ٹیلی پورٹیشن اور تخت ملکہ بلقیس
دورجدید میں جب سائنسی ترقی بلندیوں کو چھو رہی ہے ،سائنس دانوں نے سفر کے ذرائع کو تیز کرنے کے بجائے ایسی جہت میں تجربات شروع کردیے ہیں جس کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔سائنس دانوں کا کہناہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے کے لیے خواہ کوئی بھی ذریعہ استعمال کیاجائے ان سب میں ایک نقص مشترک ہے اوروہ یہ ہے کہ ہمیں طبعی طورپر فاصلہ ضرور طے کرناپڑتاہے جو چند منٹوں سے لے کر کئی گھنٹوں پر محیط ہو سکتا ہے لیکن اب سائنس دانوں نے ایسے ذرائع ایجاد کر نے پر توجہ مرکوز کر دی ہے جس کے تحت آپ کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے کے لیے کار ،ہوائی جہاز،راکٹ یا کسی اورسواری کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اس ضمن میں ٹیلی کیمونیکیشن اورٹرانسپورٹیشن کی خصوصیت کے باہمی امتزاج سے ایک نیا نظام ٹیلی پورٹیشن وضع کرنے کی سمت میں تجربات کیے جارہے ہیں۔سائنس دانوں نے ابتدائی طورپر فوٹا ن پر تجربات کیے ہیں جو کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔
ٹیلی پورٹیشن کیاہے؟
ٹیلی پورٹیشن سے مراد کسی بھی مادی چیز کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر اس طرح منتقل کرناہے جس کے ذریعے یہ چیز پہلے مقام سے غائب ہو جاتی ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ اس مقا م سے فنا ہو جاتی ہے اوردوسرے مقام پراس کا ظہورہوتاہے۔ ٹیلی پورٹیشن کے ذریعے منتقل کی جانے والی چیز کی صحیح ترین ایٹمی معلومات ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کی جاتی ہیں جہاں یہ یکجا ہو کر ہو بہووہی چیز تشکیل دے دیتی ہیں جو روانگی کے مقام پر فنا ہو چکی ہوتی ہے۔ اس طرح سفر کے دوران فضا اوروقت دونوں ہی آڑے نہیں آتے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انسانوں کو بھی پلک جھپکتے ہی کسی بھی مقام پر منتقل کیا جاسکے گا۔ مسافت خواہ ایک فٹ سے لے کر ایک میل تک کی کیوں نہ ہو ،مسافر کوکوئی فاصلہ طے کرنا نہیں پڑے گا۔
ٹیلی پورٹیشن کا نظریہ سب سے پہلے 1966ء سے 1969ء تک ٹی وی پر دکھائی جانے والی سیریل اسٹار ٹیک میں پیش کیا گیا تھا۔اس سیریل کا مرکزی خیال جین راڈن بیری کی لکھی ہوئی کہانیوں پر مبنی تھا جس میں خلائی جہاز کی مختلف مہمات دکھائی جاتی تھیں ،اسے ناظرین نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اس پر انتہائی حیرت کا بھی اظہار کیا تھا۔ اس سیریل میں کیپٹن کرک ،اسپاک اورڈاکٹر میکائے اپنے دیگر ساتھیوں سمیت اپنے خلائی جہاز سے کسی بھی سیارے پر اترجاتے تھے اوریہ فاصلہ سیکنڈوں میں طے ہوتاتھا۔
1993 ء میں ٹیلی پورٹیشن کا نظریہ سائنسی تصورات کی حدوں سے نکل کر اس وقت حقیقت کی دنیا میں داخل ہوگیا جب ماہر طبیعیات چارلس بینٹ اوران کے ساتھی محققین نے اس امر کی تصدیق کی کہ کوانٹم ٹیلی پورٹیشن ممکن ہے تاہم اسے عملی جامہ اسی صورت پہنایا جاسکتاہے جب اصل شے جسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک آن واحد میں منتقل کیا جانا ہے ،تباہ کردی جائے۔ چارلس بینٹ نے اس امر کا اعلان مارچ 1993ء میں امریکی فزیکل سوسائٹی کے سالانہ اجلاس میں کیا جس کے بعد 29مارچ1993ء کو فزیکل ریویو لیٹرز میں بینٹ کے اعلان پرا یک رپورٹ بھی شائع ہوئی۔ اس وقت سے سائنس دانوں نے فوٹانز پر تجربات کرنا شروع کیے اوریہ بات ثابت کی کہ کوانٹم ٹیلی پورٹیشن حقیقت میں ممکن ہے۔
1998 ء میں کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین طبیعیات نے یورپی ماہرین کے ساتھ تجربات کیے اورفوٹانز کو کامیابی کے ساتھ ٹیلی پورٹیشن کے عمل سے گزارا۔واضح رہے کہ فوٹان روشنی کا انتہائی چھوٹا ذرہ ہے جس میں توانائی موجود ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کی اس ٹیم نے فوٹان کی ایٹمی ساخت کا کامیابی سے مطالعہ کیا اوراس ساخت کےبارے میں تمام معلومات ایک میٹر کی دوری تک تار کے ذریعے روانہ کیں اورفوٹان کی ایک نقل پید اہوئی تاہم اصل فوٹان اب باقی نہیں رہا تھا بلکہ اس کی جگہ پر اس کی ہو بہو نقل نے لے لی تھی۔
انسانی ٹیلی پورٹیشن
سائنس دانو ں کا کہنا ہے کہ اسٹارٹریک میں ٹیلی پورٹیشن کے لیے استعمال کیے جانے والے ''ٹرانسپورٹر روم''جیسی مشین کی تشکیل میں فی الحال کئی برس لگ سکتے ہیں۔اس مشین کے ذریعے ہمارے جسم میں پائے جانے والے 1000مہا سنکھ(یعنی ایک کے آگے مزید 28صفر کا اضافہ کیا جائے)ایٹم ایک مقام سے دوسرے مقام پر اس انداز میںمنتقل ہو سکیں گے کہ کسی ایٹم کی جسم میں جگہ تبدیل نہ ہو۔اس مشین کے ذریعے ایٹموں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان ایٹموں میں پائی جانے والی خصوصی اطلاعات ومعلومات بھی روانہ کرنا پڑیں گی اور مطلوبہ مقام پر یہ تمام ایٹم ہو بہو اسی انداز میں یکجا ہوجائیں گے جس انداز میں یہ اصل جسم میں موجودتھے، ان میں ذرہ برابر تبدیلی جسمانی ساخت میں تغیر کا سبب بن سکتی ہے۔
اگر ٹیلی پورٹیشن کے لیے مذکورہ مشین یعنی ٹرانسپورٹرتیارکرلی گئی توٹیلی پورٹیشن کا عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکے گا تاہم سائنس دانوں کا کہناہے کہ اس عمل کی وضاحت ہم اس طرح کرسکتے ہیں کہ ٹیلی پورٹیشن میں جینیاتی کلوننگ اور ڈیجیٹلائزیشن دونوںمل کر کام کریں گے لہٰذا سے بائیوڈیجیٹل کلوننگ کہنا بے جا نہیں ہوگا۔ ٹیلی پورٹیشن کے عمل سے گزرنے والا شخص روانگی کے مقا م پر درحقیقت مر جائے گا اورمطلوبہ منزل پر اس کی ہو بہو نقل وجود میں آ جائے گی جس میں اس کی تمام حسیات، یادداشت ، جذبات اورخواب وامیدیں سب کچھ اس ہو بہو نقل میں موجود ہوں گی چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹیلی پورٹر اپنی منزل پر زندہ پہنچے گا لیکن یہ اس کا حقیقی جسم نہیں ہو گا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی مثال بالکل فیکس جیسی ہے جس میں ایک مقا م سے کسی دستاویز کی نقل ارسال کی جاتی ہے ۔ اوردوردراز مقام پر اس کی ہو بہو نقل موصول ہو جاتی ہے۔ یہ شبیہہ بالکل اصل کے مطابق ہوتی ہے تاہم اصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح ٹیلی پورٹیشن کے بعد منزل پر پہنچنے والا انسان فیکس کے مقابلے میں زیادہ حقیقی ہو گاتاہم اصل نہیں ہوگا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح دور جدید میں مختلف قسم کی ٹیکنالوجیز شارع ترقی پر گامزن ہیں اسی طرح ٹیلی پورٹیشن میں بھی کامیابیاں حاصل کی جائیں گی اور ایک دن ایسا آئے گا کہ جب سفر کی صعوبتوں سے مکمل طور پر نجات حاصل ہو جائے گی۔ مستقبل میں ہماری اولادوں میں سے کوئی بھی کئی سو ارب نوری سالو ں کے فاصلے پر موجود کہکشاں کے کسی سیارے پر قائم دفتر میں کام کا ج ختم کرنے کے بعد اپنی کلائی پر بندھی گھڑی سے کہے گا کہ میں زمین پر اپنے گھر میں رات کے کھانے کے لیے پہنچنا چاہتا ہوں۔اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ابھی مکمل نہیں ہو پائیں گے کہ وہ شخص کھربو ں میل دور اپنی مطلوبہ منزل پر موجود ہوگا۔[i]
قرآن مجید میں ٹیلی پورٹیشن کا ذکر موجود ہے ؟
جی ہاں ! آ پ یہ جان کر یقینا حیران ہو ں گے کہ قرآن مجید میں 1400سال پہلے ہی سے اس کا ذکر موجود ہے جسے انسان موجودہ جدید دور سے قبل صر ف معجزہ سمجھ کر صرفِ نظر کرتا رہامگر حقیقت میں یہ ٹیلی پورٹیشن کی ایک بہترین مثال تھی جس کو اللہ تعالیٰ اپنے ایک نیک بندے کے ذریعے ظہو ر میں لایا تھا ۔ قرآن مجیدمیں اس کا ذکرہمیں سورة النمل میں حضرت سلیمان کے اس واقعہ میں ملتاہے کہ جب آپ ملکہ سبا کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں اورچاہتے ہیں کہ ملکہ سباکا وہی تخت ،جس کے متعلق ہدہد نے کہا تھا کہ وہ بڑا عظیم الشان ہے ،ملکہ کے پہنچنے سے قبل ہی اپنے پا س منگوا لیں۔ چونکہ جن آپ کے تابع فرمان تھے اوروہ یہ کام کرسکتے تھے، اس سے سیدنا سلیمان کا مقصد یہ تھا کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملکہ کو کوئی ایسی نشانی بھی دکھا دی جائے جس سے ملکہ پر پوری طرح واضح ہو جائے کہ وہ محض ایک دنیا دار فرمانروا نہیں بلکہ اللہ نے انہیں بہت بڑی بڑی نعمتوں اورفضیلتوں سے بھی نوازا ہے اور آپ اللہ کے بنی بھی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے درباریوں سے پوچھا:
(قَالَ یٰاَیُّھَاالْمَلَؤُا اَیُّکُمْ یَاْتِیْنِیْ بِعَرْشِھَا قَبْلَ اَنْ یَّاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ۔ قَالَ عِفْرِیْت مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِیْکَ بِہ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ ج وَاِنِّیْ عَلَیْہِ لَقَوِیّ اَمِیْن ۔ قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہ عِلْم مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ ط فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ قف لِیَبْلُوَنِیْ ءَ اَشْکُرُاَمْ اَکْفُرُط)
''سلیمان نے کہا '' اے اہل دربار ،تم میں سے کون اس کاتخت میرے پاس لاتاہے قبل اس کے کہ وہ لوگ مطیع ہو کر میرے پاس حاضر ہوں ؟جنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا میں اسے حاضر کردوں گا قبل اس کے آپ اپنی جگہ سے اُٹھیں۔ میں اس کی طاقت رکھتا ہوں اورامانت دار ہوں''۔ جس شخص کے پاس کتاب کا ایک علم تھا وہ بولا ''میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لائے دیتا ہوں''۔ جونہی سلیمان نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہو ا دیکھا 'وہ پکار اُٹھا ''یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں یا کافِر نعمت بن جاتا ہوں۔''[ii]
مولاناموددی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ:
'' اب رہی یہ بات کہ ڈیڑھ ہزار میل سے ایک تختِ شاہی پلک جھپکتے کس طرح اُٹھ کر آگیا ،تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ زمان ومکان اورمادّہ وحرکت کے جو تصورات ہم نے اپنے تجربات ومشاہدات کی بنا پر قائم کیے ہیں ان کے جملہ حدود صرف ہم ہی پر منطبق ہوتے ہیں۔خداکے لیے نہ تو یہ تصورات صحیح ہیں اورنہ وہ ان حدود سے محدودہے۔ اس کی قدرت ایک معمولی تخت تودرکنار ،سورج اوراس سے بھی زیادہ بڑے سیاروں کو آن کی آن میں لاکھوںمیل کا فاصلہ طے کرا سکتی ہے۔ جس خدا کے صرف ایک حکم سے یہ عظیم کائنات وجود میں آگئی ہے اس کا ایک ادنیٰ اشارہ ہی ملکہ ء سبا کے تخت کو روشنی کی رفتار سے چلا دینے کے لیے کافی تھا۔ آخر اسی قرآن میں یہ ذکر بھی تو موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک رات اپنے بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے بیت المقدس لے بھی گیا اورواپس بھی لے آیا ''۔[iii]
مولاناعبدالرحمان کیلانی بھی اسی آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
'' ایسے واقعات اگرچہ خرق عادت ہیں تاہم موجود ہ علوم نے ایسی باتوں کو بہت حد تک قریب الفہم بنادیاہے۔مثلاً یہی زمین جس پر ہم آباد ہیں سورج کے گرد سال بھر چکر کاٹتی ہے اوراس کی رفتار تقریباً ایک لاکھ سات ہزار کلومیٹر (چھیاسٹھ ہزار چھ سومیل) فی گھنٹہ بنتی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس قدرعظیم الجثہ کرہ زمین برق رفتاری کے ساتھ چکر کاٹ رہا ہے اورہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا اور یہ ایسی بات ہے کہ ہم ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔اب اس زمین کی جسامت اوروزن کے مقابلہ میں ملکہ بلقیس کے تخت کی جسامت اوروزن دیکھئے اورمآرب سے یروشلم کا صرف ڈیرھ ہزار میل فاصلہ ذہن میں لاکر غورفرمائیے کہ اگر پہلی بات ممکن ہے تو دوسری کیوںممکن نہیں ہو سکتی اوریہ تو ظاہر ہے کہ جو شخص چشمِ زدن میں تخت لایا تھا تو وہاں بھی اللہ ہی کی قدرت کام کررہی تھی۔ یہ اس شخص کا کوئی ذاتی کمال نہ تھا اورنہ ہی تخت ظاہری اسباب کے ذریعہ وہاں لایا گیاتھا ''۔ [iv]
بہرحال مختصراً یہی کہا جاسکتا ہے کہ جدید سائنس کی بدولت ہم قرآن مجید میں بیان کردہ کئی ایسی باتوں اورواقعات کو ماضی کی نسبت موجود دورمیں زیادہ بہتر انداز میں سمجھنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں اور ہرآن وقت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی بے مثال حکمت وکاریگری اظہر من الشمس ہوتی جارہی ہے۔
[i] 2005 روزنامہ اردونیوز جدہ، 14 اپریل
http://physicsweb.org/articles/news/8/6/10
http://radio.weblogs.com/0105910/2004/08/24.html
http://physicsweb.org/articles/news/8/6/10
http://radio.weblogs.com/0105910/2004/08/24.html
[ii] النمل ۔ 27: 38-40
[iii] تفہیم القرآن ، جلد سوم ،صفحہ 577-578
[iv] تفسیر تیسیرالقرآن ،جلد سوم ،صفحہ 388
Asslam o Elikum, I think that this is best web page in urdu ever I seen. I always prefer to get information from this page for future reference and guidance. May Allah shower his blessing to all those people whom are working on this development. Allah Hafiz
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ ۔ماشاء اللہ بہت سافٹ وئیر ہے۔.
جواب دیںحذف کریںایک تبصرہ شائع کریں