خلائی دور بین ہبل کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہے


 خلائی دور بین ہبل کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہے


تقریباً چار سو سال قبل  گیلیلو  کے زمانے   اور دوربین کی ایجاد کے بعد سے اب تک  ماہرین فلکیات آسمان میں دور تک دیکھنے اورمطالعہ کرنے  کے طریقے ڈھونڈھ رہے ہیں۔ مگر آج کل خلائی دوربین ہبل نے  یہ مشکل آسان کر دی ہے اور اب  انسان کائنات کی ان حدود  تک دیکھ سکتا تھا جو پہلے کبھی ممکن نہیں تھا۔
24اپریل 1990کو سپیس شٹل ڈسکوری ایک مخصوص آلے کو لے کر خلا ئی سفر پر روانہ ہوئی جس کی بدولت کائنات کے بارے میں ہمارے علم اور معلومات میں ایک انقلاب بپا ہو گیا۔


ہبل ٹیلی سکوپ  نامی خلائی دوربین کو اس طرح ڈئزائن کیا  گیا ہے  کہ وہ  زمین کی دھندلی فضاؤں سے اوپر رہتے ہوئے ، انتہائی شفاف  ماحول میں سیاروں ، ستاروں  اور کہکشاؤں اور ان سے بھی آگے سماوی  نظاموں کا جائزہ لے سکے۔
ہبل ٹیلی سکوپ  کا سائز ایک سکول بس جتنا ہے  اور اس کا نام ایک ا مریکی خلاباز ایڈون ہبل کے نام پر رکھا گیا ہے ۔ اسے  ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت سے دس سال میں بنایا گیا اوراس کے  ڈیزائن اور تعمیر میں دس ہزار افراد شامل تھے۔
 ننسی گریس رومن  کوہبل ٹیلی سکوپ کی ماں سمجھا جاتا ہے۔ امریکی خلائی  ادارے  ناسا کے ایک اعلیٰ عہدے دار کی حیثیت سے انہوں نے  اس کی ابتدائی منصوبہ بندی اور تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔
ننسی نے ماہرین فلکیات اور ناسا کے انجنیئرز کی ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ ایک ایسی رصد گاہ بنائی جائے جو فضا کے اوپر چکر لگائے اور کائنات کی واضح تصاویر زمین پر بھیج سکے۔
ابتدا میں دوربین کے ایک عدسے میں خرابی  کے باوجود  ہبل کا مشاہدے اور دریافت  کے حوالے سے مشن تاریخ ساز رہاہے۔ ٹیلی سکوپ پر نصب کیمرے نے کہکشاں میں اتنی دور دور تک تصاویر اتاریں جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں ۔


ننسی کا کہناہے کہ یہ دوربین ایسی ایسی چیزوں کو دیکھ سکتی ہے جو  انسانی آنکھ کے لئے اربوں گنا دھندلی ہوتی ہیں اوریہ   چیزوں کو انتہائی واضح کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے آپ چاند پر جگنو کو دیکھ سکتے ہیں جو آپ اپنی  آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔ 
گزشتہ بیس سال میں ہبل  کی وجہ سے کائنات کے بارے میں ہمارےعلم میں ہزاروں گنا اضافہ ہوا ہے۔مختلف خلائی مشنز کے دوران کئی مرتبہ اس  کے آلات تبدیل کئے گئے ہیں۔ اس کی تصاویر کی بدولت اب ماہرین  فلکیات کائنات کی تخلیق  کے آغاز کے بارے میں زیادہ درست اندازہ لگانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ کائنات تقریباً چودہ ارب سال پرانی ہے جبکہ اس سےقبل کہا جاتا تھا کہ اس کی عمر  دس سے بیس ارب سال ہے۔
اس سال  چار جولائی کو ہبل ٹیلی سکوپ نے دس لاکھ سائنسی مشاہدات مکمل کر لئے ۔ عمومی طور پر اسے انتہائی کامیاب  خلائی مشن تصور کیا جاتا ہے۔
امریکی سائنسدانوں نے  اس سے بھی زیادہ طاقتور ٹیلی سکوپ  تیار کر لی ہے اور اسے خلا میں بھیجنے کے لئے تیاریاں ہو رہی ہیں مگر توقع ہے  کہ ہبل مزید دس سال تک کائنات کے بارے میں انقلابی معلومات اکٹھی کرتی رہے گی۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی