اوریا مقبول جان کا بہترین کالم پڑھیے
لا شیں نہیں اعدادوشمار
میں جب اپنے معاشرے میں بے خوفی اور قتل وغارت کی انتہاء دیکھتا ہوں تو اپنے "دقیانوسی" اور "پرانے خیالات "کی وجہ سے اپنے اللہ کے فرامین میں حل ڈھونڈنے لگ جاتا ہوں ۔ اللہ نے انسانوں کی زندگی کے لئے ایک ایسا اصول بتایا ہے جسے آج کی "مہذب" او ر"انسانی حقوق" کی علمبردار دنیا وحشیانہ اصول کہتی ہے ۔ اللہ نے فرمایا :"ہم نے قصاص میں تمہارے لئے زندگی رکھ دی ہے "۔ لیکن گزشتہ آٹھ برسوں سے میرے ملک کے حکمرانوں کے لیے سب سے پیارے ،لاڈلے اور قابلِ احترام وہ لوگ ہیں جنہیں عدالتوں نے قتل ،دہشت گردی ،اغوا، جنسی تشدد اور دیگر جرائم میں پھانسی کی سزا سنا رکھی ہے
سپریم کورٹ تک میں ان کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں ۔ اب یہ کئی سو مجرم صدرپاکستان کے پاس رحم کی اپیل کرکے چین سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ مطمئن ہیں کہ عالمی دباؤ ،انسانی حقوق کی انجمنیں ،سول سوسائٹی انہیں کبھی پھانسی گھاٹ تک جانے نہیں دے گی اور ایسا ہو بھی رہا ہے ۔ ہم اپنے فعل سے دنیا کو بتادینا چاہتے ہیں کہ ہم اللہ کے اس قانون کو وحشیانہ قانون سمجھتے ہیں ۔ دنیا میں یہی واویلا ہے ۔ اس سےمجرموں کے دلوں سے موت کا خوف غائب ہوتا ہے ۔جب امریکہ نے 1972ء سے 1976 ء تک سزائے موت پر عارضی طور پر پاپندی لگائی تو وہاں کے محققین نے اعدادو شمار جمع کرنے شروع کئے ۔پاپندی سے پہلے 1960 ء میں امریکہ میں 59 افراد کوپھانسی دی گئی ۔ اُس سال ملک میں 9140 لوگ قتل ہوئے ۔ 1964ء میں حکومت نے نرم رویہ اختیار کیا، 15 افراد کو پھانسی ہوئی اور قتل ہونے والوں کی تعداد9250 تھی کہ ابھی خوف قائم تھا۔ 1969ء میں حکومت نے کسی کو پھانسی نہ دی اور قتل ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 14590 ہو گئی ۔
ایک تبصرہ شائع کریں