ باربار استعما ل ہوتا رہتا ہے۔
موجودہ معلومات ہمیں اس بات پر غور کرنے کی طرف مائل کرتی ہیں کہ قدیم ترین جاندار شے کا تعلق یقینا عالم نباتات سے ہو گا ‘سمندری کائی کا سراغ ماقبل کیمبرین دور سے ملا ہے۔ یعنی اس زمانہ سے جودریافت شدہ قدیم ترین زمانہ ہے۔ نامیاتی اشیا جن کاتعلق عالم حیوانی سے ہے ‘ غالباً کسی قدر بعد میں ظہور پذیر ہوئیں’ان کا وجود بھی سمندر سے ہی ہوا۔
یہاں جس لفظ کا ترجمہ ”پانی ”کیا گیاہے وہ ”ماء ”ہے جس سے مراد آسمان سے برسا ہواپانی اورسمندری پانی دونوں ہو سکتے ہیں۔ماء کا لفظ یہا ں دوسرے معنوں میں ایک سیال شے( بغیر کسی مزید اشارے کے کہ اس کی نوعیت کیا ہو گی )یہ صراحت کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے کہ تمام نباتاتی زندگی کی تشکیل کی بنیاد کیاہے ؟ایک اور آیت میں فرمایا گیاہے:
( وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّاءِ ) (نور۔45)
”اللہ نے ہر چلنے والے جاندار کوپانی سے پیداکیا ”
لہٰذا خواہ اس سے عمومی طورپر زندگی کی ابتدا سے بحث کی جائے یاوہ عنصرمراد ہو جو پودوں کو مٹی میں جنم دیتاہے ‘یا حیوانات کاتخم سمجھاجائے ‘قرآن میں ذکر کردہ حیات کی ابتدا کے تمام بیانات جدیدسائنسی معلومات سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں۔زندگی کی ابتدا سے متعلق جو نظریات نزول قرآن کے وقت عام طورپر رائج تھے ان میں سے کوئی بھی قرآن کے متن میں مذکور نہیں ہے۔
ماخذ:۔
قرآن اور سائنس ،ترتیب وتدوین از پروفیسر عبدالعلی اور ڈاکٹر ظفر الاسلام۔ ص 228 تا 243
القرآن ولعلوم العصریہ از شیخ طنطاوی الجوہری۔مصر ۔ ص 36 تا 53
مائیکروسافٹ اینکارٹا انسائیکلوپیڈیا ، DVD ۔1996
الاسلام و الحقائق العلمیہ از محمود قاسم۔ بیروت ص 49 تا 50
بائیبل ‘قرآن اورسائنس از مورس بوکائیے ۔ صفحہ 226-227
Help, I've been infromed and I can't become ignorant.
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں