ہوائیں بادلوں ،پودوں کو بارور کرتی ہیں
مائیکروسافٹ اینکارٹیکا کے مطابق ہوا گیسوں کے انتہائی ننھے ننھے ذرّات سے مل کر بنی ہے جنہیں مالیکیول کہا جاتا ہے۔ یہ اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ ایک مکعب انچ میں 30مہاسنکھ تک مالیکیولز سما سکتے ہیں۔ہوا میں نائٹروجن 78%،اور آکسیجن 21% پائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ معمولی مقدار میں دوسری گیسیں ارگون، نیون،ہیلیم،کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین پائی جاتی ہیں۔علاوہ ازیں آبی بخارات ،گرد،پولن ،جراثیم اوربذرہ (Spore) بھی ہوامیں شامل ہوتے ہیں ۔ہوا میں آکسیجن کی موجودگی نہایت اہم ہے ۔عمل تنفس کے دوران انسان اورجانور سانس کے ذریعے آکسیجن اندر لیتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔
پودے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے ہیں اورایک عمل (ضیائی تالیف)کے ذریعے اپنے لیے خوراک تیار کرتے ہیں۔ ضیائی تالیف کے دوران پودے زمین سے پانی اور ہو ا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کرتے ہیں اور سورج کی روشنی سے حاصل کردہ انرجی سے وہ ان کو آکسیجن اور کاربوہائیڈریٹس میں تبدیل کرتے ہیں ۔کاربوہائیڈریٹس یعنی سادہ شکر اور نشاستہ ہی پودوں کی خوراک ہے جبکہ اس عمل کے دوران پیداہونے والی آکسیجن کو وہ فضاء میں چھوڑ دیتے ہیں۔ زمین پر موجود تمام جاندار براہ راست یا بالواسطہ پودوں کی بنائی ہوئی خوراک ہی استعما ل کرتے ہیں اور ان ہی کی بنائی ہوئی آکسیجن سے سانس لیتے ہیں۔اگریہ ضیائی تا یف کا عمل بندہوجائے توبہت جلد ہماری ہوا میں سے آکسیجن غائب ہوجائے گی اور خوراک کی مقدار میں بھی خطرناک حد تک کمی واقع ہوجائے گی ۔
موسمی تبدیلیوں کاانحصار ،ہوا کے دباؤ اورنمی وغیرہ پر ہوتاہے۔ ہوا جیسے جیسے مختلف مقامات سے گزرتی ہے اس کی رفتار میں تبدیلی واقع ہوتی رہتی ہے۔ حرکت کرتی ہوئی کبھی یہ گرم ہوا کی شکل اختیار کر لیتی ہے توکبھی ٹھنڈی ،کبھی خشک توکبھی نمدار کہلاتی ہے۔ ہوا کا درجہ حرارت موسم کے اتارچڑھاؤ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتاہے۔ اس کے درجہ حرارت میں تبدیلی کا انحصار سورج پر ہوتاہے۔ سورج کی اپنی توانائی ہماری فضا میں جذب ہو کر حرارت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔پس ہواکے زیادہ دباؤ والے علاقو ںمیں موسم خوشگوار ہوتاہے جبکہ ہواکے کم دباؤ والے علاقوں میں ہوانیم گر م ہوتی ہے۔ جس سے بادل چھائے رہتے ہیں یا عام طورپر ہلکی آندھی چلنے والاموسم ہوتا ہے۔ ہوا عموماً زیادہ دباؤ والے علاقے سے کم دباؤ والے علاقے کی طرف سفر کرتی ہے۔ ہوامیں نمی آبی بخارات کے باعث ہوتی ہے۔ لیکن یہ اپنی مختلف مقداروں کے لحاظ سے بارش ،برف ،کہر،بادل اوراولوں کی شکل اختیار کرتی رہتی ہے۔
ہمارے جسم کے اوپر فضا میں کئی سومیل کی بلندی تک ہوا موجود ہے۔جس کا وزن سیکڑوں پاؤنڈ تک ہے۔ آپ نے کبھی سوچا کہ آپ آخر اتنا وزن کیسے سہارلیتے ہیں؟ہم خود توایسا شاید کبھی بھی نہ کرسکتے اگر قدرت اس مسٔلے کو احسن طریقے سے نہ سلجھاتی۔ دراصل ہو اکا جتنا دباؤ باہر سے ہمارے جسم پر پڑتا ہے ،جسم کے اندر سے بھی ہو ااتنا ہی دباؤ باہر کی جانب بھی ڈالتی ہے۔ نتیجتاً ہمارا جسم کوئی وزن محسوس نہیں کرتااورمعتدل رہتاہے۔
جوںجوں ہم بلندی کی جانب جاتے ہیں 'ہوا ہلکی ہوتی جاتی ہے۔ اس کادباؤ کم ہوتا جاتا ہے۔ اس کے مالیکیول ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کوہ پیما اورپائلٹ آکسیجن کے ماسک اپنے ساتھ ضرور لے جاتے ہیں۔ ہیلیم گیس ہوا سے بہت زیادہ ہلکی ہوتی ہے۔اس لیے غباروں میں یہ گیس بھری جاتی ہے۔ پس جب ہوا سے ہلکے غبارے زمین کو چھوڑتے ہیں تو یہ بالکل اس طرح اوپر اٹھتے ہیں جیسے کسی بوتل کا ڈھکنا کھلتا ہے لیکن غبارے ہمیشہ تواوپر نہیں اڑتے رہتے ،چند میلوں کاسفر طے کرنے کے بعد غبارا ہوا سے زیادہ ہلکا نہیں رہتا ،کیونکہ بہت بلند ی پر ہوا مزید ہلکی ہوتی جاتی ہے۔
دنیا میں بہت سے ایسے پہاڑ ہیں جو سارا سال برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ ہوا جب سطح سمندر سے بلند ی کی جانب بڑھتی ہے تووہ بلند پہاڑو ں کی ایسی چوٹیوں پر سے گرزتی ہے جوبرف سے ڈھکی ہوں تو سرد علاقے پر سے گزرنے کی وجہ سے ہوا کا درجہ حرات بہت کم ہو جاتا ہے۔ پس ہواکے مالیکیول ایک دوسرے سے دور ہٹ جاتے ہیں۔ہو اہلکی ، پتلی اورسر د ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوں جوں ہم بلندی کی جانب سفر کرتے ہیں درجہ حرارت میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے۔
اگر ہم کسی بلند مقام یا آسمان سے زمین کی جانب آئیں توہو اکے مالیکیول سمٹتے ہوئے نہ صرف ایک دوسرے کے قریب آتے جاتے ہیں اورآپس میں اسفنج کی طرح دبتے چلے جاتے ہیں بلکہ ان میں سختی بھی پیدا ہوتی جاتی ہے اور قریب آنے پرجب یہ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو گرم ہوجاتے ہیں۔ایک ہی ملک میں دو انتہائی مختلف درجہ حرارت کا پایا جانا بھی اسی لیے ممکن ہوتاہے۔
زمین پر کہیں پہاڑ ہیں اورکہیں دریا ،کہیں چٹانیں ہیں اورکہیں ریتلے میدان ،کہیں سبزہ اورکہیں صحرا،کہیں وادیاں ہیں اور کہیں سمندر۔ یہ شعاعیں جب سمندر وں ،دریاؤں اورزمین کی مختلف سطحوں پر پڑتی ہیں توزمین گرم ہوجاتی ہے۔ کہیں سے زمین زیادہ گرم اورکہیں سے کم گرم ہوتی ہے۔ زمین کی حدت کی مناسبت سے مختلف علاقوں کی ہوائیں بھی گرم اورسرد ہوتی ہیں۔ خشک سطح سے اٹھنے والی ہوائیں گرم ہو کر ہلکی ہو جاتی ہیں۔اس لیے سمندر سے اٹھنے والی ہوائیں گرم ہوا کی جگہ لینے کے لیے اس طرف کا رخ کر لیتی ہیں اور ہو اکا یہ چکر مسلسل چلتا رہتا ہے۔
پانی کی نسبت زمین سورج کی حرارت زیادہ مقدار میں جذب کرنے کی وجہ سے جلد گرم ہو جاتی ہے اورنزدیک ترین پائے جانے والے پانی کے مقام سے ٹھنڈی ہوا گرم ہوا کی جگہ لینا شروع کردیتی ہے، اس طرح ہوا کی گردش کا ایک چکر شروع ہو جاتا ہے جبکہ شام کے وقت ہو اکے چکر کی سمت بدل جاتی ہے، وہ اس طرح کہ شام کو جب سورج غروب ہوجاتاہے اوررات کا اندھیرا پھیل جاتاہے توزمین ٹھنڈی ہو جاتی ہے ،اس کے باوجو د پانی زمین کی نسبت گرم رہتاہے اوراس کی سطح پر چلنے والی ہوا بھی گرم ہو تی ہے۔ اس لیے زمین سے آنے والی ٹھنڈی ہوا ،گرم ہوا کو اوپر دھکیل دیتی ہے اورخود اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ ایسی ہوا کو ''ساحلی ہوا''کہاجاتاہے۔[1]
آئیے اب ہم قرآن مجید سے معلوم کرتے ہیں کہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کے کن احکا م کی بجاآوری میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
(وَاَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآ ءِ مَآء ََ فَاَسْقَیْنٰکُمُوْہُ ج وَمَآاَنْتُمْ لَہ بِخٰزِنِیْنَ)
'' ہم پانی سے لد ی ہوئی ہوائیں بھیجتے ہیں پھر آسمان سے پانی برسا کر اس سے تمہیں سیراب کرتے ہیں۔ اس پانی کا ذخیرہ رکھنے والے (ہم ہی ہیں )تم نہیں ہو'' [2]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ جب ہم ہواؤں کو بھیجتے ہیں تو ہوائیں بادلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو دھکیل کر اکٹھا کرتی ہیں تو یہ بڑے بڑے بادلوں کے پہاڑوںمیں تبدیل ہوجاتے ہیں اور پھران کے آپس میں ٹکرانے سے آسمانی بجلی پیدا ہوتی ہے اور بالآخر بارش شروع ہو جاتی ہے۔اس بات کی وضاحت درج ذیل آیت کریمہ میں کی گئی ہے:
(اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزْجِیْ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہ ثُمَّ یَجْعَلُہ رُکَامًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہ ج وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِیْھَا مِنْ م بَرَدٍفَیُصِیْبُ بِہ مَنْ یَّشَآئُ وَیَصْرِفُہ عَنْ مَّنْ یَّشَآءُ ط یَکاَدُ سَنَا بَرْقِہ یَذْھَبُ بِا لْاَبْصَارِ)
''کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے پھر بادل(کے اجزا)کو آپس میں ملا دیتاہے پھر اسے تہہ بہ تہہ بنا دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے بارش کے قطرے ٹپکتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں،اولے برساتا ہے پھر جسے چاہتا ہے ان سے نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے'' [3]
مولانا عبدالرحمان کیلانی ا س آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ '' مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ہمارے علمائے ہیت نے اللہ کی ہر نشانی میں کچھ ایسے طبعی قوانین دریافت فرما رکھے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت کہیں کا م کرتا نظرنہ آئے اور یہی قوانین سکولوں اورکالجوں میں بچوں کو پڑھائے جاتے ہیں۔ مثلاً بارش کے لیے دریافت کردہ طبعی قوانین یہ ہیں کہ سمندر پر سورج کی گرمی سے بخارات بن کر اوپر اٹھتے ہیں۔ پھر ہو اؤں کا رخ ان بخارات کو کسی مخصوص سمت کی طرف اڑا لے جاتا ہے۔ تاآنکہ یہ بخارات کسی سرد منطقہ فضائی میں پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر یہ بخارات پھر پانی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اور بارش ہونے لگتی ہے اور اگر شدید سر دمنطقہ میں پہنچ جائیں تو پھر اولے برسنے لگتے ہیں، انہی اصولوں کے مطابق ہمارے ہاں پاکستا ن میں بارش یوں ہوتی ہے کہ جون جولائی کے گرم مہینوں میں بحیرہ عرب سے بخارات اٹھتے ہیں جو کوہ ہمالیہ سے آکر ٹکراتے ہیں، یہا ں ہوائیں پھر ان کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیتی ہیں اور اس پہاڑ کے سرد حصوں میں پہنچ کر پانی بن جاتی ہیں اوراس طرح موسم برسات یا جولائی اوراگست میں ہمارے ہاں بارشیں ہوتی ہیں''۔ یقینا بارش ان مراحل سے گزر کرہی ہوتی ہے مگرسوچنے کی بات یہ ہے کہ ان مراحل کو طے کرانے والا کون ہے ؟کس کے حکم سے آبی بخارات بنتے ہیں ؟ہوائیں کس کے حکم سے ان آبی بخارات کو اُٹھاکر ہماری فضاء میں ایک مخصوص بلندی پر لے جاتی ہیں ؟کس کے حکم سے ہوائیں ان بادلوں کو اکھٹاکرتیں اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف چلاتی رہتی ہیں؟قرآن مجید ہمیں اس حاکم کا تعارف اللہ تعالیٰ کے نام سے کراتا ہے کہ جس کے حکم کی اطاعت میں کائنات کا ذرہ ذرہ مصروف ہے ،جو اس کائنات کا مؤجد ہے۔چناچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بچوں کو یہ قوانین اس طور سے پڑھائیں کہ ان کے دلوں میں احکم الحاکمین کا تصورراسخ ہو جائے۔
ہواؤں کی اطاعت گزاری کا ذکر قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اس طرح آیاہے :
(اَللّٰہُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُہ فِی السَّمَآءِ کَیْفَ یَشَآءُ وَیَجْعَلُہ کِسَفًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہ ج فَاِذَآ اَصَابَ بَہ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ)
'' اللہ وہ ہے جو ہوائیں بھیجتاہے تو وہ بادل کو اٹھالاتی ہیں۔پھر جیسے چاہتا ہے اس بادل کو آسمان میں پھیلادیتا ہے اور اسے ٹکڑیاں بنا دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے اس میں سے نکلتے آتے ہیں پھر جب اللہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہے بارش برسا دیتا ہے تو وہ خوش ہو جاتے ہیں ''[4]
اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کئی نشانیاں بیان فرمادیں مثلاً ہوا جو ایک کنکر کا بوجھ بھی برداشت نہیں کر سکتی اور کنکر زمین پر آجاتاہے مگر یہ ہوا آبی بخارات کو ایک کاغذ کے پرزے کی طرح اپنے دوش پر اٹھائے پھر تی ہے۔ وہ آبی بخارات جن میں کروڑوں ٹن پانی موجود ہوتاہے۔اور اس وزن کا اندازہ زمین کے اس رقبہ سے لگایا جاسکتاہے جس میں یہ بارش ہوئی اورجتنے انچ بارش ہوئی۔ دوسرا یہ کہ ان بار بردار ہواؤں کا رخ طبیعی طور پر متعین نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ جس طرف خودچاہے اسی طرف ہی موڑ دیتا ہے اس لیے جہا ں چاہتاہے وہیں بارش ہوتی ہے دوسرے علاقہ میں نہیں ہوتی۔ یہ ساری تفصیلات ہمیں بتاتی ہیں کہ انسان اپنی زندگی کے لیے ایک ایسے عظیم نظام کا مرہون منت ہے جس کے اندر بڑھتے ہوئے کئی پیچیدہ نظام موجود ہیں۔یہ پوری کائنات انسانی زندگی کو ممکن بنانے کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔[5]
ہوائیں اللہ تعالیٰ کے حکم سے پودوں میں افزائش نسل کا کام بھی کرتی ہیں۔جدید سائنس کے مطابق انسانوں اور جانوروں کی طرح نباتات میں بھی نر اورمادہ ہو تے ہیں۔ جانوروں اورانسانوں میں یہ اہلیت ہوتی ہے کہ و ہ تولید کی خاطر حرکت کرتے ہیں لیکن پودوں کو یہ ذرائع حاصل نہیں ہو تے کہ وہ ہم صحبت ہونے کے لیے ایک دوسرے کے قریب جا سکیں۔اس مسٔلے کو ہو ائیں حل کر دیتی ہیں۔جدید سائنسی تحقیق کے مطابق نر میں زرد رنگ کے ذرات ہوتے ہیں جنہیں پولن یا زردانے کہا جاتاہے۔اگر یہ ذرات مادہ تک نہ پہنچیں تو بیج اور پھل پیدانہیں ہوتے ۔قدرت نے ان ذرات کو مادہ تک پہنچانے کے لیے حیرت انگیز اور دلچسپ طریقے مہیا کررکھے ہیں۔بعض پودوں میں دونوں قسم کے پھول ایک دوسرے کے قریب ہی ہوتے ہیں جب ہوا یا بھونروں کے بیٹھنے سے شاخیں ہلتی ہیں تو پولن مادہ پھول پر گر پڑتاہے ۔اگر مادہ اور نر پھول کے پودے الگ الگ ہوں تو عموماً ہواؤں سے یہ کام لیاجاتاہے۔ہوائیں پولن کو اُڑا کر مادہ پھولوں پر ڈال دیتی ہیں۔
زیادہ تر پودے اس قدر مثالی انداز میں تخلیق کیے جاتے ہیں کہ وہ ہو امیں سے زردانے پکڑ لیتے ہیں۔گل پنج ہزاری ،لٹکتے ہوئے پھول اور کچھ دوسرے ایسی نہریں بناتے ہیں جو ہوائی لہروں کی جانب کھلتی ہیں۔ایسے زردانے جن میں تولیدی مادہ ہوتاہے تولیدی خطوں میں پہنچ جاتے ہیں اوراس کے لیے ان نہروں کا ان کو شکر گزار ہونا چاہیے۔ پودے تولیدی مادے سے آراستہ زردانوں کے بیجوں کو ہوا میں پھینکتے ہیں۔بعد میں ہوا کی لہر یں ان بیجوں کو اسی نوع (Species) کے پودوں تک لے جاتی ہیں، جب یہ زردانہ بیضہ دان تک پہنچتا ہے تو بیضے کو بارور کر دیتا ہے اور اس طرح بیضہ دان بیجوںمیں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بھونرے بھی یہی کام کرتے ہیں۔جب وہ پھولوں کار س چوسنے کے لیے نر پھول میں گھستے ہیں تو پولن کی کچھ مقدار ان کے پروں اور ٹانگوں سے چمٹ جاتی ہے اورجب وہ مادہ پھول کے پاس آتے ہیں تو کچھ پولن وہیں چھوڑ آتے ہیں ۔دریاؤں میں اگنے والے پودو ں کا پولن پانی میں سفر کرتا ہے پرندے ،گلہری ،چوہے اور کیڑے مکوڑے بھی یہ فرض انجام دیتے ہیں۔چونکہ پولن کی تقسیم کا سب سے بڑا ذریعہ ہوائیں ہیں ،اس لیے قرآن مجید نے انھی کے ذکر پر کتفاکیا ہے۔عربی زبان میں لقح کے معنی ہیں حمل کرنا،لقحت المراہ یعنی عورت حاملہ ہوگئی ،نیز لواقح (حاملہ اونٹنیاں)اور ریح لا قح ''بارور کردینے والی ہوا''چناچہ اللہ تعالیٰ کایہ فرمان ( وَاَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِح )یعنی ''ہم نے بارور کردینے والی ہوائیں چلائیں''بالکل برحق اور سچاہے اور جدید سائنس کی تحقیق کے عین مطابق ہے۔[6]
جدید ٹیکنالوجی کی بدولت جو باتیں ہمیں آج معلوم ہوئیں ہیں ان کا قرآن مجید میں صدیوں پہلے پایا جاتا،اس کی سچائی کی دلیل ہے۔
[1] موسمیات،اُردو سائنس بورڈ،لاہور سے اقتباس
[2] الحجر، 15:22
[3] النور،24:43
[4] الروم ، 30:48
[5] للہ کی نشانیا ں ،عقل والوں کے لیے۔صفحہ243-245
[6] للہ کی نشانیاں ، 97-98
اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات۔ صفحہ 109-110
ایک تبصرہ شائع کریں