گاڈ پارٹیکل‘ کے ممکنہ مشاہدے کا دعوٰی
سوئٹزرلینڈ کے شہر جینیوا میں ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ منصوبے سے وابستہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ممکنہ طور پر تجربات کے دوران ہگس بوسون یا ’گاڈ پارٹیكل‘ کا مشاہدہ کیا ہے۔ ہگس بوسون وہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ’سب اٹامک‘ ذرہ ہے جسے اس کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کسی فیصلہ کن ثبوت اور اسے ایک ’دریافت‘ قرار دینے کے لیے انہیں ابھی مزید تجربات کرنا ہوں گے۔
گزشتہ دو برس سے سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی سرحد پر بنائی گئی ایک ستائیس کلومیٹر طویل سرنگ میں سائنسدان انتہائی باریک ذرات کو آپس میں ٹکرا کر اس لطیف عنصر کی تلاش کر رہے ہیں جسے ہگس بوسون یا خدائی عنصر کہا جاتا ہے۔ اگر سائنسدان اس عنصر کو ڈھونڈنے میں کامیاب رہتے ہیں تو کائنات کی تخلیق سے متعلق کئی رازوں سے پردہ اٹھانا ممکن ہو سکے گا۔ اس تحقیق پر اب تک اربوں ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں اور اس پر تقریبا آٹھ ہزار سائنسدان گزشتہ دو برس سے مسلسل کام کر رہے ہیں۔ ہگس بوسون کو کائنات کا بنیادی تخلیقی جزو سمجھا جاتا ہے اور یہ پارٹیکل فزکس کے اس سٹینڈرڈ ماڈل یا ہدایتی کتابچے کا لاپتہ حصہ ہے۔ یہ سٹینڈرڈ ماڈل کائنات میں عناصر اور قوت کے باہمی رابطے کو بیان کرتا ہے۔
اس تحقیق میں شروعات سے ہی شامل رہنے والی بھارتی سائنسدان ڈاکٹر ارچنا شرما نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یہ بھوسے سے بھرے کھلیان میں سوئی تلاش کرنے جیسا کام ہے۔ ہم سوئی کو تلاش کرنے کے راستے پر ہیں لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سوئی ہمیں مل گئی ہے‘۔ ان تجربات کے دوران ’لارج ہیڈرون کولائیڈر‘ میں پروٹونز کو روشنی کی رفتار سے ٹکرایا گیا جس سے ویسی ہی حالت پیدا ہوئی جیسی کائنات کی تخلیق سے ٹھیک پہلے بگ بینگ کے واقعہ کے وقت تھی۔ تجربے کے دوران پروٹونز نے ایک سیکنڈ میں 27 کلومیٹر لمبی سرنگ کے گیارہ ہزار سے بھی زیادہ چکر كاٹے، اسی عمل کے دوران پروٹون مخصوص جگہوں پر آپس میں ٹكرائے جس سے توانائی پیدا ہوئی۔ سائنسدان دیکھنا چاہتے ہیں کہ جب پروٹون آپس میں ٹكرائے تو کیا کوئی تیسرا عنصر موجود تھا جس سے پروٹون اور نيوٹرن آپس میں جڑ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ’ماس‘ یا کمیت کی تخلیق ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ارچنا کا کہنا ہے کہ ’فطرت ، قدرت اور سائنس کے بارے میں ہماری آج تک کی جو سمجھ ہے اس کے تمام پہلوؤں کی سائنسی تصدیق ہو چکی ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ کائنات کی تعمیر کس طرح ہوئی ، اس میں ایک ہی کڑی ادھوری ہے ، جسے ہم اصول کے طور پر جانتے ہیں لیکن اس کے وجود کی تصدیق باقی ہے‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’وہی ادھوری کڑی ہگس بوسون ہے ، ہم اسے پکڑنے کی کگر پر پہنچ چکے ہیں ، ہم اسے ڈھونڈ رہے ہیں ، اس میں وقت لگ سکتا ہے ، ہمارے سامنے ایک دھندلی تصویر ہے جسے ہم توجہ سے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔ یہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ ہے ، ڈاکٹر ارچنا کہتی ہیں، ’اگر ہمیں گاڈ پارٹیكل مل گیا تو ثابت ہو جائے گا کہ فزکس سائنس صحیح سمت میں کام کر رہی ہے ، اس کے برعکس اگر یہ ثابت ہوا کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے تو کافی کچھ نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا اور سائنس کے بارے میں ہماری سمجھ کو بدلنا ہوگا‘۔
گاڈ پارٹیكل ہے کیا؟
ڈاکٹر ارچنا بتاتی ہیں، ’جب ہماری کائنات وجود میں آئی اس سے پہلے سب کچھ ہوا میں تیر رہا تھا، کسی چیز کا وزن نہیں تھا۔ جب ہگس بوسون بھاری توانائی لے کر آیا تو تمام عناصر اس کی وجہ سے آپس میں جڑنے لگے اور ان میں ماس یا کمیت پیدا ہوگئی‘۔ پارٹیكل یا انتہائی لطیف عناصر کو سائنسدان دو زمروں میں باٹتے ہیں، مستحکم اور غیر مستحکم۔ مستحکم عناصر کی بہت لمبی عمر ہوتی ہے جیسے پروٹون اربوں كھربوں سال تک رہتے ہیں جب کہ کئی غیر مسحتکم عناصر زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں پاتے اور ان کا رویہ بدل جاتا ہے۔
ڈاکٹر ارچنا کہتی ہیں، ’ہگس بوسون بہت ہی غیر مستحکم عنصر ہے، وہ بگ بینگ کے وقت ایک پل کے لیے آیا اور ساری چیزوں کو کمیت دے کر چلا گیا۔ ہم کنٹرولڈ طریقے سے، بہت چھوٹے پیمانے پر ویسے ہی حالات پیدا کر رہے ہیں جن میں ہگس بوسون آیا تھا‘۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جس طرح ہگس بوسون کا خاتمہ ہونے سے پہلے اس کی شکل بدلتی ہے اس طرح کے کچھ انتہائی لطیف ذرہ دیکھے گئے ہیں اس لیے امید پیدا ہو گئی ہے کہ یہ تجربہ کامیاب ہوگا۔
ایک تبصرہ شائع کریں