چاند کی روشنی منعکس کردہ ہے

 چاند کی روشنی منعکس کردہ ہے


پہلے زمانے میں چاند کے متعلق یہ خیال کیا جاتاتھاکہ چاند اپنی ہی روشنی کی وجہ سے روشن ہے جبکہ جدید سائنس نے حال ہی میں دریافت کیا ہے کہ چاند کی یہ روشنی اپنی نہیں ہے بلکہ سورج کی روشنی چاند پرپڑتی ہے اور پھر چاند سے ٹکرا کر منعکس ہوتی ہے جس سے چاند ہمیں منور نظر آتا ہے یعنی چاند کی روشنی منعکس کردہ ہے۔زمین کے کسی بھی خطہ سے اگر دیکھیں توچاند کا نصف حصہ ہی نظر آتاہے۔


چاند کا قطر 3476کلومیٹر یعنی زمین کے قطر کے 1/4 کے برابر ہے۔چاند کی کمیت  زمین کی کمیت کا 1/81ہے۔ جبکہ کشش ثقل کا دارومدار جسم کی کمیت پر ہوتاہے۔سائنس دان معلوم کرچکے ہیں کہ چاند کی سطح پر کشش ثقل زمین کی نسبت سے 1/6ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ کا وزن زمین پر 68کلوگرام ہے تو چاند کی سطح پر صرف 11.339کلو گرام ہوگا۔اس طرح اگر آپ زمین پر تین فٹ اوپر اچھل سکتے ہیں توچاند پر آپ 18فٹ اونچی چھلانگ لگا سکیں گے۔ یا یوں کہہ لیجے کہ اگر آپ زمین پر 45کلوگرام کا وزن اٹھا سکتے ہیں توچاند پر آپ 272کلوگرام وزن اٹھا سکیں گے۔

چاند زمین کے قدرے بیضوی مدار کے گرد گھومتا ہے۔ اس کے بلند ترین مقام سے زمین تک کا فاصلہ 4,06,697 کلومیٹر ہے۔ جبکہ اس کے نزدیک ترین مقام کا زمین سے فاصلہ 3,56,670کلومیٹر ہے۔ چاند اورزمین کے درمیان اوسط فاصلہ 3,84,403کلومیٹر ہے۔روشنی کو چاند سے زمین تک پہنچنے کے لیے ایک منٹ اور 15سیکنڈ کا وقت درکار ہوتا ہے۔

زمین 24گھنٹے میں ایک مرتبہ اپنے محور کے گرد ایک چکر مکمل کرلیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین پر دن اوررات اوسطاً 12گھنٹے کاہوتاہے۔ چاند اپنے محور کے گرد گردش کرتے ہوئے زمین کے گرد 27.531دنوں میں ایک چکر پوراکرتاہے۔ گویا چاند کا ایک دن زمین کے 14دنوں کے برابر ہوتاہے اوراسی طرح چاند کی رات زمین کی 14راتوں کے برابر ہوتی ہے۔

زمین کی طرح ایک وقت میں چاند کی بھی ایک ہی سمت سورج سے روشن ہوتی ہے۔ یعنی جب چاند کے نصف کرہ پر رات ہوتی ہے تو دوسرے نصف کرہ پر دن ہوتاہے۔ دن کے وقت جب چاند کی سطح پر سورج کی ممکن حد تک شعاعیں پڑ رہی ہوتی ہیں تو اس وقت چاند کی سطح کا درجہ حرارت 104.44سینٹی گریڈ ہوتاہے۔ اوررات کو اس کا درجہ حرارت منفی 121سینٹی گریڈ ہو جاتاہے۔

 زمین کی طرح چاند بھی کسی قسم کی روشنی پید انہیں کرسکتا۔ چاند کی جو روشنی ہمیں رات کو نظر آتی ہے یہ سورج کی وہ روشنی ہوتی ہے جو چاند سے منعکس ہو رہی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چاند کی شکلیں مختلف وقتوں میں ہمیں مختلف نظر آتی ہیں۔ یہ چاند کی حالتیں (Phases)کہلاتی ہیں۔

زمین کے گرد سفر کے دوران جب چاندسورج کے عین سامنے آجاتاہے توہم اسے بالکل نہیں دیکھ سکتے ،یہ نیا چاند کہلاتا ہے۔ 24گھنٹوں کے بعد یہ تھوڑی سی سورج کی روشنی منعکس کرتا ہے اورہلال یاقوس کی شکل میں نمودار ہوتاہے۔ اسے عام طورپردرانتی (Sickle)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک ہفتے کے بعد یہی ماہ نو بڑھ کر پورے چاند کا چوتھا ئی ہو جاتاہے اور دوسرے ہفتے میں یہ فٹ بال کی شکل کا ساہو جاتا ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ پورا چاند بن جاتاہے۔ اس کے بعد چاند گھٹنے لگتا ہے،حتیٰ کہ دوبارہ ماہ نو یا قوس (Crescent)کی شکل اختیار کر لیتاہے۔ اس طرح نیا چاند اپنے ایک ماہ کا چکر پورا کرلیتا ہے۔

اگر چاند کی سطح سے زمین کو دیکھا جائے تو ویسا ہی منظر نظر آئے گا جیسا کہ زمین پر کھڑے ہو کر چاند کی طرف دیکھنے سے نظر آتا ہے۔ زمین بھی چاند کی طرح روشن نظرا ئے گی اوراس کا سبب یہ ہے کہ وہ سورج کی روشنی کو منعکس کر رہی ہو گی ،جسے زمینی روشنی (Earth Light)کہہ سکتے ہیں۔چاند سے مختلف وقتوں میں زمین کی مختلف شکلیں نظر آتی ہیں جس طرح ہمیں چاند کی مختلف شکلیں نظر آتی ہیں مگر نئے چاند کی طرح ،نئی زمین نظر نہیں آئے گی۔ سمندروں میں مدوجزرکا عمل چاند کی کشش ثقل کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ یہ عمل سورج کی کشش ثقل کے باعث بھی رونما ہوتا ہے مگر بہت ہی قلیل مقدار میں۔ کئی بلین ٹن پانی سمندری فرش پر آگے کی طرف جاتا اورپھر پیچھے کی طرف کھنچتا رہتا ہے۔ اس عمل کے دوران پید اہونے والی رگڑ (Friction)گویا زمین کی گردش کے لیے ''بریک''کا کام دیتی ہے۔ اس طرح جب گردش کی رفتار کم ہوتی ہے تو دن بڑے ہوجاتے ہیں۔اس عمل کے نتیجے میں ہر ایک سال بعد ہمارادن ایک سیکنڈ طویل ہو جاتا ہے۔

مدوجزر کی رگڑ کی وجہ سے یہ تبدیلیا ں کروڑوں سا ل سے جاری ہیں۔ سائنس دانوں کے اعدادوشمار کے مطابق ابتدا میں زمین پر صرف5گھنٹے کا دن تھا جو آج 24 گھنٹے کا ہوچکا ہے۔ اسی طرح قمری مہینہ جو زمین پر ایک دن کے برابر تھا اب بڑھ کر تقریباً 29دن کے برابر ہوچکا ہے۔مستقبل بعید میں زمین پر ایک دن 320گھنٹے کے برابر ہو جائے گا۔حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ ایک دن موجودہ 55دنوں کے برابر ہوجائے گا اوراسی طرح قمری مہینہ بھی بڑھ کر زمین کے آج کے 55دنوں کے برابر ہوجائے گا۔ مگر اس کے بعد مزید اضافہ رک جائے گا اور یہ سفر الٹی سمت میں چلنا شروع ہو جائے گا۔

خط استوا (Equator)پر زمین کی گردشی رفتار تقریباً1722کلومیٹر فی گھنٹہ ہے ،جبکہ چاند کی اس کے خط استوا پر گردشی رفتار صرف17کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔دونوں کی گردشی رفتاروں کے فرق نے چاند کو اس طرح کے توازن میں رکھاہوا ہے کہ اس کا آدھا حصہ ہمیشہ زمین کی طرف رہتاہے۔ اسے ہم چاند کی ''زمینی سمت ''کہتے ہیں۔چاندکا وہ آدھا حصہ جسے ہم دیکھ نہیں سکتے، اسے''دور دراز کی سمت ''(Far Side)کے نام سے منسوب کیا جاتاہے۔  (1)

 قرآن مجیدکی سورة ''الفرقان '' میں اللہ تعالیٰ سورج اورچاند کی روشنی کا ذکر کرتے ہوئے ارشادفرماتاہے:

(تَبٰرَکَ الَّذَیْ جَعَلَ فَی السَّمَآ ءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِیْھَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا)
'' بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے اور اس (آسمان )میں چراغ(سورج)اور چمکتا ہواچاند پیداکیا '' (  الفرقان،61)

ایک اور جگہ فرمایا:

(ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءَ وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّ رَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا
 عَدَدَ السِّنِیْن وَالْحِسَابَ ط )
'' وہی تو ہے جس نے سورج کو ضیاء اورچاند کو نور بنایا اور چاند کے لیے منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تم برسوں اور تاریخوں کا حساب معلوم کر سکو ''(یونس، 10:05)

ایک اور جگہ فرمایا:

(وَجَعَلَ الْقَمَرَ فَیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا)
'' اور ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا ''(نوح، 71:16)

عربی میں سورج کو ''شمس '' کہتے ہیں اورشمس کو اس آیت میں ''سراج '' سے تشبیہ دی گئی ہے جس کے معنی ہیں چراغ ،دیا جس سے روشنی ملتی ہے۔ان الفاظ سے سورج کے متعلق ہمیں قرآن مجید سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ سائنس کی معلومات کے مطابق ہیں۔ سورج 98 فی صد ہایئڈروجن اور ہیلیم گیسوں پر مشتمل ہے۔اور ایک نیوکلیائی عمل کے نتیجے میں سورج سے روشنی کی بہت بڑی مقدار نکلتی ہے جبکہ چاند کو عربی میں قمر کہتے ہیں اور قرآن میں قمر یعنی چاند کو 'منیر '' کہاگیا ہے ۔ضوء ذاتی روشنی کا نام ہے جیسے سورج اور آگ کی روشنی ذاتی ہے،کسبی نہیں اورنور کسبی اورعارضی روشنی کا نام ہے جیسے چاند کی روشنی جو سورج کی روشنی سے مستفاد ہے۔(2)۔ مفسر قرآن مولانا عبدالرحمان کیلانی  اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ضیا اور نور میں فرق یہ ہے کہ نور کا لفظ عام ہے اور ضیا کا خاص۔گویا ضیاء بھی نور ہی کی ایک قسم ہے۔ نور میں روشنی اور چمک ہوتی ہے جبکہ ضیا میں روشنی اورچمک کے علاوہ حرارت ،تپش اور رنگ میں سرخی بھی ہوتی ہے۔  (3)

  قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی سورج کو منیر اور چاند کو سراج نہیں کہا بلکہ ان دونوں کی روشنی کے درمیان فرق کو واضح اندازمیں الگ الگ الفاظ سے منسوب کیا ہے اور  ضیا کا لفظ سورج کی روشنی کے لیے اور نور کا لفظ چاند کی روشنی کے لیے استعمال فرمایا ہے اور اس فرق کو آج ہم جدیدسائنس کی بدولت زیادہ واضح طور پر جان سکے ہیں۔یاد رہے کہ موجودہ بائیبل میں سورج کو بڑی روشنی (Greater Light)اور چاند کو چھوٹی روشنی(Lesser Light)کہا گیاہے جو کہ غلط ہے چناچہ مندرجہ بالا تفصیل سے واضح ہوجاتاہے کہ ٹھوس سائنسی نتائج قرآن مجید میں بیان کردہ معلومات سے متصادم نہیں ہو سکتے نیز ان سائنسی معلومات کا جو آج جدید ترین وسائل کی مدد سے ہمیں حاصل ہورہی ہیں ،کا قرآن مجیدمیں صدیوں پہلے پایا جانا،قرآن مجید کی سچائی اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے حق ہونے کی دلیل ہے  

حواشی


(1)۔ http://www.sciencemonster.com

 چاند ہماراہمسایہ ۔اردو سائنس بورڈلاہور۔صفحہ 25

(2)۔ (القاموس الوحید۔صفحہ 980)

(3)۔     تیسیرالقرآن ،جلد دوم ،صفحہ 280

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی