نمازاور صحت جدید سائنس کی روشنی میں از ڈاکٹر نبیلہ ظہیر بھٹی


 نمازاور صحت جدید سائنس کی روشنی میں

ڈاکٹر نبیلہ ظہیر بھٹی


نماز سب سے افضل عبادت ہے۔یہ بدنی عبادت ہے۔قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارے میں ہی بازپرس ہوگی۔ نمازی کو یہ شعور ہوتا ہے کہ وہ اپنے پروردگار کے حضوراس کے حکم کی تعمیل میں حاضر ہے اور اس کے سامنے اپنی بندگی کا اظہار کررہا ہے۔ عبادات میں سے نماز کی تاکید قرآن وحدیث میں سب سے زیادہ ہے، لہٰذا اس کے فوائدو ثمرات بھی دنیا وآخرت میں بہت زیادہ ہیں۔یوں تو اہل علم نے نماز کے اجتماعی،سماجی،اور اخلاقی فوائد پرکافی گفتگو کی ہے مگر نماز کے صحت سے متعلق فوائدپرسیر حاصل بحث نہیں کی۔اس مضمون میں نماز کے صحت سے متعلق فوائد وبرکات پر مختصرا عرض کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ انسانی علوم و معارف میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا، اسلامی عبادات کے اسرار، حکمتیں اور فوائد بھی اتنے ہی زیادہ ظاہر ہوتے جائیں گے۔

امراضِ قلب سے حفاظت

نماز کے یوں تومتعدد صحت بخش فوائد ہیں مگر اس کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کوامراضِ قلب سے محفوظ رکھتی ہے۔انسانی دل ہر وقت دھڑکتا رہتا ہے،یہ اس کا زندگی بھر کا معمول ہے۔تاہم جب نمازی نماز کے دوران رکوع وسجود کرتا ہے تو اس سے دل کو سہولت وآرام ملتا ہے۔ اس کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔اس سے پہلے کہ ہم ان صحت بخش فوائد کا تجزیہ کریں،جو نمازکی بدولت انسان کے دل اور اس کے بدنی اعضا کو حاصل ہوتے ہیں، ضروری ہے کہ ہم دل کی کارکردگی اور اس کی اہم سرگرمیوں کو جانیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ دل جسم انسانی کااہم ترین عضو ہے۔دل تو اس وقت بھی کام کر رہا ہوتا ہے جب انسان ابھی جنین کی صورت میں اپنی ماں کے رحم میں ہوتا ہے۔اس وقت سے لے کرانسان کی زندگی کے آخری لمحات تک دل مسلسل جسم کی تمام اطراف وجوانب میں خون پہنچانے میں مشغول رہتا ہے۔
سینے کی سطح سے بلندجتنے اعضا ہیں، مثلاً سر،ان تک خون پہنچانادل کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ان تک خون کودھکیلنے کے لیے اسے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ تاہم، جب انسان رکوع اورسجدے کی حالت میں ہوتا ہے تو دل کے لیے دماغ، آنکھ، ناک، کان اور زبان وغیرہ تک خون پہنچانا آسان ہوجاتاہے کیونکہ ان اعضا کا تعلق سر سے ہے اور سر سجدے میں دل سے پست وزیریں سطح پر ہوتا ہے۔اس حالت میں دل کی سخت مشقت میں کمی اور اس کے کام میں تخفیف ہو جاتی ہے۔دل کو یہ آرام و راحت صرف سجدے کی حالت میں نصیب ہوتا ہے۔اس لیے کہ جب ہم کھڑے ہوتے ہیں یا بیٹھتے ہیں یا جب ہم تکیے پر سر رکھ کر لیٹتے ہیں تو سر دل سے اونچائی کی حالت میں ہوتا ہے لہٰذا ان صورتوں میں دل کو مکمل آرام نہیں ملتا۔ لیکن سجدے کی حالت میں دل کا کام آسان ہو جاتا ہے،جیسے گاڑی نشیب کی طرف چلنے میں آرام میں رہتی ہے۔
اس پر ہرگز تعجب نہ ہونا چاہیے کہ دل کو سجدے کی حالت میں اپنی کارکردگی میں جوآسانی اور سہولت ملتی ہے،اس سے دل کے دورے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔دل کا دورہ پڑنا اس دور کی عام پھیلی بیماریوں میں سے سب سے خطرناک ہے۔یاد رہے کہ دل جب اپنی مسلسل محنت سے تھک جاتا ہے تو انسان کوسستی،کمزوری،اضمحلال،سردرد،سرچکرانا،سینے میں درد،بے ہوشی اور خرابی طبیعت کا سامناکرنا پڑتا ہے۔جدید طب میں ان تمام علامات کا علاج یہ ہے کہ دواؤں کے ذریعے دل کو سرگرم ومستعد کر دیا جائے۔دواؤں کے ذریعے دل کو یوں مصنوعی طور پر سرگرم ومستعدکرنے کے نتیجے میں کبھی کبھی دل تباہ ہی ہو جاتا ہے،اور اس کی مکمل بربادی سے پہلے اس کی طبیعی کارکردگی بتدریج کم زور پڑنے لگتی ہے،مگر رات اور دن میں کئی باررکوع و سجود کرنے والے کا دل بہت سے اوقات میں راحت وآرام پالیتا ہے۔نمازی کے دل کو ملنے والا یہ آرام، دل کے سخت مشقت کے عمل میں تخفیف ( relief)کاسبب بنتا ہے اور خطرات سے بچنے میں دل کی مدد کرتا ہے۔

دماغ کو تقویت

سجدہ کرنے کے فوائدمحض دل تک محدود نہیں ہیں بلکہ سجدہ کرنے سے دماغ کو بھی مدد ملتی ہے تا کہ وہ اپنی کارکردگی کوپوری چستی ومستعدی کے ساتھ سرانجام دے سکے۔ مزیدبرآں یہ کہ سجدہ کرنے سے انسان دماغ کی جریانِ خون( hemorrhage)سے بچ جاتا ہے۔ دماغ سے خون کا یہ بہنادماغ کی داخلی رگوں کے ٹوٹنے سے ہوتا ہے اور یہ نتیجہ ہوتا ہے بلند فشارِخون(ہائی بلڈ پریشر)کا، یاشوگر کی بیماری کا، یا خون میں کولسٹرو ل کی مقدار زیادہ ہونے کا، یا ان دیگر اسباب کا جو جدید طرزِزندگی کے تلخ ثمرات ہیں۔حتی کہ یہ مرض انسانیت کے لیے انتہائی خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے۔
muslim prayer 2
کئی بارسجدہ کرنے والے نمازی کے دماغ کوایسی قوتِ مدافعت مل جاتی ہے کہ وہ دماغ کے جریانِ خون سے محفوظ ہو جاتا ہے۔وہ اس لیے کہ سجدے کی حالت میں سر تک خون زیادہ اور خوب پہنچتا ہے کیونکہ سردل سے نچلی حالت میں ہوتا ہے۔پھر نمازی کے دماغ کی شریان کو بار بار یہ موقع ملتا ہے کہ خون کی ایک بڑی مقدارسجدے کی حالت میں سر تک پہنچتی رہتی ہے۔یوں دماغ کی شریان کو اتنی قوت مل جاتی ہے کہ فشارِخون کے وقت وہ ہمہ گیرتباہی مچانے والے خون کے گزرنے کوبرداشت کر لیتی ہے۔ یہ بالکل ایسا عمل ہے جیسے مسلسل ورزش،مشقت،ریاضت اور کسرت کرنے سے انسان کے پٹھوں کوقوت وطاقت ملتی ہے۔
نماز کے دوران ایسی جسمانی ورزش ہوتی ہے جو تمام لوگوں کے لیے موزوں ہے۔ نماز کے سجدے اور رکوع بدن کے قدرتی وظائف اور ان کی طبیعی کارکردگی میں رکاوٹ نہیں بنتے بلکہ نماز کی تمام حرکات___ رکوع، سجود، جلسہ،قیا م___انسان کی طبیعت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہیں۔نماز میں زندگی کے کسی بھی طبقے اور عمر کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھنے والے انسان کے لیے صحت کا کوئی خطرہ یا نقصان نہیں،بلکہ سراسرفوائد ومنافع ہی ہیں۔

اوقاتِ نماز میں حکمت

پانچوں نمازوں کے اوقات مقرر کرنے میں بھی حکمت ہے۔ انسان جب صبح سویرے نیند سے بیدار ہوتا ہے تو وہ راحت و نشاط محسوس کرتا ہے،چنانچہ اس وقت میں اللہ تعالیٰ نے صرف دو رکعات نماز فرض کیں۔اس کے سات یا آٹھ گھنٹے بعدتک انسان اپنے کام کاج میں مصروف رہتا ہے،لہٰذا اللہ نے اس طویل دورانیے میں کوئی نماز فرض نہیں کی۔ ظہر کے وقت انسان اپنے کام کی وجہ سے تکان محسوس کرنے لگتا ہے،اس وقت کے لیے اللہ نے چار فرض مقرر فرمائے ہیں۔سنن و نوافل اس سے الگ ہیں۔نمازِظہر ادا کرنے کے تقریباًتین چار گھنٹے بعدنمازِ عصر کا وقت ہو جاتا ہے،جب کہ عصر کے تقریبا دو گھنٹوں بعدمغرب کی تین رکعات ادا کرنا فرض فرمائیں، اور مغرب کے تقریبا ڈیڑھ دو گھنٹے بعدعشاء کی چار رکعات فرض ہیں۔
ان اوقات کوگہری نظرسے دیکھنے پر ہم پر یہ بات واشگاف ہوگی کہ ان پانچ اوقات میں وقفوں کے تھوڑا یا زیادہ ہونے کا تعلق انسان کی تھکاوٹ اور چستی سے ہے۔دن کے آغاز میں جب جسمِ انسانی تازہ دم اور آرام میں ہوتا ہے، نماز کی رکعات کی تعداد کم ہوتی ہے۔دن کے اختتام پرجب انسان تھکاوٹ، اُکتاہٹ اوربے چینی زیادہ محسوس کرتا ہے تو اللہ نے اس پرتھوڑے تھوڑے وقفوں سے زیادہ رکعات والی نمازیں فرض کی ہیں۔اس سے ہم یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ نماز جسمِ انسانی کوچست اور تازہ دم رکھتی ہے،جیسے کہ وہ بے حیائی اور برائی سے باز رکھتی ہے۔

نماز سے گردوں کی کار کردگی میں مدد

طبی تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کھڑے ہونے یاورزش کرنے کی حالت میں،جسمِ انسانی میں گردوں کی طرف خون کا بہاؤ کم ہوجاتا ہے،جب کہ سجدے یا لیٹنے کی حالت میں خون کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے۔ان تجربات کی روشنی میں سائنس دانوں نے یہ حقیقت دریافت کی ہے کھڑے ہونے اور بیٹھنے کی صورتوں میں گردوں کی طرف خون کا بہاؤکم ہو جاتا ہے،جب کہ رکوع و سجود کی حالتوں میں یہ بہاؤ بڑھ جاتا ہے۔سارا دن کھڑے رہنے والوں پر کیے گئے مطالعے سے یہ واضح ہواہے کہ ان لوگوں میں گردوں کی طرف خون کے بہاؤ کی مقدارکم ہوتی ہے۔نیز کھڑے رہناان میں پیشاب کی مقدار کوکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔سجدہ کرتے اور لیٹتے وقت خون کے اس بہاؤ کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔جب گردے کی طرف خون کی رو میں تیزی ہوتی ہے تو گردوں کے پردوں پردباؤپیدا ہوتا ہے اور ان میں خون کی صفائی کاعمل بڑھ جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیشاب کی مقداربھی بڑھ جاتی ہے۔سجدے کی حالت میں پیشاب کی مقدار کے بڑھنے کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ گردوں کی جانب خون کے بہاؤمیں اضافہ ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رکوع،سجود اور لیٹنے کی حالتوں میں پیشاب بننے کا عمل بڑھ جاتا ہے۔ اگر ہم نماز اداکرنے سے پہلے پیشاب نہ کریں تو دورانِ نماز کوفت ہوتی ہے۔یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ کرنا موزوں ہوگاکہ رسولِ اکرمؐ نے پیشاب پاخانہ روک کرنماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ نماز اداکرنے سے پیشاب بننے کے عمل میں تیزی پیدا ہوتی ہے،جس سے دورانِ نمازاس طرف دھیان زیادہ ہوتا ہے،حتی کہ نمازی کا خیال نماز سے بالکل ہٹ جاتا ہے۔
l نمازسے شوگر کے مرض میں کمی:جدید سائنسی تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ لیٹنے اور جسم کو ڈھیلا چھوڑنے سے صحت کی ان خرابیوں میں کمی ہوتی ہے جن کا شوگر کے مریضوں کو سامنا ہوتا ہے۔اس لیے کہ شوگر کے مریض جب طویل مدت تک کھڑے رہتے ہیں تو پیشاب کے ذریعے ان کے جسموں سے البومین(albumin)کی خاصی مقدارمزید کم ہو جاتی ہے۔انھیں تھکاوٹ اورکمزوری ہو جاتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ لیٹنے کا یہی فائدہ شوگر کے مریضوں کونماز میں رکوع وسجود سے مل جاتا ہے۔ایک طبی تجربے کے بعدشوگر کے مریضوں نے اپنی جسمانی تکالیف میں، اس وقت راحت اور کمی پائی،جب انھیں بہت تھوڑی مدت کے لیے لیٹنے کا موقع دیا گیا۔ وہ بیمار جنھیں کام کے دوران لیٹنے کا موقع کم ملتا ہے، اگر وہ اس دوران نمازیں ادا کر لیں تو نماز اور سجدوں کی برکت سے وہ لیٹنے سے بھی زیادہ استراحت کے فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو زیادہ دیر تک کھڑے رہنا،بیٹھنا اور سخت مشقت کرنا مناسب نہیں۔ ہاں، وہ کچھ ہلکی ورزشیں اور کام کر سکتے ہیں۔ان ہلکی ورزشوں میں سے نمایاں ترین نماز ہے،کیونکہ نماز سے کسی نفس پر اس کی استطاعت وگنجایش کے مطابق ہی ذمہ داری پڑتی ہے۔نماز کے اجزا میں سے اہم ترین سجود ہیں۔یہ ایک ایسی آسان ورزش ہے جو دل کو کافی آرام پہنچاتی ہے۔اس سے تمام اعضا تک آسانی سے خون پہنچتا ہے بلکہ سجدہ کرنا تو لیٹنے سے بھی زیادہ مفید ہے۔کیونکہ اس سے شوگر کے مرض کی علامات اور شکایات میں کمی کرنے میں مدد ملتی ہے۔بالفاظِ دیگر نماز جسمانی ورزش کی تمام اقسام سے افضل ہے۔نیز نماز دل کو راحت پہنچانے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔

نماز اور خواتین

جدید تحقیقات نے ثابت کر دیا ہے کہ نماز جیسی بدنی حرکات اور ورزش حاملہ خواتین کو بہت زیادہ فائدہ دیتی ہیں، جب کہ ایامِ ماہواری میں سے گزرنے والی خواتین کوبہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔نمازگزار جب رکوع و سجود سے کھڑی ہوتی ہے تو رحم کی جانب خون کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔بلاشبہہ حاملہ خاتون کے رحم کو وافر خون کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ جنین کو خوب غذا مل سکے اور جنین کے خون کی آلودگیوں سے صفائی ہو سکے۔حائضہ اگر نماز ادا کرے تواس کے رحم کی طرف زیادہ خون جاتا ہے اور یہ ایک بے فائدہ کام ہوگا۔ اگر بالفرض حائضہ نماز پڑھے تو یہ نماز ادا کرنا اس کے بدن کے دفاعی نظام کے خراب ہونے کا سبب بنتا ہے، کیونکہ خون کے سفید ذرات ضائع ہو جاتے ہیں، جو بدن کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
طبی نقطۂ نظر سے حائضہ خواتین کو ورزش اورپرمشقت کام کرنا مناسب نہیں۔دینی لحاظ سے ان پرنما ز ادا کرنا حرام ہے کیونکہ جسم کی حرکت سے___ بالخصوص رکوع و سجود میں___ خون رحم کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اور یوں وہ بے مقصد ضائع ہوجاتاہے اورجسم سے معدنی نمکیات ضائع ہوجاتے ہیں۔ڈاکٹر خواتین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ایام کی حالت میں آرام کریں اور بہتر غذا استعمال کریں تاکہ ان کے جسم سے خون ضائع نہ ہو اور خون کی کمی سے قیمتی نمکیات رائیگاں نہ ہوجائیں۔دینِ اسلام نے اسی حکمت کے تحت حائضہ خواتین کو روزہ رکھنے سے منع کر دیا ہے۔ان ایام کے آغاز سے پہلے خواتین کو تھکاوٹ،پشت اور ٹانگوں میں درد، قبض کی شکایت، اسہال، سردرد اور پیشاب میں اضافہ وغیرہ کی تکالیف ہوتی ہیں۔اس بات کا بھی احتمال ہوتا ہے کہ خاتون کوماہانہ معذوری سے پہلے غصہ، جھنجھلاہٹ، مایوسی، بے چینی اور طرزِعمل میں فرق کاسامنا کرنا پڑے، حتیٰ کہ اس مدت میں میاں بیوی کے مابین لڑائی جھگڑے کی بھی نوبت آجاتی ہے۔نماز کے فوائد ناقابلِ شمار ہیں،اگرنفسیاتی اضطرابات میں مبتلا لوگ نماز اداکریں تو وہ ان سے نجات پاسکتے ہیں۔

نماز سے پھیپھڑوں کے امراض سے تحفظ

سجدے کی حالت میں پھیپھڑے کے پہلے حصے کی طرف خون کی ایک بہت بڑی مقدار پہنچتی ہے۔ یاد رہے کہ اسے خون کی کمی کا سامنا ہوتا ہے۔سجدوں کی برکت سے اس کا تدارک ہو جاتا ہے۔ ذرا اس طرف دھیان دیجیے کہ نماز کی ادایگی ان اوقات میں فرض کی گئی ہے جن میں انسان کام کاج میں مشغول ہوتا ہے نہ کہ لیٹنے اور نیند کے اوقات میں ۔معلوم ہوا کہ سجدے کرنا پھیپھڑوں کی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ سجدوں اور رکوع کی حالت میں خون پھیپھڑوں کی تمام اطراف میں پہنچتا ہے اور نقصان دہ کاربن ڈائی اوکسائیڈ کے بجاے آکسیجن لے کر پھیپھڑوں میں سے گزرتا ہے۔بلاشبہہ نماز جسم کو چستی ، چوکسی اور تازگی فراہم کرتی ہے ۔سجدے سے پھیپھڑو ں کے خون کی صفائی میں مدد ملتی ہے۔ پھیپھڑوں کی طرف رواں خون کی بہتات کے راستے میں آسانی ہو جاتی ہے۔میڈیکل سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ پھیپھڑوں میں کینسر کو اس وقت رونما ہونے کا موقع ملتا ہے جب اس کے خلیات کو آکسیجن نہیں مل پاتی۔علاوہ ازیں پھیپھڑے کے خلیے میں آکسیجن کی کمی دیگر امراض کے ظہور کا سبب بنتی ہے، کیونکہ پھیپھڑوں کی طرف پہنچنے والے خون میں کمی کی بنا پر قوتِ مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے۔یہیں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صحت کو برقرار رکھنے کے لیے قیلولہ کس قدر ضروری ہے۔ جب پھیپھڑ ے کی طرف خون کے بہاؤ میں کمی ہوتی ہے تو پھیپھڑے کے پہلے حصے پر مرضِ سل(ٹی بی) حملہ آور ہوتا ہے۔ کیونکہ پھیپھڑوں کی طرف جانے والے جراثیم پھیپھڑے کے درمیانی حصے میں اکھٹے ہوتے رہتے ہیں۔ اگر پھیپھڑے تک وافر مقدار میں خون پہنچنا ممکن ہو تو تمام خلیات سیراب ہوتے ہیں۔ یہ سیرابی ، ان خلیات کو قوتِ مدافعت بخشنے کا اہم سبب بنتی ہے۔ سجدے پھیپھڑوں کے خلیوں کو قوتِ مدافعت دیتے ہیں اور انھیں بیماریاں لگنے سے محفوظ بنا دیتے ہیں۔

ہارمونزکی مستعدی میں نماز کے اثرات

جاپان کی ہیروساکی یونی ورسٹی کے میڈیکل کالج کے ایک سائنس دان تکاہاشینوبیوشی نے پیشاب کے بارے میں اپنے تحقیقاتی مطالعات کے بعد بتایا ہے کہ زیادہ دیر تک کھڑے ہونے کی صورت میں جسم میں ضرررساں ہارمونز بننے میں اضافہ ہو جاتا ہے، جب کہ اس حالت میں نفع رساں ہار مونزکی پیدایش کم ہوجاتی ہے۔لیٹنے کی حالت میں مفید ہارمونز کی افزایش بڑھتی ہے اور نقصان دہ ہارمونز کی تعدادگھٹتی ہے۔ ان ہارمونزکی بناوٹ میں سجدے کی حالت بھی لیٹنے کی حالت سے ہی مشابہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ سجدوں کی حالت کو اس حالت کی مانند ہی سمجھا جاتا ہے جو جسم کوصحت کے فوائد عطا کرتی ہے اور پھر اس پرزیادہ وقت بھی صرف نہیں ہوتا۔سجدے قلب دماغ،گردوں،پھیپھڑوں اوردیگر تمام اعضا کوفائدہ پہنچاتے ہیں۔ ملحوظ رہے کہ بعض منفعت بخش ہارمونز کے بننے سے جسم کو کچھ فائدے ملتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ انسان فجر کے وقت تازگی ونشاط محسوس کرتا ہے،کیونکہ اس کے جسم میں کورٹیسون کی مقدار زیادہ ہوتی ہے مگر شام کووہ جسم سے کورٹیسون کے جاتے رہنے سے تھکاوٹ، سُستی،اور اضمحلال محسوس کرتا ہے۔ کورٹیسون کی کمی سے انسان اپنی ہڈیوں میں بوجھ محسوس کرتا ہے، خون میں کیلشیم بڑھ جاتا ہے اور دانتوں اور ہڈیوں کو طاقت فراہم کرنے والے وٹامن کی تحلیل میں گڑبڑہو جاتی ہے۔کھڑے ہونے کی حالت میں خون کی رگوں میں سکڑنے اور سمٹنے کی بناپر کورٹیسون ہارمون کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ فشارِخون کی حفاظت ہو سکے۔ اگر یہ ہارمون حد سے زیادہ ہو جائے تو اس کا جسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔انسان گھبراہٹ،بے آرامی،بے چینی اور غیظ وغضب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

تہجد کی فضیلت اور دائیں کروٹ سونے کا فائدہ

طبی تحقیقات و مطالعات نے ثابت کر دیا ہے کہ سونے کی جتنی بھی شکلیں ہیں ان میں سے سب سے بہتر دائیں کروٹ سونا ہے۔نبی رحمتؐ نے فرمایا کہ جب تم اپنے بستر پر آؤتو اس طرح وضو کر لوجیسے تم نماز کے لیے وضو کرتے ہو،پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاؤ۔ انسان جب دائیں جانب لیٹ کر سوتا ہے تو دل کا شمالی حصہ تقریباً چار سنٹی میٹر بلند ہوتا ہے۔ دل سینے میں بالکل عمودی حالت میں واقع نہیں ہے،بلکہ وہ سینے کی نیچے جانب بائیں طرف کو جھکا ہوا ہے،جب کہ دل کی بلند جانب دائیں طرف ۱۰ درجے کی مقدارمیں ہے۔لہٰذا دائیں کروٹ سونا اس بات میں مدد کرتا ہے کہ بائیں حصے سے، یعنی دل کے اُونچے حصے سے خون جسم کی تمام اطراف میں شریان کبیر (aorta)کے ذریعے جاری رہے۔
دائیں طرف سونے کی حالت میں___ بائیں ہاتھ کے ماسوا___تمام اعضاے بدن یا تو دل کی سطح کے برابر ہوتے ہیں یا دل سے نیچے ہوتے ہیں،لہٰذا خون جسم کے زیادہ تر اجزا میں تیزی اور آسانی کے ساتھ___کشش ثقل کے قانون کی رُو سے___ جاری ہوتا ہے جس سے جسم کو بہت راحت وسکون ملتا ہے۔دل کو یہ راحت کھڑے ہونے،بیٹھنے یا چلنے کی حالتوں میں نہیں ملتی کیونکہ ان حالتوں میں دل اس پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ ان اعضا تک خون پہنچائے جو ۹۰درجے کے زاویے کی مقدار میں اس سے اونچے ہوتے ہیں۔ جب ہم نیندسے بیدارہونے کے بعدنمازِتہجد ادا کرتے ہیں تو خون دائیں اور بائیں دونوں جانب برابر چلتا ہے۔سجدوں کی حالت میں دل کا عمل ہلکا ہو جاتا ہے،کیونکہ دل آسانی کے ساتھ خون کو سر تک پہنچاتا ہے، یوں دل کو آرام کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔مزیدبرآں یہ کہ دماغ،پھیپھڑے اور دل سے مربوط رگیں اور سینے سے اُوپر تک واقع تمام اعضا،سجدے کی حالت میں دل کی سطح سے نیچے ہوتے ہیں، لہٰذا خون آسانی اور تیزی کے ساتھ ان اعضا تک پہنچتا ہے۔ یوں نمازِتہجد نماز گزار کی تندرستی کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نمازِ تہجد کے وقت ہر طرف خاموشی ہوتی ہے۔ تہجدگزار کو نماز کے کلمات و اذکار، خصوصاً قرآنِ مجید کی آیات میں تدبر، غوروفکر اور تامل کا موقع ملتا ہے۔ سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ غوروفکر سے نفسیاتی دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ دل کی دھڑکنیں پُرسکون ہوتی ہیں۔ غوروفکر سے شریانوں پر حملے کا احتمال کم ہوجاتا ہے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ رات کے تین بجے سے لے کر صبح کے چھے بجے کے مابین جسمِ انسانی میں، خون میں کورٹیزون کے بلند ہونے سے، اس وقت دل کی دھڑکنوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ فضا میں اوزون کی موجودگی سے اس کا اثر جسم پر پڑتا ہے۔ لہٰذا اس وقت اگر ہم نمازِ تہجد، نمازِ فجر اور تلاوتِ قرآن کریم میں مشغول ہوجائیں تو ان اعمال کی برکت سے ہم اس دورانیے کے مضر اثرات اور ان سے جنم لینے والے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔

نماز اور ذہنی صحت

مسلمان ہمیشہ پر امن رہے ہیں۔ ان کا دین اسلام ہے جس کے معنی ہی سلامتی ہیں۔مسلمان جب بھی کسی انسان سے ملتا ہے تو اسے السلام علیکم کہہ کر، سلامتی ورحمت کا تحفہ دیتا ہے۔جدید تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ نماز تشدد،سختی اور جرائم سے باز رکھتی ہے۔مسلمان جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے دماغ تک وافر مقدار میں خون پہنچتا ہے۔چنانچہ مغز میں برپا ہونے والے برقی وکیمیاوی عمل میں سجدے سے مدد ملتی ہے۔ اس سے نمازی کو بردباری اور سمجھ ملتی ہے،جب کہ سجدہ نہ کرنے والوں کے دماغ اس تروتازگی اور تراوٹ سے خالی اور محروم رہتے ہیں۔ ان کے دل نرمی سے دُور رہتے ہیں۔نماز انسان کو نہ صرف سختی اورتشدد سے باز رکھتی ہے بلکہ بے حیائی اوربرائی سے بھی روکتی ہے۔اگر ہم امتِ مسلمہ اور غیر مسلموں دونوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں اوران میں جرائم کی شرح کا موازنہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اُمتِ مسلمہ میں مظالم و منکرات کم ہیں، جیسے سودخوری، بدکاری،شراب نوشی،منشیات کا استعمال، استعماریت، لوٹ کھسوٹ اور جنسی بے راہ روی، ایڈز وغیرہ۔ یہ تمام مہلک امراض مسلمانوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں اور ان میں بھی وہی نام نہاد مسلمان مبتلا ہوتے ہیں جو اسلام سے قطعی دور اور غیر اسلامی طرزِزندگی کے قریب تر ہوتے ہیں۔اُمتِ مسلمہ تو اپنے پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہوتی ہے۔اس لیے مسلمانوں میں رافت،نرم دلی،رحمت،عدل اور احسان کی صفاتِ حسنہ پائی جاتی ہیں۔یہ نتیجہ ہے ایمان اور عبادات کی ادایگی کا۔ سختی، تشدد، خیانت اور دھوکا یہ سب شرک و کفر کے کڑوے پھل ہیں۔ یہ انھی دلوں میں اُگتے ہیں جن پر اللہ نے ان کے کفر وتکبر کی وجہ سے لعنت کی ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی