زمین کی کشش ِ ثقل اورقرآن مبین


 زمین کی کشش ِ ثقل اورقرآن مبین


کسی جسم میں موجود مادے کی مقدار کو اسکی کمیت کہتے ہیں جبکہ وزن سے مراد وہ قوت ہوتی ہے جس سے زمین کسی مادی شے کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔کسی چیز کی وہ مقدار جو کسی خاص رقبہ میں سمائے، اُس چیز کی کثافت کہلاتی ہے.علمِ طبیعیات میں، کثافت کسی چیز کی کمیت اَور اُس کے حجم کے درمیان نسبت ہے، اور اِسے کمیت کو حجم پر تقسم کرکے حاصل کیا جاتا ہے۔ وزن سے مراد وہ قوت ہے جو ہر جسم سیارے کی کشش ثقل کی وجہ سے محسوس کرتا ہے۔آزادانہ گرتی ہوئی ہر چیز کا وزن صفر ہوتا ہے۔ اسی طرح تیرتی ہوئی ہر چیز کا وزن بھی صفر ہوتا ہے مگر اسکی کمیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔


اسی طرح زمین کے گرد گھومتے ہوئے مصنوعی سیارے میں کسی چیز یا خلا نورد کا وزن صفر ہو جاتا ہے مگر اسکی کمیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر کسی بلند عمارت میں نصب لفٹ نیچے جانا شروع کرتی ہے تو لفٹ میں موجود ہر چیز کا وزن کم ہو جاتا ہے مگر جب لفٹ رکنے لگتی ہے تو وزن بڑھنے لگتا ہے۔اگر زمین پر کسی چیز کا وزن ایک ہو تو سورج پر اسکا وزن لگ بھگ 28 گنا بڑھ جائے گا حالانکہ اس چیز کی کمیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔کششِ ثقل ، وہ قوت ہےجس سے کمیت رکھنے والے تمام اجسام ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں عام مفہوم میں یہ وہ قوت ہے جس سے زمین تمام اجسام کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

اس سلسلے میں بے شمار نظریات ملتے ہیں جن میں سے نیوٹن کا قانون عالمی تجاذب اور البرٹ آئنسٹائن کا نظریۂ اضافیت زیادہ مشہور ہیں۔ عام زندگی میں اس قوت کا احساس ہمیں کسی چیز کے وزن کی صورت میں ہوتا ہے۔ اصل میں زمین پر گرنے والے اجسام زمین کی کشش کی وجہ سے گرتے ہیں۔ زمین کی کمیت اس پر گرنے والی اشیاء کی نسبت بہت زیادہ ہے اس لیے اشیاء کو زمین اپنی طرف کھینچتی ہے اور اس قوت کو ہم وزن کی شکل میں ملاحظہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے ہم زمین کے مرکز سے دور ہوں تو وزن کم ہوتا جاتا ہے۔ زمین پر وزن رکھنے والی اشیاء بھی زمین کو اپنی طرف کھینچتی ہیں مگر زمین کے مقابلے میں یہ قوت اس قدر کم ہوتی ہے کہ ہمیں محسوس نہیں ہوتی۔ کشش کی یہی قوت ہے جس کی وجہ سے زمین اور دیگر سیارے سورج کے ارد گرد گھومتے ہیں اور نظامِ شمسی اور دیگر نظام قائم ہیں۔ کائنات میں ہر طرف یہ قوت کار فرما ہے۔ زمین پر اجسام کا قائم رہنا، مدوجذر، مادہ کے اجزاء کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہ کر بڑے بڑے اجسام بنانا سب کششِ ثقل کی وجہ سے ہیں۔

حالیہ تجربات سے ماہرین کو معلوم ہوا ہے کہ خلا میں کشش ثقل کی اسی طرح کی لہریں چل رہی ہیں جیسا کہ سمندروں میں وہ روئیں چلتی ہیں جن پر تجارتی بحری جہاز سفر کر کے اپنے ایندھن کے اخراجات میں بچت کرتے ہیں۔ خلا میں کشش ثقل کی یہ لہریں مختلف سیاروں اور ان کے چاندوں کے درمیان موجود ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لہریں دائروں کی شکل میں بھی ہے اور وہ سانپوں کی طرح بل بھی کھا رہی ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ خلائی جہاز ان لہروں پر سفر کرکے اپنے ایندھن کے اخراجات نمایاں طور پر بچا سکتا ہے۔


امریکہ میں سائنس دان کشش ثقل کی ان بل کھاتی ٹیوب نما لہروں کا نقشہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ خلائی سفر کے اخراجات میں بچت کرنے کے لیے انہیں استعمال کیا جاسکے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلا میں ٹیوب کی شکل کی لہریں سیاروں اور ان کے چاندوں کے درمیان ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچنے والوں قوتوں کے باہمی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ کمپیوٹروں پر ان لہروں کے بنائے جانے والے نقشوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خلائی راستے سوئیوں کے لچھوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں جو سیاروں کے اردگرد لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ خلائی راستے ان نکات کو ایک دوسرے سے منسلک کرتے ہیں جہاں کشش ثقل کی قوتیں ایک دوسرے کے مساوی ہوجاتی ہیں۔

زمین میں موجود معدنیات،پتھر اور طرح طرح کے بے شمار مادو ں کی مناسب مجموعی کشش نےاس پر موجود ہر چیز کو سکون اور قرار بخشا ہوا ہے ۔ اگر یہ کششِ ثقل بہت زیادہ ہوتی تو ہم ایک قدم بھی نہ اٹھا سکتے یا چلنے کے لیے بہت قوت صرف کرنا پڑتی ۔)جیساکہ سورج کی کشش ثقل ہے(اسی طرح اگر یہ کششِ ثقل بہت کم ہوتی تو کسی چیز کو قرارملنا بہت مشکل ہوجاتا ،ہر چیز ہوا میں اڑ رہی ہوتی اور ہمارا چلنا ،پھرنا دوبھر ہو جاتا،حتیٰ کے ہماری فضاء سے آب و ہوا بھی غائب ہوجاتی(جیساکہ چاندکی کشش ثقل ہے)۔

اللہ تعالیٰ کی قدرت پر قربان جائیے کہ جس نے ننھے سے ذرے ایٹم میں بھی قوت کشش رکھی ہے۔ اگر الیکڑون کو اس کشش سے آزاد ہونا ہے تو بہت زیادہ توانائی کی ضرور ت ہو گی۔چناچہ ایک ذرے سے لے کر دور افتادہ کہکشاوں اور زمین وآسمان کی تمام چیزوں پر ثقل کا قانون لاگوہے۔

انسان ایک مدت سےاس کوشش میں تھا کہ زمین کے مدار سے باہر نکلے اور کائنات کی قدرتوں کا مشاہد ہ کرے ،چناچہ مسلسل تجربات و تحقیق کی بدولت وہ دن بھی آگیا جب انسان نے اپنے وجود کو زمین کی کشش سے آزاد کرا لیا اور چاند پر قدم رکھا۔سائنسدانوں کے مطابق انسان زمین کی کشش سے اس وقت آزاد ہوسکتا ہے کہ جب وہ 11.2 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی مخالف سمت میں سفر کرے ۔ ا س حدِ رفتار کو رفتارِگریزاں یا Escape Velocity کہتے ہیں۔
اگر زمین کی کثافت یوں بڑھائی جائے کہ اس کا قطر موجودہ سے چار گنا کم ہوجائے تو مطلوبہ رفتار گریزاں 22 کلومیٹر فی سیکنڈ یعنی دگنی ہوجائے گی۔جوں جوں ہم کثافت بڑھاتے جائیں اور زمین کا سائز کم کرتے جائیں تو کشش ثقل بڑھتی جاتی ہےاور زمین کے مدار سے نکلنے کےلیے نسبتاً زیادہ رفتار کی ضرورت ہوتی ہے۔ چناچہ اگر زمین کو کسی طرح بھینچ کراسپرین کی گولی کے برابر کرلیں تو کثافت اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ پھر جسم کو زمین سے فرار اختیار کرنے کے لیے روشنی کی رفتار سے بھاگنا ہوگا۔اگر کسی جسم کی کشش اتنی بڑھ جائے کہ روشنی بھی راہ ِ فرار نہ پاسکے تو اس جسم کو سیاہ شگاف یا
Black Hole کہتے ہیں۔یہ جسم چونکہ روشنی کوجذب کرلیتا ہے لہٰذا دکھائی نہیں دیتا ۔
اجرام فلکی میں چھوٹے بڑے اربوں ستارے ہیں ۔ ان کی جسامت اور کشش کے ماتحت یہ ستارے بتدریج ،سفید بونے ،نیوٹرون اسٹار اور بلیک ہولز میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔زمین کی طرح اور سیاروں اور ستاروں پر بھی کشش کا قانون اتنا ہی بھرپور ہے جتنا زمین پر۔

کائنات کا نظام کشش کے تانوں بانوں پر مبنی ہے ۔باہمی کشش اور گردش ِ دوام پر نظام کائنات کا نظام منحصر ہے ۔ جب خالق کائنات چاہے گا یہ کائنات تھم جائے گی ،پھر واپسی ہوگی اور بالآخر”Big Crunch“ سے یہ کائنات ایک نقطے پر آجائے گی ،جہاں تمام مادے اور تونائیاں جمع ہو جائیں گی۔ اسے سائنسداںSingularity ” “ کہتے ہیں ۔ہمیں معلوم ہوا کہ کثافت ،کشش ثقل اور اسکیپ ولاسٹی سبھی کچھ آفرنیش سےلے کر قیامت تک کے لیے ایک اہم پہلو ہے ۔یہ کثافت کا قانون ہی تو ہے کہ اربوں نوری سال دوری پر واقع بھاری بھر کم کہکشائیں سمٹ کر یکجا ہو جائیں گی ۔
زمین کی اسی کشش ثقل کی وجہ سے جہاں اس پر سکون ممکن ہے وہی اس سے راہ ِ فرار اختیار کرنا بھی ممکن ہے ۔ چناچہ انہی دونوں باتوں کی جانب قرآن مجید میں درج ذیل آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔ فرمان باری ہے۔

ٱللَّهُ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ قَرَارًا وَٱلسَّمَآءَ بِنَآءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ ۚ ذَٰلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ ٱللَّهُ رَبُّ ٱلْعَٰلَمِينَ

اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایااور تمہاری صورتیں بنائیں اور تمہیں عمدہ چیزیں کھانے کو عطافرمائیں،یہ اللہ تمہارا پروردگار ہے ،پس بہت ہی برکتوں والا اللہ ہے سارے جہان کا پرورش کرنے والا۔(غافر،64 ) 

يَٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ وَٱلْإِنسِ إِنِ ٱسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُواْ مِنْ أَقْطَارِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ فَٱنفُذُواْ ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَٰنٍۢ

اے جن وانسان کے گروہ اگر تم سے ہوسکے تو آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل جاو مگر تم قوت کے بغیر نکل نہیں سکتے ۔( سورہ الرحمٰن۔   33)

مندرجہ بالا آیات میں جہاں زمین کو جائے قرا ر کہا گیا ہے وہیں زمین اور اجرام فلکی میں کشش اور رفتار گریزاں کی بات وضاحت کے ساتھ کی گئی ہے اور یہ بھی کہ قوت کے ساتھ اس ثقل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

ماخذ۔

http://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AB%D9%82%D8%A7%D9%84%D8%AA
http://www.voanews.com/urdu/news/gravitational-corridores-12sep09-59129357.html
http://en.wikipedia.org/wiki/Escape_velocity
قرآن سائنس اور ٹیکنالوجی از شفیع حیدر دانش صدیق

1 تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی