لیبارٹری میں خدا کی تلاش
انسان روز اول سے خدا کو ڈھونڈ رہاہے۔ کوئی اس کی تلاش میں مسجد، گرجا، مندر اور دوسری عبادت گاہوں میں جاتا ہے توکوئی اسے کائنات میں بکھرے ہوئے حسن، رنگوں اور جلوؤں میں ڈھونڈتا ہے، توکوئی خدا کو پانے کے لیے ٹوٹے ہوئے دلوں میں جھانکتاہے۔ دنیا کا ہر شخص شعوری یا غیر شعوری انداز میں خدا کو تلاش کررہاہے ۔ اس تلاش میں سائنس دان بھی شامل ہیں جو صرف ان ٹھوس حقیقتوں پر یقین رکھتے ہیں جسے وہ ٹیسٹ ٹیوب میں پرکھ سکیں یا اپنی خوردبین کی سلائیڈ پرر کھ کر دیکھ سکیں۔
کائنات کتنی وسیع ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ اس میں کتنی دنیائیں، کتنی مخلوقات، اور کتنی چیزیں ہیں؟ کسی کو علم نہیں۔ بے پناہ ترقی کے باوجود ہمار ی معلومات سمندر کے مقابلے میں شاید ایک قطرے سے بھی کم ہیں۔ اربوں سال سے کوئی تو ہے جو کائنات کا پورا نظام انتہائی صحت کے ساتھ چلا رہاہے۔ ہم اور آپ اسے خدا کہتے ہیں جب کہ اکثر سائنس دان اسے توانائی کا نام دیتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ کائنات کی سب سے اہم توانائی کشش کی ہے، یہ وہ قوت ہے جو چاندستاروں اور کہکشاؤں سے لے کر ایٹم کے اندر موجود الیکٹران اور اس کے مرکزی حصے کوجوڑے رکھتی ہے۔ کائنات کی ایک اور اہم توانائی برقی مقناطیسی لہریں ہیں ۔ جس کی مختلف شکلیں روشنی وغیرہ ہیں۔ توانائی کی ایک اور قسم ایٹم کے مرکزی حصے کو جس میں پروٹان اور نیوٹران ہوتے ہیں ، یک جا رکھتی ہے۔ اور کمزور اقسام میں ایٹم سے خارج ہونے والی تابکاری شمار کی جاتی ہے۔
سائنس دانوں کا یہ بھی کہناہے کہ مادہ اور توانائی ایک ہی چیز کے دو رخ ہیں۔ مثلاً ہم جس طرح ایٹم کو توڑ کر جوہری توانائی حاصل کرسکتے ہیں اوراسی طرح توانائی کو مادے میں بدل سکتے ہیں۔کائنات میں ہر وقت یہ عمل کہیں نہ کہیں ہورہاہے۔
شروع میں سائنس دانوں کا خیال تھا کہ سب کچھ ایک خود کار طریقے سے ہورہاہے، نئی دنیائیں بن رہی ہیں، پرانی دنیائیں فنا ہورہی ہیں، مگر 70 کے عشرے میں ایک سائنس دان پیٹر ہگز نے ایک نیا تصور پیش کیا۔ ان کا کہناتھا کہ یہ سب کچھ ایک نادیدہ قوت کررہی ہے۔توانائی اس وقت تک مادے کی شکل اختیار نہیں کرسکتی جب تک اسے ایک نادیدہ قوت کی تائید حاصل نہ ہو۔ اس نامعلوم قوت کو پیٹر ہگز کے نام پر ہگز بوسن کہا جاتا ہے۔ لیکن بعدازاں اسی موضوع پر ایک اور سائنس دان لیون لیڈرمن کی کتاب ’گاڈ پارٹیکل‘ کے نام پر اس کا نام گاڈ پارٹیکل یا خدائی صفات کا ذرہ پڑ گیا۔
گاڈ پارٹیکل کیا ہے؟
گاڈ پارٹیکل اس کائنات کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔اتنی چھوٹی کہ اسے انتہائی طاقت ور ور خورد بین سے بھی دیکھا نہیں جاسکتا۔ مگر اس کے اندر ایک ایسی توانائی یا کشش موجود ہے جو چیزوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔اس کی مثال ایسے ہی ہے جسے ایک بڑے ہال میں بہت سے لوگ اکا دکا یا ٹکڑیوں کی شکل میں مختلف جگہوں پر موجود ہوں۔اچانک ایک مقبول لیڈر کے ہال میں داخل ہونے سے سب تیزی سے اس کے گرد اکھٹے ہوکر ایک بڑا مجمع بنالیں۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جس کا کوئی حجم ہے، چاہے وہ ٹھوس ، مائع یا گیس ہے۔اس کے اندر ’گاڈ پارٹیکل‘ موجودہے۔
کائنات کی ہر چیز کا سب سے چھوٹا جزو اٹیم ہے۔ ایٹم کا سب سے چھوٹا حصہ الیکٹران ہے۔ جس کا ایک مخصوص حجم ہے جو اسے گاڈ پارٹیکل سے ملاہے۔
ایٹم کے اندر الیکٹران اور پروٹان کی تعداد تبدیل ہونے سے مختلف چیزیں بنتی ہیں اور پھر اس طرح کائنات کی ہر چیز وجود میں آتی ہے۔ گویا اس کائنات میں الیکٹران سے لے کر بڑے بڑے سیاروں اور ستاروں تک، ہر چیز میں گاڈ پارٹیکل یا خدائی صفات رکھنے والا ذرہ موجود ہے۔
سائنس دانوں کا کہناہے کہ تقریباً 15 ارب سال قبل کائنات ایک بہت بڑے گولے کی شکل میں تھی ۔ یہ گولا اپنی اندرونی قوت کے دباؤ سے پھٹ کر بکھر گیا۔ پھر کئی کروڑ سال تک کائنات میں صرف توانائی بکھری رہی اور پھر رفتہ رفتہ درجہ حرارت کم ہونے کے بعدوہ سورج چاند ستاروں اور دوسری اشکال میں ڈھل گئی۔
جدید طبعیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ کائنات بنانے میں گاڈ پارٹیکل نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ اب وہ کئی برسوں سے اپنے اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے تجربات کررہے ہیں۔
اس سلسلے کی سب سے بڑی تجربہ گاہ فرانس اور سوئٹزر لینڈ کی سرحد پرزیر زمین ہے۔جسے لارج ہائیڈرون کولائیڈر یا ایل ایچ سی کہاجاتا ہے۔ یہ لیبارٹری تقربیاً27 کلومیٹر لمبی سرنگ میں واقع ہے اور زمین کی سطح سے اس کی گہرائی 574 فٹ ہے۔کئی ارب ڈالر سے تعمیر کی جانے والی اس تجربہ گاہ میں دس ہزار سائنس دانوں کے کام کرنے کی سہولت موجود ہے۔ یہاں کام کا آغاز ستمبر2008ء میں ہوا تھا اور اس موقع پر پاکستان سمیت تقریباً ایک سو ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنس دان موجود تھے۔
دوسری لیبارٹری امریکی شہر شکاگو کے قریب واقع فربی لیب ہے۔جس کی لمبائی تقریباً ساڑھے چھ کلومیٹر ہے اور یہاں تحقیق کا آغاز ایل ایچ سی سے پہلے ہواتھا۔
ان تجربہ گاہوں میں مصنوعی طور پر تقریباً 15 ارب سال پہلے کے وہ حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جب بگ بینگ یعنی ایک بڑے دھماکے کے بعد موجودہ کائنات بنی تھی۔ ماہرین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا کائنات بنانے میں کسی ایسی چیز کا بھی کردار تھاجسے اب گاڈ پارٹیکل کا نام دیا جارہاہے۔
تاحال سائنس دانوں کو ابھی تک کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن ایسے شواہد ملے ہیں جن کی بنا پر وہ 2012ء کے آخر تک کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کا دعویٰ کررہے ہیں۔
دوسری جانب کئی سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ دونوں تجربہ گاہیں گاڈ پارٹیکل کا کھوج لگاپائیں یا نہ لگا پائیں،لیکن وہ بلیک ہول بنا سکتی ہیں۔
بلیک ہول کیا ہے؟
بلیک ہول کو آپ کالا آسیب یا کالی بلا کہہ سکتے ہیں۔یہ دکھائی نہ دینے والی ایک انتہائی طاقت ور شے ہے جو ہر چیز کو اپنی جانب کھینچ کر ہڑپ کرجاتی ہے۔ کائنات میں بے شمار بلیک ہول موجود ہیں۔ وہ دکھائی نہیں دیتے کیونکہ وہ روشنی کی لہروں تک کو نگل جاتے ہیں۔ ہمیں کوئی چیز اس وقت دکھائی دیتی ہے جب روشنی کی لہریں اس سے منعکس ہونے کے بعد ہماری آنکھوں سے ٹکراتی ہیں۔
مفید معلومات فراہم کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
جواب دیںحذف کریںاس خبر کو لے کر ایک آدمی نے لکھا ہے کہ
جواب دیںحذف کریں" یہ وہی بات ہے کہ جس کو ہمارے تصوف کے بزرگ ایک عرصے سے کہہ رہے تھے کہ ہر ایک چیز کے اندر اللہ موجود ہے ۔ لیجئے سائنس نے اب اس بات کو بھی ثابت کردیا ہے "
اسی طرح جناب ہارون یحییٰ نے بھی اہل تصوف کے اس عقیدے کو کہ یہ دنیا حقیقت نہیں ہے بلکہ ایک دھوکہ ہے ۔۔ کو ثابت کرنے کے لیے سائنس کا سہارا لیا ہے۔ مگر مجموعی طورپر اس بندے نے بڑا اچھا کام کیا ہے اور خاص طور پر ڈارون کے نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بڑا عمدہ کام کیا ہے۔
چناچہ ہمیں اس بات پر بھی غور رکھنا ہو گا کہ لوگ سائنس کو اپنے غلط عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے استعمال نہ کریں ۔ ۔اور اس خبر سے یہ نتجہ نکالنا کہ اللہ کا وجود ہر شے میں ہے ، ایک بیوقوفی اور نادانی ہوگی۔۔اس لیے کہ ہم سائنس کی صرف اسی تحقیق اور نتیجے کو قبول کریں گے کہ جو قرآن وسنت کے مطابق ہو کیونکہ سائنس کا کوئی حرف آخر نہیں ہے اور جیسا کہ آج کی تازہ خبر کے مطابق آئن سٹائن کا ایک صدی سے چھایا ہوا نظریہ اضافت خطرے میں پڑ گیا ہے ۔ ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ہم اپنے عقیدوں کو سائنسی نظریوں کے حوالے سے سچ اور جھوٹ بنائیں ۔ اللہ ہمیں ہدایت دے۔ آمین
ایک تبصرہ شائع کریں